انقلابِ ایران: پس منظر اور نظریاتی اساس

شاہ اجمل فاروق ندوی

 ۱۱؍فروری ۱۹۷۹م کو ایران میں تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ بادشاہت جو سائرس اعظم (۶۰۰۔۵۳۰ ق م) نے ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) کے نام سے ۵۵۰ ق م میں قائم کی تھی، وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ۱۹۷۹م میں محمد رضا پہلوی (۱۹۱۹۔ ۱۹۸۰) کی پہلوی سلطنت پر ختم ہوگئی۔ یہ انقلاب ایران کے مسلمانوں کے ذریعے واقع ہوا تھا۔ اگرچہ یہ انقلاب برپا کرنے میں مسلمانان ایران کے ساتھ وہاں کے اشتراکی، قومیت پرست اور لبرل حلقے بھی شامل تھے، لیکن چوں کہ اصل طاقت مسلمانوں کی تھی، اس لیے انقلاب پر ہرطرح اُن ہی کی سوچ غالب رہی۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ایران میں ننانوے فی صد مسلمان ہیں، جن میں نوے فی صد سے زیادہ شیعہ اور تقریباً نو فی صد سنّی شامل ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی انقلاب میں اصل طاقت اُن مسلمانوں کی تھی، جو شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایران میں اِن دو بڑے مسلم فرقوں کا عددی تناسب جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر انقلابِ ایران کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں جاسکتا۔ کیوں کہ شیعہ سنی فرقوں کا اختلاف کوئی فروعی اختلاف نہیں، جڑ اور عقیدے کا اختلاف ہے۔ لہٰذا انقلاب ایران کا ذکر آتے ہی یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس انقلاب کے علم بردار کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ہی انقلابِ ایران کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔

پس منظر

محمد رضا شاہ پہلوی نے ۱۶؍ستمبر ۱۹۴۱م کو اپنے والد رضا شاہ پہلوی (۱۸۷۸۔ ۱۹۴۴) کی جگہ لی۔ وہ پہلوی خاندان کے دوسرے اور آخری بادشاہ ہوئے۔ محمد رضا شاہ نے اقتدار سنبھالا تو کئی ایسے اقدامات کیے، جن سے لوگوں کو اس بات کی کچھ امید ہوچلی تھی کہ محمد رضا شاہ اپنے والد رضا شاہ کے دور کے جابرانہ انداز ختم کردیں گے۔ محمد رضا نے کچھ عرصہ تبدیلیوں اور خوش کن انداز میں گزارا، لیکن بہت جلد انہیں اپنے والد کی راہ اختیار کرنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ وہ ایک طرف اپنے والد کے طریقے پر چلتے ہوئے ملک کو تکنیکی ترقیات سے ہم کنار کرنے کی اہم کوششیں کرتے رہے، تو دوسری طرف اپنے اقتدار کی ہیبت برقرار رکھنے کے لیے عام بادشاہوں کی جابرانہ پالیسیوں پر بھی عمل پیرا رہے۔ انہیں اپنے اقتدار پر ایسا بھروسا ہوگیا تھا کہ انہوں نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۶۷م کو اپنے لیے ’’شہنشاہ‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ایرانی بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال پورے ہونے پر ۱۲ تا ۱۶؍اکتوبر ۱۹۷۱م کو ایک عظیم الشان عالمی جشن کا اہتمام کیا۔ اس جشن میں دنیا کے بیسیوں بادشاہ، صدور اور وزرائے اعظم جمع ہوئے۔ اُس دور میں اس لاثانی جشن پر دوسو ملین خرچ ہوئے تھے۔ اُن دنوں ایران میں اشیائے خورد و نوش کی بھی کمی تھی اور ملک سخت مالی تنگی سے گزر رہا تھا۔ لیکن محمد رضا شاہ نے دنیا کی نظروں میں اپنی سطوت قائم کرنے کے لیے بے تحاشا دولت لٹا ئی۔ اس جشن سے یہ طے ہوچکا تھا کہ محمد رضا کی ساری توجہ اپنے اقتدار کی بقاء اور اس کی مضبوطی پر ہے۔ عوام سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اپنے لادینی مزاج کی وجہ سے وہ مغربی طاقتوں کے گمراہ کن ’’سفید انقلاب‘‘ کے زبردست حامی بنے ہوئے تھے۔ ان تمام اقدامات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر ایرانی عوام اور بالخصوص مسلمان محمد رضا شاہ کے مخالف ہوتے گئے۔ وقتاً فوقتاً مخالف آوازیں اٹھتی رہیں اور ارباب سلطنت انہیں دبانے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ بالآخر ۱۷؍جنوری ۱۹۷۹م کو محمد رضا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اس کے چند دن بعد ۱۱؍فروری کو بادشاہت کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔

آیت اللہ خمینی

ایرانی انقلاب میں مرکزی شخصیت سید روح اللہ موسوی خمینی (۱۹۰۲۔ ۱۹۸۹) کی رہی، جوشیعہ دنیا میں آیۃ اللہ العظمیٰ (اللہ کی عظیم نشانی)  امام سید    روح اللہ موسوی خمینی کہے جاتے ہیں اور عام علمی حلقوں میں صرف آیت اللہ خمینی کے نام سے معروف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ شیعی عقائد و علوم میں مرتبۂ اجتہاد پر بھی فائز تھے اور مثالی عزم و حوصلے کے بھی مالک تھے۔ معاملات کی سوجھ بوجھ، نظریہ سازی، شعلہ بار خطابت، صاف اسلوب تحریر اور حکمت عملی تیار کرنے کا زبردست ملکہ حاصل تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ان فطری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا۔ مصائب برداشت کیے اور سخت حالات کا سامنا کیا۔ بالآخر ایرانی بادشاہت کو ختم کرکے ’’اسلامی جمہوریہ ایران‘‘ کی بنیاد رکھ دی اور تاحیات اس کے رہبر معظم یا سپریم کمانڈر رہے۔ حکومت کے سب سے بڑے عہدے پر دس سال رہ کر انہوں نے اپنے ملک کی نظریاتی اساس مضبوط کی اور اس اساس پر ملک کو آگے بڑھایا۔ جمہوریہ ایران کے بانی کی حیثیت سے اُن کے نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو ایرانی انقلاب اور ایران کی موجودہ خارجہ پالیسیوں کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

انقلاب کا مقصد

’’الحکومۃ الاسلامیۃ‘‘آیت اللہ خمینی کی ایک مشہور کتاب ہے۔  یہ کتاب ایرانی انقلاب کی بنیاد ہے۔ یہ کتاب اُن دروس کا مجموعہ ہے جو خمینی صاحب نے نجف اشرف میں ۱۳؍ ذوالقعدہ سے یکم ذوالحجہ ۱۳۸۹ھ کے درمیان دیے تھے۔ ان لیکچرز کا مرکزی موضوع ’’ولایت ِفقیہ‘‘ ہے۔ ولایت فقیہ شیعہ حضرات کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی تشریح میں شیعہ علماء نے سیکڑوں کتابیں لکھی ہیں ۔ اس عقیدے کا خلاصہ یہ ہے کہ نبوت کے بعد دنیا کا نظام چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بارہ اماموں کو مقرر کیا ہے۔ ان میں سے پہلے امام حضرت علیؓ تھے۔  اُن کے بعد اُن ہی کی نسل میں یکے بعد دیگرے بارہ امام پیدا ہوئے۔ گیارہویں امام حضرت حسن عسکریؒ کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی تھی۔ اُن کے بعد اُن کے صاحب زادے بارہویں اور آخری امام کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے، لیکن کم عمری میں ہی ایک غار میں روپوش ہوگئے۔ ۲۶۰ھ سے قیامت تک وہی امام رہیں گے۔ جب مناسب سمجھیں گے، دنیا کے سامنے آئیں گے اور دنیا سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کردیں گے۔ جب تک امامِ غائب کا ظہور نہیں ہوتا، اُس وقت تک دین کا گہرا علم رکھنے والے علماء و فقہاء اُن کے نائب ہوں گے اور انہیں امام غائب کے نمائندے کی حیثیت سے حاکمیت کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ یعنی کسی فقیہ کا امامِ غائب کا ولی، دوست یا نمائندہ بننا ولایت ِفقیہ کہلاتا ہے۔ مشہور شیعہ عالم جناب محمد رضا مظفر اس عقیدے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’عقیدتنا فی المجتہد الجامع للشرائط انہ نائب الامامؑ فی حال الغیبۃ وہو الحاکم والرئیس المطلق لہ ما للامام فی الفصل فی القضایا والحکومۃ بین الناس۔ فلیس المجتہد الجامع للشرائط مرجعا فی الفتیا فقط بل لہ الولایۃ العامۃ، وہذہ المنزلۃ او الریاسۃ العامۃ اعطاہا الامامؑ للمجتہد الجامع للشرائط لیکون نائبا عنہ فی حال الغیبۃ۔۔۔ لذلک یسمی نائب الامام‘‘

