آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ :وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

ہمارے ملک میں دینی جدوجہد کرنے والی ،اور مسلمانوں کے دینی مسائل ،عائلی زندگی اور اسلامی حقوق کے تحفظ کے لئے قابلِ قدر اور مثالی خدمات انجام دینے والی تنظیموں اور تحریکوں میں ا یک ممتاز تنظیم’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘بھی ہے ۔چوں کہ اس وقت پورے ملک میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے مرکزی حکومت کے__ طلاق وغیرہ جیسے مذہبی موضوعات پردخل اندازی دیتے ہوئے عدالت میں حلف نامہ داخل کیا گیا اور لاکمیشن یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے __ ’’یکساں سول کوڈ‘‘منصوبہ کے خلاف مہم چلائی جاری ہے اور بورڈ کے اکابرین و ذمہ داران ملک کے گوشہ گوشہ میں اس کی صدا لگانے اپیل کررہے ہیں ۔ایسے میں ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بورڈ کے تعارف اور خدمات بھی واقف ہوں اس لئے بھی کہ ایک بڑی تعداد بورڈ کی خدمات اور اس کے تعارف سے لا علم ہے ۔بلاشبہ بورڈ نے اپنے آغاز سے اب تک جو خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخِ ہند کا روشن باب ہے اور مسلمانانِ ہند کے لئے ناقابلِ فراموش احسان ہے ۔اللہ تعالی نے بورڈ کو شروع ہی سے صاحبِ بصیرت ،دوراندیش ،زمانہ شناس،نباضِ وقت ،جامع علم و عمل اور مخلص و بے لوث صدور سے نوازا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر فکروں اور خداداد فراستوں کے ذریعہ ملت اسلامیہِ ہند کی رہبری اور ان کے مسائل کے تحفظ کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں۔اورہندوستان کی تحریکوں اور جماعتوں میں بورڈ کا یہ امتیاز بھی ہے کہ یہ تمام مکاتبِ فکر اور مسالک کا متحدہ پلیٹ فارم ہے ، اس کی اتحادی قوت نے رنگارنگی پھولوں کے ذریعہ ایک ایسا مثالی گلشن بنایا کہ جس کی نظیر مشکل ہے ۔ہمارے ملک میں پائی جانے والے مکاتبِ فکر اس میں شامل ہے اس اعتبار سے بورڈ کی آواز گویا پورے مسلمانانِ ہندکی آواز ہوگی اور بورڈ کا احتجاج بلاتفریق مسلک و مشرب تمام مسلمانوں کا احتجاج ہوگا، یہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی انفرادیت ہے ۔
بورڈ کا قیام اور پس منظر:
بورڈ کے قیام سے قبل کے حالات یہ تھے کہ حکومتی سطح پر بھی متوازی قوانین کے ذریعہ اسلامی قانون کے اثر کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور بعض نام نہاد مسلم دانشور کہلانے والے بھی اس میں بڑھ چڑھ کا حصہ لے رہے تھے ،انفرادی طور پر مسلم جماعتیں اس پر اپنا رد عمل پیش کررہی تھیں لیکن ایک مضبوط قیادت اور متحدہ پلیٹ فارم کی سخت ضرورت تھی ،اس کا ادراک سب سے پہلے کرنے والے اور ان مشکل حالات میں سب کو جوڑنے کی فکر لے کر آگے بڑھنے والاامیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب ؒ تھے جنہوں نے 28 جولائی 1963 ؁ ء کو پٹنہ میں کل جماعتی مسلم پر سنل لا کنونشن منعقد کیا ،جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی ؒ کی اور افتتاح سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابو اللیث صاحب ندوی نے کیا۔اس کے علاوہ بھی دیگر جماعتوں کے ذمہ داران شریک رہے۔اس کے بعد اسی نوعیت کی عظیم کوشش برصغیر کی مشہور دینی درسگا ہ دارالعلوم دیوبند میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی نگرانی میں ہوئی۔دارالعلوم دیوبند جو تحفظ دین کے لئے پورے برصغیر میں اہم کردار ادا کرنے والا ادار ہے، اور ملت اسلامیہ ہند کی راہنمائی میں ہر دور میں دارالعلوم دیوبند اور اس کے اکابرین نے نمایاں حصہ لیا ہے ۔