نالۂ شب گیر: آتشیں موضوع کی سلگتی ہوئی تحریر

شمع خان

   ’’نالۂ شب گیر‘‘ِمشرف عالم ذوقی کا حال ہی میں شائع ہوا ناول ہے۔ یہ ناول ۲۰۱۵ ء میں منظرِ عام پر آیا اور مقبولیت کے وہ گل اس کے حصے میں آئے مانو راتوں رات کوئی انقلاب برپا ہو۔ ہو بھی کیوں نہ جو اچھوتا موضوع مشرف عالم ذوقی نے اٹھایا، وہ اب سے پہلے کے ناولوں میں نہیں ہے۔ خود وہ اس ناول کی تخلیق کے متعلق ناول کے پیش لفظ میں یوں رقم طراز ہیں :

’’نالۂ شب گیر‘‘ سوچتا ہوں آخر مجھے اس ناو ل کو تحریر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اقبال نے کہا تھا؎

  ’’وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘

لیکن کیا سچ مچ ایسا تھا؟ صدیوں سے تصویر کائنات سے مردوں نے تتلیوں جیسے اس کے رنگ کو’ کھرچ‘ کر صرف استعمال اور استحصال کا ذریعہ بنا دیاتھا  حقیقت یہ ہے کہ مجھے شروع سے یہ بات پسند نہیں آئی کہ مرد آزادی اور بڑے بڑے فلسفوں پر گفتگو کرنے کے باوجود عورت پر پابندیاں لگاتا ہے     گھر کی عورت پہروں ، بندشوں اور گھٹن کا شکار کیوں رہتی ہے۔۔

سینکڑوں ، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا      عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھااور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں ، کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔

ہم جس معاشرے میں ہیں ، وہاں آج بھی عورت کی آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا— اس لیے ’’نالۂ شب گیر‘‘ صدیوں کی وہ درد بھری موسیقی ہے، جو شب کے بحر ظلمات کا سینہ چیر کر پیدا ہو رہی ہے… مگر یہاں کون ہے جس کے پاس درد کی ان صدائوں کو سننے کے لئے وقت ہے۔ یہاں کی ہر عورت’ سیمون دبوار‘ ہے، جسے درد بھری آواز میں آخر کار یہی کہنا ہوتا ہے، عورت پیدا کہاں ہوتی ہے… وہ تو بس بنائی جاتی ہے.

میں برابری  اور آزادی کا قائل ہوں ، اس لیے برسوں سے ایک ایسی کہانی کی تلاش میں تھا، جہاں اپنے تصور کی عورت کو کردار بنا سکوں ۔‘‘ ۱؎

اپنی خواہش کے تکمیل میں ذوقی ناول کے انتساب میں لکھتے ہیں :

 ’ہر اس لڑکی کے نام جو باغی ہے اور اپنی شرطوں پر زندہ رہنا چاہتی ہے‘

ناول سات ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں دو اہم کردار موجود ہیں : پہلی صوفیہ مشتاق اور دوسری ناہیدناز۔ ان کے ساتھ کہانی میں کمال یوسف اور خود مصنف موجود ہیں جو ناول کا ایک اہم جز ہیں ۔مصنف اس ناول کے ایک ایک حصے کو ایک فلم کی طرح قارئین کی نظروں میں گھماتا ہے اور ناول کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ناول پڑھتے ہوئے رسواؔ کا خیال ذہن میں خود بخود چلا آیاجہاں رسواؔ امراؤ جان اداؔ کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے عورت کی عزت و آبرو کے لیے فکر مند ہیں ۔ اسے معاشرے میں اس کا حق دلانے کو بے تاب ہیں ایسے ہی ذوقی عورت کی حمایت میں ناہید کے ذریعے بغاوت کا علم بلند کرتے ہیں ۔یہ سوچنے کا پہلو ہے کہ رسواؔ کی زندہ جاوید تحریر کے بعد بھی صورت حال کم وبیش وہی ہے اور ایک اور مصنف پھر سے اس اور قارئین کے ذہن کو لو ٹا رہا ہے۔ آج بھی معاشرے میں وہ تمام برائیاں ’ سْرسا‘ سا منھ کھولے کھڑی ایک حساس انسان کو اذیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔ ذوقی ناول کے ذریعے قارئین کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ آج بھی لفاظی کے طور پر یا مذہبی عقائد کے مطابق کہیں عورت دیوی ہے تو کہیں اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے مگر، کیا عورت کو حقیقتاً اس کا حق ملا ؟ مرد اساس معاشرے میں جہاں بھی عورت نے اپنے حقوق کو لے کر سر اٹھایا مرد کی بے حسی نے کہیں اسے جوتیوں کی ٹھکریں ماریں ، کہیں گھر سے بے گھر کر ڈالا اور اتنے پر بھی جب دل نہ بھرا تو ہر رشتے کا مذاق بنا کر اس کی آبرو کو روند ڈالا۔ ایک عورت کا باغی ہو جانا لازمی ہی تھا، صدیوں سے گھٹن اور بندشیں جھیلتی ہوئی عورت کو ذوقی نے ایک نیا اوتار دے ڈالا، ایک ایسی عورت پیدا کر دی جو اپنی دنیا اپنے لیے خرید لیتی ہے اور اس کی اس دنیا میں صرف اور صرف عورت ہی ہے، اب مرد اس کا محافظ نہیں ہے۔ بلکہ وہ مرد کو ان تمام بے حیائی کے ناموں کے ساتھ منسلک کرتی ہے جو مذہب کے ٹھیکداروں نے محض عورتوں کے لیے مخصوس کر دیے تھے۔

