امریکہ میں  ڈاکٹر سید احمد قادری کے اعزاز میں’ایک شام‘ کا انعقاد

  بھارت سے امریکہ تشریف لانے والے اردو کے معروف صحافی اور افسانہ نگار ڈاکٹر سید احمد قادری کے اعزاز میں  بزم شعر و سخن،  ہیوسٹن کی جانب سے گزشتہ 22 ؍ جنوری ، بروز اتوار، ہوٹل کمفرٹ ان میں  ایک باوقار شام کا انعقاد کیا گیا۔ اس اعزازی جلسہ کی مجلس صدارت میں  اردو کے مشہور ادیب اور  ’باتیں  کراچی کی‘ کے مصنف جناب سلمان یونس ، علی سردار جعفری کے بھتیجہ اور معروف شاعر جناب پرویز جعفری اور امریکہ کی مقبول شاعرہ عشرت آفریں جیسی اہم شخصیات جلوہ افروز تھیں۔ جلسہ کا آغاز جناب ایاز مفتی کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد امریکہ کے مشہور و مقبول شاعر ڈاکٹر نوشہ اسرار نے مہمان خصوصی ڈاکٹر سید احمد قادری کا حاضرین سے تعارف کراتے ہوئے ان کی ادبی اور صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس وقت بھارت میں  جو لوگ ادب و صحافت کے میدان میں بہت زیادہ سرگرم ، متحرک اور فعال ہیں  ، ان میں  ایک اہم نام ڈاکٹر سید احمد قادری کا ہے۔ جو اپنے افسانے، اور تنقیدی و صحافتی مضامین کے حوالے سے پورے برصغیر میں  اپنی ایک منفرد شناخت بنانے میں  کامیاب ہیں۔  انھوں  نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ میں  ان کی تشریف آوری کے بعد یہاں  کے مشہور ٹی وی چینل ، ٹی وی ون نے ابھی حال میں  ان کا ایک گھنٹے کا انٹرویو بھی نشر کیا تھا۔ تعارف کے بعد ڈاکٹر نوشہ اسرار نے ڈاکٹر سید احمد قادری کا پھولوں  کے گلدستہ اور شال کے ساتھ اعزاز پیش کیا اور ان سے گزارش کی کہ وہ ادب اور صحافت کے سلسلے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

ڈاکٹر نوشہ اسرار کی اس گزارش پر ڈاکٹر سید احمد قادری نے اس شاندار تقریب کے انعقاد کے لئے تمام لوگوں  کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت عالمی منظر نامہ میں  ہر جانب انتشار، خلفشار، اور بد امنی کی مسموم فضا چھائی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔  کئی ممالک کے لوگ جنگ و جدال سے خوف زدہ ، پریشان حال اور سراسیمہ ہیں۔  بے پناہی، ظلم،بربریت، تشدد،استحصال ، نسلی امتیاز، مذہبی تفریق نے ہر طرف اپنے خونی پنجے گاڑرکھے ہیں  اور المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نوبل پیس پرائز  یعنی برائے امن لے کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں  ، بلکہ کچھ ملک تو ایسے ہیں  ، جو  بظاہر اور زہبی اعتبار سے عدم تشدد کے علمبردار ہیں  اور اپنے سینے پر نوبل پیس پرائز کا تمغہ بھی لگا  رکھاہے ، وہاں  سب سے زیادہ ظلم، بربریت اور قتل و خوں  کا ننگا ناچ ہو رہا ہے۔ ایسے ناگفتہ بہہ حالات میں  ادیبوں  اور صحافیوں  کی بہت زیادہ ذمہّ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایسے معصوم، بے گناہ، بے بس، اور روتے بلکتے لوگوں کی آواز بن کر انھیں  انصاف دلانے کی بھرپور کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت اور اقدار کی حفاظت کریں۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے اپنی مختصر لیکن بہت ہی جامع تقریر میں  اردو زبان کی زبوں  حالی کا بھی بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں  ،  بلکہ ہماری پوری تہذیب ہے۔ اسے نہ صرف اپنے دلوں  بسائے رکھنے بلکہ اس کی حفاظت اور فروغ کی بھی ہم آپ کی ذمّہ داری ہے۔ ڈاکٹر قادری نے امریکہ میں  رہنے والے ان لوگوں  کو مبارکباد  پیش کی، جو نہ صرف اپنے گھروں  میں  اردو کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں  ، بلکہ اپنی کوششوں  سے اس کی روشنی کو دور دور تک پھیلانے کی جدوجہد میں  بھی مصروف ہیں۔  یہاں  کے اردو ادارے، ادبی انجمنیں ، اردو اخبارات، اردو زبان کے ریڈیواور ٹی وی چینل سے وابستہ حضرات یقینی طور پر بہت تاریخی کام سر انجام دے رہے ہیں ،اس کے لئے آنے والی نسلیں  بھی انھیں  ضرور اچھے ناموں  سے یاد کریں  گی۔

