یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے

ریاض فردوسی

اور مسلمانوں کو (جہاد ) کی تاکید کیجئے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ کافروں کے جنگی زور کو روک دے اور اللہ تعالیٰ بہت سخت ہیں لڑائی میں اور بہت سخت سزا دینے میں۔(النساء۔84)

سورہ،الانفال۔آیت 65 میں اس کو اور واضح کیا گیا ہے۔””اے نبی آپ مسلمانوں کو جہاد کا شوق دلائیے (یعنی خوب ترغیب دیجئے) اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر تمہارے سوآدمی ہوں گے تو ایک ہزارکفار پر غالب آجائیں گے اس وجہ سے کہ وہ لوگ (یعنی کفار)سمجھ نہیں رکھتے۔””

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تم میں سے کوئی جنت کا قصد کرنے والا ہے۔ بے شک جنت کے ہم پلہ کوئی چیز نہیں ہے اللہ کی قسم جنت ایک چمکتانور اور لہلہاتا گلدستہ ہے اس میں مضبوط محل، بہتی ہوئی نہریں، پکے ہوئے پھل، حسین و جمیل بیویاں بے شمار زیور ہیں وہ ہمیشگی اور سلامتی کا گھر، پھلوں والی سر سبز جگہ اور عیش عشرت کا بلند اور بے حد خوبصورت مقام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جنت کا قصد کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تم انشاء اللہ کہو ہم نے کہا انشاء اللہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا تذکرہ فرمایا اور اس کی خوب ترغیب دی۔ (ابن ماجہ۔ بزار۔ ابن حبان )

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے (کسی مسلمان)بھائی کو جہاد کی ترغیب دی اسے اس(مجاہد)جیسا اجر ملے گا اور اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی عبادت کا اجر ملے گا۔(شفاءالصدور مو قوفاً )

بصرہ میں کچھ عبادت گزار بیباں تھیں جن میں سے ایک کا نام ابراھیم الھاشمیہ تھا انہی دنوں دشمنوں نے مسلمانوں کی کسی سرحد پر حملہ کر دیا اس حملے سے دفاع کے لئے مجاہدین کی ضرورت تھی [ایک عالم دین بزرگ ]عبدالواحد بن زید بصری رحمہ اللہ نے لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے لئے تقریر کے دوران۔ ۔۔۔۔۔۔حور عین کاتذکرہ چھیڑا اور ان کے اوصاف بیان فرمائے اور ان کی شان میں چند اشعار پڑھے [جن کا مفہوم یہ ہے] وہ نوجوان لڑکیاں ہیں۔ نازو نخرے میں پلی ہوئیں خوبصورت چال چلنے والی۔ ان سے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جس کی چاہت کی جائے وہ حسن پاکیزگی سے بنی ہیں اور ہر تمنا اورہر خواہش ان سے پوری کی جا سکتی ہے وہ خوبصورت جسم والی کالی آنکھوں والی ہیں اور مشک کی خوشبو ان کے رخساروں سے چھلکتی ہے ان کے چہروں پر خوشی کی چمک اور ناز و نعمت کی دمک رقصاں رہتی ہے جب نرگسی باغوں میں پیالوں کا دور چل رہاہوگا اور وہاں کی ہوا میں خوشبو مہک رہی ہو گی تب وہ اپنے پیغام دینے والے[خاوندوں] کو اپنی خوبصورت آواز میں کہتی ہیں اور ان کی آواز میں ایسی محبت بھری ہوتی ہے جو سچی اور دل کو خوش کرنے والی ہے۔ اے میرے محبوب میں تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چاہتی اور جب تمہاری دنیا سے جدائی ہوگی تب ہمارے ملاپ کا آغاز ہوگاتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجو منزل کے قریب پہنچ کر سر کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اے محبوب مجھے غافل لوگ پیغام نکاح نہیں دے سکتے مجھے تو وہ لوگ پیغام دیتے ہیں جو اللہ کے سامنے گڑاگڑنے والے ہوتے ہیں۔ یہ اشعار سن کر مجمع [شوق آخرت میں ] بیقرار ہو گیا اور وہ خاتون اچانک کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں اے ابو عبیدہ [یہ شیخ عبدالواحد کی کنیت ہے ]کیا تم میرے بیٹے ابراہیم کو نہیں جانتے بصرہ کے بڑے بڑے مالدارلوگوں نے اس کے لئے اپنی لڑکیوں کے پیغام بھیجے مگر میں نے کسی لڑکی کو پسند نہیں کیا لیکن آج آپ نے جس لڑکی [یعنی حور عین ]کا تذکرہ کیا وہ مجھے پسند آئی ہے اور میں اسے اپنی دلہن بنانا چاہتی ہوں مہربانی کر کے آپ دوبارہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن جمال بیان فرمائیں۔ یہ سن کر شیخ عبدالواحد رحمہ اللہ نے پھر حور عین کی خوبیاں بیان فرمائیں اور پھر یہ اشعار پڑھے [جن کا مفہوم یہ ہے ]

