یو پی کا دنگل یا فرینڈلی میچ : سیاسی مشاہدین اور ووٹر تذبذب میں

جیسی توقع تھی،  ویسا ہی ہوا۔  پچھلے چار پانچ مہینے سے باپ بیٹے اور چچا بھتیجے کے درمیان ہندستان کے سب سے بڑے صوبے اور کبھی ملک کی سیاسی نبض پر اپنی انگلی رکھ دینے کی مہارت رکھنے والے اُتّر پردیش کی سیاسی اقتدار ڈاواں  ڈول ہو رہی ہے۔  پہلے سے ہی یہ حیرانی تھی کہ لوگوں  کے ووٹ سے جیت کر سرکار بنانے والے لوگ گھریلو معاملات اور عزیزو اقربا کے اختلافات جیسے انداز میں  حکومت اور صاحبِ اقتدار پارٹی کے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔  ملائم سنگھ یادو،  رام گوپال یادو، اکھیلیش یادو،  شیو پال یادو کا مِل جُل کر اپنی گھریلو سیاست اور امر سنگھ،  اعظم خاں  اور کئی دوسرے بڑے لیڈران کا کچھ اس انداز سے سیاسی دائو پیچ کھیلنا جیسے اب وہ آخری بار زندگی اور سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے سے زیادہ اسے کھونے میں  دلچسپی رکھتے ہیں۔

 پچھلی بار جب سماج وادی پارٹی کو اتنی سیٹیں  مل گئیں  کہ وہ حکومت بنانے کے قریب پہنچ سکتی ہے تو ملائم سنگھ کے اس فیصلے سے بہت سارے لوگ چونک گئے تھے کہ انھوں  نے خود وزیرِ اعلیٰ بننے کے بجائے اپنے کنبے سے نئی نسل اور تعلیم یافتہ چہرے کے طور پر اکھیلیش یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔  ملائم سنگھ کا فائدہ یہ تھا کہ نا تجربہ کار سہی لیکن بیٹے کو آگے کر کے وہ اپنی سابقہ نا اہلیوں  سے نجات پا سکتے ہیں ۔  اس سے انھیں  واقعتا فائدہ بھی حاصل ہوا۔  اپنے مخالفین کو شکست دے کر انھوں  نے معقول سیاسی چال چلنے میں  کامیابی پائی تھی۔  مگر انھیں  یہ نہیں  معلوم تھا کہ ایک نا تجربہ کار آدمی کو چار پانچ برس میں  صوبائی اور قومی سیاست کا تجربہ ہو جائے تو وہ دکھاوے کا کردار کیسے رہ پائے گا۔ اس کے لیے بھی من موہن سنگھ کی طرح بہت زیادہ تجربہ چاہیے تب جا کر کوئی شخص اونچی جگہ پر رہتے ہوئے بھی محض ایک دکھاوے کا مہرا بن کر جینے کا انداز روا رکھ سکتا ہے۔  پھر یہ بات بھی ذہن میں  ہو نی چاہیے کہ پرانی اور نئی سیاست کا رنگ ایک نہیں  ہو سکتا۔ ملائم سنگھ اور اکھیلیش یادو کی سیاست میں  آسمان زمین کا فرق بھی ہو سکتاہے۔  اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی کے نقوشِ قدم پر نریندر مودی کب چلتے نظر آتے ہیں  ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ نریندر مودی نے ان نقوش کو ملیا میٹ کرتے ہوئے اپنے نئے نشانات مقرر کیے۔  ملائم سنگھ کے انداز میں  اکھیلیش یاد و آخر کیوں  سیاست کرنا چاہیں  گے اور اگر اس انداز سے چل بھی گئے تو اسے نبھا پانا کیا ممکن ہے ؟ اس لیے ہمیشہ اندیشے قائم رہے۔

اصل میں  خاندان اور کنبے کی سیاست کا یہ لازمی المیہ ہے کہ ایک نسل سے دوسری نسل کی فطری اور عملی دوری آسانی سے پاٹی نہیں  جا سکتی۔  بہار میں  لالو یادو کے بیٹے حکومت کے ٹاپ پر ہیں  لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ جب تک لالو یادو میں  دم خم ہے، ان کی اچھی یا بُری نگرانی کے بغیر ان کی اولاد چار قدم چل پائے ؟ یہاں  غنیمت یہ ہے کہ بیٹوں  کو مشورہ دینے کے لیے صرف ایک عدد باپ لالو یادو ہیں  لیکن اکھلیش یادو کا المیہ یہ ہے کہ باپ کے علاوہ ایک سے زائد چچا محترم اور رشتے دار ان کی سیاست کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیشہ سر گرم ہیں ۔  صرف باپ چچا اور رشتے دار کی بات ہو تی تب بھی کچھ آسانیاں  تھیں  مگر وہاں  امر سنگھ سے لے کر اعظم خاں  تک کبھی کوئی بڑا چچا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا چچا ہوتا ہے۔  ایسے میں  اسمبلی کے ممبران، کا بینہ اور ووٹ دینے والوں  کی خواہشات پر غور کرنے کے لیے کسے مہلت ہے ؟ جب سیاست اور حکومت کنبہ پروری میں  بدل جائے تو اس کی آخری ناکامیاں  اسی انداز میں  سامنے آتی ہیں ۔  اکھیلیش یادو کا زوال اسی خاندانی سیاست کا نتیجہ ہے۔

