عہدنبویؐ میں نظام تعلیم (آخری قسط)

’صفہ‘ میں جو تعلیم ہوتی تھی وہ اسلام کی ابتدائی تعلیم تھی، جس کیلئے میں ’پرائمری‘ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔ مدرسہ میں جن چیزوں کی تعلیم ہوتی تھی اس میں متعدد شعبے ، متعدد لوگوں کے سپرد تھے۔ کسی کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ لکھنا پڑھنا سکھائے، کسی کے سپرد یہ کام تھا کہ جو لکھنا پڑھنا سیکھ چکے ہیں، انھیں اس وقت تک کی نازل شدہ قرآنی سورتیں سکھائیں۔ شاید کسی شخص کا یہ کام بھی ہو کہ وہ فقہی احکام، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نماز عبادات وغیرہ کا درس دے۔ یہ اہتمام خاص طور پر ان نو مسلم لوگوں کیلئے کیا جاتا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کچھ عرصے کیلئے مدینے آتے ہوں گے تاکہ اپنے نئے دین کے متعلق معلومات حاصل کرسکیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ایک حدیث کا ذکر کیا جو عبدالقیس کے لوگوں کی مدینہ آمد سے متعلق تھی۔ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں انصار کے سپرد کر دیا کہ تم ان لوگوں کی مہمان نوازی کرو۔ صبح کو ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ تمہارے میزبانوں نے کیسا سلوک کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ ان لوگوں نے ہمیں کھانے کیلئے نرم روٹی اور سونے کیلئے نرم بستر دیئے اور صبح کو انھوں نے عبادت کے طریقے، قرآن شریف کی سورتیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق چیزیں سکھائیں۔ یہ اسی بنا پر تھا جو میں نے آپ سے عرض کیا کہ صفہ میں تعلیم کے مختلف شعبے تھے۔ ایک چیز کا امکان ہے اور یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا کہ وقتاً فوقتاً خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو درس دیتے ہوں گے۔ اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں ، اس کے باوجود آپؐ کو جب بھی فرصت ملتی ، آپؐ وہاں درس دیا کرتے تھے اور بہت سے لوگ جنھیں فرصت ہوتی، اس درس میں شریک ہوجاتے۔

  ایک دلچسپ حدیث ہے کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرۂ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ وہاں دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار کرنے میں مشغول تھا۔ دوسرا گروہ علم حاصل کر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چہ دونوں گروہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کا کام کر رہا ہے۔ پھر آپؐ  بھی اس گروہ میں شامل ہوگئے۔ اس طرح یہ بھی روایت ہے ملتی ہے کہ صفہ کے بعد جلد ہی اور مدرسے قائم ہوئے۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ مدینے میں عہد نبویؐ میں نو مساجد تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے محلہ کی مسجد میں اپنے ہمسایوں سے تعلیم حاصل کرو۔ سب کے سب مرکزی مسجد میں نہ آیا کریں کیونکہ اس طرح طالب علموں کی تعداد بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، جس سے سب کی تعلیم متاثر ہوتی اور ناکافی اساتذہ کے باعث بچوں کو تعلیم پانے کا موقع نہ مل سکتا، شاید مسافت اور حمل و نقل کا مسئلہ بھی تھا۔ اسی طرح ہمیں اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ تعلیم دینے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو باہر بھی بھیجا کرتے تھے۔ غالباً ایسا ان علاقوں کیلئے ہوتا ہوگا جہاں کے باشندے رفتہ رفتہ مسلمان ہوتے گئے اور مسلمان ہونے کے بعد مطالبہ کرتے کہ ہماری تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ غالباً کا لفظ اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ ایسا ہی ایک واقعہ ہجرت سے قبل بھی پیش آیا تھا، جب خود مدینہ والوں نے بیعت عقبہ میں اسلام قبول کیا تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ ہمیں ایک معلم دیا جائے تو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا اور وہ اہل مدینہ کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے رہے۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی بات مجھے یاد آتی ہے۔ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ میں مسلمان ہونے والے اہل مدینہ کو اس وقت نازل شدہ قرآن شریف کا ایک تحریری نسخہ بھی دیا تھا جسے وہ اپنے محلہ کی مسجد میں بآواز بلند پڑھا کرتے تھے اور ہمارے مورخ اس میں یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ مسجد میں بآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا آغاز پہلی مرتبہ مدینہ منورہ میں بنی زریق کے ان انصار سے ہوا تھا۔

