کتنا مشکل  اور غیر محفوظ ہے  ڈیجیٹل ہونا

ڈ جی دھن اپنائو، کیش کی عادت بدلو، کیش فری ہوجائو۔ مضبوط بھارت بنائو سڑک سے ٹیلی ویژن تک آپ کو یہ نعرے دیکھنے سننے کو مل جائیں گے ۔ کیش لیس، لیس کیش کب تک ہو جائیں گے یا ڈیجٹیل انڈیا کے سنہرے نعرے سے ملک کی تصویر کب اورکیسے بدلے گی، کسی کو نہیں معلوم، فی الحال کیش لیس اے ٹی ایم کی لائنوں میں پورا بھارت اسٹینڈ اپ ہے۔ دیش میں قریب دو لاکھ اے ٹی ایم ہیں۔ان میں سے 30فیصد نوٹوں کی کمی کے چلتے دسمبر تک کھولے نہیں جا سکے تھے ۔دیہی علاقوں میں تو کئی اے ٹی ایم آج تک بھی چالو نہیں ہو سکے ہیں۔ ریزوبنک کے ہی آنکڑے ہیں کہ مارچ 2016تک کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ لین دین میں 27 فیصد اور ڈیبٹ کارڈ کے استعمال میں 48 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2016تک 7کروڑ 22لاکھ 20ہزار لوگوں نے کریڈٹ کارڈ سے ، اور 11 کروڑ 28لاکھ 70ہزار لوگوں نے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ لین دین کیا تھا۔ اتنا ہونے کے باوجود کیش کے ذریعہ لین دین کرنے میں بھارت انڈونیشیا اور روس کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بروکریج گروپ ، سی ایل ایس اے کے بقول بھارت کی قریب 68فیصد آبادی اس وقت نقدی میں کاروبارکرتی ہے۔ صرف 14-12 فیصد لوگ ہی ڈیجیٹل لین دین کرتے ہیں۔ صنعت کاروں کی ایسوسی ایشن ایسوچیم کی مانیں تو دیش کو کیش لیس سوسائٹی ہونے میں پانچ سال لگیں گے۔

نو ٹ بندی کے نام پر سرکار نے کئی سطح پر بحران کو ہی دعوت دی ہے۔ وہ اس معاملے میں اتنے آگے بڑھ گئی کہ اس کیلئے پیچھے لوٹنا ممکن نہیں، یہ الگ بات ہے کہ گورنر ریزروبینک جوائنٹ پارلیمنٹسری کمیٹی کو نوٹ بندی کی وجوہات سے مطمئن کرنے میں ناکام رہے ۔ اسلئے بھی سرکار کے پاس نوٹ بندی کو کامیاب بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ حکومت نے آن لائن لین دین اور ڈیجیٹل بھگتان کو بڑھا وا دینے کیلئے انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت نے کئی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت ڈیجیٹل ادائیگی کرنے والوں کو انعام دیا جائے گا ۔ ڈیجیٹل لین دین کو بڑھاوا دینے کیلئے سرکار کتنی سنجیدہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 50روپئے سے لے کر 3000روپئے تک روزانہ بھگتان کرنے والے لوگوں کو اس انعام اسکیم میں شامل کیا گیا ہے۔ سرکار کی ان اسکیموں کی طرف لوگ متوجہ ہوں گے۔ لیکن  اس میں دو مشکلیں ہیں ایک ڈیجیٹل ادائیگی پر فیس کی وصولی  اور دوسرے نیٹ ورک کی کمی۔جس طرح لوگوں سے موٹی فیس وصول کی جا رہی ہے اس سے وہ غصہ میں ہیں۔اسے لوگ اپنی محنت کی کمائی کی بربادی مان رہے ہیں ۔دوسرے خراب نیٹ ورک کی وجہ سے ادئیگی میں پریشانی  اور زیادہ بلنگ ہونے کا امکان ہے ۔

اس وقت سب سے بڑا سوال  یہ ہے کہ کیا پورے ملک میں بغیر رکاوٹ والا ڈیجیٹل گیٹ وے تیار ہو چکا ہے۔ یقینی طور پر اس کا جواب نا میں ہے۔ آج بھی گائوں کو تو چھوڑ دیجئے ، شہروں تک کے کچھ محلوں اور گلیوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بغیر رکاوٹ والی سروس نہیں ہے۔ گائوں میں لوگوں کو موبائل فون سے بات کرنے کیلئے ان جگہوں پر جانا پڑتا ہے ، جہاں نیٹ ورک کنکٹیوٹی اچھی ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل گیٹ وے کا متوازی قابل رسائی مضبوط انتظام کیا جائے۔ جب تک انٹرنیٹ کی بغیر رکاوٹ والی سروس نہیں ہوگی، ڈیجیٹل گیٹ وے کی آرام دہ سہولتیں نہیں دی جاسکتیں اور ڈیجیٹل لین دین کو کامیابی کے ساتھ لاگو نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت اور فلپائن ایسے ممالک ہیں جو انٹرنیٹ سروس 4MBPSکے بیسک اسٹینڈرڈ تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ یہ دونوں ملک 3.5MBPS براڈ بینڈ کی اوسط رفتار کے ساتھ دنیا کے ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے 114 ویں نمبر پر ہیں۔ سب سے بہترین انٹرنیٹ والا ملک جنوبی کوریا ہے جہاں اوسط رفتار 29MBPS ہے۔ انٹرنیٹ کی پیک اسپیڈ میں سنگا پور سب سے آگے ہے۔ جہاں آپ کو کسی خاص وقت میں انٹرنیٹ 146MBPSکی رفتار سے بھاگتا مل سکتا ہے۔ جنوبی کوریا میں یہ اسپیڈ 103.6MBPS ہے۔ انٹر نیٹ کی پیک اسپیڈ کی بات کریں تو بھارت 25.5MBPS کے ساتھ ایک بار پھر فہرست میں بالکل نیچے نظر آتا ہے ۔ سب سے تیز اوسط موبائل کنکشن اسپیڈ میں برطانیہ 27MBPS کے ساتھ آگے ہے جبکہ بھارت میں یہ اسپیڈ 3.2MBPSہے۔ ایسے میں انٹرنیٹ کی رسائی اور رفتار بڑھائے بغیر کیش لیس یا لیس کیش دور کی کوڑی لگتی ہے۔

