اسلامی عبادتوں میں اجتماعی آداب کی جھلک اور نمونہ(آخری قسط)

 زکوٰۃ: نماز کے بعد دوسری اہم ترین عبادت ’’زکوٰۃ‘‘ ہے۔ زکوٰۃ کا ادا کرنا اسلامیت کی ان دو بنیادی علامتوں میں سے ایک ہے جو کسی غیر مسلم کے دائرہ اسلام میں داخل قرار پانے یا نہ پانے کا ، سیاسی طور پر فیصلہ کرتی ہیں۔ اس عبادت کے سلسلے میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور ان کے ضرورت مندوں پر لوٹا (کر بانٹ) دی جاتی ہے‘‘ (مسلم، جلد 1)۔

اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دو خاص باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ اس اہم عبادت کی جو غرض و غایت ہے ا س کا ایک رخ (خارجی) اسلامی معاشرے کے اقتصادی مصالح کی طرف ہے، یعنی یہ جس مقصد سے فرض کی گئی ہے اس کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ ملت کے حاجت مند افراد اپنی معاشی مجبوریوں اور پریشانیوں سے نبٹنے کیلئے بے سہارا نہ رہ جائیں۔ دوسری یہ کہ طریقہ اس عبادت کا یہ ہے کہ مالِ زکوٰۃ مال دار مسلمانوں سے لیا اور وصول کیا جائے اور پھر تنگ حال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے، یہ نہیں ہے کہ مال دار مسلمان خود ہی زکوٰۃ نکال کر غریبوں کو دے دیا کریں۔ ’’وصول کئے جانے اور تقسیم کر دیئے جانے ‘‘ (تَوْخَذُ وَ تُرَدُّ) کی بات چاہتی ہے کہ لازماً کوئی ہاتھ ہو جو وصول کرنے اور تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دے۔ واضح طور پر یہ ہاتھ حکومت ہی کا ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ ’’وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا‘‘ سے معلوم ہوتا اور دورِ نبویؐ و دورِ خلافت راشدہ کے تعامل سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کو اپنا مالِ زکوٰۃ حکومت کے حوالے کرنا جس درجہ ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ عہد صدیقیؓ میں جب کچھ لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو خلیفۂ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف تلوار کھینچ لی اور پوری عزیمت کے ساتھ فرمایا:

 ’’خدا کی قسم؛ اگر ان لوگوں نے اونٹ باندھنے کی ایک رسی کی بھی جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا کرتے تھے، میرے حوالے کرنے سے روک رکھا تو میں اس کیلئے ان سے جنگ کروں گا‘‘ (مسلم، جلد 1، کتاب الایمان)۔

  زکوٰۃ کے متعلق شریعت کے ان دونوں فرمانوں پر نظر ڈالئے تو صاف محسوس ہوگا کہ اس نے اس عبادت کو بھی اجتماعیت کا سرچشمہ بنایا ہے ۔ ایک طرف تو اس کے مقاصد ہی میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور مواسات شامل ہے۔ اور یہ وہ عمل اور جذبۂ عمل ہے جو صالح اجتماعیت کا سب سے اہم بنیادی پتھر ہے۔ … دوسری طرف اس عبادت کے طریق ادا کو اس نے حکومتی نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ جو اجتماعیت کی کامل ترین شکل ہے۔ پھر اس نے ایسا اس حقیقت کے باوجود کیا ہے کہ زکوٰۃ کے اصل مقصد اور اس کی بنیادی غرض و غایت کیلئے یہ بات کچھ ناسازگار ہی ہوسکتی ہے، سازگار کسی طرح نہیں ہوسکتی۔ زکوٰۃ کا اصل مقصد اور اس کی بنیادی غرض و غایت نفس کا تزکیہ ہے (تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا) تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ (اِلَّابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی)ظاہر ہے کہ اس  مقصد کا تقاضا یہی ہے کہ زکوٰۃ حاجت مندوں کو بطور خود دی جائے اور اس طرح دی جائے کہ دینے والے کا بایاں ہاتھ بھی یہ نہ جانے کہ دائیں ہاتھ نے کیا اور کسے دیا ہے؟ ورنہ کھلے طور پر اور وہ بھی حکومت کے اقتدار، نظم اور ضوابط کے تحت زکوٰۃ دینے کی شکل میں خلوص اور للہیت کے متاثر ہو رہنے کا اندیشہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام نے نماز ہی کی طرح زکوٰۃ کی زبان سے بھی اپنی اجتماعیت پسندی کی شدت کا مظاہرہ کیا ہے؛ کیونکہ عبادت کے اصل اور بنیادی مقصد کے متاثر ہورہنے کے امکان اور اندیشے پر اجتماعی آداب اور مصالح کو اس نے یہاں بھی ترجیح دے رکھی ہے۔

