کیا اتر پردیش کے مسلمان سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں گے!

اس وقت پورے ہندستان کی نظر اتر پردیش کے الیکشن پر ہے۔ مغربی یوپی کی 73اسمبلی سیٹوں کیلئے 11 فروری کو ووٹنگ ہوچکی ہے اور اب 15فروری کو 65 سیٹوں کیلئے انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلہ کے الیکشن میں مسلمانوں نے منظم اور متحد ہوکر ووٹ دینے کے بجائے بہت سے حلقوں میں منتشر انداز میں ووٹ ڈالے ہیں، جس سے بھاجپا کو فائدہ پہنچے گا اور مسلمانوں کے ووٹ بے معنی ثابت ہوں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر حلقوں میں عقل و دانش سے مسلمانوں نے کام لیا ہے، یقینا ایسے حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ اثر انداز ہوں گے، کیونکہ مغربی یوپی میں مسلمانوں کی تعداد 26 فیصد ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمان اپنے ووٹوں کی قیمت سمجھتے ہوئے ووٹوں کو تقسیم کرنے کے بجائے کسی ایک کو اتحاد یا بی ایس پی کو دیتے جس سے بی جے پی کی شکست کو یقینی بناسکتے۔ امید ہے کہ دوسرے مرحلہ میں مسلمان عقل و شعور کا مظاہرہ کریں گے۔

مسلم ووٹروں کو ووٹ دینے کیلئے مشورہ دینے والوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے جس سے انتشار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اوپر کی بات اگر نیچے کی سطح تک پہنچ گئی تو بی جے پی کا فائدہ ہوگا۔ بی جے پی کی حکمت عملی ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ منقسم ہوں تاکہ اس کے امیدوار بیچ سے نکل جائیں۔ مسلمانوں میں جو اپنے آپ کو رہبر و رہنما سمجھتے ہیں ان کے اندر اتنی تو سوجھ بوجھ ہونی چاہئے کہ وہ عام مسلمانوں کو کنفیوژن میں ڈالیں۔ مسلمانوں میں جو وفاقی تنظیمیں ہیں ان کے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے اور یکسو ہوکر مسلم ووٹروں کو مشورہ دیتے تو زیادہ مثبت انداز ہوتا اور عام ووٹروں کو فیصلہ کرنے میں دقت نہیں ہوتی ۔ کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی طرف سے کوشش ضرور ہوئی تھی مگر ایسا لگتا ہے کہ مشاورت کی قیادت ساری جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام ہوئی۔ ملی کونسل نے بھی کوشش کی ہوگی مگر اس کی قیادت بھی کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔

مسلمان دو حصوں میں ایسا لگتا ہے کہ بٹ گئے ہیں۔ ایک حصہ بی ایس پی کی طرف راغب ہے جبکہ دوسرا حصہ ایس پی اور کانگریس کے اتحاد کو پسند کرتا ہے۔ اگر چہ دلائل دونوں طرف ہیں ۔ بعض وجوہ سے نتیجہ نکالنا یقینا دشوار ہے۔ مایا وتی کی سابقہ حکومت میں فسادات نہیں ہوئے اور نظم و نسق بھی اکھلیش حکومت سے بہتر تھا۔ یہ بی ایس پی کیلئے مثبت پہلو (Plus point) ہے مگر بی ایس پی ایک نہیں دو بار بی جے پی سے مل کر حکومت بنا چکی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہریجن ایکٹ کا استعمال بھی بی ایس پی کی حکومت نے بے دریغ کیا تھا جس سے ہریجنوں کے اندر غنڈہ گردی کے رجحانات بڑھے تھے۔ بدعنوانی بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ بی ایس پی کیلئے یہ منفی پہلو (Minus Point) ہیں۔

