داستانِ دوحہ

 نیا سال 2017 پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوچکا ہے نئے سال کی آمد پر مبارک بادوں کا تبادلہ بھی پوری طرح سے انجام پاچکا ہے اسکے باوجود سال گذشتہ کی کی باتیں ابھی عہد پارینہ نہیں ہوئی ہیں بلکہ رہ رہ کر اپنی یادیں دل میں گد گدا رہی ہیں۔۔۔۔۔

وقت تیزی سے محو پرواز ہے اور اسے روکنے یا پکڑ کر رکھنے کی سعی بے کار اور لا حاصل ہے لیکن اسکے باوجود وقت کے کچھ لمحات ایسے ضرور ہوتے ہیں جسے آپ گزر جانے کے باوجود ہمیشہ اپنے ہی پاس پاتے ہیں۔ ان ہی میں سال 2016 ء میں دو مواقع ایسے تھے جو ہمیشہ میرے پاس ہی رہیں گے۔۔۔۔۔

مئی  2016ء میں اردو کے پالن ہار شہر لکھنؤ میں جناب ڈاکڑ عمار رضوی کی دعوت پر اردو عالمی کانفرنس جو کہ لکھنؤ یونیورسٹی میں معنقد ہوئی، میں شرکت میرے لیے بہت اعزاز کی بات تھی اور ہے۔ میں اس شہر کے لوگوں کی محبت کا مقروض ہوگیا ہوں۔

ابھی اس سحر انگیزی سے باہر نکلنے بھی ناپایا تھا کہ جنابہ صدف اقبال صاحبہ نے بزم صدف انٹرنیشنل کے چیرمین جناب شہاب الدین صاحب سے ملوایا اور انھوں نے دوحہ میں بزم صدف انٹرنیشنل کی طرف سے منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھیج دی۔ اسکے لیے میں سب سے زیادہ جنابہ صدف اقبال صاحبہ کا مشکور و ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھے یہ سعادت بہم پہنچائی۔

میں 7 دسمبر2016 ء کو عازم دوحہ ہوا۔ جب میرا جہاز دوحہ کی جانب اڑان بھر رہا تھا تو میری سوچ اس سے بھی تیزی سے کہیں محو پرواز تھی لیکن مجھے اس بات کا اطمینان تھا کہ میں ان لوگوں کے پاس جارہا ہوں جو اسی زبان سے محبت کرتے ہیں جس سے میں کرتا ہوں اور یہی  احساس ہمیں ایک اٹوٹ رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔

میں بزم صدف انٹرنیشنل کے چیف پیٹرن جناب محمد صبیح بخاری صاحب، وائس چیف پیٹرن جناب حبیب ان نبی صاحب، ڈائریکٹر جناب امام قادری صاحب کا اور سب سے زیادہ چئیرمین جناب شہاب الدین احمد صاحب کا مشکور و ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھ حقیرکو اس قابل جانا اور اس خوبصورت اور وسیع پروگرام میں مدعو کیا۔ میں اہل اردو دوحہ کے درمیان اپنے آپ کو پاکر کس قدر مسرت محسوس کررہا تھا شاید اسے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ادا نہ کرپاؤں۔

شہاب بھائی کی مہمان نوازی کی کیا بات تھی ائیرپورٹ سے لینے اور ائیرپورٹ پر واپسی تک انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی میں انکی محبتوں کو سمیٹ سمیٹ کر تھک گیا لیکن وہ محبت لٹاتے لٹاتے نہیں تھکے۔ پروگرام کو اپنی بلندیوں میں پہنچانے میں اس جا نفشانی سے انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کیا جو قابل رشک، قابل ستائیش اور قابل تقلید ہے۔۔۔

پروگرام کے روح رواں جناب پروفیسر ارتضی کریم صاحب ڈائریکٹر فروغ اردو کونسل دہلی تھے جن سے پہلی بار مل کر ایسا لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں نہایت ملنسار شفیق اور خوش کلامی میں انکا جواب نہیں۔ میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب سے ملاقات نصیب ہوئی۔

