یہ ہے بمبئی نگریا

عبداللہ زکریا اعظمی

ممبئی میں دو عشرے سے بھی زیادہ وقت گزارنے کے باوجود ہم آج تک صحیح معنوں میں ممبیکر نہی بن پائے ہیں۔ بمبیا لنگو سے نا بلد تو نہی ہیں لیکن یہ الفاظ آج بھی زبان پر آنے سے کتراتے ہیں۔” ٹرین میں بڑی گردی تھی ” یا  "خالی پیلی کاہے کو بوم مارتا ہے ” جیسے جملے ہماری زبان پر آج بھی نہی آسکتے۔ یہ اعظم گڑھ کا فیضان ہے یا دلی کی گلیوں میں آوارہ گردی کا شاخسانہ، خدائے سخن میر تقی میر کا واقعہ ہے کہ جب ان  کو لکھنئو میں خاطر خواہ پذیرائی اور داد نہی ملی تو انھوں نے اہل لکھنؤ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غلطی آپ کی نہی ہے، میری شاعری اس شخص کی سمجھ میں آہی نہی سکتی جس نے جامع مسجد کی سیڑھیاں نہ دیکھی ہوں، میر صاحب کی طرح ہم بھی اسی شہر کے قتیل ہیں۔ دلی کا قصہ پھر سہی، سر دست اعظم گڑھ کی داستان سن لیجیے۔ اعظم گڑھ خاصی دلچسپ جگہ ہے اور ہم جس  نادر الوجود  برادری سے تعلق رکھتے ہیں اسے عرف عام میں” روتارا” کہتے ہیں، اور ہم یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ یہ مخلوق روئے زمین پر اور کہیں نہی پائی جاتی ہے۔ یہودیوں اور تمل برہمنوں کی طرح ان کا بھی عقیدہ ہے کہ یہ اللہ کی خاص الخاص مخلوق ہیں۔ اعظم گڑھ والوں کے یہاں آج بھی اعظم گڑھ سے باہر شادی بیاہ کرنا معیوب مانا جاتا ہے۔ یادش بخیر تقریبا چالیس سال پہلے کی بات ہے ہمارے خاندان کے ایک نوجوان نے ایک کوکنی لڑکی سے شادی کرلی تو وہ ہا ہا کار مچا کہ اللہ کی پناہ، ولیمے کے روز جب ہم نے دولہن کو دیکھا تو بہت مایوس ہوئے، دولہن کے سر پر نہ سینگ تھے اور نہ ہی اس کے کان بڑے تھے، اعظم گڑھ کی لڑکیوں کی طرح وہ بھی ایک لڑکی نکلی، ورنہ ہم نے تو اتنی بار کوکنی کوکنی سنا تھا کہ ہمارے بچپن کے معصوم ذہن کو گمان ہوگیا تھا کہ وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہوں گی۔ اللہ انھیں اپنی جوار رحمت میں رکھے، اب وہ اس دنیا میں نہی ہیں۔

ہم جس وقت ممبئی وارد ہوئے اس وقت یہ شہر   بمبئی یا بامبے کہلاتا تھا، پھر نوے کی دہائی میں ممبا دیوی کی مناسبت سے اس کا نام ممبئی رکھ دیا گیا۔ ممبا دیوی یہاں کی سب سے قدیم دیوی ہے اور اس کی پرستش صدیوں سے جاری ہے۔ آج شہروں کے نام بدلنے کی جو رسم چل پڑی ہے شاید اس کا نقطہ آغاز ممبئی سے ہوا ہے، یہ سلسلہ کب رکے گا اللہ ہی جانے۔

ابھی تک ہم نے ساری زندگی شمالی ہند میں گزاری تھی، یہاں آئے تو کان ایسی زبان سے آشنا ہوئے جو ابتدا میں انتہائی نامانوس اور کریہ الصوت لگی، رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ اس زبان کے بہت سے الفاظ  اردو میں مستعمل ہیں۔ ہم اردو والے فقط کہتے ہیں یہاں یہ لفظ فَکْت بن جاتا ہے۔ مال متّا شاید مال و متاع کی بگڑی شکل ہے، تفاوت یہاں تفاوَت بن جاتا ہے، بڑے اور چھوٹے کے لیے بالترتیب بزرگ اور خورد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