ڈیجیٹل پیمنٹ کیلئے سرکار کے ذریعہ مشتہر ’’ جیم‘‘ کے تحت جن دھن کھاتہ ، آدھار اور موبائل کنکشن ضروری ہے۔ بھارت میں اسمارٹ فون کی تعداد 2016 تک 20 کروڑ ہونے کا اندازہ کیا گیا تھا ۔ ایسے میں بڑی آبادی اب بھی اس سے دور ہے۔ زیادہ تر لوگ فیچر فون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ انٹرنیٹ کے بغیر بھی ڈیجیٹل بینکنگ تک پہنچ سکتے ہیں لیکن  ان کاسفر لمبا ہے ۔ ڈاٹا کی حفاظت اور پرائیویسی کیلئے ابھی تک سخت قانون نہیں ہے ۔ اسلئے بلا معاوضہ موبائل سہولت کے نام پر کروڑوں لوگوں کی نجی جانکاری اور ڈاٹا کا مستقبل میں غلط استعمال نہیں ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں لے سکتا۔چین میں قانون سخت ہونے کی وجہ سے  انٹرنیٹ کمپنیوں کیلئے بھارت سب سے بڑا  آزاد بازار ہے ۔ بھارت میں گراہکوں کی جواب دہی کے جھمیلے سے بچنے کیلئے کمپنیوں نے اپنے ہیڈ آفس اور سرور غیر ممالک میں رکھے ہیں۔ ان سے نپٹنے کیلئے سرکار کو قانون بنانے ہوں گے ۔ ویسے جن ممالک میں تکنیکی سہولتیں اور ڈیجیٹل گیٹ وے کا بہترین انتظام ہے۔ وہاں کی ڈیجیٹل بھگتان سروس پوری طرح کامیاب نہیں ہے۔ مشہور اقتصادی نیوز ایجنسی بلوم برگ نے بھارت میں نوٹ بندی لاگو ہونے کے بعد آسٹریلیا ، یورپ اور امریکہ میں سروے کیا۔ جس کے مطابق جرمنی اور آسٹریلیا جیسے دیشوں میں بڑے بھگتان تک کیلئے نوٹ کا چلن زیادہ ہے۔ امریکہ میں  46فیصد  اور چین میں 45فیصدلین دین نقد میں ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے جن دیشوں میں بلوم برگ نے سروے کیا۔ ان میں ای ۔ والیٹ ، کریڈٹ کارڈ ، ڈیبٹ کارڈ اور بٹ کائن جیسی سہولتیں موجود ہیں۔

دیش میں ڈیجیٹل لین دین کا ڈھانچا ابھی تیار نہیں ہوا لٹیرے پہلے ہی آگئے۔ لیزن نام کے گروپ نے راہل گاندھی اور کانگریس کا ٹیوٹر اکائونٹ ہیک کر لیا۔ گروپ نے پارلیمنٹ اور 50 ہزار کارپوریٹ گروپوں ، افسروں کی ای امیل ، بینک اکائونٹ ، فون نمبر سمیت دوسری پوشیدہ جانکاریوں کو پبلک کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ہیکرس نے اخباروں کو دیے بے خوف انٹرویو میں کیش لیس معیشت کو بھارت کیلئے غیر محفوظ بتایا ہے۔ خبر یہ بھی آچکی ہے کہ سائبر کرمنل اے ٹی ایم ڈیبٹ کارڈ کا ڈاٹ ہیک کرکے انیس بینکوں کے گراہکوں کو کروڑوں کا چونا لگا چکے ہیں۔ امریکہ سے شائع دانلسن رپورٹ کے اکتوبر 2016کے شمارے کے مطابق اے ٹی ایم ، ڈیبٹ ، کریڈٹ و پری پیڈ ادائیگی کارڈوں سے جڑی دھوکا دھڑی کے واقعات میں پھنسی رقم 21.84 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یہی نہیں ہر طرح کے سائبر کرائم کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو اب تک 445 ارب ڈالر سالانہ کے نقصان کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ ایسوچیم ۔ پی ڈبلیوسی کی ساجھا اسٹیڈی کے مطابق بھارت میں 2011-2014 کے پیچ کارڈ کرنسی گھوٹالہ ، آن لائن فراڈ و سائبر کرائم میں تین سو گنا اضافہ ہوا ہے ۔ ایسے میں ڈیجیٹل ادائیگی نظام میں رقم کی حفاظت پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

