سیکنڈ ہینڈ ٹیلی ویژن

محمد حسن

 مئی کا آخری عشرہ تھا اور جون اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ شروع ہونا ہی چاہتا تھا، وہ جس شہر میں رہتا تھا وہاں مئی اور جون کی ہولناکی کا خوف تھا اور نہ ہی اس کی اذیتیں اور دشواریاں تھیں، وہاں قدرت کی حد سے زیادہ مہربانی  تھی، وہ خدا کا اپنا شہر جیسا تھا، وہاں ہر خاص و عام کی زندگی سہانی تھی اور ان کا ہر پل سنہرا تھا، ہر طرف ہریالی اور چاروں طرف  خوشحالی تھی، اسلئے جون کا  سفر اس کے لئے پریشانی کا سبب اور نہ ہی کوئی رکاوٹ کی وجہ بننے والا تھا، مئی میں  ہی اس کی پڑھائی مکمل ہوگئی تھی اور جاب کے لئے انٹرویو  میں وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا، جون سے اس کی نئی زندگی کا آغاز ہونے والا تھا اور وہ تیاریوں میں  مشغول تھا، اس نے جس میدان عمل کا انتخاب  کیا تھا وہ درس و تدریس کا تھا، وہ صلاحیت و اہلیت میں ممتاز تھا اس لئے کئی بڑی کمپنیوں  میں بھی خدمت کا اس کے پاس آفر تھا لیکن اس نے  تعلیم وتعلم کے پیشے کو ترجیح کا درجہ دیتے ہوئے ایک معیاری اسکول میں خدمت کرنا پسند کیا تھا جہاں وہ  اپنے علم وآگہی کے صحیح استعمال سے ایک ایسی نسل  کوآخرت کے لئے تیار کر سکے جس کے پاس دنیاوی مواقع تو بہت تھےلیکن وہ آخرت کی فتح وکامرانی سے  شاید محروم رہے اور  ممکن تھا کہ یہی سلسلہ ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے، ہر نسل میں دنیا دین پر غالب رہے، دنیا قریب  تر آتی  جائے اور دین سے دوری بنتی جائے، جہنم کا راستہ آسان ہوجائے اور جنت کا دشوار  در دشوار ہوتا چلا جائے۔

جون کا مہینہ شروع ہوا، پوری جوش  اور ہمہ تنی سے تدریسی سفر کا آغاز ہوا، اس کی رہائش  اسکول سے تھوڑی دوری پر تھی جہاں اس کے ساتھ دوسرے مدرسین بھی  جو اس کے ہم منصب تھے  رہا کرتے تھے، صلاحیت اور اہلیت میں سب یکساں تھے، ان کے ساتھ تانا بانا جمتا، ہنسی مذاق اور قہقوں کی محفل  لگتی، دن تو مصروفیت میں کٹ  ہی جاتے لیکن راتیں اکثر کاٹنے کو دوڑتیں،  اس کی پسندیدہ چیزوں  اور اہم ضروریات زندگی کو لے کر اس کے اندر ایک جنون تھا، جس چیز  کا خیال اس کے من میں گھر کر لیتا  اور افادیت متاثر کر دیتی اس کی ہر ممکن قیمت چکانے پر راضی ہوجاتا اور اسے اپنے سنہرے سپنوں میں سجا ہی لیتا۔

