سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر

اس دنیائے انسانیت سے انسانیت اس وقت ہی اٹھ گئی تھی جب  ستمبر 2015 میں  شامی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے کے بعد مہاجرین کی ایک ٹولی یونان کا سمندری سفر طے کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کسی طرح کی مدد نہ ملنے کے نتیجے میں  جب اس شامی قافلے کے ایک معصوم بچے ایلن کُردی کی لاش ترکی کے ساحل سمندر پر ملتی ہے.جو تصویر پوری دنیا میں  شامی حکومت کے ظلم و تشدد کی گواہ بن گئی تھی.

اب میانمار سے ایک دل دہلانے والی تصویر سامنے آئی ہے، ڈیڑھ سال کے ایک معصوم بچے محمد شحیات کی کیچڑ میں  لت پت لاش میانمار کے روہنگیا مسلمانوں  کی مظلومیت کی داستان بیان کر رہی ہے اور حقوق انسانی کی دہائی دینے والی حکومتوں  کا پردہ فاش کر رہی ہے.
میانمار کی فوج اور حکومت کے ظلم و جبر کا نشانہ بن کر اپنا ملک چھوڑ جانے والے روہنگیا مسلمانوں  کے قافلے میں  شامل محمد شحیات اپنی ماں  اور بھائی کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر ندی پار کر رہا تھا تبھی اچانک ان کی کشتی ڈوب گئی اور پورا قافلہ غرقاب ہوگیا، محمد شحیات کی لاش ندی کے کنارے کیچڑ میں  لت پت ملی. اس بچے کے والد جو پہلے ہی بنگلہ دیش چلے گئے تھے انہوں  نے اس دل خراش واقعہ کے بعد پوری دنیا سے اپیل کی ہے کہ "میانمار کی ظالم حکومت کو اور مہلت نہیں  دی جانی چاہیے، اگر آپ کاروائی کرنے میں  دیر کریں  گے تو وہ تمام روہنگیا مسلمانوں  کو موت کے گھاٹ اتار دیں  گے”.
اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں  روہنگیائی مسلمانوں  کو "روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت” قرار دے رکھا ہے. میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے ہی شہریوں  کو شہری تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے. میانمار میں  بدھوں  کا خیال ہے کہ مسلمان یہاں  غیر قانونی طور پر آئے اس وجہ سے انہیں  اس ملک کا شہری ہونے کا حق حاصل نہیں  ہے اس لیے یہاں  بار بار مسلمانوں  کے خلاف میدان سجایا جاتا ہے تاکہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں .
میانمار کی تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو وہاں  روہنگیائی مسلمانوں  پر ظلم و تشدد کی قیامتیں  ٹوٹنے کے کئی واقعات ملتے ہیں . 1559 میں  مذہبی عقائد کی آڑ میں  جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی. 1782 میں  بادشاہ "بودھا پایہ” نے پورے علاقے کے مسلم علماء کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار کرنے پر سب کا قتل کردیا گیا. پھر ظلم و ستم کی یہ داستان بڑھتے بڑھتے 1938 تک جا پہنچی جب بودھ برطانوی فوج کے خلاف جنگ آزادی لڑنے میں  مشغول تھے تو گولیوں  سے بچنے کے لیے مسلمانوں  کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے.
برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں  کا پہلا قتل عام 1962 میں  ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں  کو باغی قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا جو وقفے وقفے سے جاری رہا جس میں  کم و بیش ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور لاکھوں  مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے.
ظلم و ستم کا یہ سلسلہ دن بدن دراز ہوتا گیا اور آج بھی اسی طرح جاری ہے.
مصیبت کی اس گھڑی میں  بے یارو مددگار روہنگیائی مسلمان در در کی ٹھوکریں  کھا رہے ہیں،  حاجیوں  کو پانی پلا کر سستا ثواب کمانے والے، دنیا کی بلند ترین عمارتیں  تعمیر کرانے والے، اور خدا کی طرف سے نوازے گئے تیل کے کنوؤں  سے فائدہ اٹھانے والے ممالک بھی ان اہل ایمان کی مدد کے لیے آگے آتے ہوئے نظر نہیں  آرہے ہیں .
بہر حال سمندروں  کے ساحلوں  پر اور کیچڑوں  میں  لت پت معصوم بچوں  کی لاشیں  زبان حال سے چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہی ہیں  کہ کیا انسانیت ابھی بھی زندہ ہے…؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