راہل گاندھی کے دن پورے ہوگئے ہیں

کانگریس کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں

پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کانگریس کیلئے اتنے خراب اور بدتر نہیں جتنے کانگریس کی قیادت کا حال خراب اور بدتر ہے۔ آسام میں اگر چہ کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بی جے پی کو 29.5 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ کانگریس کو بی جے پی سے 1189 فیصد زیادہ یعنی 31% ووٹ ملے ہیں مگر دوسری پارٹیوں سے اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کو 60 سیٹیں ملی ہیں جبکہ کانگریس کو دوسری پارٹیوں سے اتحاد نہ کرنے کی وجہ سے صرف 26 سیٹیں ملی ہیں۔ ترون گگوئی اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی وجہ سے مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف سے کسی قیمت پر اتحاد کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اگر وہ راضی ہوگئے ہوتے تو ریاست کی دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتیں جو بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے پر رضا مند ہوگئیں وہ کانگریس کے اتحاد میں شامل ہوجاتیں۔ یہ ریاستی قیادت کی نہ صرف کمزوری تھی بلکہ بدعقلی اور بیوقوفی تھی جس کا ترون گگوئی نے گھمنڈ اور تکبر کی وجہ سے مظاہرہ کیا ۔ بی جے پی کی حکومت کو منظور کرلیا گیا مگر دوسری پارٹیوں سے مل کر حکومت کرنا منظور نہیں کیا۔
کانگریس کی مرکزی قیادت نے ترون گگوئی سے بھی بدتر مظاہرہ کیا۔ آسام کی کانگریس یونٹ کی اکثریت ہیمنت بسواس شرما کو جو ترون گگوئی کے نائب تھے 2014ء میں آسام میں کانگریس کے ووٹوں کی زبردست کمی کی وجہ سے ہٹاکر ہیمنت بسواس شرما کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی تھی جسے کانگریس کی اعلیٰ کمانڈ یعنی راہل گاندھی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ہیمنت بسواس شرما نے دہلی پہنچ کر جب راہل گاندھی سے ملاقات کرنا چاہا تو انھیں کئی دنوں کے بعد ملاقات کا موقع دیا گیا۔ ہیمنت بسواس شرما کے بقول جب ان کو شرف باریابی نصیب ہوئی تو راہل گاندھی کے ایک معاون نے کہا کہ وہ اپنا مدعا صرف دو منٹ میں بیان کریں کیونکہ راہل گاندھی دو منٹ سے زیادہ کسی موضوع پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔ دیگر لیڈروں کے ساتھ شرما راہل گاندھی کے ڈرائنگ روم میں داخل ہونے کے بعد آسام کے معاملات پر گفتگو کا آغاز کیا ہی تھا کہ راہل گاندھی کا ولایتی کتا نمودار ہوا۔ راہل گاندھی بجائے قومی یا آسام کے مسائل پر سر کھپانے کے بجائے اپنے پالتو کتا سے کھیلنے لگے۔ میز پر مہمان کیلئے جو چائے اور بسکٹ رکھی گئی تھی کتے نے ان پر منہ مارتے ہوئے پلیٹ صاف کر دی۔ راہل بجائے کتے کو بھگانے کے اس کو سہلانے اور پیار کرنے میں لگ گئے۔ کمرے سے باہر آتے ہی شرما نے کہاکہ اب راہل گاندھی کے دن پورے ہوگئے۔ جب کسی پارٹی کی قیادت کو اپنے کارکنوں اور جانثاروں سے زیادہ جانوروں سے پیار ہونے لگے تو آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کے دن پورے ہوگئے۔ ہیمنت شرما نے آسام کے کئی انتخابی جلسے میں اس واقعہ کو دہرایااور اپنے انٹرویو میں بھی اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ راہل گاندھی کو کانگریس کے کارکنوں سے کہیں زیادہ اپنے پالتو کتے سے لگاؤ ہے ۔