تہذیبوں کے امتزاج سے جو کلچر فروغ پاتا ہے اور جو زبان پنپتی ہے وہ بڑی جاندار، توانا اور خوبصورت ہوتی ہے، افسوس ہم سب اپنی لسانی عصبیت کا شکار ہیں۔ البتہ لفظ فَکْت سے شروع میں بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی کیونکہ انگلش زبان میں اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ ہے جو ہم بوجوہ شائستگی یہاں نہی لکھ سکتے، ہم یہ سوچتے تھے کہ یہ مراٹھی لوگ اتنی گالی کیوں دیتے ہیں۔ مراٹھی میں اسی قبیل کا ایک لفظ کیچوے کے لیے بھی مستعمل ہے۔ تجسس کے مارے کسی اہل زبان سے دریافت کرسکتے ہیں۔

ممبئی میں ہر کسی کا گاؤں ہوتا ہے، جو بھی مراٹھی مانس یہاں آباد ہے یا تو وہ خود یا اس کے آباؤ اجداد ایک بہتر مستقبل کی امید میں بوریا بستر باندھ کر قریبی اضلاع سے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے، ہاں گاؤں سے انکا رابطہ آج بھی برقرار ہے، گن پتی جو یہاں کا سب سے بڑا تہوار ہے اس دوران ممبئی آدھی خالی ہوجاتی ہے، اکثریت یہ تہوار منانے اپنے گاؤں کوچ کر جاتی ہے۔ ممبئی کی زیادہ  آبادی مہاجروں پر مشتمل ہے، شہر بھی انھیں کا بسایا ہوا ہے۔

 رہ گئے یہاں کے اصلی باشندے کولی جنکا پیشہ مچھلی پکڑنا ہے، وہ شہر کی چکا چوند سے دور سمندر کے کنارے اپنی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سمندر کا بیٹا کہتے ہیں۔ انکی بستیوں سے گزرتے ہوئے مچھلی کی  ” باس”  سے فنکار ذہن کے لوگ نیم بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں ہوش میں لانے کے لیے لخلخہ سونگھانے کی ضرورت نہی پڑتی ہے، بلکہ انگور کی بیٹی کا سہارا لینا پڑتا ہے، اگر حس لطیف نہ ہو تب بھی مچھلی کی  "باس” آپ کو اپنی ناک پر رومال رکھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ گاؤں پر ایک بڑا دلچسپ واقعہ یاد آیا ہمارے دوست اودھیش اگروال آگرہ سے ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے، ایک محفل میں بار بار ایک صاحب انکے گاؤں کا نام پوچھتے رہے اور وہ اخلاقا آگرہ کہتے رہے، جب گاؤں گاؤں کی رٹ نہ چھوٹی تو آخر جھلا کر کہ اٹھے کہ ابے آگرہ شہر ہے، گاؤں نہی ہے۔ پوچھنے والے کی بھی غلطی اس لیے نہی تھی کہ مراٹھی ذہن گاؤں کے تعلق کے بغیر کسی انسان کا تصور نہی کرسکتا ہے۔

عورتوں کا جس قدر احترام ہم نے اس شہر میں دیکھا کہیں اور نہی پایا۔ دلی والوں کی عادتوں سے واقف، اپنے ایک کلیگ کے احسان مند ہیں, اس نے ہمیں مار کھانے سے بچا لیا، دو دہائی قبل جب ہم نے دلی  سے اس شہر میں قدم رکھا تھا تبھی اس نے  آگاہ کردیا کہ بھول کر بھی یہاں کوئی کمنٹ نہی کرنا،ورنہ پٹ جاؤ گے،  ہم ایسا  سہمے کہ آج تک اپنی بیوی کے حسن کی تعریف بھی نہی کی  اور  بیویوں کی تعریف نہ کرنے کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے  کسی بھی شادی شدہ  شخص سے  دریافت کیا جاسکتا ہے۔