’’مجتہد جامع الشرائط کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ زمان غیبت میں نائب امام ہے اور وہی حاکم اور رئیس مطلق ہے لوگوں کے معاملات اور ان کے درمیان قضاوت وفیصلہ کرنے کے حوالے سے مجتہد کو وہی مقام حاصل ہے جو امام (معصوم) کو حاصل ہے، لہٰذا مجتہد جامع الشرائط صرف فتوی دینے میں مرجع نہیں ہے بلکہ اس کو ولایت عامہ ومطلقہ حاصل ہے۔ یہ مقام ومرتبہ اور ریاست عامہ ومطلقہ امامؑ نے مجتہد جامع الشرائط کو عطا کیا ہے تاکہ زمان غیبت میں امام کی نیابت کر سکے اسی لیے مجتہد جامع الشرائط کو نائب امام کہا جاتا ہے۔(ولایت فقیہ، از: محمد حسنی صلاح الدین، ص: ۲۰۶)

خمینی صاحب کی کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیۃ‘‘ اسی عقیدے سے بحث کرتی ہے۔ا س کتاب اور اس کے مرکزی موضوع ولایت فقیہ کو ایرانی دستور نے بھی بنیادی حیثیت دی ہے۔ ایرانی دستور کے شروع میں دس بارہ صفحات کی تمہید ہے، جس میں ایرانی انقلاب کی مختصر تاریخ، انقلاب کی فکری اساس اور مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ اس تمہید میں خمینی صاحب کی اس کتاب کوحکومت کی بنیادکے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دستور کے ابتدائی حصے میں الحکومۃ الاسلامیۃ (Islamic Government) کی سرخی کے تحت خمینی صاحب کے نظریات کو حکومت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے بات اس طرح شروع کی گئی ہے:

The plan of the Islamic government based upon wilayat al-faqih, as proposed by Imam Khumayni.

(ولایت ِ فقیہ کی بنیاد پر قائم اسلامی حکومت کا نظریہ امام خمینی نے پیش کیا۔)

دستور میں کچھ آگے چل کر ولایت ِ فقیہ (The Wilayah of the Just Faqih) کی سرخی قائم کی گئی ہے اور اس نظریے کو حکومت کا بنیادی نظریہ قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس نظریے کی پوری حفاظت کی پابند ہوگی۔اس پابندی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایران میں کوئی ایسا شخص  کرسیِ صدارت تک نہیں پہنچ سکتا، جو اس عقیدے کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ تفصیل کے لیے کسی بھی عالمی زبان میں ایران کا دستور دیکھا جاسکتا ہے۔

تصانیف خمینی، تاریخ ِانقلاب اور ایرانی دستور کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایرانی انقلاب کا مقصد امامِ غائب یا امامِ زمانہ کے نائب کی حکومت قائم کرنا ہے۔ اس مقصد کی حفاظت حکومت ایران کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اسی لیے ایران میں سب سے بڑا سرکاری و مذہبی عہدہ رہبر معظم یا سپریم کمانڈر کا ہوتا ہے۔سپریم کمانڈر تمام وزیروں، صدر جمہوریہ اور پوری پارلیمنٹ سے بالاتر ہوتا ہے۔ وہ انقلاب کا محافظ اور اس کا سربراہ قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی اس کی اصل  ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ امامِ غائب کی نمائندگی کے لیے برپا ہونے والے انقلاب اور اس کی روح کا تحفظ کرے۔ پہلے سپریم کمانڈر آیت اللہ خمینی تھے۔ اُن کی وفات کے بعد آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای (پیدایش: ۱۷؍جولائی ۱۹۳۹م) سپریم کمانڈر مقرر ہوئے۔ اس وقت وہی اس عہدے پر فائز ہیں ۔یہاں فطری طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ اس انقلاب کے دستور کی روشنی میں انقلاب کے سربراہ یا محافظ ِ اعلیٰ کی کیا ذمے داریاں ہوتی ہیں ؟ اور اس کو کیا اختیارات حاصل ہوتے ہیں ؟

