15؍اگست

      عبدالعزیز

15؍اگست کادن مشہورہے۔ اسی دن انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان آزادہوا۔ آزادی کی لڑائی میں بیشمارلوگوں نے حصہ لیا۔ مجاہدین آزادی کی قربانیوں کوملک کے باشندوں کونہیں بھولناچاہئے۔ آزادی کے لئے ان گنت لوگوں نے اپنی جانیں نچھاورکیں۔ آزادی جوملی ہے اس آزادی کی قدرہونی چاہئے اسے ہرقیمت پربچانے کی کوشش کرنی چاہئے مگریہ آزادی اس وقت مکمل ہوگی جب ملک کے ہرفردکومعاشی آزادی (Economic freedom)نصیب ہوگی۔ ہرکوئی ملک کے وسائل وذرائع سے یکساں فائدہ حاصل کرسکے گا، غربت اورافلاس کاخاتمہ ہوگا، ہرایک کودووقت کی روٹی آسانی سے میسرہوگی۔ غریب اورامیرکافرق کم سے کم ہوجائے گا۔ مٹھی بھرخاندان کے ہاتھوں میں پورے ملک کی دولت نہیں ہوگی۔ جن لوگوں نے ملک کے ۷۰ فیصدسے زائدوسائل وذرائع کوقبضہ کررکھاہے ان کے چنگل سے آزادکرناانگریزوں سے ملک کوآزادکرانے سے زیادہ دشوارہے کیونکہ یہ کالوں پرکالوں کی غلامی ہے۔

        15؍اگست 1947ء کویقیناسیاسی آزادی ملک کونصیب ہوئی۔ مجاہدین آزادی نے ملک کوایک جمہوری اورسیکولرملک بناناچاہالیکن آزادی سے پہلے جولوگ انگریزوں یاانگریزی حکومت کے مددگاراوروفادارتھے ان کامنصوبہ تھاکہ انگریزوں کے بعدملک میں ایک خاص مذہب اورایک خاص قسم کی سنسکرتی (کلچر) کاغلبہ ہو، بدقسمتی سے آج ملک میں وہی برسراقتدارہیں جس کی وجہ سے ملک میں اکثریت پرستی (Majoritism) کی حکومت ہے۔ اقلیت خاص طورسے مسلم اقلیت کوراندۂ درگاہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معاشی لحاظ سے جولوگ کمزورہیں اورجوصدیوں سے چھوٹی ذات (Backward cast)کے نام سے ستائے گئے ان کوبھی حاشیہ پرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پسماندہ طبقہ اپنے حقوق کے لئے اُٹھ کھڑاہواہے۔ مسلمان فرقہ پرستی کی آگ نہ پھیلے۔ اس کے لئے اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے سے قاصرہیں۔

        ملک کے مشہورفلاسفراورسابق صدرجمہوریہ ہندایس رادھاکرشنن نے جواہرلال نہروکے بارے میں اپنی کتاب "our Heritage”میں لکھاہے کہ  :

When we see sometimes people grow somewhat despondent, it is essential for us to know that in a parliamentay demorcacy the majority has its responsbities as well as minority. Both of them have their rights and their obligations.

(جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ مایوسی اورناامیدی کے شکارہیں توہمارے لئے یہ جانناضروری ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں جس طرح اکثریت کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح اقلیت کی بھی ذمہ داریاں ہیں دونوں کے حقوق اورفرائض ہوتے ہیں )

31فیصدووٹ لے کرجن لوگوں کی حکمرانی ہے وہ اگرچہ اکثریت میں نہیں ہیں مگرجمہوریت کی خامیوں کی وجہ سے وہ اکثریت کونہ صرف نظراندازکررہے ہیں بلکہ اکثریت اوراقلیت سب سے ملک کوآزادکرنے کانعرہ بھی بلندکررہے ہیں۔ وہ ایک ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں اپوزیشن نام کی کوئی چیزنہ ہووہ آسانی سے ملک میں من مانی کرسکیں اوران کی آمریت مستحکم اورمضبوط ہوجائے۔ ملک کوایسی ذہنیت سے بچانے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑسکتی ہے۔

        اس ذہنیت کے لوگ سیکولرزم کاجومطلب اورمفہوم اپنی طرف سے واضح کررہے ہیں وہ بھی انتہائی غلط ہے، ایک خاص مذہب اورکلچرکی حکمرانی کے لئے ایسی حرکت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ رادھاکرشنن نے اپنی کتاب Our Heritage میں نہروکے خیالات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ:

"Secularism is a principle which he (Nehru) gave us. It is a wrong word – wrongly interpreted and misunderstood by many people. It does not mean indifference to religion. It does not mean disrespert to ‘rreligion. It only means that the State as such is not identified with any particular religion but tolerates every religion, appreciates every religion, respects all religions – Hindu, Buddhist, Moslem, Christian, etc. They all have a claim to prevail, to practise their own forms, and in a democracy we should not say that any one particular religion is more exalted than another. Individuals may think whatever they please, but so far as the State is concerned it is not identified with any religion, it respects all religions. When it respects all religions, it is merely a practice of the fundamental principle of the Indian genius, of the Indian spirit itself. We said long ago in the Rg Veda : ekam sad viprah bahuvadha vadanti. We said again in Upanisad :We have nothing to do with this particular god or that; they are allo symptomatic, symbolic of the one God. What is necessary is, a man is judged by the spirit in him, by the way in which he is able to raise himself, above himself, that is the meaning of any kind of religion. So, what we mean by secularism is respect for all faiths.”     (Page 148 – 149)

(سیکولرزم ایک اصول ہے جسے نہرونے ہمیں دیاہے۔ یہ ایک ایساغلط لفظ ہے جوغلط طریقہ سے سمجھاگیااورغلط طریقہ سے جس کی تشریح وتعبیرکی گئی۔ یہ مذہب مخالف نہیں ہے نہ مذہب کی کم تری(disrespect)  کاحامی ہے اورنہ ہی اسٹیٹ یاریاست کسی ایک مذہب یاایک عقیدہ سے پہچاناجائے یااس کی حمایت کرے بلکہ ہرمذہب کوبرداشت(tolerate)کرے، ہرمذہب کااحترام (respect)اورہرمذہب کی سراہنا(appreciate)کرے خواہ ہندومت ہو، بدھ مت ہو یاعیسائی یااسلام ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہم لوگ سیکولرزم کاجومطلب اورمعنی سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہرمذہب کایکساں احترام کیاجائے)

        گاندھی جی اورپنڈت نہروکے سیکولرزم اورجمہوریت کے مذکورہ تصورکوبے معنی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے جوانتہائی خطرناک اورسنگین بات ہے۔ گاندھی جی کوان کے وسعت نظری کی وجہ سے انہیں قتل کردیاگیااب پنڈت نہروکے نظریات وخیالات کوپس پشت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس مکت اورمسلمان مکت کانعرہ بلندکیاجارہاہے۔ آزادی کے لئے یہ خطرہ کی گھنٹی ہے ملک کوایسے لوگوں کوپہچاننے کی ضرورت ہے اورایسے خطرناک نظریات اورخیالات سے ملک کوبچانے کی ضرورت ہے ورنہ آزادی جوانتہائی مشکل سے حاصل ہوئی ہے اوربے شمارقربانیاں دے کرملی ہے وہ بے معنی ہوکررہ جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