ہِندو دھرم کیا ہے؟

لفظ ہندو کی تحقیق:  لفظ ہندو کے متعدد معانی آتے ہیں۔

 [1]  دریائے سندھ کی جانب نسبت کرکے اس دریا کے آس پاس بسنے والوں کو سندھو کہا جاتا تھا۔ سنسکرت کا ’’س‘‘ فارسی میں ’’ہ‘‘ سے بدل جاتا ہے، مثلاً سفت اور  ہفت یا موریہ اور ہوریہ۔ سندھو اور ہندھو یا سومایا ماہ اور ماس وغیرہ؛ چنانچہ آریوں کا جو پہلا گروپ ہندستان آیا انھوں نے سندھو ندی جو ایران اور ہند کی سرحد پر پڑنے والی پہلی ندی ہے کو ہندو کہا اور اس سندھو ندی کے پار جتنے لوگ بستے تھے انھیں ہندو کہا۔

[2]  ’ہندو‘ فارسی لفظ ہے جس کے معنی سیاہ کے ہیں؛ چنانچہ حافظ شیرازی کا شعر ہے  ؎

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا … بخال ہندواش بخشم سمر قندو بخارا

 ’’اگر وہ شیرازی معشوق ہمارے دل کو تھام لے تو میں اس کے سیاہ تل کے عوض سمرقند و بخارا کے علاقے بخش دوں‘‘۔

 ہندستان کی اصل آبادی چونکہ سیاہ فام تھی اس لئے آریہ انھیں ہندو کہتے تھے اور اپنے لئے آریہ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ’رگ وید‘ سے لے کر منوسمرتی کے زمانے تک آریوں نے اپنے آپ کو لفظ ہندو سے بچایا۔ وید اور سمرتی میں ہندو لفظ آریہ قوم کیلئے قطعاً نہیں بولا گیا بخلاف اس کے انھوں نے اپنے سفید رنگ ہونے پر جا بجا فخر کیا ہے۔ جیسا کہ وید کے بعض گیتوں سے ثابت ہے اور جب پنجاب و سندھ کا علاقہ مفتوح ہوکر ایران کی اشکانی سلطنت کا حصہ بن گیا تو ہندستان والوں کیلئے عام طور پر لفظ ہندو استعمال ہونے لگا۔

 [3]  فارسی میں ہندو کے ایک معنی ’غلام‘ کے بھی آتے ہیں۔ اس ملک میں عام طور سے لوگ اپنے کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ لوگ جب باہر سے یہاں آئے اور یہ بالیاں دیکھیں تو انھیں خیال ہوا کہ شاید یہ غلام ہیں کیونکہ ان کے یہاں امتیاز کے طور پر یہ غلاموں کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ (ہندو دھرم ایک مطالعہ:11)۔

 ہندو دھرم کی اصطلاحی تعریف: ہندو دھرم میں کسی متفق علیہ عقیدہ اور اصول نہ ہونے کی بنیاد پر ہندو محققین بھی کوئی معین تعریف نہیں کرسکے ہیں۔ مہاتما گاندھی لکھتے ہیں:’’پُر امن طریقہ سے حق کی جستجو کا نام ’ہندو مت‘ ہے۔ آدمی خدا کو مانے بغیر بھی اپنے آپ کو ہندو کہہ سکتا ہے۔ ہندومت حق کی جستجو کا دوسرا نام ہے۔ ہندومت حق و صداقت کا مذہب ہے۔ حق ہمارا خدا ہے۔ ہمارے یہاں خدا سے انکار کی مثالیں موجود ہیں لیکن حق سے انکار کی کوئی مثال نہیں‘‘ (تلاشِ ہند:ج1، ص135)۔

 مہاتما گاندھی نے حق اور امن کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن بہت سے مشہور ہندو کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے امن یا عدم تشدد کا جو مفہوم سمجھا ہے وہ ہندومت کا کوئی لازمی جز نہیں اور اس کیلئے حق ہی ایک چیز رہ جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی متعین تعریف یا مفہوم نہیں ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ہندو دھرم کی تعریف اس طرح کی ہے:

  ’’بہ لحاظ عقیدہ ہندو ازم غیر متشکل پہل دار اور ہر شئے برائے ہر کس ہے۔ اس کی تعریف متعین کرنا سخت دشوار ہے بلکہ مروج معنوں میں اسے دیگر ادیان کی طرح مذہب کہنا بھی مشکوک ہے۔ اس نے ماضی میں بھی ارفع و ادنیٰ اور کبھی کبھی تو متضاد رسوم و افکار کو گلے لگایا ہے۔ اس کی اصل روح زندہ رہو اور رہنے دو میں پوشیدہ ہے‘‘۔

