اترپردیش میں سماجوادی دنگل

باکس آفس پر فلم اور یوپی کا سماجوادی’’دنگل‘‘ سرخیوں  میں  ہے۔ فلم تو صرف کشتی کی کہانی دکھاتی ہے لیکن یہاں  پہلوان میدان میں  ڈٹے ہیں ۔ کوئی اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ غیر متوقع  نئے پینتروں  اور شہ مات کی وجہ سے یہ کہنا آسان نہیں  کہ اس دنگل کا آخری نتیجہ آچکا ہے۔ کیوں  کہ ستمبر میں  یہ جھگڑ ا  اس وقت شروع ہوا جب ٹی وی چینلوں  نے اپنے سروے میں  بتایا کہ 2017کے چنائو میں  سماج وادی پارٹی پچھڑ رہی ہے۔ بھاجپا اور بہوجن سماج پارٹی اس سے آگے ہے۔ سپا کے پالیسی سازوں  نے حاالات کو اپنے حق میں  کرنے کے لئے اکھلیش یادو کی شبیہ  گڑھنے کی اسکرپٹ لکھنا شروع کردی۔ پہلے کچھ منتریوں  کی چھٹی کی گئی  اس سے بات بنتی نہ دیکھ خاندانی جھگڑے کو ہوا دی گئی۔اسے اتنا طول دیا گیاکہ  اکتوبر کے آخر میں  یہ ماننے والوں  کی کمی نہیں  تھی کہ سماج وادی پارٹی ٹوٹ گئی۔ اکھلیش یادو نئی پارٹی بنا رہے ہیں ۔  وکاس رتھ یاترا کے ذریعہ اکھلیش کی پارٹی پر پکڑ اور عوامی مقبولیت دکھانے کی کوشش کی گئی۔  رجت جینتی تقریبات میں  اکھلیش یادو نے شیوپال کے پیر چھو ئے  تو شیوپال نے ان کو کامیابی کی دعا دے کر یہ پیغام دیاکہ  سماجوادی خاندان میں   اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔ اس وقت یہ جھگڑا ہفتہ بھر  دیش کے میڈیا میں  زیربحث رہا۔

 اس وقت ملائم سنگھ نے اس ڈرامہ پر پردہ ڈال دیاتھا۔ اب یہ جھگڑا عین اس وقت شروع ہوا ہے جب الیکشن کی تاریخوں  کا اعلان ہو نے والا تھا۔اب بھی جھگڑے کی نہ وجہ بدلی ہے نہ کردار۔سیاست میں  ہمیشہ دو اور دو چار نہیں  ہوتے  یہ ضروری نہیں  کہ جو دکھ رہا ہے وہ ویسا ہی ہو۔ جانکاروں   کے مطابق  اس نوٹنکی  میں  سب کی ساجھیداری ہے صرف دکھاوے کیلئے مارا ماری ہے۔در اصل  یہ سوانگ  اکھلیش یادوکی شبیہ کو نکھارنے اور انہیں  مستقبل کا نیتا پروجیکٹ کرنے کیلئے رچا گیا۔  ایسا نیتا جو  پاک صاف، ایماندار، پڑھا لکھا،جوجھارو ، نوجوان اور اصول پسند  ہو۔ وہ صوبے کی ترقی کیلئے وچن بدہو۔  وہ دبنگوں ،  بد عنوانوں   اور متنازعہ لوگوں  کو پسند نہ کرتا ہو ان سے دوری بنا کر رکھے۔  نہیں  پارٹی سے باہر رکھنے کے لئے اپنے باپ چچا سے بھی لڑ جائے۔ یہ قواعد اس لئے کی گئی تاکہ قانون و نتظامیہ کے بگاڑ،  جنگل راج،  افراتفری،  چوری،  ڈکیتی،  قتل،  ریپ، فسادات، غنڈوں  اور دبنگوں  کے ذریعہ عوام سے لوٹ،  غیر قانونی قبضوں   اور سرکار کے کام کاج کی ناکامی سے ابھرے  غصے سے عوام کا دھیان ہٹا کر اکھلیش کو طا قتور دکھایاجاسکے  اور انہیں  ایک بٹے پانچ وزیر اعلیٰ  ہونے کے الزام سے مکتہ مل جائے۔ ساتھ ہی مہنگی و خراب بجلی سپلائی  اور آگرہ لکھنئو ایکسپریس ہائی وے کا افتتاح ہونے کے باوجود نہ مکمل رہنے کے سوالوں  کو پیچھے چھوڑا جا سکے۔ صوبے کے کرپٹ منتریوں  کی سرپرستی کرنے، بہوبلیوں  کو بڑھاوا دینے اور خراب قانون و انتظامیہ کی ذمہ دری شیوپال کے کھاتے میں  ڈالی گئی۔ اس پر اکھلیش نے سخت تیور دکھاتے ہوئے ان کی وزارت سے چھٹی کردی اس کی وجہ سے پوری لڑائی اکھلیش بنام شیوپال ہو گئی جس میں  ملائم سنگھ بھائی کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے۔

یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ملائم سنگھ جیسے تجربہ کار،  سیاسی سمجھ رکھنے والے منجھے ہوئے نیتا نے اپنی پارٹی کو ٹوٹنے دیا۔ان کی تربیت اس سماج وادی پارٹی میں  ہوئی جس میں  ڈاکٹر لوہیا تھے۔  انہوں  نے چالیس سال تک یو پی کی سیاست میں  اہم رول ادا کیا۔انہوں  نے اقلیتوں  کے مذہبی جذبات کو سہلا کر،  ان کے اقتصادی مسائل کو نظر انداز کیا۔ متنازعہ و دبنگ لوگوں  کو جوڑ کر یادو۔ مسلمانوں  کا مضبوط ووٹ بنک بنایا جس کے سہارے وہ اقتدار پر قابض رہے۔  انہوں  نے یادئوں  کو تو با ختیار بنایا لیکن دوسرے محروم طبقوں  پر دھیان نہیں  دیا۔ انہیں  نے ذات کی سیاست میں  وی پی سنگھ کو ہراایا تھا بارہ ممبران پارلیمنٹ کی بدولت ملک میں دوبارہ انتخابات کرا دینے کا فخر بھی انہیں  حاصل ہے۔ تو کیا وہ پارٹی میں  آ رہے سیاسی بدلائو  اور حکومت کے سمی کرنوں  کو سمجھ نہیں  پائے ؟یا سمجھ کر بھی نظر انداز کرتے رہے ؟کیاا کھلیش ان سے آگے نکل گئے ؟ جو  انہوں  نے آگے پیچھے کی پالیسی اپنا کر پورے سماج وادی کنبے کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ وہ ہر بار جھگڑے کے بعد  اور مضبوط ہو کر ابھرے۔کیاملائم۔ شیوپال کے ساتھ وہی لوگ ہیں  جنہیں  اکھلیش پسند نہیں  کرتے یا جنہیں  اکھلیش کے ساتھ اپنا مستقبل دکھائی نہیں  دیتا۔یاا س طرح ملائم سنگھ نے اکھلیش کے راستے کے سب سے بڑے روڑے  شیوپال اور امر سنگھ کو کنارے کردیا ہے۔ جنہیں  اب سیاست میں  بنے رہنے کے لئے دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈنا ہوگا۔ایسا تو نہیں  کہ  ان اختلافات کے ذریعہ ہمدردی ووٹ اکھلیش کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آدمی بھلے ہی دنیا سے جیتنا چاہتا ہو لیکن بیٹے سے ہارنے کی دعا کرتا ہے۔لیکن ملائم سنگھ کا رد عمل ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی دوسرے شخص کے بغاوت کرنے پر ہوتا ہے۔ وہ عمر کی جس دہلیز پر ہیں  انہیں  چاہئے تھاکہ وہ آگے بڑھ کر اس تبدیلی کو قبول کرتے اور کہتے کہ میں اکھلیش کے کامیاب ہونے کی خواہش کروں گا۔  انہوں  نے مدمقابل جیسا برتائو کیا اوروہ الیکشن کمیشن چلے گئے تاکہ یہ جدوجہد بنائوٹی نہ لگے۔اسکرپٹ کے مطابق اعظم خاں  جیسا کردار اچانک نمودار ہوا۔اور مان منول کی کوششیں  تیز ہو گئیں ۔  ملائم سنگھ پہلے تو اپنی ضد پر اڑے رہے پھر دھیرے سے اپنے  پیر پیچھے کر لئے۔ اکھلیش اور رام گوپال یادو کو نکالے جانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد اکھلیش وزیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ پارٹی کے سلطان بھی بن گئے۔ باپ اور چچا کی قیمت پر  ان کی مقبولیت میں  اضافہ ہوا ہے۔ ملائم سنگھ اچھی طرح جانتے ہیں   کہ بھلے ہی شیوپال کو  غلط فہمی ہو لیکن وہ یاشیوپال وزیرا علیٰ کا چہرہ نہیں  بن سکتے۔ ملائم سنگھ کی مجبوری ہے کہ وہ بھائی شیوپال کو مایوس بھی نہیں  کر سکتے  ساتھ ہی  اپنے پرانے لٹھیت گروپ سے چھٹکارا بھی چاہتے ہیں   اس لئے بنائوٹی جھگڑے سے ہی سہی اکھلیش یادو کا چہرہ  چمکانے کی بے جوڑ کوشش کی گئی۔ لیکن یہ اس کے سہارے 2017کے چنائو میں  کامیاب بھی ہو جائیں  گے یہ کہنا مشکل ہے۔