ذوقی نے ایک مربوط پلاٹ کے ذریعے کہانی پیش کی ہے۔کہانی میں فلیش بیک بھی ہے، حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ ناول نگار کے ہاتھ میں ایک میلا سا کاغذ کا ٹکڑا ہے جس پر ایک بلی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اس کے پیٹ میں ایک چوہا ہے۔ پوشیدہ مفاہیم ناول کے آئندہ صفحات پر بکھرے پڑے ہیں ، کہانی کا پہلا کردار صوفیہ مشتاق جو اپنی بہن، بھائی اور جیجو کے ساتھ رہتی ہے کم عمر رمیں والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ بہت خوبصورت اور خوب سیرت بھی۔ اسے اپنے کمرے میں آسیب گھیرے رہتا ہے ایک کیڑا ’ڈراکیولا‘۔ مصنف کو یہ اس کا وہم محسوس ہوتا ہے مگر صوفیہ یقین سے کہتی ہے کہ وہ ایک کیڑا ہے جورات کے اندھیرے میں دیوار پر رینگتا اس کے بستر پر اتر آتا ہے اور اس کے کاٹنے کے نشان صوفیہ کی گردن پر موجود ہیں ۔وہ کہتی ہے:

’’یقیناً۔ ۔۔۔۔۔ وہ کیڑا ہی تھا۔ نوکیلے دانتوں والا ایک خوفناک کیڑا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ سے زیادہ بہتر کون جانے گا اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا۔۔۔۔۔ دوسرا کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔‘

ہے۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔۔، مصنف پھیکی ہنسی ہنسنے پر مجبور تھا۔۔۔۔۔۔ ’ یہ سب تو دانشوری، دانشمندی کی باتیں ہیں ۔ ہے۔۔۔ ہے۔۔۔۔‘

مصنف کے الفاظ کھو گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔ لیکن وہم و گمان کی ایک بے نام سی کہانی یہ بھی تھی کہ مصنف نے وہ داغ دیکھے۔۔۔۔۔ اور یقیناً وہ داغ اس کی گردن پر موجود تھے۔۔۔۔۔‘‘ ۲؎

یہاں در پردہ ایک حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ صوفیہ مشتاق جیسی معصوم کم عمر لڑکیاں گھروں میں بھی محفوظ کہاں ہیں ؟ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے تواس سے بدتر حالات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔جنسی تلذذ کے لیے مرد بے حیائی کا لباس اوڑھ کر اپنے برہنہ کردار کی نمائش کرنے سے نہیں چوکتا۔ سب سے بڑی تکلیف یہ ہے کہ گھر کی ہر عورت اس کے کردار سے واقف ہے مگر وہ اپنی زبان پر مرد کی دی ہوئی چپی کے تالے لگا کر بیٹھی ہے۔ صوفیہ کو اس کا بھائی اپنے ساتھ اپنے گھر لے آتا ہے مگر جلد سے جلد اس کی شادی کر کے اس سے چھٹکارا پا لینا چاہتا ہے۔ یہاں بھی معاشرے کی کئی برائیاں بے نقاب کی جاتی ہیں ، عورت کے استحصال میں گھر میں کوئی کمی رہ جاتی ہے شاید کہ اسے کم عمر میں ہی ایک اور مرد کے حوالے کر کے ازدواجی زندگی کے اندھے کنویں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اس کے استحصال کا ایک نیا پاکھنڈ اس کا انتظار کرتا ہے۔ مگر اس سے پہلے معاشرے کا مرد اپنی گری ہوئی خواہشات کے تذکرے کرتا ہے۔ کسی کو جہیز چاہیے تو کسی کو لڑکی کے جسم کے ہر حصے کا معائنہ کرکے طے کرنا ہے کہ وہ اس کے ساتھ رہنے کے قابل بھی ہے یا نہیں ۔ صوفیہ جو کہ ان حالات سے پوری طرح ٹوٹ چکی ہے اس کے لیے اب جسم کا کوئی مطلب رہ ہی نہیں جاتا۔ وہ پہلی بار اپنے خوف سے آنکھیں چار کر کے ایک مرد کی اسے برہنہ دیکھنے کی خواہش کو قبول کر لیتی ہے،اس مرد کی جسے اس کے اپنے گھروالوں نے اس کے لیے منتخب کیا ہے۔ملاحظہ ہو :

’’وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ـ’’مجھے جانے کی جلدی ہے۔دراصل میں سوچ رہا تھا۔ نہیں ،جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گزاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار۔ سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہوسکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئے گا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔نہیں پسند آئے تو آپ جاسکتے ہیں ۔کوئی جہیز لیتا ہے۔کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔کسی کی کوئی۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔خود سے حاصل کیاہوا۔ اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہیے، وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اس نے گولی داغ دی۔۔۔

’’ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ گزاریں ۔‘‘۔۔۔۔۔۳؎

صوفیہ کا صبر اب ٹوٹ چکا ہے اور وہ مرد کو اس کی ہر بدکاری کا جواب دینا چاہتی ہے، برہنہ تن وہ اس لڑکے سے مخاطب ہے،اور اس کے الفاظ میں اپنے عورت ہونے دردبھی ہے:

’’وہ مسکرائی        کیسی لگ رہی ہوں میں ۔۔۔۔، لڑکا ایک لمحے کو سہم گیا      وہ دھیرے سے ہنسی۔۔۔۔ نظر جھکانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ دیکھنے پر ٹیکس نہیں ہے۔ اور تم تو۔۔۔۔۔ کسی بازار میں نہیں ، اچھے گھر میں آئے ہو۔۔۔۔ ۔۔ یقین مانو۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اسی لئے تمہاری شرط کے بارے میں سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا۔ تمہارے لئے یہ ہی بہت ہے کہ تم مرد ہو۔ مرد ہو، اس لئے تمہارے اندر کا غرور بڑھا جا رہا تھا۔ پہلے تم نے جہیز کا سہارا لیا۔ پھر رقم بڑھائی، رقم دگنی سہ گنی کی اور پھر۔ ۔۔۔ یقین مانو کہ میرے گھر والوں نے سوچا تھا کہ یہ موم کی مورت برا مان جائے گی۔مگر میں نے آگے بڑھ کر کہا۔ ۔۔۔ بہت ہو گیا۔۔۔۔ آخری تماشا بھی کر  ڈالو۔۔۔۔۔‘‘ ۴؎

غالبؔ کا ایک مصرع یاد آگیا:

   ’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘   

یہ واقعہ اسے مضبوط کر گیا۔صوفیہ مشتاق اس حادثے کے بعد اپنا گھر چھوڑ دیتی ہے،اس حساس لڑکی سے اب اور اپنے گھر والوں پر بوجھ بننا سہا نہیں جاتا۔پر کیا عورت واقعی بوجھ ہوتی ہے یا اسے رہ رہ کر بوجھ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔

 اب مصنف کی ملاقات ناہید ناز سے ہوتی ہے۔ ناول کی مرکزی کردار ناہید نازابھیہ دلی ریپ کیس کے ظالموں کو سزا دلانے احتجاج کا حصہ بنی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ اس کا شوہر (بقول ناہید: اس کی بیوی) کمال یوسف اور اس کاچھ ماہ کا بچہ باشا بھی ہے۔اس واقعے پر پوری ہندوستانی عوام ایک ساتھ لبیک کہتی ہے۔ جگہ جگہ احتجاج کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ رام لیلا میدان میں اکھٹا ہو کر ظلم و جبر کے خلاف نعرے بلند کرتے ہیں ۔ عورتیں گلیوں اور سڑکوں پر اتر آتی ہیں ۔

ناہید کے خیال باغیانہ ہیں ۔ مرد ذات کے وجود سے اسے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ مرد کی لگائی تمام پابندیاں اسے نامنظور ہیں ۔ اس کی باتوں میں عورت کی مظلومیت کا درد ہے۔ وہ تلخ الفاظ میں کہتی ہے:

’’لڑکوں کو آزادی دیتے ہوئے آپ کی دنیا لڑکی کی آزادی کے پر کاٹ لیتی ہے۔ کبھی اسے چنری دی جاتی ہے، کبھی حجاب۔ کبھی اسے اپنوں سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ لڑکی نہیں ہوئی کوئی عذاب ہو گئی۔ اور آپ ہی کے سماج نے اسے بے رحم نام دے رکھے ہیں ۔ فاحشہ، طوائف، رنڈی، داسی،کلنکنی یہ سارے نام مرد کو کیوں نہیں دیتے ؟ سب سے بڑا دلال اور بھڑوا تو مرد ہے۔ فاحشہ، طوائف، رنڈی، داسی،کلنکنی یہ سارے نام مرد پر فٹ بیٹھتے ہیں ۔‘‘ ۵؎

ناہید اور کمال نینی تال سے احتجاج کے لیے دہلی آئے ہوئے ہیں اورمسلسل اس میں شریک بھی رہتے ہیں ۔مگر کمال بچے کی طبیعت کو لے کر پریشان ہوتا ہے اور ناہید سے گھر واپس چلے جانے کی التجا کرتا ہے لیکن ناہید اس طرح احتجاج میں ڈوبی ہے کہ اسے اپنے خود کے بچے کا بھی خیال نہیں رہتا۔ وہ چاہتی ہے کہ مظلومہ کو انصاف ملے۔اسے ہر قدم پر مرد ایک ظالم اور عورت مظلوم نظر آتی ہے۔ اسے مظلومہ کے آگے مرد ذات سے نفرت ہی نفرت ہے خواہ وہ اس کا کچھ بھی ہو۔خود اپنے بچے کی صحت کو لے کر اس کی فکر کچھ بھی نہیں اسے عورتوں کی حمایت اور مرد سے بغاوت کرنا ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’کئی روز ہوگئے۔ ہماری وجہ سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،

’ایک پوری نسل بیماری ہوچکی ہے۔‘ ناہید نے تیور سے کہا۔

’لیکن یہ ہمارا بچہ ہے۔‘

’وہ بھی کسی کی بچی تھی۔‘

’ میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘

’تم نے یہی کہا۔ تم مردوں میں ہمارے معاملے میں ذرا بھی صبر نہیں —وہ غصہ میں تھی—

’پہلی بار ایک بڑی آواز ہماری حمایت میں اٹھی ہے توتم اپنے قدم پیچھے کھینچ رہے ہو۔‘‘  ۶؎

