ڈاکٹر احسان عالم کی کتاب کی رسم اجرا

دربھنگہ (نمائندہ)راشٹریہ بیوپار میلہ اور المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے اشتراک سے راج میدان،  دربھنگہ کے وسیع احاطے میں  کوی سمیلن اور رسم اجراء تقریر کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں  ڈاکٹر احسان عالم کے ذریعہ لکھی گئی کتاب ’’منصور خوشتر ہمہ جہت فنکار‘‘(خوشتر شناسی کے تابندہ نقوش) کی  رسم اجرا عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب پروفیسر عبدالمنان طرزی،  پروفیسر جمال اویسی،  پروفیسر شاکر خلیق،  رہبر چندن پٹوی، شہنشاہ ترنم جواں  دلوں  کی دھڑکن جمیل اختر شفیق (سیتا مڑھی )،محمد شبیر،فردوس علی،  عقیل صدیقی کے ہاتھوں  عمل میں  آئی۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں  شعرا ء کرام حضرات نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

پروگرام کی نظامت جمیل اختر شفیق  (سیتا مڑھی )نے خوبصورت اندازمیں  کی۔صفی الرحمن راعین نے کہا کہ ’’اس کتاب میں  ڈاکٹر احسان عالم نے ’’منصور خوشتر ہمہ جہت فنکار‘‘ پر کئی زاوئیے سے روشنی ڈالی ہے۔ مصنف نے منصور خوشتر کے خاندانی کوائف کے ساتھ ان کے ادبی اور صحافتی سرگرمیوں  کا جائزہ بہت سہل انداز میں  لیا ہے۔ پروفیسر عبدالمنان طرزی نے اپنے خطبہ میں  کہا کہ ’’ ڈاکٹر احسان عالم کو میں  بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ وہ اپنے افکار و نظریات کے فنکارانہ اظہار میں  بڑے سچے، مخلص اور کامیاب تو ہیں  ہی،  اہم خوبی یہ ہے کہ وہ ابتدا سے انتہا تک اپنے موضوع سے فکری وابستگی نہایت محکم انداز میں  قائم رکھتے ہیں ۔

آپ کا اسلوب تعقید،  ابہام اور ژولیدگی سے قطعی طور پر پاک ہوتا ہے۔بیان کی سلاست،  موضوع سے برتائو کی صداقت،  مطالعے کی وسعت،  تنقیدی نکتہ سنجی اور فکری و فنی اوصاف شناسی کسی آبجو کے غنائی، سنجیدہ اور مہذب بہائو کی طرح ہے۔ یہ ان کی نگارش کی نمایاں  خوبیاں  ہیں ۔پیش نظر کتاب ’’منصور خوشتر ہمہ جہت فنکار‘‘ میں  بھی ان کا یہ طرز تحریر نمایاں  طور پر جھلکتا ہے۔‘‘پروفیسر شاکر خلیق نے اپنے گفتگو میں  فرمایا کہ ڈاکٹر احسان عالم کی صاف، سلیس،  سادہ انداز بیان سے لوگوں  کو روبرو کراتے ہوئے انہیں  مبارک باد پیش کیا۔ مستفیض احد عارفی نے اپنی گفتگو میں  بتایا کہ احسان عالم کے تمام مضامین کا اسلوب اور انداز بیان یکساں  ہے یعنی سادہ اور صاف ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر منصور خوشتر، ایڈوکیٹ فردوس علی، عرفان پیدل، احتشام الحق، مولانا مہدی رضا روشن القادری،منور عالم راہی، آفتاب اقبال، منظر الحق منظر صدیقی، خون چندن پٹوی، ندا عارفی،  ایوب راعین،  امام الحق کے علاوہ کافی تعداد میں  اردو اور غیر اردو داں  حضرات موجود تھے۔

وہ پیار کی باتیں  بھی بھلا جائے گا کیسے

الفت کی کتابوں  میں  جو کھونے نہیں  دیتا

شہنواز انور

وقت پر جو دھوکا دیں

ایسوں  سے لگائو کیا

منظر صدیقی

مجھے غیر کہنا شرافت نہیں  ہے

لہو ہم نے بھی اس وطن کو دیا ہے

ندا عارفی

کہیں  الزام ملتا ہے کہیں  بدنام ہوتا ہے

محبت کرنے والوں  کا یہی انجام ہوتا ہے

مشتاق اقبال

اتنی عزت ہے ترنگے کی ہمارے دل میں

سر کٹا دیں  گے مگر شان نہ جانے دیں  گے

جمیل اختر شفیق

کردار سازی کیجئے بدلا مزاج وقت

نام و نمود ہوگا نہ اب خاندان سے

رہبر چندن پٹوی

وہ یاد بھی اے طرزیؔ آیا نہ بہت دن سے

ہم بھول گئے اس کو ایسا بھی نہیں  لگتا

طرزیؔ

اردو ہندی میں  کوئی بیر نہیں

دونوں  اک دوسرے کی ماجائی

شاکر خلیق

تبصرے بند ہیں۔