معمول کے مطابق روزانہ صبح 6 بجے اسکول کے لئے روانہ ہوتااور دوپہر  ایک سے دو بجے  کے بیچ میں واپس اپنی رہائش گاہ پر پہنونچ جاتا، خردونوش کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتا اور پھیر بے کاری کا عمل شروع ہوجاتا، فکروتفکر کی دنیا کا سفر، اکتاہٹ اور مایوسی اسے بہت پریشان کرتی، اسکول کاکا م وہ بڑی ایمانداری اور چستی سے کرتا، لمحہ لمحہ افادہ اور استفادہ کے لئے صرف کرتا، ذہن  نتائج پر مرکوز کرتا، تعلیم وتربیت کا خاص لحاظ رکھتا، سیکھنے سکھانے کا عمل پوری طرح انجام دیتا، پورے نشاط اور دلجمعی کےساتھ کلاس روم کے اندر داخل ہوتا اور پوری طرح سے مطمئن ہوکر اور اطمینان دلا کر باہر کا رخ کرتا، جہاں اس کا دھیان نصاب کی تکمیل پر رہتا  وہیں  مواد کی بھرپائی کا بھی خوب جائزہ لیتا، جتنا زور یاددانی پر دیتا اتنا ہی سبق فہمی پر  بھی لگاتا گویا کہ ایک ہونہار اور تجربہ کار مدرس کا خوب رول ادا کرتا، طلبہ کی حرکات وسکنات پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر رہنمائی کی طرف ہمیشہ گامزن رہتا، بنا خاص تعلیم اور تربیت کے بھی وہ اپنی ذمہ داری کی تکمیل میں پوری محنت صرف کرتا اور کسی کو مایوس نہ ہونے دیتا۔ طلبہ کی مختلف قسموں، شکلوں اور جماعتوں کو  خوب سمجھتا اور انہیں اسی سمت میں ہدایت و رہنمائی کا سامان کرتا، جہاں اسے تیز آموز طلبہ کی فکر ہوتی  وہیں سست آموز کی فکر  بھی ستاتی، دونوں کا برابر خیال رکھتا اور نتیجہ دونوں کا مساوی اور اطمینان بخش ہوتا۔ والدین کو اپنے اولاد کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا اور ان کی ہر ممکن مدد کرتا، کسی بچے میں فرق کرتا اور نہ ہی کوئی فرق سمجھتا، ان کی تفریح اور سبق آموزی پر پورا ذہن رکھتا، اس کی ہر حرکت میں نفع اور ہر بول میں فائدہ ہوتا، ہر چہار جانب وہ چراغ کی شکل میں جلتا اور روشنی بکھیرتا، اپنی ذمہ داریوں سے جی چراتا نہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہوتا، اس کی فکر اور اس کا خیال صرف اور صرف طلبہ  کی فلاح وبہبودی اور اسکول کی ناموری کی طرف ہوتا۔ جہاں اسے سب پیار کرتے وہیں اس کی طرف عزت کی نظر سے دیکھتے اور اس کی ضروریات کا خاص خیال رکھتے، جس چیز کی اسے طلب ہوتی فورا مہیا کرا دی جاتی۔اسکول کے تئیں اس کے اوقات پوری طرح کامیاب تھے لیکن ذاتی زندگی کے خالی اوقات میں بہت بے کلی اور اکتاہٹ محسوس کرتا اس لئے سامان تفریخ  کا اسے سخت ضرورت محسوس ہوتی اور اس فکر میں ہمیشہ مبتلا رہتا۔

 ساتھیوں سے صلاح و مشورہ اور غوروفکر کے بعد اس نے ٹیلی ویژن خریدنے کا سوچ ہی لیا، سب نے  مثبت رد عمل کا اظہار کیااور ٹیلی ویژن کے سلسلے میں دیگر ضروریات کیبل، ڈیش کی   دستیابی کے ساتھ ٹیلی ویژن خریدنے کا پورا فعل عمل میں آیا۔ تین ساتھیوں نے مل کر ایک استعمال شدہ ٹی۔وی۔ خریدی اور پہلا ہفتہ بھر پور تفریخ میں گزرا،خوب منورنجن ہوا، بہت دلفریبی ہوئی، من کو لذت اور دماغ کو تازگی ملی، دنیا دنیا کی سیر ہوئی، مختلف انواع و اقسام کی سرگرمیوں سے دل کو راحت کا پل  حاصل ہوا، عجائب کا نظارہ ہوا اور دل کے دروازے کھول کر خوب تنوع کی کھوج ہوئی،بالی ووڈ سے لے کر ہالی ووڈ اور ٹالی ووڈ تک کا سفر طےہوا۔ میڈیا چینلزکے اوقات کی پابندی کی گئی، خبروں اور اشتہاروں کی یاد دانی ہوئی، فلموں کے نغمے گنگائے گئے، غزلوں کے سُرلگائے گئے، سیاسی خبروں پرجم کر بحثیں ہوئیں اور اس طرح سے ایک ہفتے میں ٹی وی جوانی کا پورا لطف دے گئی۔