کانگریس کی زبوں حالی کا اس سے بدتر اور کیا مظاہرہ ہوسکتا ہے کہ انتخابات کیلئے بنوائے گئے پوسٹروں میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کی تصویر بھی دی گئی ہے۔ موصوف کانگریس کے زیر اقتدار ہریانہ میں زمین کے سودوں میں بری طرح ملوث ہیں۔ کانگریس کو ان کے ساتھ جوڑنے کا مطلب کانگریس کو بدنام کرنے کے سوا کیا ہے۔ ایک تو کانگریس موروثی نظام (Dynastic System) کی وجہ سے اپنا وقار مجروح کئے ہوئے ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ داماد بھی اس کا حصہ بننے پر گھات میں ہیں۔ مزیدار بات تو یہ ہے کہ کانگریس کی اکثریت پرینکا گاندھی کو کانگریس کی قیادت پر زور دے رہی ہے مگر راہل سونیا گاندھی کی کمزوری بنے ہوئے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ محترمہ سونیا گاندھی اپنی ضعیف العمری اور بیماری کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہونا چاہتی ہیں اور راہل کو اپنی جگہ لانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ بہار میں کامیابی کے بعد امید پیدا ہوگئی تھی کہ وہ راہل کو صدر بناکر اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوجائیں گی مگر راہل کی کمزوری ابھر کر کچھ اس طرح سامنے آگئی ہے کہ راہل ملک میں تو نامقبول ہیں اپنی پارٹی میں بھی ان کی نامقبولیت بڑھ گئی ہے۔ کانگریس کی حلیف پارٹی این سی پی کی بھی آواز ابھرنے لگی ہے کہ سونیا گاندھی کو ابھی یوپی اے کی قیادت کرنی چاہئے۔ کانگریس کیلئے گومگو یا دہری مشکل (dilemma) یہ ہے کہ راہل گاندھی جو اپنی غیر اخلاقی حرکتوں کی وجہ سے نا اہل ثابت ہوئے ہیں انھیں کیسے پیچھے کی طرف لایا جائے اور ان کی بہن پرینکا واڈرا جو ان سے ہر لحاظ سے زیادہ موزوں اور اہل ہیں آگے لایا جائے۔ کانگریس کے اس وقت مشیر خاص پرشانت کمار نے نہایت اچھی تجویز پیش کی ہے کہ اتر پردیش کے ہونے والے انتخابات کیلئے محترمہ پرینکا گاندھی جیسے چہرہ کو سامنے لایا جائے اور وزیر اعلیٰ کی امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا جائے مگر اس تجویز کو بھی بڑے بوڑھوں نے شاید رد کر دی ہے۔ اگر محترمہ سونیا گاندھی کو بھی یہ تجویز پسند نہیں آئی بعض وجوہ سے تویہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ کانگریس کی قیادت بوڑھی ہوگئی ہے جو ایک نا اہل جوان کے ہاتھ میں ہے۔
جو لوگ کانگریس کو روبہ زوال یا زوال پذیر لکھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ صرف راہل گاندھی کی وجہ سے ہی کہہ رہے ہیں ورنہ اگر کوئی کیرالا اور آسام میں کانگریس کے اقتدار میں نہ آنے کی وجہ سے کہہ رہا ہے یا لکھ رہا ہے تو یہ میرے نزدیک انتہائی غلط ہے۔ کانگریس ک کیرالا میں تو پانچ سال پورے ہوگئے تھے وہاں اسے ہارنا ہی تھا کیونکہ وہاں ہر پانچ سال بعد دوسری حکومت کو عوام موقع دیتے ہیں جو جمہوریت کی صحیح ترجمانی ہے۔ کانگریس کا وہاں نہ آنا کوئی انوکھی اور نئی بات ہر گز نہیں ہے۔ آسام میں بی جے پی کا مقابلہ تھا مگر کانگریس کی عقل راہل کی وجہ سے گھاس چرنے گئی تھی وہاں اس لئے اسے کراری ہار ہوئی۔
مغربی بنگال میں کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے اور سیٹ بھی دیکھا جائے تو کم نہیں ملی ہے۔
دو چھوٹی ریاستوں اتر کھنڈ اور ہماچل پردیش جہاں کانگریس کے ممبران اسمبلی بی جے پی کے سرمایہ سے خریدے جارہے ہیں وہاں بھی کانگریس کیلئے تشویشناک بات یہ ہے کہ کانگریس والے بکاؤ مال بنے ہوئے ہیں جس سے بی جے پی کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع دکھائی دے رہا ہے۔ اتر کھنڈ میں تو اتحاد کی وجہ سے اقتدار بچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے لوگوں کے اندر اخلاقی زوال اور راہل گاندھی کی بدعقلی اور بداخلاقی کی وجہ سے کانگریس روبہ زوال دکھائی دینے لگی ہے۔ اگر کانگریس کی موروثیت ختم نہیں ہوتی اور راہل پارٹی کی کمان سنبھالے رہتے ہیں تو کانگریس کا زوال اس کا مقدر بن جائے گا۔ راہل گاندھی کے دن پورے ہوگئے ہیں۔ انھیں اپنی ہمشیرہ کیلئے جگہ آہستہ آہستہ چھوڑ دینا چاہئے ۔ یہی کانگریس اور راہل گاندھی دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ریاستی پارٹیوں کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر سامنے آنا ہوگا۔ اس وقت بہتوں کی نظر نتیش کمار پر ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ بہار کے اتحاد کو ملک گیر بنا سکتے ہیں یا نہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