اکھلیش یادو  کو سخت بنے رہنا ہے جس سے لوگوں  میں  یہ پیغام جائے کہ وہ اپنی شرطوں  پر ہی صلح کریں گے۔ ان کو اپنے  باغیانہ تیور سے بھاجپا ور بہوجن سماج پارٹی کو بھی گمراہ کرنا ہے تاکہ وہ ترقی اور انتظامیہ کے بجائے دوسرے مدوں  پر زیادہ بات کریں ۔ اگر اس اٹھا پٹخ میں   ان کا نشان سائیکل چھن گیا تو دونوں گروپوں   کو عوام تک اپنا نیا نشان پہنچانا مشکل ہوگا۔ اکھلیش  اقتدارمیں  ہیں   اس کا انہیں  فائدہ  مل سکتا ہے۔ ۔ لیکن نشان ضبط ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھاجپا کو ہی ہوگا۔ہر بغاوت کا ایک نتیجہ ہوتاہے لیکن اکھلیش کی بغاوت سے نہ ریاست کا بھلا ہونے والا ہے اور نہ ہی سماج وادی پارٹی کا۔کیونکہ اس جھگڑے کے سبھی کرداروں  کا اصل چہرہ سب کے سامنے آچکا ہے  اور وہ رنگے ہاتھوں  پکڑے گئے ہیں ۔

گٹھ بندھن پر بھی سپا کا رخ صاف ہونا بھی باقی ہے اکھلیش عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں  کہ اگر کانگریس اور سپا مل کر لڑیں  گے تو 300سیٹیں  جیتیں  گے۔ وہ کانگریس،آر ایل ڈی اور دوسرے دلوں  سے مل کر بہار کی طرز پر گٹھ بندھن بنانا چاہتے ہیں   اس سے انہیں   اپنے روایتی ووٹوں  کے ساتھ کچھ سیکولر ووٹوں  کے ملنے کی بھی امید ہے۔  موجودہ جھگڑے سے سپا کے کیڈر میں  جو تلخی اور مایوسی پیدا ہوئی ہے اس سے ابھرنے میں  بھی گٹھ بندھن معاون ثابت ہوگا جبکہ ملائم سنگھ کانگریس کی قیمت پر بھاجپا کو بڑھاوا دینے کی سیاست کررہے ہیں ۔ بظاہر وہ اپنے بیٹے کے سیاسی امکانات کو بھی برباد کرنے پر اتاروں  ہیں  لیکن ابھی یہ کہنا مناسب نہیں  ہوگا کہ ان کے ذہن میں  کیا چل رہا ہے۔

