ڈاکٹر سید رضوان علی ندویؒ : ایک محقق یگانہ

گزشتہ دنوں  آسمانِ علم و فضل کا ایک روشن ستارہ ٹوٹ گیا۔ ندوے کی علمی روایات اور ندوی تہذیب و ثقافت کاایک اہم ستون گرگیا۔ ایک محقق یگانہ دنیا سے اٹھ گیا۔ یعنی مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی نے 5؍جولائی 2016 کو کراچی میں  وفات پائی۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون۔ عید کے دن بعد نماز عشاء ڈیفنس سوسائٹی، کراچی کے قبرستان میں  سپرد خاک کردیے گئے۔ گویا ماہِ رمضان میں  گناہوں  اور لغزشوں  سے پاک صاف ہوکر اور عید کے دن نہادھوکر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔

ولادت اور تعلیم و تربیت

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی رام پور میں  1927م بہ مطابق 1345ھ پیدا ہوئے۔ وہ مشہور بزرگ حضرت سید جلال الدین بخاری حسینی مخدوم جہانیان جہاں  گشت کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم رام پور ہی میں  حاصل کی۔ دس سال کی عمر میں  قرآن کریم حفظ کیا۔ 48-1976م میں  مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کے قائم کردہ ادارے ’’ادارہ تعلیمات اسلام‘‘ لکھنو سے عربی زبان کا خصوصی کورس مکمل کیا۔ ساتھ ہی منشی، فاضل اور کامل کے امتحانات بھی پاس کیے۔ 1949 میں  دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی سند حاصل کی۔ ندوۃ العلماء میں  انھوں  نے تین شخصیات سے خصوصی استفادہ کیا۔ محدث جلیل علامہ شاہ حلیم عطا سلونوی، مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی۔ 1950 میں  عارف باللہ مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی قیادت میں  ندوۃ العلماء سے ایک قافلہ حجاز مقدس روانہ ہوا۔ بنیادی مقصد دعوت و تبلیغ تھا۔ مولانا رضوان علی ندوی کی خوش نصیبی، کہ وہ بھی اس مبارک قافلے میں  شامل تھے۔ قافلے کے کچھ ارکان علمی استفادے کی خاطر حجاز مقدس ہی میں  رہ گئے تھے۔ ان میں  مولانا ڈاکٹر سیدعبداللہ عباس ندوی، مولاناسید محمد طاہر منصورپوری، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی شامل تھے۔ حجاز مقدس میں  انھوں  نے امام حرم شیخ عبدالمہیمن مصری،  امام حرم شیخ عبدالرزاق حمزہ، علامہ سید علوی مالکی، علامہ امین شئقیطی، شیخ حسن مشاط اور شیخ عبدالرحمن افریقی سے استفادہ کیا۔1953 کے وسط میں  وہ علمی استفادے کے لیے مصر پہنچے۔ اس وقت مصر کے حالات ناسازگار تھے۔ اس کے باوجود وہاں  ان کا قیام ڈیڑھ سال رہا۔ یہاں  اللہ تعالیٰ نے انھیں  بیسویں  صدی کی عظیم ترین اسلامی تحریک جماعۃ الاخوان المسلمین سے رابطے اور اس میں  شمولیت کا موقع عنایت فرمایا۔ اس ربط و تعلق کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر پڑا۔ ایسا اثر جو تادمِ آخر باقی رہا۔اسی ربط و تعلق کا نتیجہ تھا کہ اردو زبان میں  ان کی کتاب ’’تحریک اخوان المسلمین‘‘ سامنے آئی۔ یہ کتاب اردو زبان میں  اخوان کے متعلق مستند اور معتبر مواد فراہم کرتی ہے۔ 1955میں  ان کا داخلہ دمشق یونی ورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ میں  ہوگیا۔ یہاں  وہ چار سال مقیم رہے۔ دمشق میں  انھیں  امام حسن البناء کے داماد اور معروف اخوان قائد ڈاکٹر سعید رمضان، عظیم فقیہ علامہ مصطفی سباعی اور شام کی معروف روحانی شخصیت شیخ احمد المارون عسل حجار جیسی نمائندہ شخصیات سے ربط و تعلق کا موقع ملا۔ 1960 میں  وہ دمشق سے انگلینڈ پہنچے اور 1963 میں  کیمبرج یونی ورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں  ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