 اس  اظہار خیال کے بعد ڈاکٹر سید احمد قادری نے جناب سلمان یونس کی ترتیب کردہ کتاب ’دیوان جوہر عظیم آبادی ‘ جو حال میں  کراچی سے شائع ہو کر امریکہ آئی ہے ، اس کااجرأ لوگوں  کی تالیوں  کی گڑگڑاہٹ کے درمیان کیا۔ اس کتاب کے متعلق ڈاکٹر نوشہ اسرار نے  تعارف  پیش کرتے ہوئے حاضرین  جلسہ کو بتایا کہ یہ دیوان ،جسے اس کے خالق نے اپنے انتقال سے دو سال قبل ترتیب دیا تھا اور خود صرف 37سال کی مختصر عمر  میں  یعنی 1938ء میں  دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس دیوان کی تین نسلوں  نے حفاظت کی اور اب جوہر عظیم آبادی کے بیٹے جناب سلمان یونس اور پوتے  غالب سلمان کی کوششوں  سے منظر عام پر آئی ہے۔ جس کا اجرأ  ابھی ڈاکٹر سید احمد قادری کے ہاتھوں  ہو ا۔ آج کا یہ جلسہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم، تاریخی اور یادگار ہے کہ بھارت کے ایک مشہور نقاد کے ہاتھوں  ، ایک بھارتی شاعر کا دیوان ، جو کراچی میں  شائع ہوا اور جس کا اجرأ امریکہ میں  ہوا۔ اس موقع پر ارمان خاں  دل نے دیوان جوہر عظیم آبادی پر ایک تہنیتی نظم بھی سنائی۔ لوگوں  کی فرمائش پر ڈاکٹر نوشہ اسرار نے جوہر عظیم آبادی کی ایک بہت خوبصورت غزل’ کیا تماشا دیکھتا میں  حسن کی تصویر کا‘  ترنم کے ساتھ پیش کر لوگوں  کو  ایسامسحور کر دیا کہ لوگ جلسہ میں  موجود شعرأ کو سننے کوبضد ہو گئے ، جس کے آگے ڈاکٹر نوشہ اسرار نے سپر ڈال دی اور باضابطہ مشاعرہ کا سماں  بندھ گیا۔ جس میں  خالد رضوی،شمشاد ولی، خالد خواجہ ، باسط جلیلی، الطاف بخاری، ارما ن خان دل، نوشہ اسرار، عارف امام، غضنفر ہاشمی،ظفر تقوی،پرویز جعفری اور عشرت آفرین وغیرہ نے اپنی شاندار اور معیاری شاعری سے نہ صرف لطف اندوز کیا بلکہ اپنے احساسات و جزبات کی کئی کیفیات سے روبرو کرایا۔ اس مشاعرے کی نظامت خالد خواجہ نے کی اور آخر میں  ڈاکٹر نوشہ اسرار نے اپنے خوبصورت انداز میں  تمام شعرأ و شرکا ٔ کا شکریہ ادا کیا کہ ان لوگوں  کی شرکت سے یہ اعزازی جلسہ بہت کامیاب اور یادگار ہوا۔ اس اعزازی جلسہ میں   نصیر عالم ، ذی شان، طاہر خان ،  صفیر الدین صدیقی، آفتاب خان، زاہد احمد، مظفر مہدی، ابوذر سید ، محمد معین الحق ، شاکر علی ، سید علی اکبر، عارف عظیم ، حسین احمد ظفر، خالد امان ، نوید، شہناز پروین ،شمرین ہدیٰ ، شاہد خان، فرحان صدیقی، محمد راشد، یاسر وقار، امیر علی، غالب یونس، ناصر یونس، نسیم الرحمٰن، ندیم احمد وغیرہ جیسی شخصیتیں  شامل ہوئیں۔

تبصرے بند ہیں۔