سربراہِ انقلاب کے فرائض و اختیارات

حاکم فقیہ یا رہبر ِ معظم کے فرائض اور اختیارات بیان کرتے ہوئے آیت اللہ خمینی لکھتے ہیں :

فاللہ جعل الرسول (ص) ولیاً للمؤمنین جمیعاً، و تشمل ولایتہ حتیٰ الفرد الذی سیخلفہ، و من بعدہ کان الامام (ع) ولیاً، ومعنیٰ ولایتھما ان أوامرھما الشرعیۃ نافذۃ فی الجمیع، و الیھما یرجع تعیین القضاۃ و الولاۃ، و مراقبتھم و عزلھم اذا اقتضیٰ الأمر۔نفس ھذہ الولایۃ و الحاکمیۃ موجودۃ لدیٰ الفقیہ۔   (الحکومۃ الاسلامیۃ، ص: ۵۱)

(اللہ نے رسول (ص) کو تمام اہل ایمان کا ولی بنایا۔ آپ کی ولایت آپ کے بعد آنے والے تمام لوگوں پر قائم تھی۔ آپ کے بعد امام علی (ع) ولی ہوئے۔ ان دونوں کی ولایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے شرعی احکام سب پر نافذ ہوں گے۔ قاضیوں اور والیوں کو مقرر کرنا، اُن کی نگرانی کرنا اور حسب ضرورت انہیں معزول کرنا، سب اُن کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہی ولایت اور حاکمیت فقیہ کو بھی حاصل رہے گی۔)

اسی بات کو دوسرے انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں :

و اذا نھض بأمر تشکیل الحکومۃ فقیہ عالم عادل، فانہ یلی من أمور المجتمع ما کان یلیہ النبی (ص) منھم، و وجب علیٰ الناس أن یسمعوا و یطیعوا۔ و یملک ھذا الحاکم من أمر الادارۃ و الرعایۃ و السیاسۃ للناس ما کان یملکہ الرسول (ص) و أمیر المؤمنین (ع)۔   (الحکومۃ الاسلامیۃ، ص: ۴۹)

(جب کوئی عالم، عادل اور فقیہ شخص حکومت قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا تو اسے معاشرے کے معاملات میں وہ سب اختیارات حاصل ہوں گے، جو نبی (ص) کو حاصل تھے اور انسانوں پر اس کی سمع و طاعت واجب ہوگی۔ وہ حاکم حکومت کے انتظام، عوامی مسائل کی نگرانی اور سیاسی معاملات کا اسی طرح مالک ہوگا، جس طرح رسول (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) تھے۔)

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ کوئی حاکم اپنے اختیارات میں نبی کریم ﷺ کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟ عام حاکم تو دور کی بات ہے، خود خلفاء راشدین بھی اللہ کے رسولﷺ کے اختیارات کے حامل نہیں تھے۔ اُن ہی میں سے حضرت علیؓ بھی ہیں ۔ تو آخر خمینی صاحب نے اللہ کے رسول ﷺ اور حضرت علیؓ کوایک درجے میں رکھنے اور کسی فقیہ کو نبی والے اختیارات دینے کی بات کیسے کہہ دی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بانیِ انقلابِ ایران آیت اللہ خمینی اور دوسرے تمام شیعہ مجتہدین عالم، عادل اور فقیہ شخص کو اپنے بارہویں اور غائب امام کا نمائندہ مانتے ہیں اور ان بارہ اماموں کو نبیوں اور رسولوں سے بڑا درجہ دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حضرت علیؓ کوپہلا امام ہونے کی حیثیت سے رسول سے بڑا مانتے ہیں اور فقیہ کو آخری امام کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے نبی کریم ﷺ کے تمام اختیارات کا حامل مانتے ہیں ۔ایرانی انقلاب کے لیے دستور کی حیثیت رکھنے والی اپنی کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیۃ‘‘  ہی میں لکھتے ہیں :