میدانِ عمل میں

تعلیم کے اعلیٰ مراحل طے کرلینے کے بعد 1963  ہی میں  وہ سعودی عرب منتقل ہوگئے۔ پہلے ریاض اور پھر مکہ مکرمہ کی جامعات میں  تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔ 1965 میں  وہ سعودی عرب سے لیبیا پہنچے اور بن غازی یونی ورسٹی میں  استاد مقرر ہوئے۔ 1965 سے1979 کی مدت میں  اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر ہوئے۔اس دوران لیبیا کے ڈکٹیٹر کرنل معمر قذافی بھی ان کے شاگرد رہے۔ ڈاکٹر ندوی کو قذافی کے متعلق جو خدشات تھے، وہ درست ثابت ہوئے۔ قذافی نے تقریباً وہ سب کچھ کیا، جس کا ڈاکٹر صاحب کو ڈر تھا۔ 1978 میں  انھوں  نے امریکا کا سفر کیا۔ اس سفر کے کیا مقاصد تھے، یہ واضح نہیں  ہوسکا۔ بہ ہر حال 1979 میں  وہ دوبارہ سعودی عرب پہنچے اور 1987 تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر سبک دوشی اختیار کرکے کراچی منتقل ہوئے اور وہیں  کے ہوکر رہ گئے۔ یعنی عالم عرب میں  انھوں  نے 24؍سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔  10؍سال سعودی عرب میں  اور 14؍سال لیبیا میں۔  پاکستان میں  ان کے قیام کی کیا وجوہ رہیں ؟ ان کا علم نہیں  ہوسکا۔ ہم تو یہی حسرت کرتے ہیں  کہ کاش وہ اپنے وطن واپس آجاتے اور یہیں  ہندستان میں  قیام فرماتے۔ شاید ہم لوگوں  کو بھی ان سے استفادے کا موقع ملتا۔ ایسا نہیں  ہے کہ پاکستان میں  اُن کی بالکل قدر نہیں  ہوئی۔ البتہ ایک پائے کے اسلامی محقق کی جو قدر ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی۔ 1990 سے 1993 تک وہ کراچی یونی ورسٹی کی سیدنا برہان الدین چیئر کے ڈائریکٹر رہے۔ تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا اور اہم موضوعات پر پاکستان کے بڑے اخبارات میں  مضامین بھی لکھتے رہے۔ اُن کی آراء کو وہاں  کی علمی دنیا میں  ہمیشہ اہمیت و وقار کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

اخوان سے تعلق

ڈاکٹر صاحب پر اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی فضل یہ بھی رہا کہ انھوں  نے تحریک اخوان کو نہ صرف یہ کہ مصر جاکر دیکھا بلکہ اس سے ایک حد تک وابستہ بھی رہے۔ مصر میں  انھوں  نے اخوانی رہنماؤں  اور عام کارکنان سے گھل مل کر اخوان کو سمجھا اور پھر اس کے نظام سے وابستگی بھی اختیار کی۔ اخوان کے متعلق ان کی گراں  قدر کتاب اور مضامین کو پڑھ کر اُن کی گہری واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اخوان کے متعلق اردو میں  متعدد کتابیں  منظر عام پر آئی ہیں،  لیکن شاید اُن میں  سے کسی کے مصنف کو اخوان سے اس درجہ گہری اور اصل معلومات حاصل نہیں  رہی، جتنی ڈاکٹر صاحب کو تھی۔