ان کے چہرے کے نورسے اصلی نور پیدا ہوتا ہے اور ان کے خوشبو دار بدن سے لگنے والی ہوا عطر کے مقابلے میں فخر کرتی ہے اگر وہ پتھروں اور کنکریوں پر اپنا جوتا رکھ دیں تو بارش کے بغیر مشرق ومغرب سر سبز وشاداب ہو جائیں اگر تم ان کی کمر کو گرہ لگانا چاہو تو ریحان کی سبزپتوں والی ڈالی کی طرح تم آسانی سے گرہ لگا لو گے اگر وہ اپنا لعاب سمندر میں ڈال دیں تو زمین کے لوگ ان سمندروں کومزے سے پی جائیں قریب ہے کہ آنکھ کی جھپک ان کے نازک رخساروں کو زخمی کردے اور دل کے خیالات ان کی پیشانی پر پڑھے جائیں۔

یہ اشعارسن کر لوگوں کا شوق اور بے چینی اور زیادہ بڑھ گئی اور خاتون دوبارہ کھڑی ہوئیں اور کہنے لگیں مجھے یہ لڑکی پسند آئی ہے میں دس ہزار دینار مہر دے کر اسے اپنے بیٹے کی دلہن بنانا چاہتی ہوں۔ اے شیخ عبدالواحد میرے بیٹے کا اس لڑکی سے نکاح کرا دیجئے وہ اس لڑائی میں آپ کے ساتھ نکلے گا ممکن ہے اللہ تعالی اسے شہادت نصیب فرما دے اور قیامت کے دن میری اور اپنے والد کی شفاعت کا ذریعہ بن جائے۔ شیخ عبدالواحد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اے خاتون اگر آپ نے اپنے بیٹے کو جہاد میں بھیج دیا تو وہ بھی کامیاب ہوجائے گا اور آپ اور اس کا والد بھی بڑی کامیابی پائیں گے۔ پھر اس خاتون نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ بیٹا ابراہیم !

آواز سن کر مجمع میں سے ایک نوجوان تیزی سے کھڑا ہوگیااور کہنے لگا میں حاضر ہوں امی جان خاتون نے کہا اے بیٹے کیا تو اس لڑکی [یعنی حور عین ]کو اس شرط پر بیوی بنانے کے لئے تیار ہے کہ تو اپنی جان اللہ کے راستے میں قربان کرے گا اور گناہوں میں واپس نہیں لوٹے گا ؟ جوان کہنے لگا امی جان ! اللہ کی قسم میں بخوشی اس شادی پر راضی ہوں یہ سن کر وہ خاتون کہنے لگیں۔

اے میر ے پروردگار تو گواہ رہنا کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی اس لڑکی سے اس شرط پر کر دی ہے کہ میرا بیٹا اپنی جان تیری راہ میں قربان کرے گا اور گناہوں کی طرف کبھی نہیں لوٹے گا۔ اے ارحم الراحمین! میری طرف سے اسے قبول فرما لیجئے۔

اس کے بعد وہ خاتون گھر گئیں اور دس ہزار دینار لا کر شیخ عبدالواحد کو دیئے اور فرمانے لگیں یہ اس لڑکی کا مہر ہے۔ آپ اپنے لئے اور دوسرے مجاہدین کے لئے اس سے سامان جہاد خریدیں۔ پھر وہ واپس ہو گئیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے عمدہ گھوڑا خریدا اور بہترین اسلحہ اسے دیا پھر جب شیخ عبداالواحد اس لشکر کو لے کر روانہ ہوئے تو ابراہیم بھی دوڑتا ہوا ساتھ نکلا اور کچھ قرآن مجید کے قاری اس کے ارد گرد یہ آیت پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔ترجمہ۔بے شک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔

وہ خاتون بھی لشکر کو رخصت کرنے کے لئے نکلیں جب وہ واپس ہونے لگیں تو انہو ں نے اپنے بیٹے کو کفن اور خوشبو دی اور فرمایا اے پیارے بیٹے جب دشمن سے مقابلے کے لئے نکلنا تو یہ کفن باندھ لینااور خوشبو لگا لینا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے کوتاہی مت کرنا پھر انہوں نے اسے سینے سے لگایا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا پیارے بیٹے میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اب ہم دونوں کو قیامت کے میدان میں ہی ملائے۔ عبدالواحد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب ہم محاذ پر پہنچ گئے اور جنگ کا اعلان ہو گیا تو کچھ لوگ آگے لڑنے کے لئے نکلے ان میں ابراہیم سب سے آگے تھا اس نے بہت سارے دشمنوں کو قتل کیا مگر پھر دشمنوں نے اسے گھیر کر شہید کردیا۔ جب ہم بصرہ کی طرف واپس آنے لگے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابراہیم کی والدہ کو اس کے بیٹے کی شہادت کی خبر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو وہ غم میں اپنا اجر ضائع کر بیٹھے جب ہم بصرہ پہنچ گئے تو لوگ آکرہم سے ملنے لگے۔ ان لوگوں میں ابراہیم کی والدہ بھی تھیں۔ انہوں نے جیسے ہی مجھے دیکھا فرمانے لگیں اے ابو عبیدہ ! اگر اللہ تعالیٰ نے میرا ہدیہ قبول کر لیا ہے تو میں خوشی مناؤں۔ اور اگر واپس لوٹا دیا ہے تو مجھ سے تعزیت کی جائے۔

میں نے کہا!

بخدا اللہ تعالیٰ نے تمہارا ہدیہ قبول کر لیا ہے اور تمہارا بیٹا حقیقی زندگی پا کر شہداء کے ساتھ کھا پی رہا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ شکر اداء کرتی ہوئی سجدے میں گر گئیں اور کہنے لگیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے مایوس نہیں کیا اور میری قربانی کوقبول فرمایا۔ اس کے بعد وہ واپس چلی گئیں۔ اگلے دن وہ پھر مسجد میں آگئیں اور سلام کر کے کہنے لگیں۔ مبارک ہو اے ابو عبیدہ !رات خواب میں میں نے اپنے بیٹے کو ایک خوبصورت باغ میں ایک سبز محل میں دیکھا۔ وہ موتیوں کی مسہری پر تاج پہنے بیٹھا مجھے کہہ رہاتھا۔

مبارک ہو امی جان آپ کا دیا ہوا مہر قبول کرلیا گیا اور دلہن کی رخصتی ہوگئی۔(فضائل جہاد کامل‘‘ علامہ ابن النحاس شہیدؒ (متوفی 814ھ؁) کی ایمان افروز اور مقبول کتاب ’’مشارع الاشواق الی مصارع العشاق و مشیر الغرام الی دار السلام‘‘ کی اردو تلخیص سے۔۔۔ ماخوذ)جہاد کی فضیلت کے بارے میں حافظ ابن قیم ؒ نے ’’زادالمعاد (۔۔813/۔86)میں بیان فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا کہ وہ ان لوگوں سے قتال کریں، جو ان کے ساتھ قتال کرتے ہیں پھر اللہ نے تمام مشرکین سے قتال کرنے کا حکم فرمایا:جو پہلے ممنوع تھا پھر اس کی اجازت دی گئی کہ تم تمام مشرکین سے قتال کرو۔ کیا یہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟یہ بات متحقق ہے کہ مطلق طور پر جہاد فرض عین ہے، قلبی طور پر،زبان کے ساتھ یا مال کے ساتھ۔ یا ہاتھ کے ساتھ پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر جہاد میں حصہ ضرور لے۔ جہاں تک جہاد بالنفس کا تعلق ہے تو یہ فرض کفایہ ہے لیکن اگر حالات ایسے بن جائیں اور نفیر عام ہو تو پھر تمام مسلمانوں پر فرض ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم تمام مشرکوں سے لڑ و جیسے وہ تم سب سے لڑ تے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے‘‘۔ (التوبۃ :۔36)

’’تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہارے لیے ناگوار ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرة۔۔216)

 ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو‘‘۔ (التوبۃ:۔41)

 ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے انکی جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑ تے ہیں پس وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں اس پر سچا وعدہ کی گیا ہے، تو رات میں انجیل میں اور قرآن میں۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ؟پس تم اپنے اس سودے پر جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ خوش ہو جاؤ اور یہ بہت بڑ ی کامیابی ہے‘‘     (التوبۃ:111)

