یہ حقیقی عید نہیں!

محمد صابر حسین ندوی

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

عصر حاضر میں مسلمانوں کی حالت دگر گو ں ہے، دنیا کا ہر خطہ اور ہر کونہ ان کی پسماندگی و بے یاروی پر گواہ ہے، کیا مشرق اور کیا مغرب؟ دشت وجبل بھی روند ڈالئے، سات سمندر بھی عبور کر جایئے، اور ہوسکے تو جملہ صحراؤں کی بادیہ پیمائی کر جائیے، ممکن ہو تو ہفت اقلیم سر کر لیجئے؛تب بھی کوئی چھوٹا سا قطعہ بھی اسلامی روح اور صد فیصد مسلم معاشرہ، غلبہ وفوقیت اور برتری، اسلامی تعلیمات اور قرآنی دستور کے ساتھ حیات وممات کی گنجائش پر ملنا مشکل ہے، دیار حرم میں بھی رسوائی کا سامنا ہے، ظل کعبہ کو ننگ و عار کیاجارہا ہے، سینیما اور فلم بینی کے ساتھ صہیونی پنجوں نے شکنجہ کس دیا ہے، صیاد نے روضہ اقدس کی حرمت پامال کرنے اور ان میں یہودیت کے بیج پروان چڑھانے کیلئے تمام تر کوششیں اور منصوبہ تیار کر لئے ہیں، شیخ حرم سے امید کرنا ’’بن موسم برسات‘‘کے مانند ہوگیا ہے، گویا وہ زبان حال بلکہ کہنے دیا جائے زبان قال سے کہہ رہے ہیں :

یہ کہہ دو حضرت ناصح سے گر سمجھانے آئے ہیں

کہ ہم دیر و حرم ہوتے ہوئے مے خانے آئے ہیں

تو وہیں جزیرہ عرب کے دوسرے اسلامی رعب و داب اور شعائر اسلام کے شاہدین پر یلغار ہے، دہریت و الحادیت کی باد صرر ایسی چل رہی ہے؛ کہ مضبوط سے مضبوط تنا بھی اکھڑنے کے درپے ہے، راعی و نگراں خود ہی ڈاکو اور رہزن بن چکا ہے، اور اگر کہیں ان قزاقوں سے پناہ مل بھی گئی ؛تو ان میں موجود اخلاقی و روحانی بیماریوں نے اتنا جڑ پکڑ لیا ہے؛ کہ کسی اصلاح کی طرف مائل ہونا ناممکن سا نطر آتا ہے، عورتوں نے پردے پھینک دئے، تبرج الجاھلیۃ کو سینہ سے لگا لیا، مردوں نے بہادری و جگربازی کو کسی گمشدہ صندوق میں بند کردیا، تعلیم و تربیت مغربی آہوں سے سرشار ہے، اس کے سارے فلسفہ مابعد الطبعیات کو جھٹلانے اور مافوق القوۃ پر قد غن لگا؛کر اسلام کو رخصت کرنے پر مصر ہے، اسکول وکالجز نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے، جدید تعلیم اور ٹکنالاجی کے جن نے دماغ و اذہان پر قابو پالیا ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے؛کہ پورا جزیرہ کسی شیطان کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، اور اسی دائی خاص کی رضاعت کا پرداخت ہے، اور جس کی رگوں میں ابلیسیت کا خون ٹھاٹھے ماررہا ہے، اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں :

سوئے کعبہ چلوں کہ جانب دیر

اس دوراہے پہ دل بھٹکتا ہے

اصل بات تو یہ ہے کہ ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش اور افریقی ممالک میں بھی مسلمانوں کی صورت حال ناقابل بیان ہے، معاشی بدحالی نے کفر تک پہونچادیا ہے، آپسی محبت واخوت اور خاندانی نظام میں غیر اسلامی جراثیم نے پیر پسار لئے ہیں، ہر وقت کسی اجنبی حملہ ور کے حملہ کا خطرہ لگا رہتا ہے، عورتیں گھریلو عتاب کی اس قدر شکار ہیں ؛ کہ عالمی میڈیا نے بھی اسے موضوع سخن بنارکھا ہے، اس سے زیادہ ان کی عفت وعصمت پر بھی ہمیشہ تلوار لٹکتی رہتی ہے، ہر آن کسی درندے کی درندگی اور کسی ہوس پرست کی ہوس پرستی کا خوف مسلط رہتا ہے، انہیں کبھی خاص دائرہ میں محدود کرنے اور خاندانی سسٹم میں اگر مقید کرنے کوسش کی جاتی تھی؛ تو وہیں آج وہ بازاروں اور گلیاروں کی زینت بن چکی ہیں، بے پردگی، موسیقی، رقص وسروراور مغربیت کی کشش انہیں خوب بھانے لگی ہے، رہ رہ کر آزادی کے نام پر تعلیمات اسلامی کے رخسار پر زوردار طمانچہ لگانے، اور اپنے گردن سے اسلامی زیب اتار پھینکنے پر مصر رہتی ہیں، تو وہیں بالعموم ان میں سوجھ، بوجھ اور فہم وفراست عنقا ہوچکی ہے، غلط پالیسیوں اور منصبوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے، ان کے آپسی اختلافات اور فکری و مذہبی انتشار نے سونے پر سہاگا کا کام کیا ہے، ان کے رہے سہے تعلیم یافتہ طبقہ کا حال یہ ہے؛ کہ وہ ایک دوسرے پر تحقیقی اعتراضات کم ذاتی چھینٹا کشی اورتہمت کا سلسلہ طویل ترین ہوتا جاتا ہے، مذہبی فرقہ واریت پر چار چاند لگاتے ہوئے، ہندووں اوربودھ سماج کی متعصبانہ ومتشددانہ سوچ اور دیگر مذاہب کی اسلام دشمنی قابل نظر رخ اختیار کر لیا ہے، ایک طرف اسلامی اقدار تو دوسری طرف خود اسلام کی بقا و تحفظ کا مسئلہ بھی سنگین ہوچلا ہے۔

یہ سنگینی صرف ایشائے وسطی اور ایشائے اقصی میں نہیں ؛بلکہ مغربی ممالک میں بھی ہے، اندلس کی تقریبا سات سو سالہ عظیم الشان اسلامی حکومت اور دارالسلطنت قرطبہ کےجاہ وجلال کی رخصتی نے اسلام کو اجنبیت سے دوچار کردیا ہے، مسلماں اقلیت کی سانس لے رہے ہیں، سیاسی وتمدنی اور ثقافتی معاملات پر ان کا زور نہیں ہے، تو وہیں مشینی ترقیات نے جدید فقہی مسائل کا انبار لگا دیا ہے، جو طلب حکم کے ساتھ علماء وفقہاء کیلئے چیلینج بنے ہوئے ہیں، یہودی وصہیونی تشدد اور کید ومکید کی انتہا نہیں، اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اسلامی شعائر کا استیصال کرنے پر آمادہ ہیں، سازشوں ایک مضبوط جال بناہوا ہے، الیومینیٹی، اور دجالیت کو فروغ دیا جارہا ہے، مسیح کی مسیحائی چھورڑکر دجال کے استقبال کی تیاریاں کی جارہی ہیں، اس کی آمد اور مسلمانوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کرنے اور انہیں غزوہ بنو قریظہ و خیبر کی پسپائی کا بدلہ دینے کیلئے پر عزم ہیں، ان کے نوجوان آج بھی خیبر کی شکست اور اس کے خلاف اپنی مرضی کا اعلان کر رہے ہیں، شائد یہی وجہ ہے کہ انہون نے اسلامی ممالک کو پھر سے استعماری پنجوں میں جکڑنے اور ان کی گردنوں میں غلامی کا طوق وسلاسل  ڈالنے پر بضد ہیں، افغانسان کی بربادی، پاکستان پر دوہری نگاہ، مصر، لیبیا اور سعودی عربیہ جیسے ممالک کو تہس نہس کردینے، اورنئی پنپتی اسلام حامی طاقتوں (ترکی، قطر وغیرہ)پر پابندیا ں لگواکر یا بغاوت کا شعلہ بھڑکا کر انہیں داخلی وخارجی جنگوں کی بھٹی میں جھونک دینے کی حقیقت بھی یہی ہے ؛کہ ان مبار ک بقعہ ہستی سے اسلام بے دخل کردیا جائے۔

