​اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ 

مدثر احمد، شیموگہ

آنے والے کچھ ہی دنوں میں طلباءوطالبات کے نتائج آجائینگے اور ان نتائج کے ساتھ ہی والدین کو یہ فکر لاحق ہونے لگے گی کہ ہمارے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکول میں داخلہ دلائیں اور ہمارے بچے کامیاب اسٹوڈنٹس کہلوائٓیں، اس خواہش کے مطابق والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے کسی بھی طرح کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہوجا تے ہیں اور اپنے بچوں کو بھاری فیس ادا کرتے ہوئے اسکولوں و کالجوں میں داخلے دلواتے ہیں۔ آج ہمارے درمیان اچھی کالج یا اسکول کے تعلق سے جو نظریہ ہے وہ نظریہ دراصل بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ہمارے نزدیک اچھی کالج یا اسکول وہی ہے جو عالیشان عمارت ہو، اسکول میں بچوں کے لئے تین چار نمونوں کے الگ الگ یونیفارم ہو، ہر دن کے لئے الگ الگ جوتے ہوں، بچوں سے زیادہ وزن کی کتابیں ہوں اور یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ اسکول میں مسلم بچے کم ہوں کیوں خود مسلمانوں کو ہی مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا کہ انکے بچے مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ مل کر کہیں خراب نہ ہوں جائیں، گالی گلوچ نہ سیکھ لیں۔

اسکے علاوہ اچھی اسکول یا کالج ان اسکولوں کو بھی کہا جاتاہے جہاں پر لاکھوں روپیوں کی فیس لی جاتی ہواور بچوں کو ہر مہینے دو مہینے میں کسی نہ کسی بات کے لئے فیس وصولی جاتی ہو۔ جو اسکول جتنی زیادہ فیس ادا کرے وہ اسکول یا کالج اتنی ہی اچھی ہوگی۔ یہ ہے تصور اچھے تعلیمی ادارو ں کا۔ اب دوسری جانب جو تعلیمی ادارے مسلمانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے، مسلم بچوں کو کم از کم دین کی تعلیم دینے کے مقصد سے بنائے جاتے ہیں، کم سے کم دین کی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں، جو اذان کے وقت بچوں کو دعاپڑھنے کی تلقین دیتے ہیں، صبح کی دعا میں حمد یا مناجات پڑھاتے ہیں، بچوں کو بیٹھ کر طہارت لینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور بچوں میں بڑو ں و چھوٹوں کا ادب سکھاتے ہیں وہ اسکول ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور کہا جاتاہے کہ ہمارے بچے ایسے اسکولوں میں پڑھنے سے انکا مستقبل روشن نہیں ہوگا۔

پچھلے دس پند رہ سالوں سے اس طرح کا تصور ہم مسلمانوں میں آیا ہے اور پچھلے دس پندرہ سالوں میں جو بچے غیر مسلم اسکولوں و کالجوں میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں وہ بچے آج کہا ں ہیں اور کیا کررہے ہیں یہ بھی جائزہ لیں اور جو بچے مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اسکا بھی جائزہ لیں ۔ بچوں کی تعلیم اسکولوں کی عمارتوں اور فیس سے اچھی نہیں ہوتی ہے بلکہ اچھے اساتذہ، اچھے معاشرے اور والدین کی اچھی رہنمائی سے ہوتی ہے۔ جن والدین کو مسلم تعلیمی اداروں پر یقین نہیں ہے ان میں عام مسلما ن ہی نہیں ہیں بلکہ ہماری قوم کے معمار کہے جانے والے اساتذہ، پروفیسران، علماءبھی شامل ہیں ۔ کہنے کو تو یہ علماءاکثر اردو زبان سیکھنے، مسلم اداروں میں تعلیم دلوانے کی باتیں خوب بیان کرتے ہیں لیکن عمل کی جب بات آتی ہے تو وہ خود غیر مسلم اسکولوں کے دروازوں پر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح سے اردو مدارس کے اساتذہ اور اردو سے جڑے ہوئے پروفیسران بھی اپنے فعل اور قول میں تضاد رکھتے ہیں اور انکی اس طرح کی دوغلی پالیسی ہی آج اردو اسکولوں اور اردو زبان کے زوال کا سبب بن رہی ہیں۔ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ کئی طلباءجو غیر مسلم تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں وہ اخلاقیات سے دور ہورہے ہیں اور ان میں نہ دینی تعلیم پائی جاتی ہے نہ ہی دین کے بنیادی فرائض معلوم رہتے ہیں۔ حال ہی میں یف یم ریڈیو کے ناوید کا ایک آڈیو وائرل ہواہے جس میں ناوید نے ایک مسلم نوجوان سے پوچھا کہ کیوں تم رمضان کے روزے نہیں رکھتے اوردوسروں کو روزے رکھنے سے روکتے ہو تو اس نوجوان نے ناوید کو آسانی کے ساتھ یہ کہا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے آپ مداخلت نہ کریں ۔ میرے اعمال کا جواب میں خود دونگا اور میں اسلام کو اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔ اس پر ناوید نے نوجوان کو پوچھا کہ آپ استنجا کرتے ہیں تو اس نے کہاکہ میں تو استنجا نہیں کیا البتہ میرے والد نے دو بار استنجا کیا ہے۔ یہ ایسے بچے ہیں جو غیر مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتے ہیں اور یہ انکا دینی میعار ہے۔

ویسے ہمیں بھی کئی کالس آتے ہیں کہ فلاں کالج میں روزہ رکھنے سے روکا جاتا ہے، فلاں اسکول میں داڑھی رکھنے نہیں دیا جاتا، فلاں اسکول میں بیٹھ کر پیشا ب کرنے کا نظم نہیں ہے آپ آئیں اور اس معاملے کو سلجھا ئیں، ہمارے ہاتھ سے جو ممکن ہوسکتاہے وہ تو ہم کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں ڈالتے ہی کیوں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارا ہو یا ہمارے بچوں کا مستقبل ہم جیسے سوچتے ہیں ویسا ہو یہ ضروری نہیں کیونکہ قسمت، مستقبل اور کامیابی اللہ کے ہاتھوں میں ہے اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم ہمارے بچوں کو کم از کم سرکاری اسکول نہ سہی، مسلم تعلیمی اداروں سے جوڑیں جہاں پر ہمارے بچے کچھ نہ کچھ دین سیکھیں۔

ہماری کامیابی صرف دنیاوی تعلیم پر منحصر نہیں ہے بلکہ دینی تعلیم بھی ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے اور ہم حصے کو اپنے ساتھ نہ جوڑیں تو نقصان دین اور دنیا میں اٹھانا پڑیگا۔ ایسی ہی باتوں کو لے کر ڈاکٹر علامہ اقبال نے قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ -املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ“۔۔

تبصرے بند ہیں۔