  غرض ایک طرف ہمیں ایسی چیزیں ملتی ہیں جن میں علم کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ اس کو حاصل کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ دوسری طرف ایسے انتظامات بھی نظر آتے ہیں جن کے باعث علم کا حصول آسان تر ہوجائے۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹے سے واقعہ کی جانب آپ کی توجہ منعطف کراؤں گا جس کا میں نے ذکر کیا تھا۔ جنگ بدر میں بہت سے کافر قید ہوئے۔ ان قیدیوں میں سے جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مالی فدیہ طلب کرنے کے بجائے یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر شخص دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ تعلیم کے انتظامات کے سلسلے میں یہ واقعہ ولولہ انگیز ہے۔ اسی طرح ایک اور بات پر غور کرنے اور اس سے نتائج استنباط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ طبری کے بیان کے مطابق جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو ان کا فریضہ یہ تھا کہ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں اور ایک کمشنری سے دوسری کمشنری میں جائیں اور وہاں تعلیم کا انتظام کریں۔ اس کے علاوہ یمن کے گورنر عمرو بن حزم کی تقرری کے وقت، ان کو جو ہدایت نامہ دیا گیا، اسے بھی تاریخ نے محفوظ کرلیا۔ اس میں ہمیں ٹیکس، انتظامی معاملات اور عدل و انصاف وغیرہ کے متعلق ہدایات کے علاوہ یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ لوگوں کی تعلیم کا بندوبست کرو۔ گویا گورنر کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنے دائرہ عمل (Jurisdiction) کے اندر رہنے والے لوگوں کی تعلیم کا انتظام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعلیم اسلامی تعلیم ہی ہوگی اور اس کا انتظام صرف مسلمانوں کیلئے کیا جاتا ہوگا کیونکہ غیر مسلموں کی تعلیم کی بوجوہ ضرورت ہی نہیں تھی۔

 قرآن مجید کے احکام کے مطابق تمام مذہبی گروہوں کو کامل داخلی خود مختاری عطا کی گئی تھی۔ جس طرح غیر مسلم اس خود مختاری کی بنا پر اپنے دیگر معاملات میں آزاد تھے، اسی طرح تعلیم کی صورت بھی رہی ہوگی۔ ان حالات میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ غیر مسلموں کی تعلیم کا انتظام اسلامی حکومت کرتی تھی یا نہیں۔ اگر وہ کرتی ہو تو اس میں کوئی امر مانع بھی نہیں تھا لیکن چونکہ عہد نبویؐ میں ایک خصوصی نظام کے تحت ہر اقلیت کو کامل داخلی خود مختاری عطا کی گئی تھی، اس لئے انھیں اپنی تعلیم کی بھی آزادی تھی اور وہ خود اسے بہتر طور سے انجام بھی دے سکتے تھے، مثلاً ایک عیسائی بچے کو اسلام مدرسہ میں قرآن مجید کی تعلیم دینے والا عالم تو مل جائے گا لیکن انجیل پڑھانے والا استاد میسر نہیں آسکے گا۔ اس لئے ان کے حق میں یہی بات زیادہ سود مند تھی کہ ان کا مدرسہ ہی الگ ہو اور وہ اپنے مذہب کی تعلیم اپنے ہی اساتذہ کی مدد سے حاصل کریں۔

 اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کبھی کبھی یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کسی علمی مسئلے کے سلسلہ میں جھگڑا بھی کرتے۔ اس سے جو بعض نہایت کار آمد نتائج نکلتے میں ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً ایک مرتبہ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی جوڑے کو لائے اور کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو بدکاری کرتے پایا ہے، آپ کے پاس لائے ہیں تاکہ آپ انھیں سزا دیں۔ اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بجائے اپنی صوابدید سے فیصلہ کرنے کے یا اسلامی قانون نافذ کرنے کے خود ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری دینی کتاب توریت میں اس کے متعلق کیا احکام ہیں؟ انھوں نے جھوٹ بات بیان کی اور کہاکہ توریت کا حکم یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ کالا کرکے انھیں اس طرح گدھے پر بٹھایا جائے کہ ان کے منہ گدھے کی دم کی طرف ہوں، پھر سارے شہر میں ان کی تشہیر کرائی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہیں ہے۔ توریت کا حکم اس سے مختلف ہے۔ توریت لاؤ؛ چنانچہ توریت لائی گئی۔ اس میں ’رجم‘ کی سزا نکلی اور اس کے مطابق مجرموں کو رجم کرایا گیا۔ اس کے متعلق مزید لکھا ہے کہ توریت کو پہلے ایک یہودی نے پڑھا اور اس آیت کو چھوڑ دیا جس میں رجم کا ذکر تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عہ نے جو ایک نو مسلم یہودی تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اس امر پر منعطف کرائی کہ یہاں کچھ اور آیات بھی ہیں جنھیں یہ چھپا رہا ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاص کاتب وحی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم عبرانی رسم الخط سیکھوکیونکہ مجھے آئے دن یہودیوں سے خط و کتابت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگر ایسی تحریروں کو میں یہودیوں سے پڑھواکر سنوں تو مجھے ان پر اعتماد نہیں، اس لئے تم خود سیکھ لو۔ دوسرے لفظوں میں اجنبی زبانوں کے سیکھنے سے سیاسی فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں اور علمی فوائد بھی۔

  علمی فائدے کے متعلق ایک واقعہ ذہن میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بنر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما جو اپنے باپ سے بھی پہلے مسلمان ہوئے، نہایت ذہین، دیندار اور متقی نوجوان تھے۔ ساری ساری رات نفل نمازیں پڑھتے۔ انھوں نے روزہ رکھنے کا عہدہ کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ یہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنی دو انگلیاں چوس رہا ہوں۔ ایک پر شہد اور دوسری پر گھی لگا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید اور توریت دونوں سے استفادہ کرسکوگے؛ چنانچہ لکھا ہے کہ بعد کے زمانے میں انھوں نے سریانی زبان کی بھی تعلیم پائی اور بائبل کا ترجمہ سریانی زبان میں پڑھتے۔ اسی طرح ایک دن وہ قرآن کی تلاوت کیا کرتے اور دوسرے دن توریت کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ غرض اجنبی زبانیں سیکھنے کا کچھ نہ کچھ انتظام ہوچلا تھا۔ لکھا ہے کہ زید بن ثابتؓ کو چار پانچ زبانیں آتی تھیں۔ عربی تو ان کی مادری زبان تھی ہی، اس کے علاوہ انھیں عبرانی، قبطی اور فارسی زبانیں آتی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ جملہ لکھا ہے کہ انھوں نے فارسی زبان بہت جلد اس وقت سیکھ لیں، جب ایک ایرانی وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے آیا۔ یہ وفد کچھ دن مدینے میں مقیم رہا۔ ان لوگوں سے قریبی روابط کے باعث زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اتنی فارسی سیکھ لی کہ اس زبان میں روز مرہ کی گفتگو کرسکیں، ان کی ضرورتیں معلوم کرسکیں اور ان کے مختلف سوالوں کے جواب دے سکیں۔ بہر حال تعلیم کے متعلق ایک طرف ان انتظامات کا پتہ چلتا ہے جو دارالسلطنت مدینہ منورہ میں کئے گئے، دوسرے وہ انتظامات ہیں جو ان علاقوں کے لوگوں کو دین سے واقف کرانے کیلئے کئے گئے جو بہت تیزی سے اسلامی سلطنت میں شامل ہورہے تھے۔