آپ عالم انسانی کا غائرانہ نہ سہی طائرانہ جائزہ لیجئے!اور اسلامی اخلاق وتعلیمات اور مسلمانوں کی کیفیت پر غور کیجئے !تو ایسے ایسے مسائل منہ پھاڑے کھڑے نظر آئینگے؛کہ قواء و اعضاء مضمحل اورذہن منتشر ہوجائے گا، حالت یہ ہے کہ نہ ان کا تمدن محفوظ ہے اور ناہی ان کی ثقافت کی کوئی حیثیت ہے، ان کے جوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پس زنداں کیا جارہا ہے، قید خانوں کی شب دیجوری کی وہ زینت بن چکے ہیں، ان کی اسلامی جماعتیں خواہ وہ علاقائی وملکی ہوں یا عالمی؛ ہر دو صورت میں انہیں سوتیلےپن کا سامناہے، اسلام اور مسلمانوں کی سب سے موقر موید تحریک ’’اخوان المسلمین ‘‘پر تشدد کی مہر لگا کر ان کے ماننے والوں کو پابہ جولاں کیا جاتا ہے، اس کے نیک طینت اور پاکباز رہنماؤں پر کوڑے برسائے جاتے ہیں، بہتوں کو’’ وینتا نامو‘‘ جیل کی صعوبتوں کابھی سامناہے، جہاں انسان سوز سزائیں دی جاتی؛ جن پر حیوان بھی حیا کرنے پر مجبور ہوجائیں، اور اگر اس پر بھی بس نہ چلے تو زور کے بجائے زر کا سہارا لیتے ہوئے؛ مال ودولت اور عہدوں کی ریل پیل کر دی جاتی ہے، سونے کی زنجیریں ان کے گردنوں میں ڈال کر اسلام مخالف اور جنونیت پر اکسایا جاتاہے، رہی وہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں جو خالص اصلاحی و اخلاقی طرز پر کام کرتی ہیں ؛تو ان میں امارت وخلافت اور مشاورت کے نام پر یا کسی ایسے اختلافی مسئلہ کو چنگاری دے کر؛ جس کی حیثیت سوائے افضلیت کے کچھ نہ ہو؛تفرقہ وانتشار پیدا کیا جاتا ہے، اور پوری کی پوری جماعت کو مشکوک و متہم بنا کر اس کی وقعت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سچ کہئے! تو یہ سب گویا اس شعر کی تعبیر ہیں :

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

متنبی نے عید کو مصائب و آلام یاد کرنے کا دن کہا ہے، اس سلسلہ میں اس کے بہت ہی مشہور اشعار ہیں:

عيدٌ بِأَيَّةِ حالٍ عُدتَ يا عيدُ

بِما مَضى أَمْ بِأَمرٍ فيكَ تَجديدُ

أَمّا الأَحِبَّةُ فَالبَيداءُ دونَهُمُ

 فَلَيتَ دونَكَ بيدًا دونَها بيدُ

أَصَخرَةٌ أَنا مالي لا تُحَرِّكُني

هَذي المُدامُ وَلا هَذي الأَغاريدُ

ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلام بھی اس کا قائل ہے؛بلکہ عید کے تعلق سے راقم کا بھی وہی عقیدہ ہے جو اہل سنت والجماعت کا ہے؛بقول شاعر:

لأنه منك حلوٌ عندي المرضُ

حاشا فلستُ على ما شئتَ أعترضُ

تاہم آپ کن کن حالات کارونا روئینگے، کن کن مصائب اور حوادث کو شمار کروا جائے، واقعہ تو یہ ہے کہ سارا کا سارا جسم چھلنی ہے، اور درد خود حیراں ہےکہ کہاں سے نکلے، اب ان حالات میں عید کی خوشیاں منانا اور جشن کے چراغان روشن کرنا یقینا ایک مدت مدید مسافر کیلئے راحت وآرام کا سامان ہے ؛ لیکن اس سے زیادہ غور وفکر کرنے اور صحیح منصوبہ بندی کرنے نیز خود احتسابی کے؛اسلامی نبض پر انگلی رکھنے کی ضرورت ہے، غلطیوں اور کوتا ہیوں پر گرفت کرنے اور آئندہ کیلئے منشور تیار کرنا ہی اصل ہے، دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے اور اسلام مخالف عالمی میڈیا کے خلاف محاذ آرائی کرنے ؛نیز مضبوط معیشت اور سیاسی خول تیار کے کی اشد ضرورت ہے، اتحاد و اتفاق اور تنوع میں توافق پیدا کرنے، اخلاقی وفکری اصلاح کرنے ؛نیز ہمدردی و انسانیت کا درس عام کرنے اور باطل طاقتوں کے خلاف بلا تفریق مذہب اٹھ کھڑا ہونا ہی وقت کی آواز ہے، حقیقت یہی ہے کہ جب تک اسلامی تعلیمات کی باد نسیم نہ چلے اور عہد اولیں کی یاد تازہ نہ ہوجائے، امات وخلافت اسلامیہ کا بول بالا یا کہئے! کہ اسلام کی حقیقی علو وبرتری نہ ہوجائے اور اس کے صدقہ میں انسان نوازی عام نہ ہوجائے، اور انسانیت ظلم کے دہانے سے نکل کر محبت کے چمن کی سیر نہ کر لے؛تب تک ہماری عید، عید نہیں، اوراسے سوائےمن عند اللہ وقتی انعام کے کوئی حیثیت نہیں۔

یاد رکھئے!ہماری حقیقی عید یہ نہیں کہ ہم نئے کپڑے زیب تن کر لیں، سرمہ، عمامہ اور مسواک کا اہتمام کرکےدوگانہ اداکر لیں، مٹھائیاں کھا کر، بغل گیر ہوکر اور ایک دوسرے کو تہنیت پیش کرکے، یا سیر وسیاحت کے ساتھ پورا دن گزار لیں ؛بلکہ ہمیں اس حقیقی عید کا انتظار ہے، جس دن ہمارے دل بھی صاف وشفاف اور آئینہ کے مثل ہوں، ہمارے بچے، بوڑھے، عورتیں اور غرباء وفقراء میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے، ہر ایک کےزیر لب تبسم نظر آئے، فقر و فاقہ کسی کے در پر دستک نہ دے، ظالموں کی نگاہیں جھک جائیں، اسلام کا پھریرا اطراف عالم میں پورے آب وتاب کے ساتھ لہرائے، عدل وانصاف میں جانبدارانہ پہلو اختیار نہ کیا جائے، ظلم وبربریت کی کلائی مروڑ دی جائے، ہر وہ عناصر جو محبت ومودت اور آپسی اتفاق پر انگشت نمائی کرے، یا اسلام کی کسی ادنی پہلو پربھی ابر و بھنویں بنائیں ؛ ان کے لئے روئے زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ کردی جائے، سیرت طیبہ اور خود ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کاعزیز ترین سامان ہوجائے، ان پر جان نثاری کا عالم یہ ہوکہ چشم فلک بھی رشک کرے؛الغرض جس دن فرشتوں کے احتمالات پر’’ انی اعلم مالا تعلمون‘‘ کا حقیقی اطلاق ہوجائے، تو سمجھ لیجئے! وہی ہماری حقیقی عید اور حقیقی جشن وخوشی ہے، ہمیں اس دن کا اور اس عید کا انتظار رہے گا، اسی لئے شاعر مشرق کہہ گئے:

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

تبصرے بند ہیں۔