اس سے اٹھنے والی اس تحریک نے جلد زور پکڑا،چناں چہ 14 مارچ 1972 ؁ء میں دارالعلوم دیوبند میں اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں یہ تجویز منظور ہوئی کہ ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی تمام جماعتوں ،اداروں ،اور مکاتبِ فکر کا ایک نمائندہ اجتماع طلب کیا جائے ،اس کام کے لئے اٹھارہ افراد پر مشتمل ایک” تیاری ٹیم” تشکیل دی گئی ،جس کے کنوینر حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب ( مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند ) قرار پائے ۔چوں کہ مسلم پرسنل لا ء میں ترمیم کا آوازہ ممبئی سے بلند ہوا تھا او رریاست مہاشٹرا کی حکومت بھی مسلم پرسنل لا میں اصلاح کے لئے بہت فکر مند تھی ،اسی لئے یہ عظیم الشان اجتماع بھی ریاست مہاشٹرا کے شہر ممبئی میں ہونا طے پایا ، چناں چہ 20۔21 ذی قعدہ 1392 ؁ھ مطابق27۔28 ڈسمبر 1972 ؁ء کو ممبئی کی سرزمین پر مہاشٹرا کالج کے وسیع میدا ن میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی صدارت میں وہ عظیم الشان اور فقید المثال کنونشن منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے تمام مسلم مذہبی فرقوں ، اصلاحی اور سیاسی جماعتوں ،نمائندہ اداروں ،مختلف علاقوں اور ریاستوں کی قابل ذکر شخصیتوں ،مشہور تعلیمی اداروں ،مختلف پیشہ کے نمائندہ افراد اور مرد وخواتین موجود تھے اور ہندوستان کی تاریخ میں خلافت کمیٹی کے بعد یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور بے نظیراجلاس تھا،اس اجتماع نے ان لوگوں کی ساری آرزوئیں خاک میں ملاکر رکھ دیں جو وقتا فوقتا روشن خیال نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا مطالبہ کررہے تھے۔اس کنونشن نے بنیادی طور پر تین تجویزیں منظور کیں:1۔شریعت اسلامی کے احکام وحی الہی پر مبنی ہیں ، ان میں نہ کوئی کمی ہے جسے پوری کرنے کی ضرورت ہو ،او رنہ زیادتی جسے کم کرنے کی حاجت پیش آئے ،مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے دین ومذہب کا جزء ہیں ،پارلیمنٹ یا ریاستی مجالس قانون ساز کو اس میں ترمیم یا تنسیخ کا حق حاصل نہیں ہے ۔2۔یہ اجلاس متبنی بل 1972ء کو اپنی موجودہ شکل میں قانون شریعت میں مداخلت سمجھتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اس سے مستثنی قراردیا جائے۔3۔یہ کنویشن اپنے فیصلوں کو بروئے کار لانے کے لئے’’ آل انڈیا مسلم پر سنل لابورڈ‘‘تشکیل کرتا ہے جو ہمیشہ ہر فرقہ مسلم کے علماء ،ماہرینِ شریعت ، مسلم قانون داں اور ملت کے اربابِ حل وعقد پر مشتمل ہوگا۔
بورڈ کے اغراض ومقاصد:
مسلم پرسنل لا بورڈ کے درج ذیل مقا صد بطور خاص طے پائے ۔1۔ہندوستانی مسلمانوں کو اس معاملہ میں باشعور رکھنا ،نیز پارلیمنٹ،صوبائی مجلس ساز قانونی اور عدلیہ میں زیر بحث آنے والے ایسے تمام قوانین اور اس کی تشریح پر نگاہ رکھنا،جس سے بالواسطہ یا براہِ راست مسلم پرسنل لا متاثرہوتا ہو نیز مثبت انداز میں محمڈن لا کاجائزہ لینا اور مختلف دبستانِ فقہ سے استفادہ کرتے ہوئے مناسب حدود میں واقعی دشواریوں کو علماء ،ماہرینِ شریعت اور علوم اسلامیہ پر گہری بصیرت رکھنے والے اہل علم کے باہمی مشورہ سے حل کرنا۔2۔مسلمانوں کو عائلی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام وآداب ،حقوق وفرائض اور اختیارات سے واقف کرانا اور اس سلسلہ میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا ،مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر اور فرقوں کے مابین خیر سگالی اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذب کی نشوونما اور مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لئے ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
بورڈ کے صدور وذمہ داران:
