یہ منھ اور مسور کی دال

حفیظ نعمانی

اللہ کی شان ہے کہ پاکستان میں مرغی بھی بانگ دے رہی ہے۔ جیش محمد نفرت کی کھیتی کے ساتھ ایک میگزین بھی نکالتا ہے۔ تازہ میگزین کے پہلے صفحہ پر کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت تھوڑی ہمت دکھائے تو کشمیر کی مشکل اور پانی کا مسئلہ ایک ہی بار میں ہمیشہ کے لئے حل ہوسکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو حکومت کو مجاہدین کے لئے راستہ صاف کردینا چاہئے۔ پھر اللہ کی مرضی ہوئی تو 1971 ء کی تمام کڑوی یادیں 2016 ء کی فتح کی خوشی میں غائب ہوجائیں گی۔
اظہر مسعود جسے ہر کوئی مولانا کہتا ہے کیا ان کے پاس وہ مجاہد ہیں جو حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت اسامہؓ کی امارت میں حضرت ابوبکرؓ کے فرمانے کے بعد مدینہ کو مردوں سے خالی کرکے رومی اقتدار کو ختم کرنے کے لئے صرف اس وجہ سے چلے گئے تھے کہ حضور اکرمؐ نے حیات مبارکہ میں اس لشکر کو بھیجنے کا حکم صادر فرمایا تھا؟
اظہر مسعود وزیر اعظم نواز شریف سے کیا ایسے مجاہدین کے لئے راستہ صاف کرنے کی فرمائش کررہے ہیں جیسے مجاہدوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہٗ نے فرمایا تھا کہ تمام تعریفیں اس اللہ پاک کی ہیں جس کے توڑے ہوئے کو کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جس کے جوڑے ہوئے کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔ اسی اللہ پاک نے دنیا کو دارالعمل بنایا ہے اور آخرت کا معاملہ جو دارالقرار ہے اپنے پاس رکھا ہے۔ سن لو تم لوگوں کو کل ایک قوم سے مقابلہ کرنا ہے۔ لہٰذا راتوں کو لمبی لمبی نمازیں پڑھو، قرآن کی کثرت سے تلاوت کرو اور اللہ عزوجل سے کامیابی اور صبر کی دعائیں کرو اور پوری جدوجہد اور احتیاط کے ساتھ لڑنا اور اللہ کے راستہ میں سچے اور ثابت قدم رہنا۔
ہر پاکستانی کا 1971 ء کی یادوں سے منھ کڑوا ہوتا ہے۔ لیکن ان میں جو زندہ ہیں (اور بہت ہوں گے) ذرا انہیں مسجد لے جاکر معلوم تو کرو کہ 1971 ء میں جب ہندوستان کی فوج سے سامنا ہونے والا تھا تو کیا تم نے لمبی لمبی نمازیں پڑھی تھیں؟ قرآن پاک کی تلاوت کی تھی، فتح کی دعا کی تھی، صبر مانگا تھا؟ جنرل نیازی نے جب ہندوستانی فوج کے کمانڈر ارورہ کے سامنے اپنا ریوالور رکھ کر سلوٹ کیا تھا تو ہمیں اعتراف کرتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہمیں بھی صرف اس لئے تکلیف ہوئی تھی کہ نیازی ایک مسلمان ملک کے مسلمان فوجیوں کے کمانڈر تھے۔ لیکن منھ اس لئے کڑوا نہیں ہوا تھا کہ ہم نے بریلی اور پھر لکھنؤ میں ان سب کو دیکھا تھا جو پاکستان بنوانے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے تھے اور ہر ایک کے منھ پر پاکستان کے معنی کیا؟ لاالہ الااللہ ہوتا تھا۔ وہ تقریر کررہے ہوتے تھے تو اذان کی آواز پر مجمع کے شور مچانے پر تین منٹ کے لئے خاموش ہوجاتے تھے مگر نماز پڑھنے کے لئے ان میں سے کوئی نہیں جاتا تھا۔
ہم 1952 ء میں پہلی بار کراچی گئے تھے ہمارے بریلی کے بچپن کے دوست جو 1947 ء کے شروع میں ہی کراچی چلے گئے تھے ان کے متعلق معلوم ہوگیا تھا کہ وہ بہار کالونی اور آگرہ تاج کالونی میں ہیں۔ یہ کراچی جاکر معلوم ہوا کہ یہ سب ان لوگوں کی آبادی ہے جو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے تھے۔ اور جب انہیں دیکھا تو بخدا آنکھوں میں آنسو آگئے اس لئے کہ سمندر کی ریت پر لکڑی کے تختوں کے بڑے دربے بناکر کھڑے کرلئے تھے وہ مکان تھے۔ اور ان میں شمیم اور غفور وہ تھے جو بریلی کے عالیشان مکانوں سے اٹھ کر گئے تھے۔ اور اس وقت تو لعنت بھیجنے کو جی چاہا جب معلوم ہوا کہ دونوں کالونیوں میں ایک بھی مسجد نہیں ہے۔ بریلی کے جتنے ہمارے پڑوس والے گئے تھے ان میں سب صرف جمعہ اور عید کی نماز پڑھنے والے تھے۔ اور کوئی کیا نمازی ہوتا جب پاکستان بنانے والے لیڈروں میں شاید ہی کوئی نماز پڑھتا ہو؟
