نادان دوستوں  کی دوستی کا نتیجہ

سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا میں  پارٹی کے ترجمان پروفیسر رام گوپال یادو نے روز روز کی ذلت کا دروازہ بند کرنے کے لیے پارٹی کے قومی صدر شری ملائم سنگھ یادو کو ایک خصوصی اجلاس بلا کر بے اثر کردیا۔ اب وہ قومی صدر کے بجائے صرف سرپرست اور خیر خواہ رہیں گے۔ ان کے ساتھ ہی ان کے دست راست ٹھاکر امر سنگھ کو بھی پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا اور یوپی کے صدر شیور پال سے ان کی صدارت واپس لے لی۔
ہم کئی مہینے سے لکھ رہے ہیں  کہ ملائم سنگھ ایک کم عقل عورت اور کم سمجھ چھوٹے بھائی اور فتنہ پردازی کے لیے بدنام امر سنگھ کے ہاتھوں  کا کھلونا بن گئے تھے۔ امر سنگھ نے 2002ء کے بعد جب ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ تھے تو انہیں  ظل الٰہی اور جہاں  پناہ بنا کر محل کے اندر بندکردیا تھا اور حکمرانی کا کام اپنے ہاتھ میں  لے لیا تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ 2007میں  80سیٹیں  بھی نہیں  جیت سکے تھے۔ اس کے باوجود ملائم سنگھ کو عقل نہیں  آئی اور وہ ان کے ہاتھوں  میں  کھیلتے رہے۔
یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ دوسری شادی بھی امرسنگھ نے ہی کرائی ہے۔ اور امر سنگھ کے پارٹی چھوڑ کر جانے اور اپنی پارٹی بنانے کے باوجود ملائم سنگھ نے انہیں  نہ صرف بلایا بلکہ آتے ہی راجیہ سبھا کا ممبر بنادیا اور جنرل سکریٹری بھی مقرر کردیا۔ اس کھیل میں  بھی چھوٹی بیگم کا ہاتھ تھا۔ اور وہ جنرل سکریٹری رام گوپال جو پارٹی میں  سب سے زیادہ تعلیم یافتہ سب سے زیادہ بردبار اور سنجیدہ ہیں  انہیں ایک مہینہ کے اندر دو بار پارٹی سے چھ سال کے لیے نکال دیا۔ جو ایک معمولی آدمی کے لیے بھی ذلت کی بات تھی۔ ملائم سنگھ ابھی اتنے بوڑھے نہیں  ہوئے ہیں  کہ یہ نہ جان سکیں  کہ چھری کہاں  چلائی جاتی ہے اور تلوار کہاں ؟ لیکن ان کی بیگم ان کے بھائی شیو پال اور ان کے چھپے دشمن امرسنگھ نے انہیں  یہ یقین دلادیا کہ اکھلیش کو باغی بنانے میں  سب سے بڑا ہاتھ رام گوپال یادو کا ہے۔ اور وہی اپنے مطلب کے لیے اسے استعمال کررہے ہیں۔
31؍ تاریخ کو اعظم خاں  اور لالو یادو نے درمیان میں  آکر اکھلیش اور رام گوپال یادو کے بارے میں لئے گئے فیصلہ کو واپس کرادیا تھا۔ لیکن یہ بات باقی تھی کہ اکھلیش یادو اور کیا چاہتے ہیں ؟ وہ جو مشہور محاورہ ہے کہ ’’بند مٹھی لاکھ کی کھول دو تو خاک کی‘‘ پرسوں  تک وہ مٹھی بند تھی اور سب سمجھتے تھے کہ پارٹی کے سنجیدہ اور بڑے سب ملائم سنگھ کے ساتھ ہیں  اور نیاخون یا پر جوش نوجوان اکھلیش کے ساتھ ہیں  لیکن کم عقل عورت اور شیوپال کے کہنے سے ملائم سنگھ نے جڑ پر کلاڑھی ماری اور یہ نہیں  دیکھا کہ وہ کلاڑھی لکڑی کی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکھلیش کو وہ فیصلہ کرنا پڑا جو صدیوں  پہلے اورنگ زیب عالمگیرؒ نے کیا تھا۔ اکھلیش نے اور پورے ملک نے دیکھ لیا کہ صرف اسمبلی کے ہی ممبروں  کی بھاری اکثریت امن کے ساتھ نہیں  ہے لوک سبھا کے بھی ممبر ملائم سنگھ کے علاوہ چاروں  ان کے ساتھ ہیں۔  اس سے اچھا موقع شاید اکھلیش کو پھرنہ ملتا اس لیے انھوں  نے خصوصی اجلاس ملتوی نہیں  کیا اور وہ کردیا کہ اب خاتون اول ڈمپل ایم پی بن گئیں  اور اپرنایادو کی ساس سابق بن گئیں  اور شاید ان کا ٹکٹ بھی خطرہ میں  پڑ گیا۔
اقتدار کی جنگ میں  نہ مذہب ہوتا ہے نہ ذات اور نہ رشتہ،  صرف اقتدار ہوتا ہے اور اس کے لیے ۲فریق ملائم سنگھ نے اعلان کردیا تھا کہ جو اس خصوصی اجلاس میں  شریک ہوگا اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ جس عہدے کے بل پر وہ کاروائی کرسکتے تھے اب وہ ان کے پاس رہا کہ نہیں ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ ملائم سنگھ خاموشی سے اجلاس میں  شریک لوگوں  کا فیصلہ تو قبول نہیں  کرسکتے۔ اور اگر حالات انہیں  مجبور کریں  تب بھی وہ تمام امیدوار جو یہ سمجھتے ہیں  کہ اب انہیں  ٹکٹ نہیں  ملے گا وہ ملائم سنگھ کے ساتھ ہوں گے۔ اور انہیں  چڑھانے والے ان پر زور ڈالیں گے کہ فوراً عدالتی جنگ شروع کی جائے اور ملائم سنگھ کو ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن پٹیشن کی طرح مقدمہ بازی چلتی رہے گی اور اکھلیش یادو حکومت اور پارٹی کی قیادت کرتے رہیں گے۔ ہمارا یقین ہے کہ رام گوپال کو ملائم سنگھ نے اگر ایک دو مہینہ کے اندر دوبار چھ سال کے لیے نکال کرذلیل نہ کیا ہوتا تو وہ اتنا سخت فیصلہ نہ کراتے۔
اب پارٹی کی زندگی اس کا انتخابی نشان اس کا جھنڈا سب ملائم سنگھ کے اقدامات پر موقوف ہے۔ انہیں  اگر سکون چاہیے تو وہ ہر فیصلہ کو قبول کرلیں  ورنہ اس کے لیے تیار ہوجائیں  کہ وہ تاریخ کا ورق بن جائے گی اور اکھلیش کے ہاتھ میں  تو کچھ نہ کچھ رہے گا۔ ملائم سنگھ کے ہاتھ میں  یا چھوٹی ملکہ کے ہاتھ میں  کچھ نہیں  رہے گا۔ ہمیں  سب سے بڑا خطرہ امرسنگھ سے ہے کہ اب ان کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں  ہے۔ اب ان کے دن اور رات ۲۰۰۴ء کی طرح ملائم سنگھ کی ٹانگ سے ٹانگ ملا کر کٹیں گے اور وہ فتنہ کو ہوا دیتے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