آپسی تعلقات اور ہمارا طرز عمل

جہاں گیر حسن مصباحی

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ ورسول پر ہمارا عقیدہ بھی ہے لیکن اگرایمان داری کی بات کی جائے توباوجود یکہ ہمارا نام اسلامی،ہمارا معاشرہ اسلامی اورہمارے عزیزواقارب بھی مسلمان ہیں،پھر بھی دنیابڑی مشکل سے ہمیں مسلمان تسلیم کرنےکے لیے تیارہوتی ہے،ایسا کیوں ہے؟ اس پہلوپر انتہائی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے خیال میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے تمام معاملات خواہ دینی ہوںیا دنیوی صاف وشفاف اوردوسروں کے لیے نمونۂ عمل ہونے کے بجائے قابل رحم اورانتہائی ناقص ونامکمل ہیں،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی اخلاقی بیماری ہو جوہمارے قلب میں موجودنہیں۔ ایسے عالم میں ہمیں قلب کی تمام بیماریوںسے ہوشیاررہنے کی سخت ضرورت ہے۔
اسی کی تلقین کرتے ہوئے سرورکائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:”آپس میں حسد نہ کرو،بغض نہ رکھو،بے توجہی اورنااتفاقی نہ کرو،اورنہ خرید وفروخت کے معاملےمیں ایک دوسرے کے درمیان دخل اندازی کرکے اپنا کام بناؤ،اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہوجاؤ،کیوں کہ ہرایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر کوئی ظلم کرے ،نہ اُسے ذلیل ورسوا کرے اور نہ ہی اُسے حقیر وکمتر سمجھے ،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین بار اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اصل تقویٰ یہاں ہے،کسی انسان کے بُرا ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے،ہر مسلمان کا خون،مال اورعزت وآبرو ایک دوسرے مسلمان پرحرام ہے۔”(مسلم،باب تحریم ظلم المسلم)
یعنی کسی بھی طرح کےمعاملات کرتے وقت تمام مسلمان مردوعورت پراِن باتوں کا خیال رکھناانتہائی لازم وضروری ہے:
1۔بغض وحسد نہ کرنا،کیوں کہ حسدنیکیوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔(حدیث پاک میں ہے:’’بالخصوص حسد وکینہ سے ضرور بچو، کیوں کہ کینہ اور حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔’’ (ابوداؤد،حدیث:4905)
2۔بے توجہی اور نااتفاقی نہ رکھنا،کیوں کہ کسی کے لیےبھی جائزنہیں کہ اپنے بھائی سے تین دنوں سےزیادہ دوری اختیار کرےکہ یہ بداخلاقی ہے۔حدیث پاک میں ہے:’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ دوری بنائے رکھے۔’’ (سنن ترمذی،حدیث:1935)
3۔ خریدوفروخت میں رخنہ نہ ڈالنا،کیوں کہ ممکن ہے کہ رخنہ ڈالنے کی وجہ سے ایک بھائی اپنی ضرورت کی چیزیں نہ خرید پائے اور معاشی واقتصادی دقتوں کا شکار ہوجائے ،جس کا وبال یقیناً بھگتناپڑےگا۔حدیث پاک میں ہے:’’ تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے بھائی کی خریدو فروخت پر خریدو فروخت نہ کرے۔’’(ابوداؤد،حدیث:3438)
4۔ آپس میں بھائی بھائی کی طرح رہنا ،کیوں کہ ہر مسلمان بھائی بھائی ہے۔قرآن پاک میں ہے:’’مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (حجرات:10)
5۔ کسی پر ظلم نہ کرنا،کیوں کہ ظلم کرنے والے کواللہ رب العزت ہدایت نہیں دیتا۔ قرآن پاک میں ہے:’’اللہ رب العزت ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(بقرہ:258)