 جہاں تک اکھلیش حکومت کا معاملہ ہے تو پانچ سال میں تقریباً ڈھائی سو فسادات ہوئے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بن گئی۔ مظفر نگر کے فساد میں مسلمانوں کے تقریباً بتیس گاؤں تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ آج بھی 75ہزار فساد زدگان بے یارو مددگار ہیں۔ اکھلیش حکومت میں نظم و نسق کی حالت بدتر ہوگئی تھی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ سماج وادی پارٹی سے مسلمان نہ صرف بدظن تھے بلکہ سخت ناراض تھے اور قریب قریب سب کا رجحان مایا وتی کی پارٹی بی ایس پی کی طرف ہوگیا تھا مگر مسلمان اور بی جے پی مخالف افراد چاہتے تھے کہ بہار جیسا رزلٹ (نتیجہ) یوپی میں بھی ہو۔ جب تک ملائم سنگھ یادو کے کنٹرول میں سماج وادی پارٹی تھی ملائم سنگھ کسی قیمت پر بھی اتحاد کیلئے تیار نہ تھے۔ ان کے ذہن میں مسلمانوں کا فائدہ اور نقصان نہیں تھا اور نہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف لڑنے کا عزم تھا۔ انھوں نے بہار میں بھی لالو -نتیش اور راہل کے اتحاد کو ناپسند کیا تھا اور بی جے پی کو کامیاب بنانے کا جذبہ رکھتے تھے، لیکن اب جبکہ ایس پی اکھلیش کے کنٹرول میں آگئی ہے تو اکھلیش نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور کانگریس سے اتحاد کرنے میں اپنی پارٹی اور مسلمانوں کا فائدہ سمجھا۔ راہل گاندھی نے عقل و دانش کا مظاہرہ کیا۔ دو پارٹیوں کے اتحاد سے مسلمانوں کا رجحان بدلا کہ اب یہ اتحاد بھاجپا کا مقابلہ کرسکتا ہے اور اگر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہوئے تو بھاجپا کو کراری شکست ہوسکتی ہے۔

 بی ایس پی جو اتحاد سے پہلے یہ سمجھ چکی تھی کہ مسلمانوں کے ووٹ اسے بھاری انداز میں ملیں گے، اس کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی نظر آئی، مگر اتحاد کے بعد حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ بی ایس پی کے خیمے میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بی ایس پی نے دلتوں سے زیادہ مسلمان امیدوار کھڑے کئے۔ 100 مسلم امیدوار بی ایس پی کی طرف سے انتخابی میدان میں ہیں جبکہ ایس پی کی طرف سے 56 مسلم امیدوار ہیں۔ ممکن ہے بیس پچیس کانگریس کی طرف سے بھی ہوں تو اسی پچاسی اتحاد کی طرف سے مسلم امیدوار ہوسکتے ہیں۔بات امیدواروں کی نہیں بات در اصل ہے کامیابی کی۔

 اس وقت اگر تجزیہ کیا جائے تو اتحاد کا پلڑا بھاری ہے۔ اگر مسلمانوں کا ووٹ اس کے پلڑے میں پڑتا ہے تو بی جے پی کی شکست یقینی ہوسکتی ہے۔ اگر ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو بی ایس پی اور اتحاد دونوں اپنے مقاصد میں ناکام ہوسکتے ہیں اور سب سے بڑا نقصان اور گھاٹا مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ ابھی 330 سیٹوں کا الیکشن ہونا باقی ہے۔ اگر ان حلقوں میں جہاں ابھی انتخابات ہوں گے مسلمان عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حالات فرقہ پرستی کے خلاف جاسکتے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹوں کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے مسلمان کسی ایک طرف نہ جاسکے تو کم سے کم اتنا فیصلہ ضرور کرلیں کہ جو امیدوار بی جے پی کو مات دے سکتا ہے اسی کو مسلمان ووٹ دیں گے۔ جب ہی فرقہ پرستی کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ اتحاد کے ساتھ کانگریس ہے۔ کانگریس ملک گیر پارٹی ہے جس کی وجہ سے وہ بی جے پی کا ملک گیر پیمانے پر مقابلہ کرنے کی اہل ہے۔ 2019ء میں لوک سبھا کا الیکشن ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پانچ ریاستوں کا الیکشن خاص طور سے یوپی کا الیکشن مودی حکومت کیلئے ریفرنڈم ثابت ہوگا اور اگر نریندر مودی کی پارٹی کو شکست ہوتی ہے تو 2019ء میں مودی کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ ایسی حالت میں اتحاد کو ووٹ دینے میں ہی عقلمندی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