ناہید کا غصہ دن بہ دن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مردوں کی خاطرشدید نفرت سی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی شرطوں پر جینے لگتی ہے۔ جو کچھ اسے اچھا لگتا ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے عورتوں کی طرح پہننے اور عورتوں جیسی ازدواجی زندگی اختیار کرنے کی ضد کرتی ہے۔ وہ کمال کو اپنا شوہر نہ مان کر اسے اپنی بیوی کا درجہ دیتی ہے۔یہی ناول نگار کا اصل مقصد بھی ہے وہ عورت کی فلاح و بہبودی اس کے باغی ہونے میں تصور کرتا ہے۔ ناہید ٹھیک یہ ہی کرتی اور کہتی ہے:

’’وہ شوہر نہیں ہے۔ خدا کے لیے انہیں شوہر نہ کہیے… وہ میری بیوی ہیں … ‘ ناہید نے کھلکھلا کرجواب دیا۔اور اب میری حراست میں ہیں ۔‘‘  ۷؎

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرد نے صدیوں سے مذہب کے نام پر تو کبھی عورت کو صنف نازک کہہ کر اسے گھر میں قید کے سوا کچھ نہ دیا، مگر ناہید کا باغی ذہن ان سب رسوم و رواجات کو توڑ دینا چاہتا ہے۔ دلی ریپ کیس کے بعد سے ناہید کا باغی ذہن اور بھی خطرناک حد تک سوچنے لگا ہے۔وہ جب تب مرد اور مذہب کے خلاف زہریلے الفاظ اگل رہی ہے اور یہ لازم بھی ہے آخر کب تک عورت برداشت کرے گی۔جو شوہر ایام شباب میں ان کی بولڈنیس کے گن گا تے ہیں وہ ہی شوہر بن کر ان کی ساری بولڈنیس کو یا تو ختم کر دیتے ہیں یا نا پسند کرنے لگتے ہیں ۔شوہر اکثر یہ مانتا ہے کہ ایسی عورت سے نباہ ناممکن ہے۔ مگر کیسی عورت ؟ یہ ہی بولڈنیس وہ خود وہ دکھاتا ہے تو وہ جائز ہے اور عورت دکھا دے تو ناجائز۔ ذوقی برلڈ نیس کے ساتھ ساتھ محبت کی بھی پرزور حمایت کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ ناہید کے زبانی کہتے ہیں :

’’بے حیائی؟۔۔۔۔۔ محبت کرنے کو آپ بے حیائی سمجھتے ہیں ؟

 میرے خیال میں محبت کو کسی بھی طرح کی سماجی، قانونی، مذہبی بندش سے بغاوت کر دینی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ۸؎

ناہید مذہب کے متعلق بھی اپنے بے باکانہ خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ عورت کا سب سے زیادہ استحصال مذہب کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ ناہیدکے الفاظ یہاں لائقِ مطالعہ ہیں :

’’ آپ بھی جونا گڑھ کے ہجڑے نکلے۔‘

’وہ پوری شدت سے چیخی تھی، مذہب آپ کے گندے انڈر ویئر میں ہوتا ہے۔ اورمرد جب تب عورت کے استحصال کے لئے مذہب کو اسی میلے انڈر ویئر سے نکال لیتے ہیں ۔اور مجھے معاشرہ، مذہب، آزادی کا خوف نہ دکھائیے آپ جیسے جونا گڑھ کے ہجڑوں مذہب کو، عورت کو، سماج کو صرف اپنی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔‘‘ ۹؎

’جونا گڑھ کے ہجڑے‘ ایک تجسس قائم کرتا ہے، جو ناہید کے باغی ذہن کی اصل اور پوشیدہ وجہ ہے۔ اور اس ناول کا مرکزی باب بھی۔ عورت کے استحصال کی درد بھری داستان جوناگڑھ کی اس بڑی سی ویران حویلی میں سسکیوں سی گونج رہی ہے۔ ذوقی نے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ناول کا یہ حصہ لڑکیوں کے استحصال کی بے باک کہانی کہتا ہے۔اور الفاظ بھی ننگے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔ایک مہذب خاندان، جہاں لوگ نمازی، معاشرے میں عزت، گھر میں پردہ اور پرہیزگاری کی شہرت ہے۔ وہاں لڑکیوں کی تعلیم اور گھر سے باہر قدم نکالنے پر پابندی ہوتی ہے۔ خاندان والوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ گھر کی عزت نیلام نہ ہو جائے اور بزرگوں کی ناک نہ کٹ جائے۔ لیکن گھر اور پردے کے اندر کس طرح گھناونی صورت حال ہے اس کو دنیا نہیں جانتی۔ اور کبھی جانتے ہوئے بھی ایسی باتوں کو چھپا کررکھنا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ناہید کے اندر کا جوالا مکھی کس طرح پنپ رہا تھا۔ ملاحظہ کریں :