ٹی وی خریدنےکی نیت میں کسی طرح سے شر کا پہلو نہ تھا، نیک خواہشات اور پاک امنگیں تھیں، نئی فکر تھی اور جوان جذبہ تھا،کسی طرح سے شر کا پہلو غالب نہ ہونے پایا،جدت حاوی نہ ہوسکی، خیال بھٹک سکا اور نہ ہی  نئی تہذیب کا رنگ چڑھ پایا، اصل سرگرمیاں جوں کا توں رہیں اور حوصلےبس لطف آشنا رہے، اثراندازی اور اثر پذیری کا شیبہ نہ رہا، فرصت کے لمحات میں، خالی اوقات میں، واجبات کی ادائیگی  اور فرائض کی تکمیل کے بعد منورنجن ہوتا رہا۔لطف اندوزی کا عمل اپنے شباب پر رہا،نت نئے انکشافات سے ذہن معمر، ہوش پختہ، عقل وسیع ہوتا رہا، گفتار فصیح ہوتی گئی اور فکر کو مہمیز لگتا گیا لیکن جیسے ہی دوسرا ہفتہ شروع ہوا، پیر کا دن آیا، ٹی۔وی۔ کے اندر خرابی نے جنم لے لی، تفریح کاعمل رک گیا اور ساری امیدوں پر مانی پھیر گیا،اس لئے کہ یہ دوسرے ہاتھ کی ٹی۔وی۔ تھی، استعمال شدہ  اور پرانی تھی،روشن چہرے مرجھا گئے اور مایوسی کا موسم چھا گیا، افسوس کے ساتھ مرمت کا ارادہ بنا، سب نے زور لگایا اور بازار لے جانے کی بات طے پائی لیکن سب یہ جان کر حیران رہے کہ کرایہ اس کی خرید قیمت سے زیادہ ہے، پھر بھی ہمت مرداں نے ساتھ دیا اور دوسری تلاش کرنے کے بجائے ٹیڑھا ہے پر میرا ہے کی طرح جوش عمل میں آیا اور ایک بار پھر دلفریبیوں کے عمل کا آغاز ہوا، چہل پہل پیدا ہوئی، یہ۔ ۔۔وہ۔ ۔شور شرابہ  اور ہنگامہ شروع ہوا،لیکن جلد ہی افسردگی چھا گئی اور ہرے بھرےچہرے مرجھا گئے، جلتے دیپ  بجھ گئے اور امیدوں کا چراغ گل ہوگیا،اس لئے کہ ٹی۔وی ایک بار پھردوسرے ہی دن خراب ہوئی پڑی تھی، کوئی بٹن کام کرتا نہ ہی کوئی ریموٹ، اس با ر سب کے جوش کو جیسے دسمبر کا پانی لگ گیا ہو، سب خاموش لیکن کوئی پیش قدمی کو تیار نہیں، سب ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے تکتے لیکن کوئی کچھ کہتا نہیں، کسی کا منہ کھلتا اور نہ ہی کوئی آواز نکلتی، ساری خوشیوں کا رنگ پھینکا پڑگیا، ساری رونقیں ماند پڑ گئیں، سارے ارادے شکست خوردہ ہوگئے، ساری محنت برباد ہوگئی اور ساری خواہشات ٹی۔وی۔ کے بوجھ تلے دب گئیں۔ اس لئے کہ سب اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ اس بار کی مرمت اور کرایہ کے خرچ میں پہلی بار ایک نئی ٹی۔وی۔ خریدی جا سکتی تھی،اب یہ دکھ کس کےمن کو بھائے، کون اس جوکھم بھری دریا کو پار کرنے کا عزم لے ہو نہ ہو ہر دوسرے دن یہ سلسلہ جاری رہے اور مہینے بھر کی کمائی ٹی۔وی۔ کی نظرہوتی رہے۔سب نے مل کر لاحول ولاقوۃپڑھی،ٹی۔وی۔ کے اوپر چادر ڈالی اور پھر سے اسکول کی طرف رواں ہوگئے، جب بھی کمپیوٹر کو دیکھتے ٹی۔وی۔ کا خیال آتا اور رہائش گاہ پر آتے ہی ٹی۔وی۔ کو یاد کرکے ہنسی پھٹتی اور قہقہ لگتا۔۔۔۔سیکنڈ ہینڈ۔ٹی۔وی۔۔۔ سیکنڈ ہینڈ۔ ٹی۔وی۔ اور خریدوگے سیکنڈ ہینڈ۔ٹی۔وی۔ بولو !!!   ہا ہا ہا ہا  !!!

تبصرے بند ہیں۔