عید نام ہے خوشی کا!

سیدہ تبسم منظور

عید الفطر  ہمارا ایک مذہبی تہوار ہے۔اس کو عیداس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر سال آتی ہے اور بار بار آتی ہے اور تا قیامت آتی رہے گی۔ عید کے معنی خوشی اور مسرت کے بھی ہیں۔

عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی بھی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھی  بھول یا غلطی کوتاہی ہوتی ہےاس کی تلافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزوں کو بےہودہ اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقررفرمایا۔(ابوداؤد: 1609)

عید الفطر ہمارا بہت ہی خاص تہوار ہے جسے پوری دنیا  کے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان المبارک کے انتیس یا تیس روزے رکھنے کے بعد شوال کی ایک تاریخ کو عید مناتے ہیں۔اسلامی مہینے کا آغاز رویت ہلال کے فیصلے کے بعد سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں عید الگ الگ دنوں میں منائی جاتی ہے۔ عید الفطر کے دن نماز عید جامع مسجد یا عیدگاہ میں ادا کی جاتی ہے۔ عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔

  دنیا کے سبھی مذہب کے لوگ اپنی اپنی  روایت کے مطابق اپنے تہوار مناتے ہیں۔ ہم مسلمان  سال میں دو تہوار مناتے ہیں۔دو عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ پورے ماہ روزے رکھ کر اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر کےاور  اللہ کی عبادت اور قرآن پاک کی تلاوت کر کے ہر مومن اپنے دل میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ امیر ہو غریب ہو چھوٹا ہو بڑا ہو  مرد ہو عورت ہو غرض ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق رمضان المبارک کے اختتام پر شان وشوکت سے عید الفطر مناتا ہے۔ چاند رات کھبی انتیس یا کبھی تیس کو ہوتی ہے۔چاند رات کی وہ شام بھی کیا خوب ہوتی ہے۔۔۔۔۔ انتظار ہوتا ہے کب آفتاب غروب ہو اور کب چاند کا دیدار ہو۔۔۔۔۔ لوگ گھروں کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں کوئی کھلے میدان میں نکل پڑتا ہے کہ عید کا چاند نظرآجائے۔چاند کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ اس رات چاند اتنا باریک ہوتا ہے کہ نظر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔اور اگر کسی کو نظر آجائے تو ہوا میں ایک صدا سی گونج اٹھتی ہے۔ وہ رہا چاند۔۔۔وہ رہا چاند۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔کہاں ہے۔۔۔کوئی کہتا یہاں دیکھو۔۔۔ اس کے درخت کے اوپر دیکھو۔۔۔اس پول کے اوپر دیکھو۔۔۔۔اس قدر شور غل اور چہل پہل شروع ہو جاتی ہے مانو تاریک رات روشن ہو گئی ہو۔ بچوں کے چہرے خوشی سے چمکنے لگتے ہیں۔۔۔وہ پھولے نہیں سماتے۔۔۔ لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں مہندی رچانے لگ جاتی ہیں۔بچے، بوڑھے، جوان، خواتین۔۔۔۔ہر کوئی تیاری میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کوئی اپنے کپڑوں کو استری کرتا۔۔۔ کوئی چھوٹا بڑا کرنے میں لگ جاتا ہے۔۔۔لڑکیاں چوڑی جھمکا ڈھونڈنے میں لگ جاتی ہیں۔۔۔ آدھی رات تو یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گذر جاتی ہے۔

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید کی صبح آئی ہے…بہت ہی  خوبصورت اور رنگین صبح ہے جو پوری شب کے لمبے انتظار کے بعد آفتاب کی پہلی سنہری کرن کے ساتھ  درختوں پر کھیتوں پر ہر طرف کچھ عجیب سا سماں بنائے ہے۔۔۔ نور ہی نور بکھرا ہے۔۔۔۔ آسمان پر بھی خوب رونق سجی ہے۔ آج کا آفتاب بھی کتنا پیارا لگ رہا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ چرند پرند بھی جیسے خوشی سے جھوم رہے ہوں۔۔۔۔آج ہوا بھی پر لطف ہو کر ہر طرف خوشبو بکھیر رہی ہے۔ صبح ہی صبح سب نہا دھو کر تیار ہوگئے۔گھر گھر میں سویاں اور نہ جانے کتنے طرح طرح کے پکوان پکنے لگے۔مرد حضرات عید کے نئے کپڑے پہن کر وقت مقررہ پر عید گاہ پہنچے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد مسلمان عاجزی و انکساری اتحاد اور بھائی چارگی کے جذبے سے مسرور ہو کر اللہ رب کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریزہ ہوکر شکر بجا لاتے ہیں۔

ہر کوئی عید گاہ میں ہی خوشی سے گلے مل کر عید کی مبارکباد پیش کر رہے  ہوتے ہیں۔۔۔۔کوئی بھی ہو دوست،دشمن، امیر، غریب کا فرق نہیں۔ گھر پہنچ کر گھر والوں سے عید مل کر پاس پڑوس میں عید ملنے جاتے ہیں۔ بچوں کے چہرے خوشی سے روشن ہوتے  ہیں۔۔۔اپنے بڑوں سے عیدی کے لئے تقاضے کرتے ہیں۔۔۔۔بچوں کا یہ سلسلہ تو پورا دن چلتا ہے۔ عیدالفطر گھر میں مسرت لاتی ہے۔۔۔ ہر آنگن خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔اور صحیح معنوں میں عید نام ہی ہے خوشی کا روٹھوں کو منانے کا۔۔۔ بچھڑوں کو ملانے کا۔۔۔۔صلہ رحمی کا۔۔۔۔۔رنجش دور کرنے کا۔عید آتی ہے خوشیوں کو آباد کرنے۔۔۔خواہشوں۔۔۔تمناؤں۔۔۔خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے۔اپنی خوشی میں غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریں۔۔۔اور سب کے ساتھ خوشیاں، محبتیں اور مسکراہٹیں بانٹیں۔۔۔۔ یااللہ عید کے اس خوشی کے دن ہر مومن کا دامن خوشیوں سے بھر دے۔۔۔۔کوئی غم باقی نہ رہے۔۔۔ہر آنگن خوشی سے مہکتا رہے۔

تبصرے بند ہیں۔