’’جوناگڑھ کا ایک بڑا سا حویلی نما مکان… ایک ابو تھے۔ انتہائی سخت، نمازی، پرہیز گار۔ غصہ آتا تھا تو صرف اماں پر۔ اور اماں پر آئے غصے کے لئے انہیں کسی وجہ کی ضرورت نہیں تھی۔ گھر میں پردے کا رواج تھا۔ باہر جانے پر پابندی تھی۔ لیکن رشتے داروں کی فوج تھی، آئے دن جن کا حملہ ہوتا رہتا تھا… اب تو شکلیں بھی بھولنے لگی ہوں ۔ اجو ماموں ، گبرو دادا، چینو چاچا… سبحان بھائی، تختے والے عمران چاچا… سفید داڑھی والے ابو چاچا… زیادہ تر داڑھیوں والے بلکہ خوفناک داڑھیوں والے بزرگ… یہ حویلی ہماری تھی تو ان کی بھی تھی… میری عمر ہی کیا تھی۔ مگر میں جیسے مرغی کے دربے میں ہاتھ بڑھا کر کسی مرغی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیتی، ایسے ہی یہ لوگ پیار کے بہانے مجھے بھی دبوچ لیتے۔ کیوں دبوچتے، یہ بات میری سمجھ میں پہلے نہیں آئی تھی۔

پھرمرغیوں کی کڑ کڑاہٹ کے ساتھ ننھی معصوم آوازیں لنگیوں اور پاجاموں کی سرسراہٹ میں کھو جاتیں ۔

ماموں چھوڑونا… جانے دونا…

ابو چاچا… کیا کرتے ہو… جانے دو … نا…

گبرو دادا… میں اماں سے کہہ دوں گی… تم بہت گندے ہو…

چھوڑونا…

دکھ رہا ہے…

جانے دو…

یہ بچوں سے پیار کے کھیل تھے جو ابو اور اماں کے سامنے بھی کیے جاتے تو بچوں کا لاڈ اور پیار نظر آتا۔‘‘ ۱۰؎

’’مجھے مردوں سے، اپنے آپ سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔ کیوں کرتے ہیں یہ بوڑھے خبیث اس طرح کی حرکتیں ۔۔۔؟ کس لیے کرتے ہیں ۔۔۔؟ کیوں اتنا بے شرم بن جاتے ہیں ۔۔۔؟

میں غصے کی آگ میں جل رہی تھی۔۔ ۔۔۔۔ اور یہ کہنا سچ ہوگا کہ پہلی بار مذہب بھی میرے غصے کے نشانے پر تھا۔

خدا نہیں ہے۔۔۔۔

میں دل میں بار بار اس بات کا اقرار کرتی تھی۔

خدا ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔

یہاں کے مردوں نے مذہب کو اپنی لنگیوں ، داڑھی اور ٹوپیوں میں سی لیا ہے۔ اور جب دیکھو ان کے اندر کا جنگلی جانور بھی سامنے آ جاتا ہے۔جانور جاتا تو سجدے جاگتے۔ سجدے سے اٹھتے تو پھر جانور لنگیوں سے باہر آنے کو بے چین رہتا۔۔۔۔۔ ۱۱؎

 ناہید ناز اس عورت کی علامت ہے جو پوری دنیا کو بدل دینا چاہتی ہے۔ وہ عورتوں کو مردوں کے ظلم و زیادتی سے آزاد کرانا چاہتی ہے۔ بے شک اس کی واحیات خواہشات کی بنا پر کچھ پل کے لیے اسے نفسیاتی مریض سمجھنے کی بھول ہو سکتی ہے مگر وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں ہے۔ یہ اس کا باغی ذہن ہے جو مرد سے انتقام لینے کا خواہش مند ہے۔ وہ ایک نئی دنیا تشکیل کرنا چاہتی ہے جہاں ہر چیز کے معنی بدل جائیں ۔جس جگہ بھی عورتوں کے تعلق سے غلط باتیں تحریر ہیں اس کے معنی و مطالب کو مردوں سے منسلک کر دینا چاہتی ہے۔  وہ عورت کو حاکم کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اس کی زندگی میں اچانک ایک تبدیلی چلی آتی ہے، جو عورت اب تک مرد کی ایک آواز پر لرز اٹھتی تھی وہ اچانک اپنی بہن نکہت کی موت اور اس پر لگائے گئے الزامات سے ایک گھایل شیرنی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اور اسے پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ اسے محض تھوڑی سی ہمت درکار ہے مرد تو بلا کی ڈرپوک شے ہے۔وہ بے وجہ اب تک اس سے ڈر کر اس کے ظلم سہتی آئی ہے۔ ایک ذرا سی ہمت اور بغاوت مرد کی مردانگی کو برہنہ کرنے کے لیے کافی ہے اور وہ یہ کر بھی دیتی ہے۔ کیونکہ اسے مرد اساس معاشرے میں اب اپنے وجود کی فکر ہے:

’’’’کس نے مارا میری نکہت کو… آپ سب نے مل کر مارا ہے میری نکہت کو…‘

’اندر چلو۔‘ اماں زور سے کھینچ رہی تھیں ۔

’بے غیرت…‘ ابو چاچا کی آواز سنائی پڑی…

اور یہی لمحہ تھا جب اس لفظ نے میرے اندر کی غیرت کو جگا دیا تھا۔

’ہاتھ چھوڑو اماں ۔‘میں نے زور سے دھکا دے کر اماں سے ہاتھ چھڑا لیا

’بے غیرت… آج کسی نے کچھ کہا تو میں کہہ رہی ہوں اتنا برا ہوگا کہ کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ بے غیرت… ارے کس نے کہا بے غیرت… اس گھر کے مردوں کو غیرت سے واسطہ بھی ہے… کس غیرت کی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ… ارے اس گھر کی لڑکیاں تو پیدا ہوتے ہی ان مردوں کے سائز تک سے واقف ہوجاتی ہیں ۔‘

