قاتل اسرائیلی فوجی کے خلاف مقدمہ کی حقیقت

مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں  ایک فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کو اسرائیلی فوج پہلے گھیرے میں  لیکر گولی مار کر زخمی کرتی ہے اور پھر جب وہ فلسطینی شہری شدید زخمی حالت میں  بے بس زمین پر تڑپ رہا ہوتا ہے، اسی لمحہ ایک اسرائيلی فوجی سارجنٹ الور عازاریہ اپنی بندوق تیار کرتا ہے اور محض چند میٹر کی دوری سے اس تڑپتے ہوئے فلسطینی کے سر میں  گولی مار کر شہید کردیتا ہے۔ یہ مارچ 2016کا واقعہ ہے اور یہ سارا منظر ایک ویڈیو کلپ میں  ریکارڈ ہے جسے موقع واردات پر موجود ایک فلسطینی نوجوان نے تیارکیا تھا۔ بعد ازاں  ایک اسرئیلی گروپ نے بھی اس ویڈیو کلپ کو نشر کیا اور پھر دھیرے دھیرے یہ ویڈیو کلپ دنیا بھر میں  پھیل گئی۔ اس ویڈیو کی صداقت کے تعلق سے کسی کو ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں  ہے، یہاں  تک کہ خود قاتل اسرائیلی فوجی کو بھی نہیں۔

سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں  اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسرائیل کی ایک فوجی عدالت میں  اس قاتل فوجی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں  اسرائیلی فوج کا متعصبانہ اور جانبدارانہ کردار بھی پوری طرح واضح ہے۔ پہلے تو از خود اسرائیلی فوج نے اس قاتل فوجی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں  لیا جب کہ اس نے یہ وحشیانہ حرکت فوجی عہدیداروں  اور عام فوجیوں  کے سامنے انجام دی تھی۔ بہر حال اُس ویڈیو کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیلی فوج بدنامی سے بچنے اور اپنی شبیہ کو سدھارنے کے لیے اس فوجی کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہوئی۔ قابل ِغور بات ہیکہ اسرائیلی فوج نیاپنے آپ کو انصاف کا علمبردار ثابت کرنے کے لیے اپنے فوجی اہلکار پر مقدمہ تو چلایا مگر جان بوجھ کر مقدمے ایسی کمزور بنیادوں  پر کھڑا کیا جس سے اس فوجی کو کوئی بڑی سزا نہ ہونے پائے اور دنیا بھر میں  اس مقدمے کی آڑ میں  واہ واہی بھی لوٹی جا سکے! در اصل اس ویڈیو کلپ میں  واضح طور پر اس فوجی کو بندوق تیار کرکے اور نشانہ لگا کر ایک بے بس تڑپتے ہوئے زخمی شخص کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب کچھ واضح ہونے کے باجود اس قاتل فوجی پر جان بوجھ کر غیر ارادی قتل کا الزام عائد کیا گیاجب کہ یہ ارادی قتل کے ساتھ ساتھ ایک وحشی پن کا معاملہ بھی تھا جس میں  برسرعام ایک بے بس اور زخمی انسان کو قتل کیا گیا تھاجسے انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ خود اسرائیلی فوج اور عدالت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس فلسطینی کے زخمی ہونے کے بعد اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں  تھا!دوسری جانب حقوق انسانی کے گروپوں  نے اس واقعہ کو غیر ارادی قتل کے بجائے ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے۔ اس مقدمے میں  ایک اور انتہائی قابل اعتراض بات یہ ہے کہ استغاثہ نے شہید فلسطینی کو ’دہشت گرد‘ جیسے الفاظ سے مخاطب کیا ہے جو کہ اسرائیلی فوج کی متعصبابہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ ‘ایک ایسے وقت میں  جب ’’دہشت گرد‘‘ زخمی حالت میں  زمین پر پڑا ہوا تھا اور وہ سارجنٹ ازاریہ یا کسی دوسرے اسرائیلی فوجی کے لیے کوئی خطرہ نہیں  تھا، اس وقت اس پر گولی چلا کر سارجنٹ ازاریہ نے فوجی قوائد سے روگردانی کی اور ایک ایسی کارروائی کی جس کا کوئی جواز نہیں  تھا۔ ‘ اسرائیلی فوجی عدالت کے مطابق مقتول فلسطینی عبدالفتح الشریف اور ان کے ایک ساتھی رمزی القصراوی نے چاقو سے حملہ کر کے ایک اسرائیلی فوجی کو زخمی کر دیا تھا۔ اگر اسرائیلی عدالت کے اس دعوے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی اس بات کا جواز کہاں  سے نکلتا ہے کہ چاقو سے حملہ کرنے والے کسی شخص کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جائے؟ غور کیجیے کہ دنیا کے سخت ترین محاصرے میں  گھرے اور شب و روز اسرائیلی مظالم کو جھیلنے کے لیے مجبور فلسطینی اگر عاجز آکر چاقو بھی اٹھا ئیں  تو ’’دہشت گرد‘‘ ہوگئے اور زخمی حالت میں  تڑپتے بے بس انسان کو قتل کرنے والا محض غیر ارادی قتل کامجرم! استغاثہ کے اس موقف سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ اس مقدمے میں  مدعی اور مدعا علیہ سب ایک ہیں  اور مقدمے کا مقصد حصول ِانصاف نہیں  بلکہ دنیا کے سامنے اسرائیلی فوج کی اپنی شبیہ کو سدھارنا تھا۔