  تعلیم کے متعلق ایک اور پہلو کی جانب آپ کی توجہ منعطف کراؤں گا۔ ویسے یہ میرا استنباط ہے، اس کے متعلق میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف علوم کی اہمیت سے واقف تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان ان علوم کو سیکھیں۔ ان کیلئے الگ الگ درسی کتابوں کے بجائے ایک ہی درسی کتاب دینا پسند فرماتے اور چاہتے ہیں کہ ہر شخص اس درسی کتاب کو ہمیشہ پڑھتا رہے، چاہے اس فن کی چیزوں سے اس کو دلچسپی ہو یا نہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کو بار بار پڑھے تو وہ اپنے فن کی چیزوں کو بھی پڑھے گا اور مجبور ہوگا کہ غیر فن کی چیزوں کو بھی، خواہ سرسری نظر ہی سے سہی، پڑھے اور سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کیلئے ایسی معلومات جو اگر چہ اس کے اپنے اختصاصی فن سے متعلق نہیں ہیں، کسی بھی وقت سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ قرآن مجید پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ اس میں بے شمار علوم کا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں صرف دین و عقائد، عبادات اور متعلقہ اخلاق جیسی چیزوں ہی کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ اس میں بہ کثرت اور علوم بھی نظر آتے ہیں۔

 اگر میں توریت کو بنی اسرائیل کی تاریخ کہوں تو اس میں پہلے تمہیدی باب کے بعد جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام تک کے حالات بیان کئے گئے ہیں، باقی سب چیزیں صرف بنی اسرائیل کی تاریخ سے متعلق ہیں۔ اسی طرح آپ انجیل کو پڑھیں تو وہ ایک ہی شخص یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری ہے۔ اس کے بر خلاف قرآن مجید نہ تو عرب کی تاریخ ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری، بلکہ سارے بنی آدم کی تاریخ ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار بادشاہوں ، نبیوں اور قوموں کے قصے بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ وہ ان گزشتہ لوگوں کے اچھے یا برے انجام کو سامنے رکھ کر ذمہ داری کے پورے احساس کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔ ایک مرتبہ میں نے کوشش کی کہ میں ان مقامات کا شمار کروں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس میں مصر، بابل اور یمن وغیرہ کے علاوہ بہت سے ملکوں کا ذکر ہے۔ اس میں ایک ایسے پیغمبر کا بھی ذکر آیا ہے جسے ہم ہندستان سے متعلق کہہ سکتے ہیں۔ یہ پیغمبر حضرت ذوالکفل ہیں۔ ان کے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیلی صراحت موجود نہیں ہے۔ بعض محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں اگر چہ لکھا ہے لیکن وہ قابل اعتماد نہیں۔