استدراکات

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی اپنے تحقیقی مزاج کی وجہ سے کسی کتاب یا مضمون میں  شائع ہونے والی علمی یا تحقیقی غلطی کو برداشت نہیں  کرپاتے تھے۔ اس سلسلے میں  انھیں  خصوصی شہرت حاصل تھی۔ کسی بھی مصنف یا مضمون نگار کے ہاں  کوئی غلطی دیکھتے تو فوراً ایک مدلل تحریر لکھ کر روانہ کردیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ان استدراکی مضامین کو شائع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔  استدراکات تحریر کرنے میں  وہ کسی رورعایت سے کام نہ لیتے تھے۔ جن لوگوں  کی تحریروں  پر انھوں  نے استدراکات لکھے ان میں  چند قابل ذکر شخصیات یہ ہیں : مفتی محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر اسرار احمد، کوثر نیازی، عماد الدین خلیل، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور ڈاکٹر رشید جالندھری۔ اور تو اور انھوں  نے اپنے محسن و مربی اور محبوب و ممدوح استاد مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت جلد، اول‘‘ پر بھی استدرکات کیے تھے۔ ان کے استدراکات ایسے مدلل اور معتدل ہوتے تھے کہ ہر سلیم الفطرت مصنف یا مضمون نگار انھیں  ماننے پر مجبور ہوتا تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب پر کیے گئے استدراکات کا یہ جواب لکھا تھا:

’’آپ نے تاریخ دعوت و عزیمت کے حصہ اول پر جو استدراکات کیے تھے، اُن کی رسید دی تھی۔ ہم نے وہ خط اس جلد کے ساتھ چسپاں  کردیا ہے کہ نئے ایڈیشن کے موقعے پر اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ عربی میں  اس کا ایڈیشن شامی پریس سے تو نکل آیا ہے، اردو میں  خیال رکھا جائے گا۔ اس میں  برا ماننے کی کیا بات ہے؟ آئندہ بھی آپ کو اس کی اجازت ہے۔‘‘

(پندرہ روزہ تعمیر حیات، 10؍ستمبر 2014، ص:29)

باطل نظریات کا تعاقب

استدراکات سے کچھ آگے قدم بڑھاتے ہوئے،  وہ باطل نظریات کا تعاقب بھی کرتے تھے۔ اس سلسلے میں  اُن کی دو طرح کی تحریریں  انٹرنیٹ پر اکثر دیکھنے کو ملتی تھیں۔  نیٹ کے ذریعے یہ تحریریں  اتنے بڑے پیمانے پر عام ہوتی تھیں  کہ کسی نہ کسی طرح ہم لوگ بھی ہندستان میں  بیٹھ کر ان تحریروں  سے استفادہ کرلیتے تھے۔

ایک طرف تو وہ اُن افراد یا تنظیموں  کا تعاقب کرتے تھے، جو رافضیت کی مخالفت کرتے کرتے توہین اہل بیت کی سرحد تک پہنچ جاتی ہیں۔  یا اس سے بھی آگے بڑھنے کا جرم کرلیتی ہیں۔  اس قسم کے لوگوں  کے تعاقب میں  ڈاکٹر صاحب کی متعدد تحریریں  پڑھنے کو ملیں۔  ان تمام تحریروں  میں  اُن کی علمی شان اور ندوی اعتدال نظر آتا ہے۔ دوسری طرف وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ایک شاگرد جناب جاوید احمد غامدی کا سختی سے تعاقب کرتے تھے۔ غامدی صاحب کے تعاقب میں  اُن کی تحریر وں  کو بڑی مقبولیت حاصل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے علم و فضل کی بناء پر غامدی صاحب کی ایسی ایسی بنیادی، بلکہ بچکانہ غلطیوں  کی نشان دہی فرماتے تھے، جن کا کوئی جواب غامدی صاحب یاان کے حامیوں  کے پاس نہ ہوتا تھا۔ غامدی صاحب انکارِ سنت میں  بجھے ہوئے تیروں  سے نئی نسل کو بہ ظاہر بڑے سنجیدہ اسلوب میں  نشانہ بناتے ہیں۔  ڈاکٹر صاحب مرحوم اس سے کئی گناہ سنجیدہ اور علمی اسلوب میں  ان کا تعاقب کرکے غبارے کی ہوا نکال دیتے تھے۔ یہ مضامین اتنی بڑی تعداد میں  ہیں  کہ ایک مناسب ضخامت کی کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر جگہ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب عالمانہ، محققانہ اور معتدل ہے۔ کہیں  سے مناظرہ بازی یا سطحیت کی بو  نہیں  آتی۔