اماں نے ہاتھ گھمایا تھا مارنے کے لیے… میں نے اماں کا ہاتھ روک دیا…

آج نہیں اماں … آج ہاتھ مت اٹھانا… آج کوئی میری طرف بڑھا تو جان سے مار ڈالوں گی۔ میں چلائی تھی… یہ اجوچچا۔ گبرو دادا… یہاں مرد اپنے گھر میں شکار کرتے ہیں ۔ مرغیاں ، بکریاں اور میمنے تک ان شریف مردوں کے سائز سے واقف ہیں ۔‘

’بس کرو۔‘اماں نے زور سے چیخ کر کانوں کو بند کر لیا۔

چودھری زین العابدین دروازے سے باہر نکل گئے تھے۔ اجو چاچا میری طرف بڑھے تو میں نے ہاتھ بڑھا کر ایک بڑا سا پتھر اٹھا لیا۔

’کیا رشتہ تھا تم سے نکہت کا؟‘

آگے بڑھتے بڑھتے اجو چاچا کا چہرہ ایک خوفناک مگر سہمے ہوئے چہرے میں تبدیل ہوچکا تھا۔

اماں دیوار کی طرف منہ کرکے رو رہی تھیں۔

’نکہت بے غیرت نہیں ہے۔‘ میں گلہ پھاڑ کر چیخی تھی۔’ آپ لوگ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلی ہی جوان کردیتے اور ماردیتے ہیں ۔ اسے بڑھنے کہاں دیتے ہو۔ آپ کی شرافت ان بوسیدہ دیواروں کے ذرے ذرے میں چھپی ہوئی ہے…‘‘ ۱۲؎

یہ کمال مشرف عالم ذوقی کا ہی ہو سکتا ہے کہ اب تک ناول نگاروں نے عورتوں کی حمایت میں بہت سے مسائل بیان کرتے ہوئے ناول تو لکھے مگر ان مسائل کا حل نہ دے پائے۔ ذوقی خود ایک مرد ہوتے ہوئے عورت کے لیے ان مسائل سے نبٹنے کی راہ روشن کرتے نظر آتے ہیں ۔ ایک اچھی کوشش اور ایک مفکر ادیب کی پہچان یہی ہے کہ کے مسئلے کے ساتھ اس کا حل بھی پیش کیا جائے۔ذوقی نے بیان کرنے کی جرأت بھی کی ہے، وہ عورت کی معاشی، معاشرتی آزادی اور تعلیم کے حامی ہیں اور اس کے زخموں کا مرحم بھی کھوجتے ہیں ۔ ایک ایسا سماج تشکیل کرنے کی آرزو جہاں مرد کی مردانگی عورت کی نسوانیت سے بڑی نہیں ہو اور ناہید اس کام کو بخوبی انجام دے رہی ہے۔وہ نہیں چاہتی کی کسی بھی عورت کا نام سن کر کسی مرد کے ذہن میں کوئی بھی ایسا خیال ابھرے جس سے عورتوں کی عزت پرحرف آتا ہے۔ جب کمال یوسف اس کا ذہن کسی کام میں الجھانے کے لیے اسے ایک ڈکشنری کا پروجیکٹ دیتا ہے تو ایسے تمام الفاط کے معنی و مطالب تبدیل کر دیتی ہے۔ وہ اپنے اندر کی شدیدنفرت کا اظہار اس طرح کرتی ہے۔ملاحظہ کریں یہ اقتباس:

’’جیسے آوارہ… اس نے آوارہ کے آگے لکھا… بدچلن مرد۔ مردوں کے چال چلن عام طور پر خراب ہوتے ہیں ۔

فاحشہ… بدکار مرد…

حرام کار… بدکار مرد…

حرامی… بد ذات مرد…

مطعون… بدنام زمانہ مرد…

طوائف… ناچنے گانے والا مرد…

ہجڑا۔۔ مردوں کی اعلیٰ قسم

رنڈی۔ ۔۔۔ بازارو مرد

عیاش۔۔۔۔۔ یہ بھی مردوں کی صفت ہے۔۔

کلنکنی۔۔۔۔ بدذات مرد

حرافہ۔۔۔۔ بدکار مرد۔‘‘ ۱۳؎

گھر چھوڑتے وقت ناہید کہتی ہے کہ کچھ باقی رہ گیا ہے۔ اب یہ عورت ایک باغیانہ ذہن لے کر مرد سے انتقام لینے نکلتی ہے، عورت کے لیے ایک دنیا تلاشنے نکلتی ہے، اپنا وجود تراشتی ہے۔ مرد سے انتقام لینے کا یہ سلسلہ کمال یعنی اس کے اپنے شوہر سے شروع ہوتا ہے، وہ اسے شوہر تسلیم نہ کر کے اپنی بیوی کہتی ہے۔ اسے عورتوں کی طرح ساڑی پہنانے کی ضد کرتی ہے، خود مردانہ لباس پہنتی ہے اور گھر سے باہر کمانے جاتی ہے۔ کمال کو نوکری چھوڑ کر گھر سنبھالنے کے لیے کہتی ہے۔ یہاں بظاہر وہ ایک نفسیاتی مریض لگتی ہے جو بچپن سے ظلم سہتے سہتے اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہو، مگر ایسا تھا نہیں ۔ وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ عورت کے لیے نئی دنیا بنا رہی ہے۔ ہر وہ ظلم جو مرد، عورت پر کرتا آیااب یہ وہی سلوک مرد کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔ حد یہ ہوتی ہے کہ وہ کمال کے مردانگی کے احساس کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔رات کے سناٹے میں ناہید ناز کو دیکھ کر کمال خوف زدہ ہو جاتا ہے:

’’دو ہاتھ اس کے پاؤں کے پاس سرسرا رہے تھے۔۔۔۔۔ اور اچانک اسے احساس ہوا۔۔۔۔ وہ بے لباس ہے۔ پائجامہ اتر چکا ہے۔۔۔ اور کوئی انسانی جسم اس کے ننگے پاؤں کے پاس جھکا ہوا اسے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔ میں نے صاف دیکھا تھا۔ چمکتا ہوا چاقو کا پھل۔ یہ وہ چاقو ہرگز نہیں تھا، جو کچن میں ہوتا ہے، جس سے سبزیاں کاٹی جاتی ہیں — ذہن میں آندھیاں الجھ رہی تھیں ۔ اور اس وقت کمال ایک ایسے کرب سے گزر رہا تھا۔ جسے لفظوں کا لباس نہیں پہنایا جا سکتا۔ ذہن میں انگارے برس رہے تھے۔ اور بس ہر دھماکہ یہی کہہ رہا تھا۔ یہ عورت تمہاری مردانگی کو ہمیشہ کے لئے سلانے اور ختم کرنے آئی تھی۔ یہ دنیا کی پہلی عورت ہے۔ جو اپنے ہی شوہر کی مردانگی ختم کرنے آئی تھی۔‘‘ ۱۴؎

 در اصل وہ مرد کی شکل میں بس ایک چوہا دیکھتی ہے جسے وہ خود بلی بن کر نگل جانا چاہتی ہے۔ مرد ذات سے اس کی بے انتہا نفرت آخر کار اسے کمال کو گھر سے نکال دینے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اسے دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیتی ہے، ٹھیک ایسے جیسے اب تک مرد عورت کو اس کے گھر سے نکالتا آیا ہے۔ بعدمیں وہ خود بھی گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اور دلی میں ہی ایک فلیٹ لے کر اپنی فرنڈ ماریہ کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مرد کو آنے کی اجازت نہیں ہے، وہ عورت کی دنیا خرید چکی تھی :

’ وہ دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دے گا۔ ‘

 ’بالکل صحیح—‘ کمال نے میری طرف دیکھا—’ اْس نے یہی کیا— کیونکہ وہ ایک شوہر تھی— رات دس بجے بیڈ روم کا دروازہ زور سے کھلا— جیسے زلزلے کا جھٹکا آیا ہو— میں نے دیکھا— دروازے پر ناہید تھی— اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک بڑا سا ڈنڈا تھا— منہ سے خوفناک آواز نکالتی ہوئی وہ حملہ آور موڈ میں میری طرف رہی تھی… نکلو… نکلو… یہاں سے۔ میں نے کہاتھا نا… تمہارے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ اب حد ہوچکی ہے۔ اب تم اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔‘

 ’ناہید …‘

 میرا نام مت لو… نکلو یہاں سے —‘

’کہاں ؟ پاگل ہوگئی ہو تم…‘

 ’جو بھی سمجھ لو— لیکن نکلو…اس نے اشارہ کیا… یہ لوہا ہے— میں ماردوں گی… یہیں مر جائو گے— نکلو یہاں سے —‘

میں کانپ رہا تھا—’ تم جانتی بھی ہوتم کیا کر رہی ہو— پاگل ہو گئی ہو تم —‘

’بس نکلو— ورنہ دھکے مار کر…‘ لو ہے کا ڈنڈا پاگل پن کے انداز میں گھماتی ہوئی وہ مجھے باہر والے دروازے تک لے آئی— اْس کے چہرے کا رنگ اچانک بدلا تھا— اب اْس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی— وہ غصہ سے میری طرف دیکھتی ہوئی

 چیخی— تم لوگ ایسے ہی اپنی بیویوں کو گھر سے باہر نکالتے ہو نا—؟ دھکے مارکر…؟ سوچتے بھی نہیں کہ وہ کیا کرے گی؟ کہاں جائے گی— تمہارے الفاظ اْس پر کیا اثر کریں گے؟ سب کچھ بھول جاتے ہو تم لوگ نا…؟ اب میں یہی کرنے والی ہوں … دیکھ کیا رہے ہو— نکلو باہر… باہر نکلو—‘‘ ۱۵