  ہم میں سے بہتوں کے استاد مولانا مناظر احسن گیلانی کہتے تھے کہ غالباً اس سے مراد گوتم بدھ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ ذوالکفل کے لفظی معنی کفل والے ہیں۔اور کفل ’’کپل وستو‘‘ کی معرب شکل ہے۔ یہ بنارس کے قریب ایک شہر ہے جس میں گوتم بدھ پیدا ہوئے تھے۔ اس کی مزید تائید کیلئے وہ سورہ ’’والتین‘‘ (1:95 تا 3) کی طرف اشارہ فرماتے تھے کہ ’’والتین والزیتون وطور سینین وہٰذا البلد الامین‘‘ میں تمام مفسرین کے خیال میں چار پیغمبروں کا ذکر آیا ہے۔ زیتون سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جن کو جبل زیتون سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اور سینا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں خدا نے انھیں توریت عطا کی۔ ’’ہٰذا البلد الامین‘‘ یعنی محفوظ شہر سے مراد مکہ معظمہ ہے، لیکن پہلا لفظ ’’والتین‘‘ کیا ہے؟ اس میں مفسرین خیال آرائی کرتے رہے۔ بعض لوگوں نے کہا اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ بعض نے اس سے کسی او ر نبی کی جانب اشارہ مراد لیا، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے نبیوں کی زندگی میں انجیر کو کوئی اہمیت حاصل نہیں رہی۔ جبکہ مولانا مناظر احسن گیلانی فرماتے تھے کہ گوتم بدھ کے ماننے والوں کا متفقہ بیان ہے کہ گوتم بدھ کو جنگلی انجیر کے نیچے نروان حاصل ہوا تھا۔ اس سے وہ استنباط کرتے تھے کہ قرآن مجید میں جہاں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا ذکر ہے وہاں بدھ مت کا بھی ذکر ایک بہت لطیف انداز میں کر دیا گیا ہے۔ گوتم بدھ کے حالات چونکہ عربوں کی تفصیل سے معلوم نہیں تھے، لہٰذا اس پر زور نہیں دیا گیا۔

 بہر حال ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف علوم ہیں۔ اس میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔ اس میں ان علوم کا بھی ذکر ملتا ہے جنھیں ہم سائنس کا نام دیتے ہیں؛ مثلاً علم نباتات، علم حیوانات، علم حجر، علم بحر، علم ہیئت یہاں تک کہ علم جنین کا بھی ذکر ملتا ہے۔ قرآن شریف میں علم جنین کی اتنی مفصل تشریحات آئی ہیں کہ ان کا اس جدید ترین دور تک بھی اثر ہورہا ہے۔ میں نے کسی وقت آپ سے بیان کیا تھا کہ پیرس میں ایک کتاب "Bible, Quran and Science” چھپی ہے جو ایک مشہور سرجن بوکائی کی تصنیف ہے۔ بوکائی کو بچوں کی ولادت کے علم سے دلچسپی ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ علم جنین کے متعلق جو تفصیلات قرآن مجید نے دی ہیں ان کا علم نہ یونان کے مشہور قدیم اطباء کو تھا اور نہ زمانہ حال کے یورپی لوگوں کو ہے، جنھوں نے سالہا سال تک اس موضوع پر ریسرچ کی، لیکن اب سے چودہ سو سال قبل ایک بدوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کرتا ہے تو یقینا یہ انسان کا کلام نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن کی اسی بات سے متاثر ہوکر بوکائی نے اپنے مسلمان ہونے کا بھی اعلان کردیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہمیں سمندری طوفان کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جہاز رانی، موتی اور مرجان کا بھی خاصا ذکر ملتا ہے۔

  غرض میرا گمان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کو کچھ تو تعلیم بنیادی دی جائے جو لازمی ہو اور دیگر علوم کے بارے میں بھی اس کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوں جو کسی بھی وقت اس کے کام آسکتی ہیں۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ قرآن مجید کو پڑھو، کیونکہ اس میں تقریباً تمام علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔ مجھے اپنے اس لیکچر کو اب یہیں روکنا پڑے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر معلومات عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمی انتظامات کے متعلق کافی ہیں۔ اب صرف ایک چھوٹا سا جز باقی ہے اور وہ عہد نبویؐ میں علوم کی سرپرستی سے متعلق ہے، جس کے بارے میں کچھ زیادہ عرض نہیں کرسکوں گا، صرف چند باتوں پر اکتفا کروں گا۔