 نریندر مودی تو کسی طرح اپنی پارٹی کے بزرگوں  کو ہٹاتے بھگاتے ہوئے سیاسی اقتدار کا حصہ بن گئے لیکن یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ہندستانی جمہوریت کی یہ عظیم ناکامی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی پر بزرگوں  اور خاص طور سے ساٹھ اور ستّر برس کے پار،  قبر میں  پائوں  لٹکائے افراد کی ایک نسل قابض ہے۔  ان کے پاس تجربہ ہے اور سیاسی تکڑم کے لیے فرصت بھی ہے۔  راہل گاندھی کبھی آزادانہ طور پر آگے بڑھتے ہوئے نظر آجائیں  تو کانگریس کے بزرگ سونیا گاندھی کو گھیر کر پارٹی کے راستے کو تبدیل کرا دیتے ہیں ۔  کبھی جوش میں  بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نئی سیاست کا کوئی تصور غلطی سے پیش کر دیتے ہیں  تو ان کی پارٹی کے بڑے بزرگ لالو یادو کے پاس پہنچ کر نام نہاد اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔  پہلے یہ صورت صرف کمیونسٹ پارٹیوں  میں  تھی جہاں  پچھتر برس سے کم عمر کا کوئی آدمی جنرل سکریٹری ہوتا ہی نہیں  تھا یا ہوتے ہی چند برسوں  میں  دوسری دنیا تک پہنچ جاتا تھا۔ مگر یہ سچائی ہے کہ یہ ہر پارٹی میں  قائم ہو گیا جہاں  نئی نسل کو ابھرنے کے لیے کوئی موقع ہی نہیں  ملا۔  جے للیتا کے سیاسی وارث کو چننے کے لیے بھی ان کی طویل بیماری اور موت تک بزرگوں  کا یہ کھیل جاری رہا۔  ملائم سنگھ یاد و عمر کی سات دہائیوں  سے آگے بڑھ چکے ہیں۔  ہماری مذہبی تعلیم میں  موت کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن سیاست دانوں  کو کبھی یہ یاد نہیں  ہوتا کہ ایک دن اقتدار سے وہ بھی ہٹیں  گے اور آنے والے کسی لمحے میں  انھیں  بھی مرنا ہے۔  اسی لیے کبھی اسّی برس اور پچاسی برس کا آدمی بھی جس کے آدھے جسمانی اعضامعطل ہو چکے ہیں ، وہ بھی میدان میں  اتارا جاتا ہے اور کامیاب ہو تا ہے۔  ایسی حالت میں  سیاست دانوں  کی نئی نسل کے ہاتھ میں نہ کچھ تجربہ کرنے کا موقع ہے اور نہ ہی آزادانہ طور پر کچھ بڑا کر گزر نے کا۔

 ڈھائی برس پہلے جب مظفر نگر کے فسادات ہو رہے تھے تو ملک کے میڈیا میں  بار بار یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ آخر اس کی روک تھا م کرنے میں  سماج وادی پارٹی کیوں  ناکام ہے ؟ جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے فرقہ واریت کے سوال پر لڑتے ہوئے اس نے انتخابات لڑے اور فتح یابی پائی۔ وہی زمانہ تھا پارلیمنٹ کے انتخابات ہو نے تھے۔ فسادات دو چار دن نہیں  بلکہ مہینوں  ہو تے رہے اور اکھیلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کی حکومت کسی کار گر مہم تک خود کو نہیں  لے جا سکی۔  اس زمانے میں  ایک طرف فسادات ہو رہے تھے اور دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے خطرناک قسم کے لیڈران اور سادھو نماشر پرست پورے اُتّر پر دیش میں  نئی نئی نفر ت آمیز باتیں  عوام تک پہنچا کر نفرت کی دیواریں  کھڑی کر رہے تھے۔ اسی دوران کہیں  سے یہ خبر سامنے آئی کہ ملائم سنگھ یادو بہ شمول اکھیلیش یادو سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ سمجھوتہ ہو چکا ہے کہ فسادات کا یہ سلسلہ قائم رہے جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو یکجا کر لیں  گے۔  فوری طور پر اسمبلی کا انتخاب نہیں ہونا تھا جس سے ملائم سنگھ یادو کی پارٹی کو کوئی نقصان ہو تا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ایک یہ بھی سمجھوتہ ہوا کہ ملائم سنگھ کے خاندان سے جو لوگ پارلیمنٹ کا انتخاب لڑیں  گے،  انھیں  بھارتیہ جنتا پارٹی مدد کر کے فتح یابی تک پہنچا دے گی۔  اُتر پردیش کے گذشتہ نتائج پر غور کیجیے تو کانگریس کی طرف سے ماں  بیٹے نے چنائو جیتا اور سماج وادی پارٹی کے پانچ انھی لوگوں  نے فتح یابی حاصل کی جو ملائم سنگھ اور اکھیلیش یادو کے براہِ راست رشتے دار تھے۔  عملی سیاست میں  کئی بار مخالف کو جیتنے دینے کے لیے کمزور امیدوار بھی لگا دیے جاتے ہیں ۔