’’ایک دن حیران کردینے والی تبدیلیوں کے ساتھ /

یہ دنیا بدل چکی ہوگی/

کتّے گھروں ا ور سڑکوں پر سہمے ہوئے ہوں گے/

اور بلّیاں اپنے تیز نوکیلے پنجوں کے ساتھ غرّا رہی ہوں گی/‘‘  ۱۶؎

ناول میں دو عورتیں ہیں ایک صوفیہ جس نے اپنے خوف کو ہی اپنی محبت بنالیا اور ایک ناہید جس نے عورت کے لیے ایک دنیا ہی نئی بنا لی۔ عورتوں کے درد و کرب، ان کی کمزوری، ان کے استحصال کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے احتجاج اور انتقام کی کہانی کو بہت انوکھے انداز میں سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔قارئین ادب کی رائے ہے کہ ’’نالۂ شب گیر‘ کے بارے میں بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ناول موضوع کے اعتبار سے قاری کو متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت وہ اپنے آپ کو ناول سے وابستہ کر لیتا ہے کیوں کہ یہ تمام حالات اس کے اپنے عہد کے ہیں اور ان تمام واقعات سے وہ کہیں نہ کہیں گزرتا بھی ہے۔ ذوقی کا یہ ناول بلا شبہ دور حاضر کی تلخ سچائی ہے۔ کم کرداروں اور پر کشش لب و لہجہ کی بناء پر یہ ناول دلچسپ ہے۔‘‘

ناول کے آخری صفحات ناول کا پورا رنگ سمو لیتے ہیں ۔ مصنف سے ناہید کی بات چیت ثابت کرتی ہے کہ اب عورت کو مرد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا بدل چکی ہے، اس کا نظام بدل چکا ہے عورت قابل ہے اور اپنی زندگی کے فیصلے خود لے رہی ہے۔ اسے مرد کی مداخلت برداشت نہیں ۔وہ آزاد ہو چکی ہے:

’’زیادہ آزادی خطرناک بھی تو ہوسکتی ہے۔؟‘

’آزادی کبھی خطرناک نہیں ہوتی۔ توازن، غلامی، یہ سب چوہوں کے استعمال شدہ ہتھیار ہیں جسے وہ آج بھی مہذب دنیا میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اورانہیں خوف

 اس بات کا ہے کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی نے ہی اس کمزور ہتھیار کو ریجکٹ کردیا ہے۔‘

’کیا آپ کہہ سکتی ہیں کہ آپ خوش ہیں ؟‘

’کیوں ؟ کمی کیا ہے میرے پاس…؟‘ اس کی آنکھوں میں اس بار جلاد جیسی چمک تھی’ جسے آپ کمی کہہ رہے ہیں وہ بھی غیر مہذب چوہے سماج، معاشرے اور مذہب کی دہائیاں دیتے ہوئے لائے ہیں ۔‘

’فطرت؟ فطری اصول… جسم کی مانگ…؟‘میں نے غور سے ناہید کی طرف دیکھا… آپ انسان ہیں تو یہ مانگیں لازمی ہیں ۔ مرد ہو یا عورت ان مانگوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا… آپ ابھی جوان ہیں تو کیا کوئی ایسی مانگ آپ محسوس نہیں کرتیں ؟‘

میں غور سے ناہید کا چہرہ پڑھ رہاتھا۔ اس کے چہرے کے رنگ تیزی سے تبدیل ہورہے تھے۔ مجھے یقین تھا، دھماکہ ہوگا… اور میرے خطرناک لفظ اپنا کام کر گئے تھے۔اس بار وہ زور سے چیخی تھی…’گیٹ لاسٹ۔ بیٹھے کیوں ہو اب تک… اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے…‘‘ ۱۷؎

کچھ ادھورا قارئین کے فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ موضوع پورا ہوتا بھی کیسے؟ اس سنجیدہ موضوع کے لیے ابھی قلم کو اور وسعتیں تلاشنی ہیں ۔ناول کے موضوع کو سیدھے سادے انداز میں پیش کرنے میں عریانیت سے بچنا دشوار تھا۔ بات کہنے کے لیے لیے جس سلیقہ کی ضرورت تھی، ذوقی کے یہاں موجودہے۔ ان کا منفرد اسلوب اور انداز بیان کہانی کی معنویت کے ساتھ پوری طرح انصاف کرتا ہے۔ سادگی اور سحر نگاری ان کی تخلیقات کا اصل جز ہے۔ جودبے، کچلے جذبات سادگی سے عیاں کرتا ہے۔ ’نالۂ شب گیر‘ ادب کے فلک کا وہ درخشاں ستارہ ثابت ہوتا ہے جو آئندہ نسلوں کو فہم کے ایک نئے انداز سے روشناس کراتا ہے۔

حواشی

۱۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص- ۷تا ۲۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۲۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص- ۳۴، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۳۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص- ۵۱، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۴۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص- ۶۰-۶۱، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۵۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص- ۷۸، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۶۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۹۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۷۔  ’نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۸۲، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۸۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۹۴، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۹۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۹۶-۹۷، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۰۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۱۵۹-۱۶۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۱۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۱۷۳-۱۷۴، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۲۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۱۹۸-۱۹۹- ۲۰۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۳۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۳۰۹-۳۱۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۴۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۳۲۸-۳۲۹- ۳۳۰، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۵۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۳۵۱- ۳۵۲، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۶۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۳۶۳، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۷۔ ’ نالۂ شب گیر‘ از مشرف عالم ذوقی،ص-۳۹۳-۳۹۴، ذوقی پبییکیشنز، دہلی، ۲۰۱۵ء

تبصرے بند ہیں۔