فان للامام مقاماً محموداً ودرجۃ سامیۃ وخلافۃ  تکوینیۃ  تخضع لولایتہا وسیطرتہا جمیع ذرات ہذا الکون۔ وان من ضروریات مذہبنا ان لائمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقرب، ولا نبي مرسل۔ وبموجب ما لدینا من الروایات والأحادیث فان الرسول الأعظم (ص) والائمۃ (ع) کانوا قبل ہذا العالم أنواراً فجعلہم اللہ بعرشہ محدقین، وجعل لہم من المنزلۃ والزلفی ما لا یعلمہ الا اللہ۔ وقد ورد عنہم (ع): ان لنا مع اللہ حالات لا یسعہا ملک مقرب ولا نبي مرسل۔  (الحکومۃ الاسلامیۃ، ص: ۵۲)

(امام کو ایسا مقامِ محمود، اونچی شان اور تکوینی خلافت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے قبضے میں ہوتا ہے۔ ہمارے مذہب کے اصول میں سے ہے کہ ہمارے امام اُس مقام پر فائز ہیں، جس مقام تک نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ اللہ کا بھیجا ہوا کوئی نبی پہنچ سکتا ہے۔ ہمارے پاس جو روایات و احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اعظم (ص) اور سارے امام (ع) اس دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے نور کی شکلوں میں موجود تھے۔ پھر اللہ نے انہیں اپنے عرش کے ارد گرد جمع کردیا اور انہیں وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان اماموں سے روایت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے ساتھ ہمارے معاملات اس طرح کے ہیں کہ جنہیں کوئی مقرب فرشتہ اور   نبیِ مرسل حاصل نہیں کرسکتا۔)

حکومت کا لائحۂ عمل

انقلاب ایران کے متعلق ابھی ایک چیز کا تذکرہ باقی ہے۔ وہ ہے انقلاب کا لائحۂ عمل۔ یعنی جب انقلاب برپا ہوجائے گا اور ولایت ِ فقیہ کی بنیاد پر ایک حکومت قائم ہوجائے گی، تو اُس حکومت کا لائحۂ عمل کیا ہوگا؟ وہ حکومت کن اصولوں کی پاس دار ہوگی؟ اپنا سفر آگے بڑھانے کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرے گی؟ ہمارے ذہن میں خیال آسکتا ہے کہ اس میں سوچنے والی کیا بات ہے؟ اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد جس طرح حکومت چلا کر دکھائی کسی بھی اسلامی حکومت کو اسی انداز سے حکومت چلانی چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوی طرز پر پوری طرح قائم خلافت ِ راشدہ ہمارے لیے مثال اور نمونہ ہے۔ قیامت تک جو بھی اسلامی حکومت قائم ہوگی، وہ خلافت ِ راشدہ ہی سے روشنی حاصل کرے گی۔ لیکن انقلاب ایران کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس حکومت کے بانی آیت اللہ خمینی بھی اپنے فرقے کے دوسرے مجتہدین کی طرح خلافت راشدہ کے ابتدائی تین خلفاء کے نظام کو نظام باطل تصور کرتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک حضرت علیؓ کو چھوڑ کر باقی تینوں خلیفہ (نعوذ باللہ) دین سے پوری طرح ناواقف، شرعی معاملات میں من مانی کرنے والے، اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام، اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کہنے والے، ظلم و جور، دھوکا دھڑی، ناانصافی و بددیانتی کو عام کرنے والے اور اسلام کی جڑ کھودنے والے تھے۔ اُن کی حکومت کسی طرح نمونہ نہیں بن سکتی۔ وہ کہتے ہیں :

فلا بد اذن من القول بأن أولي الأمر لیسوا ہم السلاطین والأمراء۔ ومن نظرۃ الی أحوال الخلفاء ومراجعۃ لکتب الحدیث وتاریخ أہل السنّۃ أنفسہم تکشف أن حالہم ہي کذلک أیضاً ولا شغل لنا الآن مع الشیخین۔ ومع مخالفتہما  للقرآن وتلاعبہما بأحکام اللہ والتحلیل والتحریم من أنفسہم والظلامات التي الحقوہا بفاطمۃ بنت النبی (ص) وجہلہما بأحکام اللہ حتی ان أبا بکر قطع ید السارق الیسری وأحرق شخصاً مع أنہ حرام ولم یدر ما حکم الکلالۃ ومیراث الجدۃ ولم یحدّ خالد بن الولید مع أنہ قتل مالک بن نویرۃ وأخذ زوجتہ في نفس تلک اللیلۃ، وأعمال عمر أکثر من تذکرۃ مثل أمرہ رجم المرأۃ الحامل والمرأۃ المجنونۃ ونہاہ عن ذلک أمیر المؤمنین (ع) واشتباہہ فی حکم المہریۃ فنبّہتہ امرأۃ خلف الستار حتی قال عمر جمیع الناس حتی المخدرات أعلم بأحکام اللہ منّي وحرم متعۃ الحج ومتعۃ النساء خلافاً لحکم اللہ والنبی وأحرق باب بیت النبی (ص)۔(کشف الاسرار، ص: ۱۱۹)

(یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ سلاطین و امراء کو اولی الامر نہیں کہا جاسکتا۔ خلفاء کے حالات، احادیث کی کتابوں اور خود اہل سنت کی کتابوں کو دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان خلفاء کا حال بھی ایسا ہی تھا۔ اس وقت ہمیں شیخین (ابوبکر و عمر) کے متعلق کچھ نہیں کہنا ہے۔ حالاں کہ وہ دونوں قرآن کی مخالفت کرنے والے، اللہ کے حکموں سے کھلواڑ کرنے والے، اپنی مرضی سے حلال و حرام کرنے والے، فاطمہ بنت النبی کے اوپر مظالم ڈھانے والے اور اللہ کے احکام سے پوری طرح جاہل تھے۔ حتیٰ کہ ابوبکر نے ایک چور کا الٹا ہاتھ کاٹ دیا تھا، حرام ہونے کے باوجود ایک شخص کو جلا ڈالا تھا، نہ اُسے کلالہ کا حکم معلوم تھا اور نہ وراثت میں دادی کا حصہ۔ اُس نے خالد بن ولید پر حد جاری نہیں کی تھی، حالاں کہ اُس نے مالک بن نویرہ کا قتل کیا تھا اور اسی رات اُس کی بیوہ سے شادی رچا لی تھی۔ اسی طرح عمر کے غلط کام تو اتنے ہیں، جنہیں یاد بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ جیسے: ایک حاملہ اور پاگل عورت کے لیے رجم کا حکم دینا، حالاں کہ امیر المؤمنین (ع) نے اُسے اس سے روکا تھا۔ اسی طرح مہر کے مسئلے پر شک و شبہ میں پڑنا اور ایک عورت کا پردے کے پیچھے سے عمر کو ٹوکنا۔ یہاں تک کہ عمر نے لوگوں سے خود کہا کہ پردے والیاں مجھ سے زیادہ احکام الٰہی کا علم رکھتی ہیں ۔ اسی طرح اللہ اور نبی (ص) کے حکم کے خلاف حج میں تمتع اور عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کو حرام کہنا اور نبی (ص) کے گھر کے دروازے میں آگ لگا دینا۔)

ان سے کہیں زیادہ شدید خیالات وہ اموی خاندان سے تعلق رکھنے والے خلفاء بالخصوص تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے متعلق رکھتے ہیں ۔ اُن کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو درپیش تمام مسائل و مصائب سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ نام زد کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ وہ حضرت ابوبکر کی نام زدگی کو تاریخ کا بدترین واقعہ اور سب سے خطرناک موڑ قرار دیتے ہیں ۔ اپنی کتاب کشف الاسرار میں امامت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے انتشار اور مصیبتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں :

فاذا ما حصل للمسلمین الیٰ الآن ھو من آثار یوم السقیفۃ۔   (کشف الأسرار، ص: ۱۳۹)

(آج تک مسلمانوں کو جو بھی مصائب پہنچے ہیں وہ سب سقیفہ ہی کے اثرات ہیں ۔)

شاید اسی لیے صدر مصر ڈاکٹر محمد مرسی (پیدایش: ۲۰؍اگست ۱۹۵۱م) نے ۲۶ تا ۳۱؍اگست ۲۰۱۲م کو ایران میں منعقد ہونے والی غیرمنسلک  (Non-Aligned) ممالک کی کانفرنس کے ایک اجلاس میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے خلاف معمول خطبۂ مسنونہ کے بعد کہا تھا:

اللھم و ارض عن ساداتنا أبی بکر و عمر، و عثمان و علی

(اے اللہ! تو ہمارے قائدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے بھی راضی ہوجا۔)

