یہ تین طلاق کی جنگ نہیں ہے، حق و باطل کی جنگ ہے

یہ جنگ دستورِ ہند یا کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے، فرقہ پرستوں کے خلاف ہے

عبدالعزیز

یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ طلاق دنیا کا کوئی آسان عمل نہیں ہے بلکہ مشکل ترین عمل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک طلاق ایک بیٹھک یا ایک نشست میں دینا بھی مشکل ترین کام ہے جو اللہ اور رسولؐ کیلئے ناپسندیدہ ہے۔ جب ایک طلاق دینا اسلام میں ناپسندیدہ اور مشکل ترین عمل ہے تو کیسے ایک ہی مجلس یا بیٹھک میں تین طلاق دینا کوئی آسان اور غیر مشکل کام ہوسکتا ہے؟ یہ روایت بہت مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضورؐ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’کیا اللہ کی کتاب (یعنی قرآن مجید) کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ‘‘۔ اس حرکت پر حضورؐ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا: ’’کیا میں اسے قتل کر ڈالوں؟‘‘ (نسائی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا ۔ اگر آپؐ نے حکم صادر کر دیا ہوتا تو آج تین طلاق رائج نہیں ہوتی اور نہ ہی چار ائمہ کرام اسے جائز اور حلال لکھتے یا بتاتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جن کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تین طلاق ان کے دور حکومت میں رائج یا نافذالعمل ہواوہ تین طلاق کو انتہائی ناپسند فرماتے تھے اور تین طلاق دینے والوں کو مارتے اور سخت سزا دیتے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ اور حضرت عمرؓ کی مار دونوں تین طلاق دینے والے بھول گئے ہیں اور جن کو یاد ہے وہ اپنے غصے اور غلط جذبہ کا انتہائی غلط استعمال کرتے ہیں اور مسلم معاشرہ بھی شدید طور پر ان کے خلاف صدائے حق بلند کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری اہم چیز جو طلاق کے سلسلے میں ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر ہی ایک طبقہ یا ایک مکتبہ فکر بیک وقت تین طلاق کو ایک بار یا ہزار بار طلاق کو ایک نشست میں کہا جائے تو اسے ایک ہی قرار دیتا ہے ۔ اس مکتبہ فکر میں کوئی معمولی لوگ یا عالم نہیں گزرے ہیں بلکہ بہت عظیم قسم کے دانشور اور عالم گزرے ہیں جن کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
حنفیوں میں ایسے عالم گزرے ہیں اور ہیں جو تین طلاق کے مسائل اور مصائب پیدا ہونے کی وجہ سے آخر الذکر مکتبہ فکر سے فائدہ اٹھانے کا نہ صرف اشارہ دیتے اور کنایہ سے کام لیتے ہیں بلکہ ہدایت کرتے ہیں۔ حنفی مسلک کے ہزاروں مردوں یا عورتوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے خاندان کو تباہی سے بچایا ہے۔ ہم نے بھی تقریباً کئی خاندانوں سے تین طلاق کی مصیبتوں سے بچایا ہے اور وہ اچھی اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک خاندان تو ایسا ہے جو اسی سال حج جیسی عظیم عبادت کا فریضہ ادا کیا ہے۔ جو لوگ مسلک کی حفاظت کرنے میں اسلام اور دین کی حفاظت بھول گئے ہیں یا نظر انداز کر رہے ہیں میرے خیال سے وہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ اسلام کا سراسر نقصان کر رہے ہیں۔
