تین طلاق کا مسئلہ : انسانیت اور شریعت کے میزان میں

محمد شاہد خان ندوی

دوحہ قطر

میرے شعور کی عمر تقریبا پچیس سال ہوگی اور اس عرصہ دراز میں میں نے بارہا تین طلاق کے مسئلہ کو ہندوستانی میڈیا میں پانی کے بلبلہ کی طرح اٹھتے اور بیٹھتے دیکھا ہے، جب بھی یہ مسئلہ اچھالا جاتا ہے اسکے پس پردہ غیروں کے کچھ نہ کچھ مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں  لیکن ہمارے علماء کرام اور مفتیان عظام ہمیشہ اسے غیروں کی سازش بتانے کے باوجود جانے انجانےمیں اس سازش کا شکار ہوجاتےہیں اور اس مسئلہ کے قانونی و تکنیکی پہلوؤں اور اسکی تنفیذ کے مسائل قانون دانوں سے سمجھنے کے بجائےاس آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں جسے ہمیں خاکستر کرنے کیلئے لگائی جاتی ہے  ، ہندوستان میں فلمی اور کھیل کود کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سارے اسٹار ہیں جو کبھی بھی کسی مفتی یا مولانا سے فتوی پوچھنے نہیں جاتےلیکن کوئی بھی شخص ان کےتعلق سے استفتاء کرلے تو مفتیان کرام کو فتوی صادر کرنا لازمی ہوجاتا ہے جو کہ خود ایک غیر مناسب طرز عمل ہے اور بالآخرمیڈیا میں تضحیک کا سبب بھی بن جاتا ہے شادی اسلامی شریعت میں ایک مقدس عمل  ہے اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت  میں نکاح کی بہت ساری شکلیں رائج تھیں لیکن رفتہ رفتہ اسلام نے ان ساری شکلوں کو ختم کردیا جو کہ ایک متعینہ مدت تک کیلئےکسی عورت کے ساتھ تعلقات کے بندھن میں بندھے رہنےکی اجازت دیتی  تھیں  جس کے نتیجے میں عورت ایک بازاری جنس بن کر رہ جاتی تھی ، اسلام نے بتایا کہ نکاح ایک مقدس فریضہ ہےاور عورت معمارِ انسانیت ہے ،انسانی معاشرے میں اسکی بھی قدرومنزلت وہی ہے جو ایک مرد کی ہے البتہ ان کی طبعی ساخت کے پیش نظر دونوں کے میدان کار الگ الگ متعین کردیئے گئے ہیں اور گویا دونوں گاڑی کے دوپہئے ہیں جن کے بغیر زندگی کے قافلے کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔
جب کسی مرد کا کسی عورت سے نکاح ہوتا ہے تو گویا ایک ادارے کا وجود عمل میں آتا ہے اور میاں بیوی مل کر  اس ادارے کو آگے بڑھاتے ہیں ، افزائش نسل سے لے کران کی تعلیم و تربیت، بوڑھے والدین کی نگہداشت اسکے بعد افراد خاندان اور پھر پورے معاشرے کی تعمیر وترقی میں اس ادارہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے
اسلئے اس ادارہ کا بہتر شکل میں چلنا ضروری ہوجاتاہے  اور جب بھی وہ ادارہ متاثر ہوتا ہے اس ادارے کےسارے افراد متاثر ہوتے ہیں اسلئے جہاں تک بھی ممکن ہوسکے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نباہ کرنا چاہئے لیکن اگردونوں کا آپس میں نباہ کرنا انتہائی ناممکن ہوجائے اور زندگی جنت نظیر بننے کے بجائے جہنم کی مثال بن جائے تو ایسی صورت میں علیٰحدگی کی شکل بتا دی گئی ہے کہ ممکن ہے علیحدگی ہی میں خیر ہو اور اس علیٰحدگی کا اختیار میاں بیوی دونوں کو دے دیا گیا ہے ،جہاں مرد کو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے وہیں عورت کو خلع لینے کا بھی حق دے دیا گیا ہے لیکن یہاں موضوع بحث طلاق کا مسئلہ ہے اور طلاق کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ ‘ ابغض الحلال عند الله الطلاق ‘ یعنی اللہ تعالی کےنزدیک حلال کردہ چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ‘لیکن اسلام نے وہ طریقہ ہرگز اختیار نہیں کیا جو ہندو دھرم میں رائج ہے کہ شادی کے بعد اگر ایک اچھے ادارہ اور خاندان کا وجود عمل میں نہ آسکے اور ازدواجی زندگی کے تقاضے پورے نہ ہورہے ہوں تب بھی ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیار کرنا اور ازسر نو زندگی کو بسانا نا ممکن ہو۔ دین اسلام علیٰحدگی کو ہرگز بڑھاوا نہیں دیتا بلکہ اس کے سد باب کے سارے ذرائع اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے اور آخری لمحہ تک اس مقدس رشتہ کی حفاظت چاہتا ہے لیکن ناگزیر حالات میں کچھ شروط و ضوابط کے ساتھ  علیٰحدگی کی اجازت بھی دیتا ہے۔ جس طرح نکاح غصہ کی حالت میں یا راہ چلتے یا بغیر گواہ یا ولی کے انجام نہیں پاتا اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی انجام نہیں پانا چاہئے لیکن افسوس کہ ہماری ناعاقبت اندیشی جہالت اور مقاصد شریعت  کو پیش نظر نہ رکھنے کے سبب دین اسلام کا آئے دن مزاق بنتا رہتا ہے  دراصل اسلام میں تین طلاق ایک بار کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ  اس مقدس ازدواجی رشتہ کو بچانے کیلئے تین چانس ہے ۔ طلاق کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اسے پورےہوش وحواس میں اور گواہوں کی موجوگی میں قاضی کے سامنے یا خاندان یا معاشرہ کے ذمہ دار افراد کی موجودگی میں  دیا جائے اور صرف ایک طلاق دی جائے اور پھر چھوڑ دیا جائے تاکہ متعینہ مدت میں اگر عقل ٹھکانے آجائے اور شوہرپھر سے اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے خواہشمند ہو تو رجوع کر سکے اور متعینہ مدت گزر جانے کے بعد بھی اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے ازسر نو نکاح کے ذریعہ سے وہ اپنے خاندان کو بچاسکے ،اور یہ چانس پوری زندگی میں صرف تین بارہے جس شخص نے یہ تینوں چانس گنوا دیا پھر اسکیلئے بغیر حلالہ کے اپنی بیوی کو واپس پانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں بچتا ہے اور حلالہ کے سلسلہ میں حضور پاک صلعم نے فرمایا ہے کہ ‘لعن الله المحلل والمحلل له ‘ یعنی اللہ تعالی نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت بھیجی ہے یعنی یہ کام منصوبہ بندی کے ساتھ نہ ہو بلکہ اس خاتون کی کہیں اور شادی ہوجائے اور پھر نہ نبھنے کی صورت میں طلاق ہوجائے تبھی اس خاتون سے دوبارہ وہ پہلا شخص نکاح کرسکتا ہے
تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد اب حلالہ جیسے کٹھن مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی مرد اس خاتون کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے حلالہ کوئی مطلوب عمل نہیں بلکہ مرد کیلئے وہ ایک سزا ہے کہ جسے زندگی میں اپنی غلطی سدھارنے کیلئے تین مواقع ملے اور ان تینوں موقعوں کو اس نے ضائع کردیا تو گویا اب وہ اس عورت کے ساتھ رہنے کا سزاوار نہیں ہے اب وہ عورت کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی آباد کرسکتی ہے اگر طلاق کا اختیار مرد کو تین بار سے زیادہ دیا جاتا تو وہ پوری زندگی اس کا غلط استعمال کرتا رہتا اور عورت ایک کھلونا بن کر رہ جاتی لیکن تین چانس دینے کے بعد شریعت عورت پر شوہر کا استحقاق ختم کردیتی ہے لیکن افسوس کہ طلاق کے تعلق سے سماج کی تعلیم وتربیت بالکل بھی نہیں کی گئی  اور ہمارے علماء بعض فقہی مسالک کےاسیر بن کر رہ گئے  اور انھوں نے مقاصد شریعت کی ان دیکھی کی  بلکہ انھیں لگتا ہے کہ ان کا یہ عمل عین شریعت کے مطابق ہے جبکہ فقہ ہمیشہ حالات و ضروریات کے تابع ہوتی ہے اور حالات و ضرویات کی رعایت نہ کرنے کی وجہ آئے دن یہ موضوع میڈیا میں تمسخر کی وجہ بنتا رہتا ہے
اللہ کے رسول کے زمانے میں تین طلاق ‘ تین شمار نہیں کی جاتی تھی بلکہ اسے ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ایک دفعہ آنحضور کے زمانہ میں تین طلاق کا معاملہ پیش آیا تو آپ صلعم انتہائی غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ کیا میرے جیتے جی دین کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے گا۔ حضرت عمر رضہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدیا اور جب آپ صلعم کو خبر ہوئی تو آپ کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھا اور فرمایا کہ اس سے کہدو کہ اگر اسے طلاق دینا ہی ہے تو حالت طہر میں دے اور حالت حیض میں دی گئی طلاق کو آپ نے کالعدم قرار دیا لیکن حضرت عمر رضہ کے دور میں جب طلاق کثرت سے دی جانے لگی اور انھیں محسوس ہوا کہ اس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے تو طلاق کے سد باب اور مقاصد  شریعت ومصالح حکومت  کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ اب جو شخص بھی تین طلاق دے گا اسے تین ہی شمار کیا جائے گا تاکہ لوگ سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھائیں لیکن ان کے اس فیصلے کوآج تک لوگ لکیر کی طرح پیٹ رہےہیں اور بدلتے ہوئے حالات میں مقاصد شریعت کو نظر انداز کررہے ہیں۔
دین اسلام سراپا رحمت ہے اور جب وہ پوری انسانیت کیلئے رحمت بن کر نازل ہوا  ہے تو پھر بھلا وہ اپنے ماننے والوں کیلئے زحمت کیوں کر ہوسکتا ہے  اللہ کے رسول صلعم نے فرمایا کہ ‘يسّروا ولا تعسروا و بشّروا ولا تنفروا ‘(متفق عليه )لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرو دشواریاں نہیں ، لوگوں کو بشارت دو ،بدکاؤ نہیں۔ احادیث میں یہ بھی آتا ہے ‘ ما خير رسول الله صل الله عليه وسلم بين امرين الا اخذ  ايسرهما (صحيح مسلم )یعنی جب بھی حضور اکرم صلعم کو دو معاملوں میں اختیار دیا جاتا تھا تو آپ آسان معاملے کو اختیار فرمایا کرتے تھے حضور پاک صلعم نے مزید فرمایا کہ ‘ان الدين يسر ولن يشادالدين احد الاغلبه ، فسددوا وقاربوا وابشروا(متفق عليه) یعنی دین آسان ہے اور جس کوئی بھی شخص دین میں شدت پسندی اختیار کرے گا وہ خود دین سے تھک جائے گا اسلئے سیدھے راستے کی رہنمائی کرو ، نزدیکیاں بڑھاؤ اور بشارت دو۔ حضور اکرم صلعم نے مزید فرمایا کہ ‘ان خير دينكم أيسره ( مسند احمد ) يعني بہترین دین وہ ہے جو آسان ہو۔ دین اسلام جو رحمت بھی ہے اور آسان بھی  اور جہاں ازدواجی رشتوں کو بکھراؤ سے بچانے کیلئے اسقدر شدت اختیار کی گئی ہے وہاں یہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح یکلخت ایک مجلس میں اور ایک جھٹکے میں اس رشتہ کو ہمیشہ کیلئے مٹا دیا جاتا ہے مقاصد شریعت و مصالح حکومت کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے طلاق کے علاوہ بہت سارے ایسے فیصلے کئے جو بظاہر شریعت کے خلاف ہیں لیکن وہ عین حالات کا تقاضا تھے مثلا اہل کتابیہ سے نکاح کی اجازت نہ دینا حالت جنگ میں چوری کی سزا کےحد کا  نفاذ نہ کرنا ، تراویح کی رکعتوں کو بڑھا کر بیس کردینا وغیرہ یہ وہ فیصلے تھے جو اس وقت کے حالات کے متقاضی تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے یہ فیصلے حضور پاک صلعم کی کسی سنت کو منسوخ کرتے ہیں بلکہ ضرورت ِحالات کے مطابق انھوں نےبڑے اور ضروری فیصلے کئے اور ان فیصلوں کو چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کے فیصلوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حالات و ضروریات کے مطابق آج بھی اسطرح کے فیصلے کئے جانے چاہئیں جو انسانی معاشرےکو بہتری کی طرف لے جائیں ورنہ پھر ایسا مذہب کس کام کا جو انسانیت کی فلاح وبہبود کی ضمانت دینے کے بجائے اسےقرون جاہلیۃ کی طرف دھکیل دے پس چہ باید کرد :