خمینی کے سقیفہ کے متعلق کہے گئے اور مرسی کے کانفرنس میں کہے گئے چھوٹے جملوں کو فرقہ وارانہ مخالفت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ طرز حکومت کے دو نظریات کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔اس بنیادی نقطۂ نظر کی روشنی میں ایرانی حکومت اپنا سفر ان بنیادوں کی روشنی میں آگے بڑھاتی ہے:

۱۔ قرآن کریم اور اُس کی وہ تشریح جو گیارہ اماموں اور ان کے متبعین سے ثابت ہے۔

۲۔ حضرت علیؓ کا دورِ خلافت اور اُن کے خطبات و ارشادات کا مجموعہ۔

۳۔ گیارہ اماموں کے اقوال اور ان کے متبع مجتہدین کے اقوال۔

ایران کی خارجہ پالیسیاں

اس جائزے سے ایرانی انقلاب کا پس منظر، اصول اور طریقۂ کار کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس روشنی میں جب ہم ایران کی موجودہ خارجہ پالیسیاں دیکھتے ہیں، تو اُن کی نظریاتی اساس بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا دشوار نہیں رہ جاتا کہ ایرانی حکومت کی اصل ذمے داری انقلاب ِ ایران اور اس کی بنیادوں کی پاس داری ہے۔ حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں انقلاب کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرتی رہے۔ اسی لیے حکومت ایران کی بہت سی پالیسیاں ہمیں سخت ناگوار اور بڑی حیران کن محسوس ہوتی ہیں، لیکن ایرانی حکومت بغیر کسی خوف وتردد کے اُن پالیسیوں پر عمل پیرا رہتی ہے، کیوں کہ اُس کے پاس ان تمام کاموں کے لیے ایک مذہبی اساس موجود ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان میں طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کے ذریعے امریکی فوج کی مدد کرنا، عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کی کھلے عام کوشش کرنا، سعودی عرب کے خلاف یمن کے حوثیوں کو مکمل امداد فراہم کرنا، بشار حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے حماس سے رشتے ناطے توڑ لینا اور شام میں مقیم حماس قائدین کو شام سے نکلوانے کی تائید کرنااور سب سے بڑھ کر یہ کہ شام میں کئی لاکھ عوام کے بدترین قتل عام اور ملک چھوڑنے کی مکمل سرپرستی کرنا۔ ان تمام اقدامات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایرانی حکومت دنیا بھر میں امامِ غائب کے نمائندے کی حاکمیت قائم کرانے کی پابند ہے۔

اعتدال کی راہ

ایران کے متعلق غیرشیعہ مسلم معاشرے میں عام طور پر دو نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک نظریے کے حامل لوگ مسلم دنیا کے سارے انتشار کا ذمے دار ایران کو ٹھہراتے ہیں ۔ اپنے پسندیدہ مسلم حکمرانوں کی تمام حرام کاریوں کو ایرانی پالیسیوں کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں ۔ جب کہ دوسرے نظریے کے حامل لوگ ایران کو ہر لحاظ سے ایک اسلامی ومثالی حکومت قرار دیتے ہیں، خمینی صاحب کو امام ورہبر تسلیم کرتے ہیں اور اُن کی شخصیت یا نظریات وعقائد پر سنجیدہ تنقید سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ دونوں نظریات منطقی اصول کے خلاف ہیں ۔ معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایران نہ تو ایک اسلامی ریاست ہے اور نہ شیطانی ریاست۔ایران کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو سمجھنے کے دوران اس معتدل نقطۂ نظر کو اختیار کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ایرانی انقلاب کے صحیح نتائج کو بھی سامنے رکھا جائے اور غلط اصول و ضوابط کو بھی۔ ایرانی حکومت کی نظریاتی اساس کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور باقی مسلم دنیا سے اس کے نظریاتی اختلاف کو بھی۔ اس کی اچھی پالیسیوں کی تعریف بھی کی جائے اور غلط پالیسیوں پر تنقید کو بھی روا رکھا جائے۔ تبھی ہم درست نتیجے تک پہنچ سکیں گے۔

مراجع

1۔     دستور ایران، مرکز الدراسات الاسلامیۃ، المجلس الشوریٰ الاسلامی، الجمہوریۃ الاسلامیۃ بایران