کانگریس کے زمانے میں تین طلاق، تعدد ازدواج یا یونیفارم سیول کوڈ کا شوشہ جو اٹھتا تھا یا اٹھایا جاتا تھا وہ کانگریسی حکومت کی غیر فرقہ پرستی کی وجہ سے دب جاتا تھا۔ حکومت یا حکمراں جماعت ملک کی ایک کثیر آبادی سے خواہ مخواہ جنگ کرنا حکمت عملی کے تقاضے کے خلاف سمجھتی تھی۔ بی جے پی کو بھی اپنی گزشتہ پانچ سالہ حکومت میں مسلمانوں کو ایک non-issue مسئلہ کو اٹھانے کی ہمت اور جرأت نہیں ہوئی کیونکہ باجپائی کی حکومت میں آر ایس ایس کا یا مودی اور جیٹلی جیسے لوگوں کا عمل دخل آج کی طرح نہیں تھا۔ گائے اس وقت ان کی ماتا تھی مگر گائے ہندستان کا مسئلہ نہیں بنی تھی۔ سرجیکل اسٹرائیک اس وقت بھی ہوا تھا مگر آر پار کی لڑائی کی بات نہیں ہوئی تھی۔ سوریہ نمسکار اور یوگا کا چرچا اس وقت بھی ہوتا تھا مگر سب کیلئے اسے ضروری قرار نہیں دیا جاتا تھا۔ قومیت اور وطنیت کا چرچا ہوتا تھا مگر اس پر جو اختلاف کرتا تھا اسے غدار وطن یادشمن ملک کہہ کر جیل کی کوٹھری میں بند نہیں کیا جاتا تھا۔
یہ بات صحیح ہے کہ کانگریس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہندستان میں فرقہ پرستی بڑھی ہے اور فرقہ پرستوں کے اچھے دن آئے ہیں اور سارے ہندستانیوں کو برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
اس وقت جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے قانونی اور جمہوری جنگ فرقہ پرستوں سے لڑی جارہی ہے چند ضد پسند اور مسلک پرست علماء کی وجہ سے فرقہ پرستوں کو فائدہ ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بورڈ پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو دانشوری اور حکمت عملی کے بجائے ضد اور مسلک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بورڈ کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی وفاقی تنظیم مسلم مجلس مشاورت کے صدر محترم نے بورڈ کے معزز صدر کو اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے وہ انتہائی مناسب اور بروقت ہے۔ مشاورت نے کہاکہ آخر کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حلف نامہ میں اہل حدیث اور شیعہ مکتبہ فکر کو نظر انداز کیا گیا ہے اور دوسری بات یہ کہی ہے کہ اگر ان لوگوں کی فکر بھی اس میں شامل ہوتی تو حلف نامہ میں جو کمزوری اور کمی ہے وہ نہیں ہوتی۔ راقم نے قومی صدر مشاورت جناب نوید حامد سے اس سلسلہ میں فون پر گفتگو کی تو انھوں نے بتایا کہ بورڈ کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا اور نہ ہی ا صلاح کی طرف توجہ کی گئی۔ صدر مشاورت کے علاوہ جو خط بورڈ کو بھیجا گیا ہے اس میں کئی ایسے لوگوں کے دستخط ہیں جو بورڈ کی مجلس عاملہ کے ممتاز ممبر ہیں۔
اہل حدیث اور شیعہ مکتبہ فکر کے علماء قابل مبارکباد ہیں کہ اس حق تلفی کے باوجود بورڈ کے ساتھ ہیں۔ ان کے بزرگوں نے ایک بڑے مقصد کی وجہ سے چھوٹے مقصد کو پس پشت ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا کیونکہ دشمن کے سامنے جدا جدا ہونے سے حق کی لڑائی میں باطل قوتوں یا فرقہ پرستوں کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
اوپر کی سطروں میں ہم نے اپنے آپ کو سدھارنے کی بات کی ہے اور اب وہ بات لکھنے جا رہا ہوں جو ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ جو ہمارے دستور کے رہنما اصول Directive principle کا حصہ ہے وہ بھی فرقہ وارانہ کشمکش پیدا کرنے کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں فرقہ پرستوں نے اپنی حکمت عملی سے یکساں سیول کوڈ (UCC) کو شامل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جو لوگ اسے خطرناک اور تباہ کن سمجھتے تھے وہ اپنی بات پر اڑے رہے مگر ڈاکٹر امبیڈکر (چیئر مین) کے نرم رویہ کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی جیت ہوگئی اور یہ شِق شامل ہوگئی جو آج نہ صرف موضوع بحث ہے بلکہ جنگ و جدل کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو آزادی سے پہلے جو لوگ فرقہ پرستی کو پھیلا رہے تھے وہ آزادی کے بعد بھی مصروف عمل ہیں۔ سب سے پہلے انھوں ںے سب سے بڑے غیر فرقہ پرست شخص مہاتما گاندھی جی کا سر قلم کیا تاکہ فرقہ پرستی بڑھے اور پھر بابری مسجد کی عمارت کو منہدم کرکے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ اب ان کی لڑائی اسلام جو سچائی اور صداقت کا مذہب ہے جس میں ہر چیز فطرت کے مطابق ہے اس سے نبرد آزما ہیں۔ مسلم دانشوروں اور عقلمند علماء کو اس لڑائی میں آگے آنا ہوگا جس طرح مشاورت کے دانشوروں نے اپنی دانشوری کا ثبوت دیا ہے۔ اسی طرح دوسری تنظیموں کے دانشوروں کو ثبوت پیش کرنا ہوگا جب ہی فرقہ پرستوں کے خلاف ہم اس حق و باطل کی جنگ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ اسے وقتی اور معمولی لڑائی سمجھ رہے ہیں میرے خیال سے انھیں پورے مسئلہ سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح ہم لوگ حکومت وقت کے غلط اور ظالمانہ رویہ کے خلاف متحد اور منظم ہوئے ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ منظم اور متحد ہوکر ان لوگوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے جو شرعی قانون خاص طور سے طلاق کا غلط استعمال کرکے اپنے خاندان کی تباہی کا ذریعہ بنتے ہیں اور عورتوں اور بچوں پر مظالم ڈھا تے ہیں۔ کورٹ اور تھانہ کا چکر لگاکر اسلام اور مسلمانوں کو سر بازار بدنام کرتے ہیں اور مسلم معاشرہ کو ذلیل اور رسوا کرتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ جہاد اکبر ہے اور جو باہر کے دشمنوں سے جنگ برپا ہے وہ جہاد اصغر ہے۔
ممتاز اور معروف دانشور راشد ساز مسلمانوں میں فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے خلاف ہیں ۔ ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، کرنا بھی چاہئے مگر اصل یا حقیقی اسلام کو پیش کرتے وقت ان کا تجزیہ درست ہوتا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں:
’’ہمارے عہد کے شیعہ سنی اسلام سے واپنی وابستگی کے باوجود الگ الگ خانوں میں جیتے ہیں۔ ان کاملی مفاد الگ، ان کی کتابیں الگ، ان کے علماء الگ حتیٰ کہ ان کی مساجد بھی الگ الگ ہوگئی ہیں۔ صرف شیعہ، سنی پر ہی موقوف نہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف گروہ خواہ وہ اسماعیلی اور اباضی ہوں یا بعد کے عہد میں بننے والے سلفی، جماعتی، دیوبندی اور بریلوی مسالک کے حاملین، ان سبھوں نے اپنی اپنی مسجدیں الگ کرلی ہیں۔ ذرا غور سے دیکھئے تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ مسجدیں ہوں یا مدرسے ، بظاہر ان پر دینداری کا کتنا ہی خوشنما ملمع کیوں نہ چڑھا ہو اور ان کے مناروں سے اللہ اکبر کی صدا کیوں نہ سنائی دیتی ہو، در اصل یہ تنگ نظر، تعصب اور فرقہ بندی کے قلعے بن کر رہ گئے ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کا علم بلند کیا جارہا ہے‘‘۔
جب تک مسلمان، مسلکوں کے جھنڈے بلند کرنے کے بجائے اسلام کے جھنڈے کو بلند نہیں کریں گے۔ اپنے اصلی اور ازلی دشمنوں کو شکست فاش نہیں دے سکتے کیونکہ اللہ کا وعدہ ان مسلمانوں سے ہے جو اسلام کو بغیر کسی کتر بیونت کے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پیش کرنے سے پہلے اپنے آپ کو مکمل اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو سچے دین کی مکمل پیروی کرنے کی تلقین و تعلیم دیتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