ممبئی کے اس تاریخ ساز کنونشن کے بعد بورڈ کے اغراض و مقاصد اور دیگر امور کے سلسلہ میں 7۔8اپریل 1973 ؁ء کو بورڈ کااجلاس شہر حیدرآباد میں منعقد ہوا،اس اجلاس میں بورڈ کا دستور اساسی منظور ہوا ،اور عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں آیا ( ملخص از: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ : خدمات اور سرگرمیاں)بورڈ کے پہلے صدربا لاتفاق حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحبؒ اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب ؒ منتخب ہوئے۔17 جولائی 1973 ؁ء کو قاری طیب صاحب ؒ کے انتقال کے بعد بورڈ کے دوسرے صدر28 ڈسمبر 1983 ؁ء میں چنئی کے اجلاس میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ منتخب ہوئے ۔31ڈسمبر 1999 ؁ء میں حضرت علی میاں ندوی ؒ کا انتقال ہوا ،23 اپریل2000؁ء کو لکھنو کے ایک خصوصی اجلاس میں فقیہ اسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب ؒ بورڈ کے تیسرے صدر منتخب ہوئے 4 اپریل 2002 ؁ ء میں قاضی صاحب انتقال فرما گئے ،ان کے بعد 23 جون 2002 ؁ء میں جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدر آباد میں منعقدہ اجلاس میں موجودہ صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کا چوتھے صدر کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا ۔( اللہ حضرت کی عمر میں برکت عطا فرمائی اور آپ کا سایہ تادیر باقی رہے )بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب ؒ کا انتقال ۱۹مارچ 1991 ؁ء میں ہوا ،ان کے بعد حضر ت مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت (بہارو اڑیسہ )مئی 1991 ؁ء میں بورڈ کے جنرل سکریڑی منتخب ہوئے ،اور ایک طویل معیاد آپ نے بورڈ کی ذمہ داری سنبھالی اور 17 اکٹوبر2015 ؁ء میں آپ کا انتقال ہوا ،اس وقت اس عظیم منصب پر ملک کے ممتاز عالم دین ،صاحبِ نظر مفکراور دوررس مدبر حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب مدظلہ فائز ہیں ۔ان کلیدی عہدوں کے علا وہ نائب صدور میں مختلف مکاتبِ فکر کے حضرات شروع سے شامل رہے ہیں ۔
خدمات اور کارنامے:
اللہ تعالی نے بورڈ کے ذریعہ اہم کام انجام دلوائے اور ملت اسلامیہ کے لئے بورڈ نے بڑی قابل قدر کوششیں اور کامیاب نمائندگی اور بروقت رہبری کا فریضہ انجام دیا ، بورڈ کی خدمات اور مختلف اوقات نے بورڈ نے جو اہم ترین فیصلے قبول کروائے اس کی ایک مستقل تاریخ اور طویل موضوع ہے ۔مختصر یہ کہ1973ء میں مسلم مطلقہ کے تاحیات نفقہ کے سلسلہ میں ،متبنی بل کے خلاف،اوقاف کی آمدنی پر ٹیکس کے خلاف،شاہ بانو کیس،مرکزی مدرسہ بورڈ کی مخالفت،مجموعہ قوانین اسلامی کی اشاعت،معیاری نکاح نامہ کی منظوری،بابری مسجد کی بازیابی کی جدوجہد، اس کے علاوہ بھی بورڈ نے بڑے اہم چیلنجز کو قبول کیا اور ہر ممکن اس کا کامیاب دفاع کیا۔
بورڈ کابنیادی کردار:
بورڈ کی اہمیت اور اس کے اہم وبنیادی کردار سے متعلق موجودہ صدر حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب فرماتے ہیں کہ:مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستان مسلمانوں کے دینی وقار و شرعی تحفظ کے لئے قائم کیا گیا ہے ،یہ تمام مسلک ومکتب فکر کے علماء کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ،جو ملت اسلامیہ کے اتحادکی عظیم شناخت ہے ،بورڈ دینی معاملات اور شرعی معاملات میں دخل اندازی کرنے والوں کے خلاف ہمیشہ سینہ سپررہا ہے ۔یہی اس کی بنیادی کارکردگی ہے ۔( مسلم پرسنل لا : کام اور پیغام :77)
دین اوردستوربچاؤ تحریک:
بورڈ اپنے روزِ قیام سے اسلامی آزادی پر لگائے جانے والی پابندیوں اور دینی تعلیمات کے خلاف شروع کی جانی کوششوں کا پر زور دفاع کیا ہے ،چناں چہ اس وقت بورڈ نے حالات اور مرکزی حکومت کے ناروا رویہ کی وجہ سے ملکی سطح پر دین اوردستور بچاؤتحریک شروع کی ہے،کیوں کہ ملک کے سیکولردستور میں دئیے گئے حقوق کو مختلف بہانوں سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اور مسلمانوں کی نئی نسل کودین سے دور کرنے کی منظم اور منصوبہ بند سازش رچی جارہی ہے ،یوگا ، سوریہ نمسکار اور وندے ماترم کو مرکزی حکومت نے اسکولوں میں نافذ کرنے کا اعلان کیا ، اورنصاب میں وید ، گیتا ،اور رامائن کی تعلیم کی بات کررہی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکولوں میں پڑھنے والے مسلمان بچے اور بچیوں کے ایمان میں کمزوری آئے گی اور وہ آہستہ آہستہ دین سے دور ہوتے جائیں گے۔