2۔     کشف الاسرار، سیدروح اللہ موسوی خمینی

3۔     ولایت فقیہ، محمد حسن صلاح الدین، مرکز اسلامی ٹرسٹ، کراچی

4۔   علم الاصول، مرتضی مطہری، ترجمہ: سید محمد عسکری، شہید مطہری فاؤنڈیشن، لاہور

5۔ الحکومۃ الاسلامیۃ، سیدروح اللہ موسوی خمینی۔

3 تبصرے
  1. شباب حیدر کہتے ہیں

    مضمون اچھا لکھاہے ،مگر یہ مفروضہ مصنف نے کیسے قائم کیا کہ شیعہ بارہ اماموں کو نبیوں سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟ ایسی باتیں مت لکھیے جس سے اختلافات جنم لیں۔جہاں تک میں نے مکتب تشیع کا مطالعہ کیاہے وہ اپنے تمام اماموں کا آخری رسول ؐ کا جانشین مانتے ہیں۔انکے نزدیک حضرت علیؑ بھی رسول کے جانشین تھے اور انہی کے شاگرد اور پڑھائے ہوئے تھے ۔خود حضرت علی کا معروف جملہ ہے ’’انا عبدمن عبید محمدؐ‘‘۔ جسے شیعہ فخریہ پیش کرتے ہیں۔
    مکتب تشیع میں بارہ اماموں کو منصوص من اللہ سمجھا جاتاہے جنکی نشاندہی رسول خداؐ نے اپنی حیات میں مع اسماء کے کردی تھی۔اس کے لئے وہ صحائح ستہ اور دیگر اہلسنت کی کتابوں سے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔اس حقیقت سے قطع نظر شیعہ تمام اماموں کو رسولؐ کا نائب تسلیم کرتے ہیں۔جب شیعہ اماموں کو آخری پیغمبرؐ کو نائب اور شاگرد سمجھتے ہیں تو پھر وہ انہیں رسول خداؐ سے عظیم و برتر کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔یہ ایک غلط فہمی ہے جو مفتیوں اور مولویوں نے قائم کی ہے ۔لہذا کوئی مفروضہ قائم کرنے سے پہلے انکی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ حقیقت آشکار ہوسکے اور قارئین کو گمراہی سے بچایا جاسکے ۔آج تک مسلمانوں کے غصہ کی تلوار اسی لیے نیام سے باہر ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ کے سلسلے میں غالی ہوتے ہیں مگر جب لوگ انکے عقائد کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں تو یہ غلط فہمی دورہوجاتی ہے اور جو تحقیق نہیں کرتے ،صرف مولویوں کے فرمائے ہوئے کو حجت جانتے ہیں ،وہ انکی مسجدوں اور امام باڑوں میں خودکش حملے کرکے جنت کی خواہش میں مر جاتےہیں۔اس لئے للہ حقیقت کو سمجھنے کے لئے مطالعہ کریں ۔

  2. حسان ندوی کہتے ہیں

    فاضل مضمون نگار نے ہر بات تمام حوالوں کے ساتھ لکھی ہے. ان کی کسی بات کو مفروضہ نہیں کہا جاسکتا.
    جس بات پر آپ کو اعتراض ہے وہ بھی علامہ خمینی کے حوالے سے لکھی ہے. علامہ خمینی کی وہ بات بالکل واضح اور دو دو چار کی طرح صاف ہے. یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علامہ کچھ اور کہنا چاہ رہے تھے، جس کا مطلب مضمون نگار نے غلط سمجھ لیا.
    لہذا اب آپ کے سامنے صرف دو راستے بچتے ہیں. یا تو آپ یہ ثابت کر دیں کہ محترم مضمون نگار نے حوالہ غلط دیا ہے.
    یا یہ ثابت کر دیجیے کہ علامہ خمینی نے یہ بات لکھ کر (جس پر آپ کو اعتراض ہے) اپنے مسلک کی غلط ترجمانی کی ہے. شیعہ حضرات کا مسلک وہ نہیں ہے، جو علامہ خمینی نے ذکر کیا ہے.
    لیکن بھائی آپ فاضل مضمون نگار پر مفروضہ گڑھنے کا الزام نہیں لگا سکتے.

  3. akhter abas کہتے ہیں

    I thought you are not well aware of the isalamic goverment and as colomunist you have see this all procee with the eyes of bigotry…

تبصرے بند ہیں۔