یوپی :یادوخاندان میں رسہ کشی

یوپی میں  اسمبلی انتخابات جس قدرقریب آتے جارہے ہیں ، دن بہ دن سیاسی پارہ چڑھتا جارہا ہے ۔بر سر اقتدار پارٹی ایس پی میں  اس وقت خاندانی رسہ کشی عروج پر ہے ۔حالات جس قدرتیزی سے کروٹ لے رہے ہیں  ابھی کوئی فیصلہ کن بات کہنا قبل ازوقت ہوگا۔کبھی شیوپال باہر کیے جاتے ہیں  کبھی الھلیش اور رام گوپال باہر کیے جاتے ہیں  ۔کبھی شیوپال اپنی طاقت کا مظاہر کرتے ہیں  اور کبھی اکھلیش یادو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں  ۔آخیر میں  جس کا بھی پلہ بھاری ہو یہ بات توبالکل واضح ہے کہ اس وقت ایس پی میں  اکھلیش جیسی شبیہ کا کوئی لیڈر دور دور تک نظر نہیں  آتا۔شیوپال زمین پر اتریں  ان کو اپنی طاقت کا پتہ چل جائے گا ۔یہ تسلیم کہ ملائم سنگھ ایک منجھے ہوئے  لیڈرہیں مگرفی الحال اکھلیش کی مقبولیت ملائم سنگھ سے بھی کہیں  زیادہ ہے ۔ ملائم سنگھ کو اس بات کا اندازہ ہوگا اور اگر نہیں  ہے تو قومی صدر کے عہدہ سے ہٹائے جانے کے بعد ہوجانا چاہئے ۔ملائم سنگھ کی طرزسیاست  ہمیشہ روایتی رہی ہے، انھوں  نے ہمیشہ ابن الوقتی کو کا سامنے رکھا۔ملائم سنگھ جتنی مرتبہ بھی وزیر اعلا بنے اس کی وجہ کوئی ان کا عوامی مفاد کاکام نہیں  تھا ۔ملائم سنگھ کی پوری سیاست بابری مسجد سے شروع ہوتی ہے اور وہیں  ختم ہوجاتی ہے ۔اگر ایسا نہیں  ہے تو ملائم سنگھ کا یوپی سے باہر بھی سیاسی حیثیت ہونی چاہئے مگر ایسا کچھ بھی نہیں  ہے ۔مانا کہ بطور وزیر اعلاملائم سنگھ پہلا دور ایک بہترین دور تھامگر اس کے بعد ملائم سنگھ کا کوئی قابل ذکر دور نہیں  آیا ۔اس میں  کسی کو شبہ نہیں  ہے کہ اکھلیش یادو نے جو ترقیاتی کام اور جس پیمانے پر انجام دیا ہے اس کی مثال کم ازکم اس سے پہلے اتر پردیش میں  نہیں  ملتی ۔میں  باپ بیٹے میں  سے کسی کا حامی نہیں  ہوں  مگر سچائیوں  کو قبول کر نے اور کہنے میں  مجھے کوئی عار نہیں  ہے ۔اس وقت اکھلیش یادوکی شبیہ ایک شفاف وزیر اعلا کی ہے ۔لوک سبھاالیکشن میں  الھلیش نے کوئی قدم نہیں  اٹھایا یہ ان کی دیانتداری کی دلیل ہے ۔چچا اور باپ نے جو چاہا کیا مگر ریاستی انتخابات میں  کوئی بھی وزیر اعلا اپنی محنت پر کسی اور کو جشن منانے کی اجازت نہیں  دے گا۔اکھلیش یادو کا کہنا بجا ہے کہ امیدواروں  کا نام کم سے کم مجھے تقسیم کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔ شیوپال ملائم کے کاندھے کا اس وقت پوری طرح استعمال کر رہے ہیں ۔میں  یہ نہیں  کہہ سکتاکہ شیوپال 2012کاکینہ اس وقت نکال رہے ہیں  مگر اس سے انکار بھی نہیں  کرسکتا ۔ اکھلیش کی میٹنگ میں  200؍سے زائد ایم ایل اے شریک ہوئے مگراس کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ پارٹی کا وزیر اعلا پارلیمانی بورڈ طے کرے گا۔اس سے کچھ سمجھ میں  آئے نہ آئے مگر اکھلیش یادو کا کہ کہنا کہ نیتا جی اور پارٹی کے ساتھ سازش ہورہی ہے،کسی قدر سمجھ میں  آنے لگتا ہے ۔ مجھے سمجھ میں  نہیں  آتا کہ اکھلیش یادو مختار انصاری اور عتیق احمد جیسے غنڈوں  کو اگر پارٹی میں  شامل نہ کرنے کی بات پر بضد ہیں  تو کون ساغلط کر ہے ہیں  ۔مجھے یاد آرہاہے کہ اکھلیش کی انھیں  مخالفت کے بعدان کو ریاستی صدر کے عہدہ سے ہٹا دیاگیا تھا۔ اگر اکھلیش یادوبہارکی طرح یوپی میں  بھی سیکولر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں  تواس سے دوسرے خیمہ کوتکلیف کیوں  ہے ۔؟کیا ملائم اپنی اور شیوپال جیسی پوزیشن سیکولرطاقتوں  کی بھی بنانا چاہتے ہیں ۔؟ملائم شیوپال کے رویہ سے کیااس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کون لوگ ہیں   جواکھلیش کودوبارہ سی ایم نہیں  بنانا چاہتے ۔؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