 ’’وہ مسلمان جو غیر معذور ہیں اور (عذر کے بغیر)گھروں میں بیٹھے رہنے والے ہیں اور اور  وہ مومن جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے ان لوگوں کو جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں، بیٹھ رہنے والوں پر مرتبے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بڑے اجر کی فضیلت دی ہے اپنی طرف سے مرتبوں کی بھی بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘۔ (النسا:94-95)

’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے ؟ وہ یہ کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اور عمدہ گھر ہیں جو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں ہیں۔ یہ ہے کامیابی بڑ ی اور ایک اور چیز بھی جسے تم پسند کرتے ہو، اللہ کی طرف سے مدد اور نزد یکی فتح اور مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ (الصف:10۔ 13)

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا۔ کون سا عمل افضل ہے ؟ا پ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا پھر کون سا؟آپ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔ پوچھا گیا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ’’حج مبرور۔ ‘‘ (متفق علیہ)

حدیث نمبر (1273) ایضا

حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا، میں نے کہا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں راہ میں جہاد کرنا۔ (متفق علیہ)

حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ کون سا عمل افضل ہے ؟آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔   (متفق علیہ)

فیہ اخرجہ البخاری (/ 1485۔ فتح)و مسلم (84)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام گزارنا، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سے بہتر ہے۔ (متفق علیہ)

اخرجہ البخاری (15/136۔ فتح)و مسلم (1880)ایضا۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ (آپﷺ سے) سوال کیا گیا : یا رسول اللہ !کون سا عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ صحابہ نے دو یا تین بار یہ سوال دہرایا اور آپ نے ہر بار یہی فرمایا :تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو روزے دار، تہجد گزار اور اللہ کی آیات کی خشوع و خضوع سے تلاوت کرنے والا ہو۔ وہ روزے سے تھکتا ہو نہ نماز سے حتیٰ کہ مجاہد فی سبیل اللہ اپنے گھر لوٹ آئے‘‘۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

اور بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا :یا رسول اللہ !مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو جہاد کے برابر ہو؟آپ نے فرمایا: ’’میں ایسا عمل نہیں پاتا‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم اتنی طاقت رکھتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم اپنی مسجد میں داخل ہو جاؤ، پس تم نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور ذرا سستی نہ کرو اور تم روزہ رکھو اور کبھی روزہ نہ چھوڑو‘‘ ؟ اس آدمی نے کہا : ’’اس کی طاقت کون رکھتا ہے‘‘ ؟( البخاری۔ 26۔ فتح)و مسلم (1878۔۔۔)

حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے سب سے بہتر زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہو،وہ جب بھی کوئی جنگی آواز یا گھبراہٹ کا شور سنتا ہے تو وہ اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر تیزی کے ساتھ شہادت یا موت کو اس کی جگہوں سے تلاش کرنے کیلئے پہنچتا ہے یا اس آدمی کی زندگی بہتر ہے جو کچھ بکریاں لے کر ان چوٹیوں میں سے کسی چوٹی یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں مقیم ہو جاتا ہے نماز قائم کرتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور موت آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کے سوا اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔

(بخاری۔166/فتح)(ریاض الصالحین)

صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد ﷺ کے پاس جائے گا، محمد ﷺ اسے واپس کریں گے۔ جب رسول کریم ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے تو ابو بصیرؓ نامی ایک مکّی مسلمان جنہیں مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ چھوٹ کر بھاگ نکلے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عہد و پیمان ہے، اس کی پابندی کیجئے۔ نبی ﷺ نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا۔ یہ دونوں اسے لا رہے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر ایک چال کے ساتھ ابو بصیر ؓ نے ایک شخص کو قتل کر دیااور دوسرا بھاگ کر مدینے پہنچ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ’’ یہ خوفزدہ نظر آتا ہے۔ ‘‘ اس نے کہا ’’بخدا ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ اتنے میں ابو بصیرؓ آگئے اور بولے:’’ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی۔ ‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اسے کوئی ساتھ مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا‘‘۔ یہ سن کر ابو بصیر ؓ سمجھ گئے کہ انہیں پھر کافروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل ؓ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے یہاںتک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملکِ شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کر تے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی ﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا، مامون رہے گا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے انہیں بلوا لیا اور وہ مدینہ آگئے۔ ( فتح الباری :8؍439، زاد المعاد :2؍122)

ابو بصیرؓ اور ابو جندل رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف بدلہ لینے کے لیے منظم حکومت کی صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک کوئی شرط نہ تھی،اورنہ وہ ہماری طرح بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر دین کو نیلام کرتے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