1-اسلئے جہاں ہم مسلم پرسنل لاء میں حکومت کی مداخلت کی پرزور مخالفت کرتے ہیں وہیں ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک ساتھ ایک مجلس میں تین طلاق کے تین واقع ہونے کی حمایت بھی نہیں کرسکتے

2- مسلم پرسنل لاء بورڈ کو چاہئے کہ وہ ایسے عائلی قوانین مرتب کرے جو ایک اچھے اور آئیڈیل اسلامی معاشرے کو پروان چڑھا سکے۔

3– جگہ جگہ شرعی دارالقضاء کے قیام کے ساتھ ساتھ فیملی کنسلٹنسی کے اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا جانا چاہئے جو طلاق سے پہلے زوجین میں افہام وتفہیم کرانے کی کوشش کریں تاکہ معاملہ طلاق کی نوبت تک نہ جاپہونچے۔

 4 ۔ نکاح اور طلاق دونوں ہی معاملات بذریعہ کورٹ ( دارالقضاء ) انجام پائیں  یا جب تک طلاق پورے ہوش وحواس میں دارالقضاء یا زوجین کے خاندان یا معاشرہ کے بڑے ذمہ داروں کی موجودگی میں نہ دیا جائے اسوقت تک طلاق کو کالعدم سمجھا جائے۔ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک میں نکاح و طلاق کے قواعد و ضوابط مرتب ہیں اور وہاں نکاح یا طلاق کیلئے کورٹ کی کاروائی کرنا ضروری ہوتا ہے تبھی نکاح یا طلاق کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہندستان میں طلاق کا مسئلہ ایک انارکی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسلام سراپا رحمت ہے اور شریعت اسلامی کو وقت اور زمانے کی ضروریات کے مطابق ڈھالنےاور نئی تعبیرو تشریح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے  کیونکہ انسانی زندگی میں ٹھہراؤ نہیں اور جو بھی نظام ترقی پذیر معاشرہ کا ساتھ دینے سے قاصر ہوجاتا ہے تو معاشرہ خور اس کا ساتھ چھوڑ نے لگتا ہے اوربالآخر وہ مرور ایام کے ساتھ ایک فرسودہ نظام کا حصہ بن جاتا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