            عہد نبویؐ میں علوم و فنون زیادہ نہیں تھے لیکن جو فنون تھے، ترقی پذیر تھے اور ان کی ضرورت بھی تھی۔ ان میں سے ایک چیز طبابت ہے۔ اس کے متعلق ہمیں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ عہد نبویؐ میں طبیبوں کی حالت اور جراحی کرنے والے سرجنوں کے حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے۔ اس طرح ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ بیمار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہارے محلے یا قبیلے میں کوئی طبیب ہے؟ جواب میں دو نام بتائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان میں سے جو ماہر تر ہو اسے بلاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ علم میں تخصص پیدا کریں اور ماہروں سے علاج کرائیں۔ اس سے لوگوں کو ماہر بننے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ اسی طرح اس کا بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طبابت سے ناواقف شخص کو اس کی اجازت دینا نہیں چاہتے کہ وہ طبیب بن جائے۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس شخص کو علم طب سے کوئی واقفیت نہیں ، اگر وہ علاج کرے تو اسے سزا دی جائے گی، کیونکہ اس کے اناڑی پن سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح کی اور مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں علم طب کی کافی اہمیت سمجھی جاتی تھی اور علاج سادہ مفردات کے ذریعے ہوتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے شمار نسخے منسوب ہیں۔ لوگ آکر آپؐ سے کہتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ تکلیف ہے تو آپؐ اس کیلئے تجویز فرماتے کہ فلاں چیز استعمال کرو، وغیرہ۔ اب طب نبویؐ کا پورے کا پورا نظام اس طرح کی احادیث پر مشتمل ہوکر بن چکا ہے۔

            دوسرا علم جس کی بڑی اہمیت سمجھی جاتی تھی اور جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی تفصیل سے ہے، وہ علم ہیئت ہے۔ اس کے فوائد خود قرآن حکیم میں بھی بتائے گئے ہیں۔ اس علم کے ذریعے رات کے وقت مسافر اپنا راستہ معلوم کرسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے اوقات کا اور حج کے زمانے کا تعین ہوگا۔ علم ہیئت کی طرف بڑی توجہ کی جاتی تھی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی اچھی واقفیت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد جب مسجد نبویؐ کی تعمیر ہوئی یا مسجد قبا کی تعمیر کی گئی تو قبلہ کے رخ کے تعین کا سوال تھا۔ محض اندازے کی بنا پر قبلے کا تعین نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس سلسلے میں رسول اکرم صزلی اللہ علیہ وسلم کی علم ہیئت سے واقفیت کی بنا پر کوئی دشواری پیدا نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے کئی بار گزر چکے تھے۔ تجارت کیلئے جب آپ بصریٰ (دمشق) تشریف لے گئے تو بیت المقدس سے بھی آگے تک گئے تھے۔ یہ سارا سفر اونٹوں پر ہوتا تھا اور زیادہ تر رات کے وقت ہوا کرتا تھا؛ چنانچہ اپنے تجربات کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ بیت المقدس کی طرف جانے والوں کو کس ستارے کی مدد سے آگے بڑھنا چاہئے اور اسی طرح آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ کس ستارے کی مدد سے رات کے وقت بیت المقدس سے مکے اور مدینے جانے والوں کو اپنا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس علم کی بنا پر آپ نے بغیر کسی خاص دشواری کے قبلہ کے رخ کا تعین فرمالیا۔ اس طرح کی اور چیزیں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو علم ہیئت سیکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس کا احادیث میں بھی ذکر ملتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں کو اپنے انساب سیکھنے چاہئیں یعنی اپنے شجرہ ہائے نسب معلوم کرنے چاہئیں۔ ان کی ایک عملی اہمیت یہ بھی ہے کہ کوئی محرم سے نکاح نہ کرے۔ عرب کے قبائلی نظام میں جس میں فلاں بن فلاں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، اس بات کی خاص اہمیت تھی۔ اس طرح کی چیزیں صرف تاریخی معلومات ہی کیلئے نہیں بلکہ دیگر امور کیلئے بھی کار آمد ہوسکتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد نبویؐ میں کچھ علوم پائے جاتے تھے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرپرستی فرماتے تھے اور کچھ چیزیں مثلاً عسکریات وغیرہ کے سلسلے میں لوگوں کو ترغیب و تشویق دلاتے تھے۔ اسی پر میں آج کا موضوع ختم کرتا ہوں۔

تحریر: ڈاکٹر محمد حمیداللہ… ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