یہ تو رہی مقدمے کی نوعیت اور اسرائیلی فوج کے موقف کی حقیقت، دوسری طرف اس معاملے میں  بحیثیت مجموعی اسرائیلی قوم اور اسرائیلی لیڈران کا موقف بھی پوری دنیاکے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے یہ بات واضح ہے کہ برسر عام انجام دیئے گئے اس قتل کے لیے اسرائیل میں  کوئی قابل ذکر تشویش یا جذبہ? ہمدردی ندارد ہے، بلکہ الٹا اُس وحشی قاتل کے لیے بڑے پیمانے پر ہمدردی اور حمایت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں  نہ صرف اس فوجی کے حق میں  اب تک متعدد جلوس نکالے جا چکے ہیں  بلکہ ملک کے کئی سینئر سیاستدانوں  نے اس قاتل کے حق میں  بیانات بھی جاری کیے ہیں۔  خود اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو بھی اس کی حمایت میں  کود پڑے ہیں۔  اسرائیلی وزیر اعظم نے فوجی عدالت کے طریقۂ کار پر تنقید کرتے ہوئے ڈھٹائی کے ساتھ اس فوجی کو معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دائیں  بازو کے اسرئیلی سیاست دانوں  نے تو اس فوجی کو سزا سے بچانے کے لیے دن رات ایک کردیاہے۔ دوسری جانب اس کھوکھلے مقدمے کی بھی حمایت میں  اگر کچھ اسرائیلی سامنے بھی آئے ہیں  تو ان کی تعداد اس قاتل کے حامیوں  کے مقابلے میں  بہت کم ہے۔ اب تک نہ تو اس قاتل فوجی کے خلاف کوئی نہ تو کوئی قابل ذکر احتجاج کیا گیا ہے، نہ ہی شہید فلسطینی کے حق میں  کوئی مظاہرہ ہوا ہے۔ اس مقدمے کی حمایت کرنے والوں  کو در اصل مقتول فلسطینی اور انسانیت کی فکر سے زیادہ اسرائیل اور اسرائیلی فوج کی بدنامی کی فکر ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوجی عدالت نے اس قاتل فوجی کو مجرم تو قرار دیا ہے مگر تاحال اس کی سزا کا اعلان نہیں  کیا ہے۔

گزشتہ دنوں  اسرائیل میں  بھیانک آتشزدگی کا سانحہ پیش آیا تھا۔ اس میں  سانحے میں  سب سے نمایاں  پہلو یہ تھا کہ ترکی، مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک نے بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی آگ بجھانے میں  اپنا تعاون پیش کیا تھا، حتیٰ کہ خود اسرائیل کے مظالم سے دوچار مظلوم فلسطینی بھی آگ بجھانے میں  پیش پیش تھے، یہ تھا تصویر کا ایک پہلو جس میں  ہمدردی اور انسانی بنیادوں  پر مسلمانوں  نے اپنے بدترین دشمن کا بھی بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا مگر تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے جو پورا اسرائیل قاتلوں  کی حمایت کرکے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔  ایک ایسی قوم جو دنیا میں  سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ اور ذہین وزیرک سمجھی جاتی ہے، بحیثیت مجموعی اس کی اخلاقی حالت اس حد تک گرچکی ہے کہ اس کے لیڈران اور قوم کی اکثریت ایک قاتل کی حمایت میں  کھڑی ہے! گزشتہ دنوں  آئی ایک رپورٹ میں  اسرائیل کو دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوم ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اب آپ ہی بتائے کہ بھلا ایسی تعلیم اور ترقی سے کیا حاصل جو مظلوم انسانوں  کو انسان گرداننے کے لیے بھی قائل نہ کرسکے، جو انسان کے دل و دماغ سے دیگر انسانوں  کے مقابلے میں  خود کے سب سے زیادہ افضل و برتر ہونے کا وہم نہ نکال سکے! بلکہ اس تعلیم و ترقی نے تو الٹا بحیثیت مجموعی اسرائیلی قوم کو ایک طرح سے نفسیاتی بیماری اور زعم ِ باطل میں  مبتلا کردیا ہے جو ممکن ہے کہ آگے چل کر اسرائیل کی ہلاکت و تباہی کی وجہ ثابت ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