دروازہ گل : ضیاء حسین ضیاء

مشرف عالم ذوقی
ادب کی خانقاہ میں ایسے لوگ بھی ہیں ،جو برسوں سے ریاضت میں لگے ہیں .اور بے نیازی ایسی کہ انھیں اس فانی دنیا سے کسی حاصل یا انعام کی پرواہ نہیں …جگر کے لفظوں میں کہوں تو ..انکا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہچے ..ضیاء حسین ضیاء …کیی کتابوں کے مصنف ..ابھی میں نے ان کے صرف دو ناولوں کا مطالعہ کیا ہے …
دروازہ گل – ما بین –کیا کبھی آپ کا کسی ایسے باغ میں جانا ہوا ہے ،جہاں تاریکی میں ہزاروں جگنو ایک ساتھ جھلملا رہے ہوں …کسی ایسے مقام پر جہاں خوشبوؤں کا بسیرا ہو …پھول جھڑنے کا محاورہ صرف کتابوں میں پڑھا … لفظوں سے ایسے پھول جھڑتے ہوں کہ وادی حیرت کا ایک انجانا دروازہ ، کھل جا سم سم کہے بغیر آپکو ایک ایسی طلسمی دنیا میں لئے جاتا ہو جہاں سے واپس آنے کا دل نہ کرے . …خوشبو ایسے ہم سفر ہو کہ آپ اس کی اسیری سے آزاد نہ ہونا چاہیں …اور محسوس ہو کہ صفحۂ قرطاس پر لفظوں کی جگہ لا تعداد جگنوؤں نے لے لی ہو …اور جگنوؤں کے پروں سے نکلتی شعاؤں نے آپکی نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہو …
میں نے اس سے قبل لفظوں کا ایسا انتخاب کہیں نہیں نہیں دیکھا ..حسرت موہانی  نے کہا تھا ….جب سے دیکھی ابو الکام کی نثر  -نظم حسرت میں کچھ مزہ نہ رہا ..یہاں بھی معاملہ کچھ کم نہیں ….ایک دریا رواں ہے .ایک آبشار ہے جو تھمتا نہیں …دنیا کی حسین موسیقی جو باطن میں رس گھول رہی ہے ..ان دونو ں ناولوں میں اگرچہ موضوع مختلف ہیں ، لیکن اس حقیر دنیا کو جاننے اور سمجھنے کی جو کوشش نظر آتی ہے ، اس نے مجھے وجد کی کیفیت میں پہچا دیا ہے ..ہمیں کیا خبر کہ آسماں کی طرف کیا ہو رہا ہے ..ارواح جو نفس سے رابطہ گناہ میں ہیں ،انکا انجام کیا ہوگا ؟ دنیا کے قید خانے اور خواہشات نفس کی غلامی کا بار اٹھانے والے اصل چمن کی لذّت سے کیوں کر واقف ہوں …ایک نہ ختم ہونے والا مکالمہ ہے …جسم سے روح ،ظاہر سے باطن کی نہ ختم ہونے والی پرواز ہے …ہر سطر آپکو روکتی ہے ..ہر صفحہ آپکو ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے …اس ناول میں زیادہ کردار نہیں .ایک مرد دو عورتیں …مرد کو اپنی بیوی سے محبت ہے .لیکن اچانک مرد کی زندگی میں ایک عورت آ جاتی ہے .یہ افسانے بار بار دھراہے گئے ہونگے .لیکن اس ناول کی فضا مختلف ہے .ان تین کرداروں کے بہانے زندگی سے زیادہ انسانی روح کو سمجھنے کی کوشش  کی گی ہے ..ناول نگار نے انسانی زندگی اور ارواح سے متعلق جو سوالات پیدا کے ہیں ،وہ عام قاری کے لئے آسان نہیں …ضیاء اس ناول میں انسانی ذات و صفات کے بہانے تصوف اور اسکے منازل کی  سیر کراتے ہیں …اس ناول کا اختتام بھی عام  ناول سے مختلف ہے .یعنی آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اگلے لمحے کون سے حادثے جنم لینے والے ہیں …. ضیاء کے لفظوں میں ،یہ اس شخص کی کہانی ہے جو مفروضے سے محال ہدف بھی شکار کر لیتا تھا -اسکا راستہ تو دلیل بھی نہ روک سکی .اچانک ایک دن اسے وجودی برہان نے آ لیا اور پھر ….دروازہ گل سے باہر  کانٹوں کا ایک جنگل آباد تھا .

تبصرے بند ہیں۔