ملائم سنگھ پرانے انداز کی سیاست کے کارندے ہیں،  وہ باضابطہ طور پر کشتی لڑنے والے پہلوان بھی رہے ہیں ۔  پرانی کشتی میں  دائو پیچ بتاتے ہوئے گردن پر اتنی مار پڑتی ہے کہ سب مانتے ہیں  کہ اس سے گردن اور عقل دونوں  موٹی ہوجا تی ہے مگر مضبوطی اور ڈھیٹ پن بھی حاصل ہو تے ہیں ۔  ملائم سنگھ یادو کی پوری سیاسی بساط اسی ڈگر پہ چل رہی ہے۔ بارہ پارلیمنٹ ممبران کی بدولت انھوں  نے ملک میں  دوبارہ انتخابات کرا دینے کا فخر حاصل کیا تھا۔ایک بار این ڈی اے کی حکومت گرا دی مگر دوسرے دن جس کے ساتھ مل کر حکومت گرائی تھی، اس کے ساتھ آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ چت بھی اپنی ہے پَٹ بھی اپنی۔ اعظم خاں  اور امر سنگھ کب ملائم یادو کے دوست ہو ں  گے اور کب کسی بہانے دشمن ہو جائیں  گے، یہ کسی کو معلوم نہیں ۔  اس بنیاد پر جمہوری نظام میں  سیاست نہیں  ہونی چاہیے لیکن کنبہ پروری اور اقربا شناسی کی سیاست کرنے والے لوگ ہماری قومی سیاست کو اسی طرح پاتال میں  پہنچا دیں  گے۔

اکھیلیش یادو کے لیے آنے والے وقت میں  بہت سارے راستے کھلے ہوئے ہیں۔  باپ سے معافی مانگ لیں ، پھر سے اپنی جگہ پر قائم ہو جائیں ۔  اکھیلیش یادو کے لیے کو ن سی قباحت ہے کہ باپ سے معافی مانگنے میں  کوئی دشواری ہو۔  ہو سکتاہے، ملائم سنگھ یادو ہی آگے بڑھ کر معافی دے دیں  رام گوپال اور شیو پال کو بلا کر پانچ منٹ میں  یہ سمجھوتہ کرایا جا سکتاہے۔ اور یہی ہونا ہے۔ اکھیلیش یادو باغی ہو جائیں  تب بھی وہ دوسروں  سے مل جل کر حکومت بچا سکتے ہیں  یا نئے الیکشن کے لیے خود کو تیار کر سکتے ہیں ۔  یعنی ملائم سنگھ ہو ں  یا اکھیلیش یادو، راستے دونوں  کے پاس کم نہیں  ہیں ۔  لیکن اس کھیل تماشے میں  اگر مایاوتی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے خود کو سیدھا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں  اتار لیا تب اُتر پردیش کی سیاست کا جو نیا باب لکھا جائے گا، وہ ملائم سنگھ یادو اور سماج وادی پارٹی کو اس طور پر قبول کیا جائے گا کہ دو دہائیوں  سے بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی کی سیاست سے جس طرح باہر ہے،  اسے اسی تماشے سے میدان میں  اتارا جا سکتا تھا۔  کمال یہ ہے کہ اس کے لیے امیت شاہ اور نرینددر مودی کو نہیں  بلکہ ملائم سنگھ یادو کو خدمات ادا کرنی پڑیں ۔

سیاست میں  پیشین گوئی ممکن نہیں۔  سیاست دانوں  کے اگلے قدموں  کو بھی کو ئی نہیں  جا ن سکتا۔  لالو اور نتیش پھر سے ایک ہو سکتے ہیں ،  اسے کون جانتا تھا؟ اُتر پردیش کا ہونے والا الیکشن ایک مکمل سماج وادی پارٹی کے ساتھ لڑا جائے گا یا سماج وادی پارٹی کے اعلان شدہ یا غیر اعلان شدہ خیمے آپس میں  نبرد آزما ہو ں گے۔  سماج وادی پارٹیوں  کی تاریخ رہی ہے کہ وہ رام منوہر لوہیا کے بعد دوسروں  سے لڑنے سے زیادہ آپس میں  لڑنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں ۔  اندازہ یہی ہے کہ آیندہ چنائو میں  باپ بیٹے اور چچا بھتیجے کے تماشے میں  باقی سب کھیل تو ہوگا لیکن کہیں  سماج وادی پارٹی ہمیشہ کے لیے اس میدان سے باہر نہ ہو جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