انہی حالات کے پیش نظر بورڈ کے ذمہ داران نے جئے پور کے اجلاس میں ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔۷ جون 2015 ؁ ء کی مجلس عاملہ لکھنو میں باضابطہ تفصیلی تجویز منظور ہوئی۔بورڈ نے اس تحریک کے لئے ان طبقوں کو ساتھ لینے کا فیصلہ کیا جن کو حکومت کے طریقۂ عمل سے کسی بھی طرح تکلیف پہنچ رہی ہے اور حکومت کی روش سے مطمئن نہیں ہیں،اور ان طبقوں اور فرقوں کا ایک اجلاس دہلی میں طلب کیا گیا،جس میں ان کے ذمہ داران نے شرکت کی اور عہد کیا کہ ہم درج ذیل مقاصد کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں گے:(1) ملک کے آئین کے تحفظ اور اس کی بنیادی اقدار،سیکولر زم،انصاف،آزادی ،مساوات اوربھائی چارگی پر عمل درآمد کو یقینی بنانا۔(2)تعلیمی نظام اور نصاب کے سیکولر اور سائنٹفک مزاج اور کردارکے تحفظ اور اس کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر قدم کے خلاف جدوجہد۔(3)ہم کو ملک کی کسی بھی سماجی یا مذہبی اکائی کو عقیدہ ومذہب کی آزادی سے محروم کرنے والی ہر کوشش کی پر زور مخالفت۔(4)ہر ایسے قدم کی مخالفت جو بھارت کے غریب عوام کی خوش حالی ،تعلیم ،صحت اور سماجی تحفظ کے تئیں ریاست کی ذمہ داری کو کم کرے۔( مستفاد:دین اور دستوربچاؤتحریک:کیا اور کیوں؟)
یکساں سول کوڈ کے خلاف مہم:
اس وقت مرکزی حکومت نے ایک نیا شوشہ’’ تین طلاق‘‘ کے خلاف چھوڑدیا اور اسے غلط قراردیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کردیا ۔طلاق کو بہانہ بناکر دراصل یہ شریعتِ اسلامی کو نشانہ بناناچاہتے ہیں ،تاکہ ’’یونیفارم سول کوڈ ‘‘نافذ کیا جاسکے ،اور اس کے ذریعہ مذہبی آزادی اور عمل آوری کے اختیارات سلب کرلئے جائیں اور سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا جائے ،یقیناًیہ حکومت کا بہت ہی خطرنا ک اقدام ہے ،وہ اس کے ذریعہ اپنی دیرینہ آرزو پورا کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان اپنے تشخص اور امتیاز کے ساتھ نہ رہ پائیں اور وہ بھی یکساں سول کوڈ کے زمرہ میں آجائے ۔ لہذا حکومت کے اس اقدام کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ اور متحدہ تنظیم ’’آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ‘‘ نے لاکمیشن کے سوالنامہ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور کسی بھی صورت حکومت کا شریعت اسلامی میں مداخلت کرنا ناقابلِ برداشت قراردیا ہے ،مسلمان اپنے دستوری حق کے ساتھ اپنی شریعت اور اپنی تعلیمات پر عمل کریں گے اگر حکومت مسلمانوں کے خلاف سازش کرتی ہے تو یہ اس کے بدباطن ہونے کی علامت ہے اور اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کے برابر ہے۔مرکزی حکومت ملک کی خیرخواہی کے بجائے اس کی ہمہ رنگ تہذیب کے خلاف جارہی ہے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے منصوبہ بند سازشوں کو بروئے کار لانے کے آئے دن ایسے شوشے چھوڑتی ہے ،اس صورت میں ہمیں اپنے اکابرین اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین کے فیصلوں ساتھ پوری فکر مندی اور مستعدی کے ساتھ لگے رہنا چاہیے۔
آخری بات:
مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانانِ ہندکا متحدہ پلیٹ فارم ہے اور مضبوط قیادت ہے، اس لئے بورڈ کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے لوگوں کو آگاہ کریں ،اس کاتعارف اور خدمات بے خبر افراد کے سامنے پیش کریں اور بورڈ نے اس وقت جو فیصلہ لیا اس کو کامیاب بنانے اور اپنے دین و دستور کے تحفظ کے لئے ہمیں اس تحریک کو بامقصد بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش و جدجہد کرنا چاہیے اور اس کے اجتماعات میں اپنی شرکت کے ذریعہ اپنی ملی اور قومی بیداری ثبوت دینا چاہیے تاکہ ہمارا احتجاج ملک اور قوم دشمن عناصرکواپنے عزائم و ارادوں کی تکمیل میں ناکام کردے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