6۔ کسی کو ذلیل نہ کرنا،کیوں کہ عزت وذلت دینا اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’ عزت دینا اور ذلت دینا سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (آل عمران:26)
7۔خودکوبڑا نہ سمجھنا،کیوں کہ یہ تکبر ہے اورتکبرکرنے والوں کاٹھکانہ انتہائی بُراہے۔قرآن پاک میں ہے:’’ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ بہت ہی بُرا ہے۔ (زمر:72)
8۔تقویٰ اختیارکرنا،کیوں کہ تقویٰ والےاللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔قرآن پاک میں ہے:’’بے شک اللہ رب العزت متقیوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘(توبہ:4)
9۔ مسلمان کی عزت کرنا،کیوں کہ اکرام مسلم واجب ہے۔ حدیث پاک میں ہے:’’ اپنے بھائیوں کی عزت کرو۔’’ (مسنداحمد، حدیث: 15559)
10۔ مسلمان کے جان ومال اور عزت آبروکی حفاظت کرنا۔ قرآن پاک میں ہے:’’ جان کو اللہ رب العزت نے محترم کیاہے اُسے ناحق قتل نہ کرو۔’’ (انعام: 151)
لیکن جب ہم مسلمانوں کےدینی ودنیوی معاملات کو دیکھتے ہیں تو افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، کیوں کہ آج جس کسی کو دیکھئےاسی کے اندر حسد ،کینہ،بغض اورنفرت جیسی خرابیاں موجودہیں،آپسی اخوت ومروت کا نام ونشان تک نہیں ملتا،ہر کوئی ایک دوسرے پر ظلم کرنے کے فراق میں ہے،دوسروں کی عزت وآبروسے کھیلنااورکمتروحقیر سمجھناایک مشغلہ سا بن گیا ہے،یہاں تک کہ کبھی کبھی مدقابل کو قائل کرانے کی کوشش میں ہمارااِصلاحی طرز عمل بھی لائق اصلاح افراد کے لیےتحقیروتذلیل کاسامان بن جاتا ہے اورنتیجے کے طورپرہمارا لائق تحسین عمل بھی اکارت ہوجاتاہے۔
حیرت در حیرت تو اِس بات پر ہوتی ہے کہ جن خواص کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام الناس کے ظاہر وباطن میں یکسانیت لائیں اور تمام طرح کی دینی،اخلاقی اورمعاشرتی بیماریوں کا علاج پیش کریں وہ خود تکبروگھمنڈاوربغض وحسدجیسی بیماریوں کے زیادہ شکار ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کے اس قدر غلام ہوگئے ہیں کہ حق وناحق میں شعوری طورپر امتیازنہیں کرتے۔
چناں چہ اگرہم چاہتے ہیں کہ ان تمام برائیوں سے محفوظ رہیں اورحدیث پاک میں بیان کردہ تمام خوبیوں کا مجسمہ بنیں تو ہمیں اِس حدیث پاک کو اپناآئینہ بناناہوگا اورپھر اس آئینے میں اپنی اپنی ایمانی صورت کاجائزہ لیناہوگاکہ ہماری دینی ودنیوی زندگی کس ڈگرپر چل رہی ہے؟کہیں ہم بغض وحسد میں مبتلاتو نہیں ہیں، کہیں ہم خریدو فروخت کی آڑمیں کسی کی عائلی زندگی کوتباہ تونہیں کررہےہیں،کہیں باتوں باتوں میں کسی کی بےعزتی اورآبروریزی کےمجرم تو نہیں قرارپا رہےہیں،کہیں کسی پر ظلم کرکے ہم نے اپنی آخرت تو نہیں تباہ کر لی ہےاورکہیں کسی کی جان ومال کی حرمت کوپامال کرکے اللہ ورسول کی ناراضگی تو نہیں مول لے رہے ہیں؟اگرنہیں تو اللہ رب العزت کا شکر اداکریں اور اگر اِن برائیوں میں مبتلا ہیں اورحسدوکینہ ،بغض ونفرت کے شکار ہیں تو پھر سچے دل سے توبہ کریں اوراللہ رب العزت سےاپنے گناہوں کی بحشش طلب کریں ورنہ کل قیامت میں ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا جواب دیناہوگا اور اُس وقت پچھتاوے کے سواکچھ ہاتھ نہ آئےگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