موجودہ گھمسان ٹکٹوں  کی تقسیم کو لے کر شروع ہوا۔  ملائم سنگھ نے 325امیدواروں  کی لسٹ شیوپال کے ساتھ جاری کی تھی۔ اس میں  اکھلیش کے قریبی سمجھے جانے والوں  کا نام نہیں  تھا۔ اسی کے جواب میں  اکھلیش نے 235امیدواروں کی لسٹ جاری کی، جس میں  171ٹکٹ موجودہ ممبران اسمبلی کو دیے گئے تھے اور64امیدوار ایسی سیٹوں  پر بنائے گئے  جہاں  2012میں  سپا امیدوار دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ شروع میں اس قدم کو ملائم سنگھ پردبائو بنانے والا بتایاگیاتھا۔ اس اختلاف کے سہارے  ملائم سنگھ میڈیا میں  چرچا کا موضوع بن گئے۔ جبکہ دونوں  کی لسٹ میں  23ایسی سیٹیں  تھیں  جہاں  دونوں  نے اپنے اپنے امیدواروں  کا اعلان کیاتھا۔ اکھلیش، ملائم کے درمیان صرف31ناموں کو لے کر اختلاف تھا۔ دونوں  کی لسٹ میں  145نام کامن ہیں ۔ اس میں  ایسی کوئی بات نہیں  تھی جس سے جھگڑے کو طول دیا جا سکے۔  اکھلیش یادو شروع سے کہتے رہے ہیں  کہ وہ باہو بلیوں  اور مافیائوں  کو ٹکٹ نہیں  دیں گے۔ لیکن اپنی لسٹ میں  انہوں نے اس کا خیال نہیں  رکھا۔ ان کی لسٹ میں  کئی ایسے نام ہیں  جن کا اچھا خاصا کرمنل ریکارڈ ہے۔ شاید اسی لئے بھاجپا کے ریاستی صدر کیشوپرساد موریہ کا کہنا ہے کہ سپا کی کھینچ تان صرف خاندانی ڈرامہ ہے۔ سپا کے غنڈہ راج سے عوام پریشان ہیں  اس سے دھیان ہٹانے کیلئے یہ حرکتیں  ہورہی ہیں ۔

سپا کے ایم یل اے اکھلیش کے چہرے پر چنائو لڑنا چاہتے ہیں ۔ یہ چنائو جہاں  اکھلیش کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے پر مہر لگائے گا وہیں ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی کریگا۔کیونکہ بل کھاتی سیاست کی لہروں  پر ان سے جس بغاوت کی عبارت لکھنے کی امید تھی اس میں  وہ بری طرح ناکام رہے ہیں  ۔   اگر صلح نہیں  ہوئی تو یہ لڑائی لکھنؤ سے چل کرگلی محلوں  تک پہنچے گی۔  جہاں  کئی راز کی باتوں  سے پردہ ہٹے گ عوام ملائم۔  اکھلیش دونوں  کی منشا و نیت  پر بات کریں گے۔ کیونکہ  اب تک انہوں نے  اپنی حرکتوں  سے مخالفین کی ہی مدد کی ہے، جنہیں  ناکام کرنے کا وہ دم بھرتے رہے ہیں ۔ الیکشن سے ٹھیک پہلے یہ سب اگر ملائم سنگھ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے، تو یہ ضروری نہیں  کہ چنائو کے نتیجے بھی ان کی سوچ کے مطابق ہی ہوں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ چناوی دنگل میں  یہ لڑائی انہیں  مذاق کاموضوع بناتی ہے یا ایک بار پھر ریاست میں  کام کرنے کا موقع دیتی ہے۔عوام سنجیدہ قیادت کو پسند کرتے ہیں  جو ان کے مسائل پر توجہ دے کر پوری ذمہ داری کے ساتھ انہیں  حل کرنے کی کوشش کرے۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