اے ستم پیشہ تری بات میں کون آتاہے!

مشرقی حلب پر روسی،ایرانی و شامی افواج کے قبضہ و تسلط،مزاحمت کاروں کوباہرنکالنے اور باقی شہریوں کوشہربدرکرنے کے بعداب پھرسے مسئلۂ شام کے سیاسی حل کے لیے کوششوں کی ہواچلی ہے۔اس سلسلے میں  ترکی ڈپلومیسی نے غیر معمولی جدوجہد کی،جس کے نتیجے میں  شام کے حکومت مخالف عسکری گروپس اور وس کے مابین مذاکرات کی راہ ہموا رہوئی اور ایک معاہدے کاانعقاد ممکن ہوسکا،جس کے ذریعے روسی لیڈرشپ سے بات چیت ہوئی اورحلب جیسے قدیم،تاریخی اور شہرۂ آفاق شہرکی تباہی وبربادی اور قتل وغارت گری پر عالمی برادری کی مذمت کی وجہ سے روس بھی اس بات کے لیے رضامند ہوگیاکہ حلب میں  موجودزخمی شہریوں اور مزاحمت کاروں کوبحفاظت باہرنکلنے کاموقع دیاجائے۔اس معاہدے کے روبعمل آنے سے سیکورٹی کونسل کی تجویز نمبر 2328کی تاییدہوئی ہے،جسے فرانس کی پیش کردہ تجویزمیں  ترمیم کے بعد پیش کیاگیاتھا۔اس تجویزمیں  یہ مشورہ تھاکہ حلب سے ہجرت کرنے والے شہریوں کے بحفاظت خروج کویقینی بنانے کے لیے عالمی نگرانوں کاایک قافلہ بھیجاجاناچاہیے؛کیوں کہ ایرانی افواج نے اپنے مذہبی ملیشیاؤں کے ذریعے حلب کے مہاجرین کی ایک جماعت کانہ صرف راستہ روکا؛بلکہ ان میں  سے کئی لوگوں کوقتل بھی کیااوراس سے ان کا مقصدیہ تھاکہ جنگ بندی کے معاہدے کوکسی طرح ناکام کردیاجائے۔

اعلانِ ماسکو:

ایسالگتاہے کہ سقوطِ حلب کے بعدترکی کے صدررجب طیب اردگان اور وسی صدرولادیمیرپوتن کی باہمی ملاقات کے بعدفوراًہی پوتن کے دل میں  یہ خیال آیاکہ حلب میں روسی فوج کی کارروائیوں اور کامیابی کافائدہ اٹھاناچاہیے،سوانھوں نے ملاقات سے فارغ ہوتے ہی اعلان کیاکہ اردگان کے ساتھ مل کران کی حکومت نے یہ طے کیاہے کہ شامی حکومت اورمزاحمت کارجماعتوں کے بیچ قزاقستانی دارالسلطنت آستانہ میں ایک مذاکراتی مجلس برپاکی جائے گی،جبکہ اس سے پہلے شام میں  وسیع تر جنگ بندی کا منصوبہ بنایاجائے گا۔ویسے اس کاطبعی نتیجہ یہ ظاہر ہونے والاہے کہ مسئلۂ شام جینواوآستانہ کے بیچ پھنس کر مزید پیچیدہ ہوجائے گا،بطورخاص اس پس منظرمیں کہ شام میں  اقوامِ متحدہ کے نمایندہ سٹیفن ڈی میستورانے مسئلۂ شام پرفروری 2017میں نئے مذاکراتی دورکااعلان بھی کردیاہے،اس صورتِ حال کودیکھتے ہوئے یہ کہنادرست ہوگاکہ جینوااورآستانہ میں منعقدہونے امن مذاکرات کی حامی یامخالف جماعتوں  کے رویوں اور رجحانات کی وجہ سے مسئلۂ شام مزیدالم ناک مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔

 ابھی 20؍دسمبرکوتوترکی،ایران اور روس کے وزراے خارجہ کی ایک مشترکہ میٹنگ ہوچکی ہے،جس میں مسئلۂ شام کے سیاسی حل کے لیے نیانقشۂ عمل مرتب کیاگیاہے،اسی طرح حلب میں  نافذکیے جانے والے جنگ بندی کے عمل کی توسیع کابھی فیصلہ ہواہے؛تاکہ پورے شام میں  جنگ بندی ہوسکے،البتہ جبہۃ فتح الشام(سابق النصرہ)اور داعش کے علاقوں کومستثنیٰ رکھاگیاہے۔اگردیکھاجائے توترکی،ایران و روس کے زیراہتمام کیے جانے والے’’اعلانِ ماسکو‘‘میں دہشت گردی سے لڑنے اورشامی حکومت ومزاحمین کے مابین جنگ بندی پررضامندی کے حصول پر ہی زوردیاگیاہے،جوماضی میں  مسئلۂ شام کے تعلق سے عالمی اداروں کی جانب سے پیش کی جانی والی تجاویزوبیانات سے کچھ علیحدہ نہیں ہے،جن کی روسے جینوامذاکرات کاانعقاد عمل میں آیاہے۔اس بات چیت میں  بھی’’مسئلۂ شام کے عسکری حل‘ ‘کی نفی کی گئی اوراس بات پر زوردیاگیاکہ’’مختلف النسل والمذاہب جمہوری ملک کی حیثیت سے شام کی وحدت،خود مختاری وسیادت کوبحال کیاجائے‘‘،حالاں  کہ حقیقت یہ ہے کہ کہ ایک طرف ایران و روس بطورغاصب ملکِ شام میں  فوجی مداخلت کررہے ہیں،  جبکہ دوسری جانب ترکی کی فوج شمالی شام میں  جیشِ حرکی ٹکڑیوں کی امدادکررہی ہے۔قابلِ ذکریہ بھی ہے کہ’ ’اعلانِ ماسکو‘‘میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیاگیاہے کہ’’ شام کی حمایت میں  عالمی ادارے کی جانب سے پیش کردہ تجویزوں کوتسلیم کیاجائے اور معاہدات پر عمل درآمدکرنے میں درپیش مشکلات کودورکرنے کی کوشش کی جائے‘‘خاص طورسے سلامتی کونسل کی تجویزنمبر2254جس میں جینوا- 1(2012ء)کی تجاویزکے نفاذاورجینوا-2(ویانا)کی شام کے تعلق سے طے کردہ تجاویزکی تاییدکی بات کی گئی ہے۔یہ تجویزاس اعتبار سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں  انتقالِ سیاسی اورجنگ بندی پر زوردیاگیاہے،یہیں  سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مذاکرات کے اس عمل کوجینواسے آستانہ منتقل کرنادشوارہے۔

شاید اسی وجہ سے روسی وزارتِ خارجہ نے آستانہ میں  منعقدہونے والے مذاکرے کوجینوامذاکرات کا’’تتمہ‘‘ قراردیاہے،اس کامتبادل نہیں  بتایا ہے، ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں  رہے کہ مذاکرات کی ہائی اتھارٹی کوآستانہ مذاکرات سے دوررکھنے کی ان کی کوشش ممکن ہے کامیاب نہ ہوپائے،بطورِخاص اس پس منظرمیں  کہ ترکی کے وزیر خارجہ مولودجاویش اوغلونے کہاہے کہ انھوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کواس بات پر رضامند کرلیاہے کہ’’شام کے حقیقی سیاسی حزبِ مخالف‘‘کومسئلۂ شام کے سیاسی حل کے سلسلے میں  منعقدہونے والے مذاکرات میں فریق بناناچاہیے،چاہے وہ آستانہ میں  منعقدہویاجینوامیں۔

روس کی مفاد پرستی:

 اس میں  کوئی شک نہیں  کہ سیاسی مفادات کے حصول کی خاطرآنے والے وقتوں میں  شام میں مصالحتی عمل کے نفاذکے لیے روسی صدرایران وبشارالاسدپر دباؤڈالنے اورترکی کے صدرکوقائل کرنے کے لیے مختلف ڈپلومیٹک،تفتیشی و عسکری حربے استعمال کررہے ہیں، اس سلسلے میں  وہ نئے امریکی صدرکے برسرِ کارآنے کابھی انتظارنہیں  کررہے ہیں کہ کہیں  ٹرمپ انتظامیہ مسئلۂ شام کے تعلق سے کوئی ایساموقف نہ اختیار کرلے،جوروسی مفادات کے خلاف ہو۔پوتن کی یہ کوششیں  محض اُن زمینی تبدیلیوں کی وجہ سے روبعمل نہیں  آرہی ہیں، جوان کے عسکری ذرائع نے شام میں  برپاکی ہیں ؛بلکہ اس میں  امریکی انتظامیہ، یورپی اتحاد کے مکمل طورپرمنظرنامے سے غائب رہنے اورعربوں کے آج تک مسئلۂ شام سے یکسربے توجہی برتنے کابھی دخل ہے۔

 بظاہر’’اعلانِ ماسکو‘‘میں  شام کے سیاسی حل کے تعلق سے ایک قسم کی عمومیت تھی اورروس نے ترکی و ایران کو مصالحت کی مقررہ شرطوں کوتسلیم کرنے کے لیے تیارکرنے کی کوششیں کی،مگراس کے باوجوددونوں کے اندازِفکراور مسئلۂ شام سے نمٹنے کے طریقوں میں  اختلاف اس میٹنگ کے فوراً بعداس وقت واضح ہوکرسامنے آگیا،جب دونوں ملکوں کے نمایندے پریس کانفرنس کوخطاب کرنے کے لیے باہرآئے؛چنانچہ ترکی کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں  یہ کہاکہ:’’تینوں فریق سلامتی کونسل کی تجویزنمبر2254کوعملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر متفق ہیں، جس میں  دہشت گردجماعتوں کی خارجی امدادپربین لگانے کی بات کی گئی ہے‘‘،ساتھ ہی انھوں نے کہا:’’ان میں  کچھ ایسی جماعتیں  بھی ہیں، جو شامی حکومت سے تعلق رکھتی ہیں  اور ان کی امداد و اعانت کو روکنا بھی ضروری ہے،ان میں  لبنان کی حزب اللہ اور دیگر مسلکی ملیشیابھی ہیں ‘‘،انھوں نے ان تمام جماعتوں پر پابندی کوشام میں مستقل طورپرجنگ بندی کے لیے ضروری قراردیا۔