تصانیف

مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی نے مختلف موضوعات پر متعدد علمی کتابیں  یادگار چھوڑی ہیں۔  عربی،  اردو اور انگریزی تینوں  زبانوں  میں۔  کتابوں  کے نام    یہ ہیں :

العزبن عبدالسلام، فوائد في مشکل القرآن، اللغۃ العربیۃ و آدابہا في شبہ القارۃ الہندیۃ الباکستانیۃ عبرالقرون، استنبول و حضارۃ الامبراطوریۃ العثمانیۃ، دول العالم الاسلامي في العصر العباسی، السطلان محمد الفاتح۔ بطل الفتح الإسلامي فی أوربا، العلوم و الفنون عندالعرب و دورہم في الحضارۃ العالمیۃ،تحریک اخوان  المسلمین، خانوادۂ نبوی و عہد بنی امیہ، قرآن کی روشنی میں،  عربوں  کی علوم و فنون اور عالمی تہذیب کے تمدن و ترقی میں  ان کا کردار، تحقیقات و تاثرات، Izz-al-Din Al Salam- His Life and works

شرف نیاز

2002 یا 2003 کی بات ہے۔ ڈاکٹر رضوان علی ندوی ہندستان تشریف لائے۔اپنی مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء بھی پہنچے۔ مختصر سا قیام رہا۔ لیکن اپنے ممدوح و مربی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے بعد پہلی مرتبہ ندوے تشریف لائے تھے۔ یقینا اُن کی آنکھیں  اپنے محسن و ممدوح کو تلاش کررہی ہوں  گی۔ ان کے نہاں  خانۂ دل میں  ماضی کی ایک ایک تصویر گھوم رہی ہوگی۔ جمعیۃ الاصلاح کے ہال میں  ان کا ایک شاندار محاضرہ بھی ہوا۔ ہمیں  بھی وہ محاضرہ سننے اور اس کے بعد ان کے ساتھ موجود بھیڑ میں  شامل ہوکر مہمان خانے تک جانے کا موقع ملا۔ بس! ڈاکٹر صاحب کو اس کے بعد کبھی دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ اس کے بعد شاید وہ کبھی ہندستان آئے بھی نہیں۔  اُن کی تصویر آج تک نظروں  میں  موجود ہے۔ خلاصے کے طور پر ہم اتنا کہہ سکتے ہیں  کہ لفظ ’’نستعلیق‘‘ ان کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ اس بات کا افسوس اور حسرت ضرور ہے کہ اُن سے استفادے کا کوئی موقع نہ مل سکا، البتہ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان بھی ہے کہ اس نے عہدِ رواں  کے ایک مایہ ناز محقق اور تاریخ    ندوۃ العلماء کی ایک عظیم ہستی کو دیکھنے،  ملنے اور سننے کا موقع عنایت فرمادیا۔

آخری بات

مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی تقریباً 90؍سال کی عمر گزارکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ علمی لحاظ سے شاندار اور سرگرم زندگی گزاری اور اپنے وطن سے ہزاروں  کیلو میٹر دور شہر خموشاں  میں  جاسوئے۔نہ جانے ہم کبھی ان کی قبر کی بھی زیارت کرپائیں  گے یا نہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پائے کے محققین کی شخصیات اور کاموں  کو اپنی تحقیقات اور گفتگو کا موضوع بنایا جائے۔ بالخصوص ندوۃ العلماء اور اس سے وابستہ اداروں  میں  اس طرح کی مثالی شخصیات کا بھرپور تعارف کرایا جائے تاکہ نئی نسل اِن بے مثال چراغوں  سے کچھ روشنی حاصل کرسکے۔

تبصرے بند ہیں۔