پاکستان نے جہاد کی ایسی ہی آبروریزی کی ہے جیسی ہندوستان نے شہید کی۔ ہندوستان کا جو سپاہی پاکستان کی گولی سے مرے گا وہ شہید ہے۔ اور ہندوستان کی حکومت کے پاس جیسے تمغے ہیں ایسے ہی شہید کا درجہ بھی ہے۔ وہ جسے چاہے شہید کا درجہ دے دیتی ہے۔ جو شہادت کا درجہ حضرت ابوبکرؓ سے لے کر حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے خلیفۃ المسلمین اور امیرالمومنین کسی کو نہ دے سکے وہ ہندوستان کے وزیر دفاع جسے چاہے دے دیتے ہیں وہ للو سنگھ ہو یا بھولے رام شرط یہ ہے کہ وہ پاکستانی گولی سے مرے ہوں۔ ایسی ہی آبروریزی پاکستان نے جہاد کی کی ہے جب بھی ہندوستان سے لڑائی ہوگی وہ جہاد ہوجائے گا۔ چاہے ان مجاہدوں نے ایک وقت کی نماز بھی نہ پڑھی ہو اور جب پیشاب لگا پینٹ کے بٹن کھولے اور دھار مارکر بٹن بند کرلئے۔
پاکستان ایسا نہیں ہے کہ بزرگ علماء سے خالی ہو، عمارتوں کے اعتبار سے وہاں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء کے دارالعلوم مظاہر العلوم کے مقابلہ کہیں زیادہ شاندار عمارتیں بھی ہیں اور علماء کرام اور مفتیان، عظام بھی ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ حافظ سعید، مسعود اظہر جیسوں کی حرکتوں کو جہاد جیسا مقدس نام لینے پر پابندی کیوں نہیں لگواتے؟ یا مسلمانوں سے کیوں نہیں کہتے کہ یہ جہاد نہیں گھٹیا درجہ کی حرکت ہے۔ جس سے اسلام بدنام ہوتا ہے۔ ٹی وی پر اکثر پاکستانی فوجیوں کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ مشکل سے سو میں پانچ کے چہرے پر داڑھی ہوتی ہے جبکہ مسلمان کی شناخت ہی داڑھی ہے۔ ورنہ دونوں ملکوں کے فوجی جمع کردیئے جائیں اور کہا جائے کہ ان میں سے رام بھروسے اور عبدالکریم کو الگ کردو تو کون کرسکتا ہے؟
ہندوستان میں جتنے بھی حافظ سعید اور اظہر مسعود کے مجاہد چوروں کی طرح آتے ہیں اور مارے جاتے ہیں ان کی صورتیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کس مذہب کے ماننے والے ہیں؟ ایسا تو نہیں ہے کہ حافظ سعید اور اظہر مسعود نے جہاد کے بارے میں نہ پڑھا ہو؟ جس میں یہاں تک ہے کہ جہاد جاری رہے اور نماز بھی جماعت سے ہوتی رہے۔ حضور اکرمؐ کے منھ سے جو آخری نصیحت نکلی ہے وہ الصلوٰۃ وماملکت ایمانکم۔ نماز اور جنگی ذمہ داری تمہارے اوپر ہو۔ اس میں بھی نماز پہلے ہے۔ 1971 ء میں پاکستان نوازوں کی آنکھیں امریکہ پر لگی تھیں کہ ساتواں بیڑہ چل چکا ہے بس آنے ہی والا ہے۔ اور پاکستان کے افسر اور مجاہد رسیوں میں باندھ کر ہندوستان لے آیا اور بیڑہ آتا ہی رہ گیا۔ اب سب کی امید چین سے ہے۔ پاکستانیوں کی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی بھی ملک ہندوستان جیسے بڑے ملک کو دوسرے کی خاطر دشمن نہیں بنائے گا۔ اور پاکستان کی پوری فوج بدر کے جہاد کے مجاہد بن کر دیکھیں تو وہ مدد پھر آسکتی ہے جو بدر میںآئی تھی جب دو لونڈوں نے ابوجہل جیسے پہاڑ کو گرالیا تھا۔ صرف جہاد کہنے سے مجاہد ایسے ہی نہیں بنتا جیسے ناتھورام شہید نہیں ہوتا۔ پاکستان اخلاقی گراوٹ میں ہندوستان سے بھی بدتر ہے۔ اس نے مودی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر خودکشی کی ہے۔ اب اگر وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو مومن بنے چین پر بھروسہ کرکے مشرک نہ بنے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