 ان کی روشنی میں ہندو دھرم کی یوں تعریف کی جاسکتی ہے: ہندو مذہب ایک مشرکانہ مذہب ہے جسے ہند کی اکثریت مانتی ہے اور جس کی تشکیل پندرہویں صدی قبل مسیح سے لے کر موجودہ دور تک ہوتی رہی۔ یہ ایک اخلاقی، روحانی اور ہمہ گیر جامع نظام حیات کا حامل مذہب ہے۔ مختلف خداؤں پر یقین رکھنے والا ہر عمل اور علاقہ کا جدا جدا خدا کا قائل مذہب ہے۔ ہندو دھرم کو قدیم زمانے میں برہمنی مت، آریہ دھرم اور سناتن دھرم بھی کہا جاتا تھا۔ اس مناسبت سے لفظ برہمن اور آریہ کی تحقیق نذر قارئین کی جارہی ہے۔

  آریہ کی وجہ تسمیہ: آریہ سنسکرت زبان کے مصدر ’’آر‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی کاشتکاری اور زمین پھاڑنے کے ہیں لہٰذا آریہ کے معنی ’کاشت کار‘ ہوئے۔ بابل و نینویٰ کی آشوری زبان میں آری کے معنی جتے ہوئے کھیت کا یا کاشت شدہ زمین کے آتے ہیں جبکہ بنجر زمین کو لا آری کہتے ہیں۔ اس ملک کی کوشی زبان میں ’ارارا‘ کے معنی فصل کاٹنے کے آتے ہیں۔

  آر، چمڑے سینے کے اوزار اور بیل ہانکنے کے ڈنڈے کو بھی کہتے ہیں، جس کے سرے پر ایک نوک دار کیل لگی ہوتی ہے۔ اس طرح آریہ کے معنی چمڑا سینے اور بیل ہانکنے والا ہوئے۔ چونکہ یہ غیر آریہ سیاہ فام، پست فطرت، چپٹی ناک والے، کم ہمت، چھپ چھپ کر حملہ کرنے والے تھے، لہٰذا قدرتی طور پر لفظ آریہ میں روشن چہرہ، اونچی ناک والے، بلند حوصلہ اور شریف کا مفہوم پیدا ہوجانا چاہئے تھا؛ چنانچہ یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہونے لگا۔

 آریہ جو ہندستان میں آئے وہ کاشت کار تھے، اسی بنا پر انھیں آریہ کہا جاتا تھا۔ اس کی سب سے اہم دلیل ویدوں میں جا بجا کاشت کاری اور اس کے متعلقات کا ذکر پایا جانا ہے۔ ’یجر وید ‘کا ایک گیت ملاحظہ ہو: ’’اور انسانو! تم ہلوں کو جوئے میں لگاکر کھیتی کی خاطر زمین کو اچھی طرح جوتو اور اس کو اچھی طرح جوت کر اس میں جَو وغیرہ اناج بوؤ۔ جو محنت کرنے والا کاشت کار ہے اس کو چاہئے کہ بیلوں کے ذریعہ ہل میں پھال لگاکر بیلوں کو جوتے‘‘۔

 برہمن کی وجہ تسمیہ: آریوں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہما نے انھیں اپنے منہ سے پیدا کیا جو اُن کے بارگاہ الٰہی میں مقرب ہونے کی دلیل ہے۔ لہٰذا صرف انھیں ہی برہما کے دین کی تشریح و توضیح کا حق حاصل ہے ؛ چنانچہ برہما کی جانب نسبت کرکے انھیں برہمن کہا جاتا ہے؛ یعنی وہ طبقہ جو برہما کے دین کا محافظ و مبلغ ہے۔

 نیز لفظ براہمن ’’برہ وردھے‘‘ مادہ سے مشتق ہے، اس لفظ کے معنی ہیں تفصیل یا یگیہ۔ چونکہ برہمن کے توسط کے بغیر کوئی بھی یگیہ (قربانی) نہیں کی جاسکتی، اس لئے انھیں برہمن کہا جاتا ہے۔