 ممبئی کی خاص چیزوں میں وڑا پاؤ اور ہاپس آم بھی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمیں تو آج تک وڑا اور پاؤ کا کمبینیشن سمجھ میں نہی آیا، لیکن یہ بات دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ اتنی غریب پرورغذا شاید ہی آپ کو  ملے، دس روپیے میں پیٹ بھر جاتا ہے۔ رہا ہاپس آم تو ایمان سے کہیں کہ چونسا یا ثمر بہشت سے اچھا ہمیں کوئی آم نہی لگتا ہے، امیتابھ بچن لنگڑا کے عاشق ہیں۔ چھٹتا نہی  منہ سے یہ یوپی لگا ہوا۔

ممبئی کی ایک اور خاص چیز یہاں کی پارسی قوم ہے، نورانی شکل بزرگ، گورے چٹے نوجوان اور لٹھے جیسی سفید عورتیں اسکی دلکشی اور رعنائی کو سہ آتشہ بنا دیتی ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے اس کے علاوہ حسینوں کو بھی منہ دیکھنا ہے، ہمیں تو حسن میں ملاحت اور نمکینیت پسند ہے، فلمی دنیا کی اداکارائیں بھی صرف پردے پر اچھی لگتی ہیں، ڈیمی مور اور سنڈی کرافورڈ کو جب پہلی بار مجسم گوشت پوست اور اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھا تو یقین جانیے بھونچکا رہ گئے کہ یا اللہ ہم انھی کے دیوانے تھے۔ ہمیں تو دیپیکا پادکون کا سانولہ سلونا نمکیں حسن پسند ہے۔ ویسے ہر خوبصورت عورت زندگی میں ایک  غلطی ضرور کرتی ہے اور وہ ہے شوہر کا انتخاب۔ رنویر سنگھ آزردہ خاطر نہ ہوں، ہمارا اشارہ اپنی طرف ہے، شوہر کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔

صاحبو، ممبئی بڑی ظالم جگہ ہے، اور اس کا جادو سب پر چل جاتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی جیسے جید عالم بھی اس شہر کے سحر سے خود کو نہ بچا سکے، اور عین بڑھاپے میں اسی شہر میں وہ بیگم عطیہ فیضی کی طرف ملتفت ہوگئے۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ اس التفات کا سبب ممبئی کا حسن اور اس کے نتیجے میں دل پر وارد ہونے والی کیفیات تھیں۔ وہ تو خیر ہوا کہ علامہ دار المصنفین واپس لوٹ گئے اور سیرت النبی لکھنا شروع کردیا اور یوں خاتمہ بالخیر ہوگیا، انکی تربت پر خود انھیں کے یہ اشعار کندہ ہیں:

عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمؐ

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

علامہ کا واقعہ بیان کرنے سے کوئی ان کی شان میں گستاخی نہ سمجھے،  ہم نے صرف برہان قاطع کے طور پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے ورنہ ہم ان کے اتنے بڑے مداح ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات تو خواب میں بھی نہی کرسکتے۔

حکایتوں اور روایتوں کے اس شہر کی داستان بہت طویل ہے، خدا کرے کہ یہ شہر یوں ہی جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں رہے، اور اس کے نیلم و مرجاں یوں ہی دلوں اور نگاہوں کو خیرہ کرتے رہیں۔ انسانوں کی طرح شہروں کی بھی قسمت ہوتی ہے، ویسے فنا تو سب کا مقدر ہے، باقی رہے نام اللہ کا، كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ، وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔

ممبئی کی جان کہی جانے والی لو کل ٹرین کا ذکر اس لیے نہی کیا  کیونکہ وہ ایک الگ مضمون  کی متقاضی ہے،  اس کا تذکرہ   الگ مضمون میں کریں گے ان شاء اللہ۔

تبصرے بند ہیں۔