سیاسی حل کاموقع:

 میراخیال ہے کہ اب یہ مسئلہ صرف مذاکرات سے حل ہونے والانہیں  ہے؛بلکہ سیاسی حل کے حصول کے لیے ایسے مواقع اور امکانات کی تخلیق ضروری ہے،جواس سلسلے میں معاون ثابت ہوں۔ خاص بات یہ ہے کہ روس جینوامذاکرات-جسے اقوامِ متحدہ کابھی اعتبار و اعتماد حاصل ہے- کے اثرات کوختم کرنا چاہ رہاہے،مزید یہ کہ چوں کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعدسے ہی جینوامتنازع ملکوں کے مابین باہمی گفت و شنیداورمختلف بحرانوں کوپرامن طریقے سے حل کرنے کے سلسلے میں مرکزی حیثیت کاحامل رہاہے،شاید اسی وجہ سے روس مغرب کی اس ’’مرجعیت‘‘کوغصب کرناچاہتاہے؛لیکن دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ روس نے اب تک کسی بھی جنگ،جھگڑے یاسیاسی بحران کے حل میں  پرامن رول ادانہیں  کیاہے،چاہے چچینیامیں  نسل کشی کامعاملہ ہو،جورجیاکی جنگ ہو، کریمیا کو رو س میں  ضم کرنے کی کوشش ہویایوکرین میں  جنگی ماحول کوہوادینے کاواقعہ ہو۔

 روس یہ چاہتاہے کہ شام میں اپنی فوجی مداخلت کو بشارالاسداورایران کے حق میں  نتیجہ خیزبنائے؛تاکہ آیندہ شام میں  اپنے سیاسی نفوذکاراستہ ہموار کر سکے، اس طرح کی کوشش روس پہلے بھی کرچکاہے؛چنانچہ ’’ماسکو-1‘‘(26-29جنوری2015ء) ’’ماسکو-2‘‘ (6-9اپریل2015ء) ’’آستانہ مذاکرات‘‘(27-30مئی؍2015ء)جیسی مجلسیں  روس کی نگرانی میں  برپاکی جاچکی ہیں، ان مذاکرات میں  روس نے اپنے حساب سے شامی اپوزیشن کوبھی شریک کیا،مگرکوئی مثبت نتیجہ نہیں  نکل سکا۔

 اس سلسلے میں  ایک اورقابلِ ذکربات یہ ہے کہ مذکورہ تینوں فریق شام کے مسئلے کوحل کرنے کے ضمن میں  اپنے اپنے مفادات کاتحفظ تومکمل طورپرچاہتے ہیں، مگراُن شامیوں کے مطالبات پر کسی کادھیان نہیں، جنھوں نے بشارالاسدکے مظالم سے نجات پانے،آزادی کے حصول اور انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے آج سے ساڑھے پانچ سال پہلے پر امن احتجاج کاعلم بلندکیاتھا۔روسی و ایرانی حکومت نے توکھل کر بشارالاسدکے مظالم کی حمایت کی ہے،مذکورہ اعلان میں  انھوں نے بشارالاسدکے مستقبل کے تعلق سے کچھ بھی واضح نہیں  کیا،جوکہ مسئلۂ شام کے سیاسی حل میں  سب سے بڑی رکاوٹ ہے،اس پر مستزادیہ کہ خود مذاکرات کے تینوں فریقوں کے مابین پہلے سے ہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

 جب روسی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں  یہ کہاکہ جینوامذاکرات کی راہیں  مسدودہوچکی ہیں، تووہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خودان کی حکومت اورایران و بشارالاسدنے مل کرسلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذکی راہ میں  روڑے اٹکائے ہیں  اور انھوں نے ہی ایسے حالات پیداکیے کہ جینوا دوم وسوم(کے مذاکرات)بے نتیجہ رہے۔اسی سے یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ یہ ممالک اگلے مہینے میں  جومذاکرات کاکھڑاگ رچنے جارہے ہیں، اس کے بھی کامیاب ہونے کاامکان کم اورمستقبل قریب میں  مسئلۂ شام کے حل ہونے کی بجاے اس کے جینواوآستانہ یادنیاکے دیگرشہروں اور راجدھانیوں کے چکرکاٹنے کا امکان زیادہ ہے؛بلکہ خودابھی جوعارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے،وہی شامی فوجیوں اور حزب اللہ کے جیالوں کے ہاتھوں تارتارہورہاہے،توآگے کی کیاتوقع کی جاسکتی ہے؟!

تحریر: عمر کوش، ترجمانی:نایاب حسن

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