12 برس ہی کیوں؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ہندوستانی حکومت کی مرکزی کابینہ کے ذریعے پیش کردہ اس آرڈیننس کو صدر جمہوریہ نے منظوری دے دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 12 برس سے کم عمر کی بچی سے عصمت دری کرنے والے مجرم کو موت کی سزا دی جائے گی۔اس طرح اب یہ قانون بن گیا ہے۔

گزشتہ دنوں کٹھوعہ (جمّوں)، اُنّاو (اترپردیش) اور ملک کے دیگر مقامات پر چھوٹی بچیوں سے عصمت دری کے متعدّد شرم ناک واقعات پیش آئے، جس پر ملک کے تمام طبقات کی طرف سے شدید ردّعمل سامنے آیا، چنانچہ اس سے مجبور ہوکر حکومت کو یہ قانون بنانا پڑا۔ اس سلسلے میں ایک قانون ‘پروسکو ایکٹ’ کے نام سے پہلے سے موجود تھا، لیکن اس میں سزائے موت کا آپشن نہیں تھا۔اب حکومت نے اس میں ترمیم کرکے سزائے موت کو شامل کیا ہے۔

عصمت دری کی روک تھام کے لیے اسلام کا قانون دوٹوک ہے۔ وہ ایسے مجرم کے ساتھ کسی طرح کی ہم دردی کا روادار نہیں ہے۔وہ اس کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ اسی وجہ سے جب ملک کے اطراف میں پے در پے عصمت دری کے واقعات پیش آئے تو ملک کے بعض ایسے لیڈروں کی طرف سے بھی، جو مسلمانوں کے خلاف شر انگیزی میں معروف تھے، ایسا بیان سامنے آیا کہ اسلامی قانون کو نافذ کرکے ہی عصمت دری کے واقعات پر روک لگائی جا سکتی ہے۔

ملک کے نئے قانون کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ معصوم کلیوں کو بے دردی سے مَسلنے اور ان کی عصمت کو پامال کرنے والوں کو عبرت ناک سزا ملنی ہی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ 12 برس کی قید کیوں؟ عصمت دری ایک بھیانک جرم ہے، چاہے وہ کسی نابالغ بچی کی کی جائے یا کسی بالغ دوشیزہ کی۔ 12 برس سے بڑی لڑکی کی عصمت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی 12 برس سے کم عمر کی بچی کی، اس لیے کسی درندے کو اس سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہ بھی عبرت ناک سزا کا مستحق ہے۔

تحفّظِ عصمت کے معاملے میں اسلام کا کردار بڑا مثالی اور انقلابی ہے۔ زنا چاہے بالجبر ہو یا بالرضا، اس کے نزدیک ہر حال میں جرم ہے۔ رضامندی سے زنا کا ارتکاب کرنے والے مرد و عورت بھی اس کے نزدیک مجرم ہیں، اس لیے کہ وہ سماج کی پاکیزگی کو گدلا کرتے ہیں، عفت و اخلاق کو پامال کرتے ہیں اور خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں۔

اسلام کے نظامِ تعزیر و سزا کا ایک پہلو عموماً لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے، اس لیے وہ اسلامی سزاؤں کی حکمتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور اس پر بے جا اعتراض کرتے ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے لئے عبرت ناک سزا اسلام کے نزدیک آخری چارہ کار ہے۔ اس سے پہلے وہ متعدد اقدامات کرتا ہے۔ وہ ہر فرد کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈراتا ہے، اس کے دل میں آخرت کا خوف پیدا کرتا ہے، یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ کوئی جرم انسانوں کی نگاہوں سے چھپ کیا جائے تو بھی اللہ دیکھ رہا ہے اور اس کے کارندے نوٹ کر رہے ہیں، سماج کو پاکیزہ رکھنے کے لیے وہ سخت ہدایات دیتا ہے، شراب پر پابندی عائد کرتا ہے، عریانی اور بے حیائی پر قدغن لگاتا ہے، بے پردگی، اجنبی مرد و عورت کے درمیان خلوت اور اختلاط کو حرام قرار دیتا ہے، لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد ان کے نکاح جلد کردینے کی ترغیب دیتا ہے، نکاح کو آسان اور سستا بنانے کی فضیلت بیان کرتا ہے، کسی بھی مرد یا عورت کو، چاہے وہ عمر کے جس مرحلے میں بھی ہو، بغیر نکاح کے زندگی گزارنے کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔ ایسا ماحول فراہم کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص بدکاری کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اخلاق بالکل فاسد اور اس کی فطرت بالکل مسخ ہوگئی ہے۔ وہ ایک سڑا ہوا عضو ہے، اس لیے اسے صحت مند سماج کے جسم سے کاٹ کر پھینک دینا ہی بہتر ہے۔

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ محض سخت ترین قوانین کے نفاذ سے عصمت دری کے واقعات بند ہوجائیں گے وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کیجیے، اس کے بعد جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیجیے، تبھی جرائم کا قابو پایا جا سکے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