 برہمن کی ایک اور وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے جو یہ ہے کہ برہمن چونکہ ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاء کرامؑ کی رسالتوں کے منکر ہیں اور صرف آپ کی نبوت کے قائل ہیں، اس مناسبت سے انھیں برہمن کہا جاتا ہے؛ یعنی وہ لوگ جو صرف رسالت ابراہیمی کے ماننے والے ہیں۔ اس سلسلے میں ابوالفضل السکسکی لکھتے ہیں:

 ’’ذات باری کے اقرار اور ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ دیگر رسولوں کی تکذیب کی بنا پر ہی انھیں برہمن سے موسوم کیا گیا‘‘ (البرہان فی معرفۃ الادیان:87)۔

 ہندو دھرم کی مختصر تاریخ: ہندو دھرم ایک قدیم مذہب ہے جس میں غیر ملکی حملہ آوروں سے میل جول کے نتیجے میں اہم تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ہندو دھرم کے ارتقائی مراحل کو اس کی تاریخ جانے بغیر صحیح طور پر سمجھنا دشوار ہے، لہٰذا ذیل میں ہندو دھرم کا مختصر تاریخی خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔

 (1 آریو ںکی آمد (2000ق م- 1500 ق م): دو ہزار سال قبل مسیح کے قریب آریہ ہندستان میں آئے اور ایک عرصے تک وہ ملکیوں سے لڑائی میں مصروف رہے لیکن پھر بھی وہ سندھ سے آگے نہ بڑھ سکے۔

 آریہ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ اس سلسلے میں بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ یورپ سے آئے۔ بعض دیگر محققین انھیں دریائے جیحون کا باشندہ مانتے ہیں جو تلاشِ رزق کی خاطر یورپ و ایران سے افغانستان ہوتے ہوئے سندھ میں داخل ہوئے۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ ان کا اصل مسکن ایران ہی ہے، سندھ کے قرب و جوار میں واقع ایرانی قبائل سندھ میں داخل ہوئے۔ اس رائے کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ سنسکرت زبان میں فارسی زبان کے بے شمار الفاظ پائے جاتے ہیں اور تاریخی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ ہندستانیوں نے فارس کی جانب کبھی ہجرت نہیں کی۔ اس لئے علمائے لغت کا کہنا ہے کہ آریہ اور ایرانی ایک ہی علاقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

  (2  ویدی عہد (1500 ق م- 1000ق م): یہ وہ زمانہ ہے جب آریہ ستلج تک پہنچے اور گنگا جمنا تک بڑھے۔ اس میں انھوں نے اپنی فتوحات کی تکمیل کی اور ملک کے اصلی باشندوں کو مغلوب و محکوم کرلیا۔ اسی زمانہ میں وید تصنیف ہوئے اور کورو پانچالوں کی جنگ ہوئی۔ ویدی عہد کی ’’اہم خصوصیات تھیں:

 مظاہر فطرت اور خصوصاً اگنی، اِندر، سوریہ اور ورون کی پرستش کا رواج: ان میں سے طاقت کا دیوتا اندر اور راستی کا دیوتا ورون خاص ہیں۔ دیوتاؤں کو راضی اور خوش کرنے کیلئے رسومات کی ادائیگی اور قربانیاں کی جاتی تھیں۔ ایسا خیال کیا جاتا تھا کہ کائنات کا نظم قربانیوں کی وجہ سے قائم ہے۔ ایک متن کے مطابق خود کائنات دیوتاؤں کے ذریعہ دی گئی قربانی کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔

 ذات پات کے امتیاز کا نہ ہونا:

 (3  عہد عروج (1000ق م – 320 ق م): اس میں آریوں نے اپنی فتوحات کو مزید وسیع کیا۔ یہ زمانہ جنگی اور علمی کارناموں سے ممتاز ہے۔ فلسفے کا خاص کر زور ہوا اور ہند کے اصل باشندوں پر اپنا غلبہ و تسلط برقرار رکھنے کیلئے آریوں نے ذات پات کے نظام کو وضع کیا اور اس کیلئے مذہبی بنیادیں فراہم کی گئیں۔ اس طرح ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو دنیا میں اب تک عالمگیر ہے؛ یعنی بدھ مذہب کی بنیاد پڑی۔ اس عہد کے خاص اور امتیازی کارنامے یہ تھے:

 [1] جنگ و جدل اور فتوحات۔  [2] برہمنوں کی قوت اور ذات کا زور۔  [3] معاشرتی اور علمی ترقی۔ [4] اپنشد یعنی روحانی تعلیم کا ارتقاء۔