عوام کو ڈیجیٹل ادائیگی کے اکھاڑے میں دھکیلنے سے پہلے سرکار کو حفاظت کا چوکس انتظار کرنا ہی چاہئے۔ ڈیجیٹل پیمنٹ کیلئے انفرا ، ڈیجیٹل خواندگی ، قانون اقتصادی مورچہ کے علاوہ ڈیجیٹل حفاظت کی چنوتی سے نپٹنا ہوگا۔ پرکیش لیس کیلئے نئے ڈھانچے کو راتوں رات تو درست نہیں کیا جاسکتا ۔ مثال کے طور پر 50 لاکھ افسران کو سرکاری ای میل کی سہولت دینے کیلئے این آئی سی نیٹ ورک کا مرکز سرکار ابھی تک تیار نہیں کرپائی ہے۔سہولتوں کے محفوظ استعمال کی عادت ڈالنے میں بھی وقت لگے گا۔پھر ڈیجیٹل لین دین پر اتنا زور کیوں؟ ابھی 70کرور ڈیبٹ کارڈ میں سے 45 کروڑ کا استعمال صرف پیسے نکالنے یعنی نقدی کیلئے ہی ہوتاہے۔ اس زمینی حقیقت کو نظر انداز کرکے اگر 30 کروڑ ان پڑھ اور غریب لوگوں کو ڈیجیٹل بھگتان کے سرکاری فائدوں سے محروم کیا گیا تو اس سے اقتصادی نا برابری ہی بڑھے گی۔

سائبر حفاظت کی ذمہ داری بینکوں پر نہیں ڈالی جاسکتی ۔ کیوںکہ پونجی کی کمی اور این پی اے کی وجہ سے بینکنگ نظام لڑکھڑا رہا ہے۔ وہ سائبر حفاظت کیلئے رقم کہاں سے جٹائیں گے۔ اے ٹی ایم کا زیادہ تر انتظام آئوٹ سورس کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ جو مائکرو سافٹ کے آوٹ ڈئیڈ سافٹ ویئر  کے استعمال کی وجہ سے غیر محفوظ ہے۔ غیر ممالک میں بیٹھے ہیکر اور گناہگاروں کا پولس اور خفیہ ایجنسیاں پتا ہی نہیں لگا پاتیں۔ گراہکوں کو حرجانہ تو ملنا دور ان کی مدد کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ سائبر حفاظت  کے کاروبار میں اسرائیل اس وقت سب سے آگے ہے۔ اسرائیل کی ڈھائی سو کمپنیاں اس کام میں لگی ہوئی ہیں۔بھارت میں ایک اندازے کے مطابق 2020تک 500ارب ڈالر کی ڈیجیٹل معیشت ہو جائے گی۔ جو جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے۔ جبکہ یہاں سائبر سیکورٹی مارکیٹ 21 ارب 80 کرور ڈالر کی بتائی جاتی ہے۔ پچھلے سال دورے پر آئے اسرائیلی صدر کے بعد یہ  مانا جارہا ہے کہ وہاں کی کمپنیاں بھارت کی سائبر سیکورٹی مارکیٹ میں پیر جما سکتی ہیں۔

نوٹ بندی کے بعد چین کی کمپنی پے ٹی ایم کے کاروبار میں 700فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس نے اپنے ایک فیصد شیر بیچ کر 325 کروڑ روپئے کماتے ہیں۔ ایسوچیم کی رپورٹ کے مطابق کیش لیس مہم سے جی ڈی پی میں 1.5 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ سے لاکھوںلوگ بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ انٹر نیٹ کمپنیوں کو کاروبار کرنے کیلئے بھارت میں اپنے آفس اور سرور قائم کرنے کیلئے پابند کرنے کا قانون بننا چاہئے۔ تاکہ میک ان انڈیا مہم کو حقیقت میں کامیابی مل سکے۔ نوٹ بندی سے چھوٹے کاروباری جی ایس ٹی کے دائرے میں آجائیں گے لیکن اگر اس کی وجہ سے مندی آگئی تو دیش اس کامقابلہ کیسے کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ دنیا میں جب مندی آئی تھی تو ہم  نے اپنی اسی نقدی والی معیشت کے بل پر اسے ہرایا تھا ۔ ڈیجیٹل ہونے کے بعد یہ راستہ بند ہو جائے گا ۔ ایسے میںبس ہم یہ  دعاہی کرسکتے ہیں کہ دیش پر کوئی برا وقت نہ آئے اور وہ پلاسٹک منی کے سنہرے پنکھوں سے  ترقی کی اڑان بھرے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی (یو این این)۔9810371907

 

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