پہلے دن ہوٹل کے سوٹ کے دوسرے کمرے میں میرے ساتھ تھے جناب جاوید دانش صاحب۔ آپ اسم بامسمی شخصیت ہیں جاوداں بھی ہیں اور دانش کدہ بھی۔ آپ کے اندر کئی کردار چھپے بیٹھے ہیں اورمجھے یہ اندازہ اس وقت ہوا جب آپ نے اپنی داستان گوئی کے ذریعے محفل میں روح ڈال دی اور جب تک روح ہے تب تک زندگی بھی۔ آپ کو صدف انٹرنیشنل کی طرف سے خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دوسرا ایوارڈ پروفیسر جناب ڈاکٹر واحد نظیر کے نام کیا گیا آپ کا مقالہ بہترین اور پرمغز تھا۔

بندہ ناچیز کو بھی” مہجری ادب اور اردو ادب کی نئی بستیاں ” کے موضوع پر بولنے کا موقع دیا گیا۔ مقالے کا متن یہاں جلد پیش کروں گا۔ پروگرام کے آخر میں مشاعرہ بپا کیا گیا جس میں ناچیز کو اپنی شاعری سنانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ مشاعرے کی خوبصورت نظامت بہت ہی اچھے انسان اور اچھے شاعر جناب انجم بارہ بنکوی صاحب نے انجام دی آپ ہندوستان سے تشریف لائے تھے اور اپنے ساتھ ایک نہایت شفیق مہربان اور وسیع القلب شاعر جناب وجے تیواری صاحب کو بھی لائے تھے آپ نہ صرف خوبصورت شاعری کرتے ہیں بلکہ نعت گوئی  میں بھی آپ کا جواب نہیں۔

ایک منفرد لب ولہجے دھیمی آواز میں خوبصورت شاعری کرنے والے شاعر جناب باصر کاظمی جو کے اردو ادب کے مشہور شاعر جناب ناصر کاظمی کے صاحب زادے ہیں، سے ملاقات میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔

سفر میں نئے دوست کا ملنا اور انھیں اپنی یادوں میں بسا کر رکھنا یہ سب کچھ میرے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ اس اثاثے سے منسلک ایک یادگار اعزاز ایوارڈ کی صورت میں، میں بھی دوسرے مہمانوں کی طرح اپنے ساتھ برلن لے کر آیا ہوں۔۔۔۔۔

بزم صدف انٹرنیشنل کی رنگا رنگ عالمی کانفرنس کے دوسرے دن  دوحہ کے ایک خوبصورت سے ہوٹل میں مختصر لیکن بہت خوبصورت سی مشاعرے کی محفل منعقد کی۔ پروگرام کے کرتا دھرتا تھے جناب سید فہیم الدین صاحب! آپ اپنی ذات میں خود انجمن ہیں اور خوشگوار لب و لہجے میں گفتگو کرنے کا ہنر انھیں خوب آتا ہے۔ آپ نے پروگرام کی میزبانی بھی خوب کی۔ اس پروگرام میں دوحہ کے مقامی شعرا کرام سے ملاقات ہوئی اور خوبصورت اشعار سننے کو ملے۔ زندگی کی یہ قیمتی گھڑیاں مجھ ناچیز کو ایسے ایسے عظیم لوگوں سے ملا رہی تھیں جسے میں اپنی زندگی کے خوش بخت گھڑیاں مانتا ہوں۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ میں ایک ایک شخص کو نام سے یاد کروں لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں کررہا ہوں کیوں کہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ میں کن کن کو یاد کررہا ہوں، دوستیاں اور محبتیں ناموں سے مبرا ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے دلوں میں پلتی ہیں۔۔۔۔۔۔

مشاعرے کے اختتام پر پر تکلف ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

میرے پاس الفاظ کم پڑ رہے ہیں کہ میں ان سب کی محبت خلوص اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرسکوں۔۔۔۔لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ دوحہ میں چند دن کا قیام میری زندگی کے خوبصورت اور یادگار دنوں میں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔۔۔۔۔۔ داستان دوحہ کئی دوسری داستانوں کی طرح ان مٹ ہے!!!!

تبصرے بند ہیں۔