 ان تینوں ادوار میں ہندو دھرم برہمنی مت سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت تک اس مذہبی روایت میں برہمن طبقہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی اور اس کی ساخت و پرداخت بالکلیہ برہمن طبقوں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ برہمنی مت کے اس سنہرے دور میں جو مذہبی ادب وجود میں آیا اسے ویدک ادب کہا جاتا ہے اور اس کی مناسبت سے اس دھرم کو ویدک مت بھی کہا جاتا ہے۔

(4 عہد محکومی (بدھ مذہب کا غلبہ یا رد عمل کا دور 320 ق م- 500 م): یہ بدھ مذہب کا زمانہ ہے۔ اس عہد میں راجہ اشوک اور اس کی جانشینوں کے تعاون سے بدھ مذہب کا زور و شور رہا۔ علوم و فنون کو رونق ہوئی۔ شاعری، صرف و نحو، فنون، نجوم، فلسفہ وغیرہ اور تالیف و تصنیف کا بازار گرم رہا۔ برہمنی مت اور اس کے زور کو دبا دیا گیا اور ذات پات کے نظام کے خلاف پرزور آوازیں اٹھائی گئیں۔

 اس عہد میں بدھ مذہب نے ہندو مذہب اور ہندوؤں پر درج ذیل اثرات ڈالے ہیں:

 [1] طبائع میں خاص نرمی، لینت اور انکساری پیدا ہوئی، جس کا اثر نہ صرف انسانوں کے باہمی تعلقات پر ہوا بلکہ بے زبان حیوانوں ترک بھی پہنچا۔

 [2]بدھ سے قبل ہندوؤں کے تمام خیالات اور علوم کا دار و مدار ویدوں پر تھا، لیکن بدھ کے بعد ان کے فلسفے اور علوم کا تعلق ویدوں سے بالکل اٹھ گیا، یہاں تک کہ جدید برہمنی مت خالص ویدوں کا مذہب نہ رہا بلکہ ایسے دیوتاؤں اور بتوں کی پرستش رائج ہوگئی جن کا ویدوں میں ذکر تک نہیں۔

[3] ذات پات کا امتیاز اٹھ جانے سے مختلف فرقوں میں میل جول بڑھ گیا اور مساوات کا خیال پیدا ہوا اگر چہ ذاتیں قائم رہیں۔

[4] بدھ کے عہد سے لے کر اشوک تک مذبح اور گوشت کے بازار قائم رہے۔ [۵] لوگوں میں جنگ جوئی کا مادہ کم ہوگیا (مورتی اسی دور کی پیداوار ہے۔ اپنے نجی دیوتاؤں کا تصور عام ہوا۔ پرانی روایتیں قایم رہیں، لیکن نئے عناصر بھی در آئے)۔

 [5] برہمنی مت کے دوبارہ عروج اور بدھ مت کے زوال کا عہد (634م -1000م): اس عہد کا آغاز قنوج کے اس مناظرہ سے ہوتا ہے جو 634 م میں برہمنوں اور بدھسٹوں کے درمیان ہوا جس میں برہمنوں کو بدھ عالموں پر غلبہ حاصل ہوا اور پھر یہ مذہبی تفوق بڑھتا گیا، حتیٰ کہ شنکر آچاریہ (788م -830م) نے اپنے زور قلم سے بدھ مذہب کا جنازہ نکال دیا۔

[6] عہد محکومی (مسلمانوں کی آمد): اس عہد کا آغاز محمود غزنوی کے حملہ سے ہوتا ہے اور مغلیہ سلطنت کے زوال تک یہ عہد محیط ہے۔ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام نے درج ذیل اہم اثرات ڈالے ہیں:

 [1] خالص توحید کا اثر ہندومت پر کافی نمایاں ہے۔ عقیدۂ توحید سے متاثر ہونے کی بنا پر جب ہندوؤں نے تیزی سے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو سَنتوں اور سادھوؤں نے ہندو دھرم کی حفاظت کیلئے تیزی سے بھکتی تحریک (عشق الٰہی پر مبنی پرستش) شروع کی تاکہ عوا م کو اسلام سے دور رکھا جاسکے۔ بھکتی تحریک کے مشہور رہنما درج ذیل ہیں:

 [1] کبیر داس، نام دیو، سنت روی داس، جے دیو، راما نند (1360 ق م)، دھننا، پِیپا بینی وغیرہ۔  [2] کھانے پینے، رہنے سہنے اور دوسرے عام معاشرتی طریقوں میں ترقی دی۔ [3] بیہودہ رسوم اور توہمات کا زور کم ہوا۔

[7]  یورپی عہد (اٹھارہویں صدی سے بیسویں صدی تک): انگریزوں نے یہاں آتے ہی عیسائی مشنریوں کو کھلی آزادی دے دی جنھوں نے گھوم گھوم کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کی جس سے ہندوؤں میں بھی تبلیغ و اشاعت دین کا شوق پیدا ہوا، حتیٰ کہ آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مت میں دوبارہ داخل کرنے کیلئے شدھی سنگٹھن تحریک چلائی جس کے خاصے اثرات بھی پڑے۔ انگریزی عہد میں سب سے اہم چیز ہندو احیا پرستی کا آغاز ہے۔ انگریزوں نے ہندستانی مذاہب اور رسوم و رواج پر کھل کر تنقیدیں کیں۔ ان میں موجود توہم پرستی اور غیر معقول رسموں کو خوب اچھالا، جس سے ہندوؤں کی غیرتِ دینی بیدار ہوگئی اور مرور ِ ایام کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت آتی گئی۔

 آریہ اور برہمنی تمدن پر اندر اور باہر سے مختلف اور متعدد حملے پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک ہوتے رہے۔

 [1] ایرانیوں نے پانچویں صدی قبل مسیح میں اس ملک پر حملہ کیا۔ [2] یونانیوں نے چوتھی صدی قبل مسیح میں یورش کی۔ [3] اس کے بعد اہل باختر کے حملے تیسری یا پانچویں صدی تک ہوئے۔ [4] پانچویں صدی قبل مسیح میں بدھ مت کا بڑا حملہ برہمنی مت اور اس کے تمدن پر ہوا۔ [5]غیر آریہ اقوام ہند اور نیچ اقوام کے حملے خصوصاً غیر آریائی سلطنتوں کی طرف سے ساتویں اور آٹھویں صدی میں ہوئے۔ [6] ادنی اعتقادات اور وحشیانہ رسوم کی برہمنی مذہب سے کشمکش۔ [7] مسلمانوں کے حملے بارہویں صدی تک 1206ء میں پہلی مستحکم مسلم حکومت کا قیام محمد غوری (ترک) کے ذریعہ ہوا۔ [8]انگریزی حملے۔

 لیکن نہ ایرانی اس کا کچھ کرسکے اور نہ یونانی، نہ بدھ مذہب قائم رہا اور نہ غیر آریہ اقوام۔ یہاں خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جس سے آریہ ان تمام مخالف قوتوں کے دوران میں اپنے کو محفوظ رکھ سکے جبکہ اس کی اکثر ہم عصر قومیں دنیا سے مٹ گئیں لیکن وہ اب تک قائم ہے اور ان کی تہذیب و تمدن زندہ اور باقی ہے۔ اس کے اہم اسباب یہ ہوسکتے ہیں:

[1] رواداری: ہندستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے بقول ’’اس کی اصل روح ’زندہ رہو اور رہنے دو‘ میں پوشیدہ ہے‘‘۔

[2] مضبوط نظام تمدن۔ [3] ہندو رِشیوں کی روحانی اور علمی ریاضت۔ [4] عورتوں کی وفاداری اور جاں نثاری۔

 ہندو ازم اور دوسرے بڑے مذاہب میں فرق: ہندو ازم اور دوسرے بڑے مذاہب میں تین اہم فرق ہیں: [1] ہندو مذہب کا کوئی موجد نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہندو مذہب کیسے اور کب وجود میں آیا؟ اس کی کوئی تاریخ پیدائش نہیں۔ ہزاروں سالوں میں اس نے بتدریج اپنے ارتقائی مراحل طے کئے ہیں۔ [2]ہندو دھرم میں ایسا کوئی عقیدہ نہیں جس کی پیروی سب پر لازم ہو۔ اس میں کوئی متفق علیہ اصول یا فلسفہ بھی نہیں ہے۔

[3] ایک غیر ادارتی مذہب ہے۔ ہندو ادارے تو یقینا ہیں لیکن خود ہندو دھرم کوئی ادارہ نہیں ہے۔ اس میں اس کے معتقدین کی ایسی کوئی جماعت نہیں جو کسی ایک خاص قسم کی عبادت کرے یا کسی عام ضابطۂ اخلاق کے مطابق زندگی گزارے۔

تحریر: مولانا انیس احمد فلاحی مدنی، ترتیب:عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