 روزہ: تیسری عبادت ’’روزہ‘‘ ہے۔ یہ ایک ’’منفی‘‘ قسم کی عبادت ہے، یعنی اس میں نماز یا زکوٰۃ یا حج کی طرح کچھ کیا نہیں جاتا کہ اسے دیکھا جاسکتا ہوبلکہ کچھ خاص کاموں سے رکا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جس عمل کی نوعیت منفی قسم کی ہو، اس کو اجتماعیت کا جامہ پہنانا دشوار اور شعورِ اجتماعیت کی بقا و ترقی کا ذریعہ بنانا دشوار تر ہے، لیکن روزے کے سلسلے میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں ان سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اس نے اس منفی عبادت کو بھی اجتماعیت کا ’’ہادی‘‘ اور ’’معلم‘‘ بنا دیا ہے۔ حکم ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی متعین مہینے میں روزے رکھیں۔ ہر روز تقریباً ایک ہی وقت سحری کھائیں اور پھر ایک ہی متعین وقت پر افطار کریں۔ ان احکام کے نتیجے میں اس عبادت سے جو صورت حال وجود میں آتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ پورا اسلامی معاشرہ مسلسل ایک مہینہ تک ایک منضبط تربیتی کیمپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے، ایک ہی فضائے عبودیت ہوتی ہے جو مشرق سے مغرب تک چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک ہی حالت ضبط و ریاض ہوتی ہے جو فرد فرد کے چہرے سے نمایاں ہوتی ہے۔ کیا وہ معاشرہ جس پر مسلسل ایک ماہ تک ایسی غیر معمولی یکساں ذہنی فضا اور یکساں ظاہری حالت طاری رہے اور جو پورے کا پورا ایک تربیتی کیمپ بنا ہوا ہو، اس کے افراد کے ذہنوں میں یہ تصور رہ رہ کر نہ ابھرتا رہے گا کہ ہم سب ایک ہی مشن کے علم بردار اور ایک ہی محاذ کے سپاہی ہیں؟

 بلا شبہ ایک منفی نوعیت کی عبادت کو بھی اس طرح اجتماعیت کا حامل بنا دینا حب اجتماعیت کے کمال کی دلیل ہے۔

 حج: اب چوتھی عبادت ’’حج‘‘ کو لیجئے حج کی غایت یہ ہے کہ اللہ واحد کا پرستار اور معبودِ برحق کا جاں نثار بندہ اس مقدس گھر پر حاضری دے جو تو حید کا مرکز ہے۔ جہاں ہر طرف سچی خدا پراستی کے شعائر فدا کاری کا درس دے رہے ہیں جو موحد اعظم حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے ایمان و اسلام کی ایک مجسم یادگار ہے۔ حاضری اس لئے دے تا کہ اس کے سر کی آنکھیں اور ا س کے دل کی نگاہیں، دونوں ہی اس شہات گہِ الفت کا قریب سے مشاہدہ کرلیں اور وہ جان لے کہ قول لا الٰہ الا اللہ کی عملی تفسیر کیا ہے؟ پھر خدا پرستی کے سچے جذبات سے سرشار ہوکر بندگی کے میدان عمل میں ایک نئے جوش کے ساتھ واپس آئے۔

            اس عبادت کے ارکان میں سب سے بڑا رکن میدان عرفات کی حاضری ہے۔ یہاں دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مختلف نسلوں، قوموں، زبانوں اور رنگوں کے لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان سب کا ایک امیر حج ہوتا ہے۔ یہ امیر پورے مجمع کو خطاب کرتا ہے اور اسے ایمان کے حقائق، اسلام کے مطالبات اور بندگی کے آداب کی تلقین کرتا ہے۔ جو شخص اس اجتماع میں حاضر نہ ہوسکا اس کا حج ادا نہ ہوسکے گا، چاہے اس نے باقی مراسم حج کتنے ہی اہتمام سے کیوں نہ ادا کرلئے ہوں۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کو بھی نمایاں حد تک اجتماعیت کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور شعورِ اجتماعیت کا ایک زبردست ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

اگر غور کیجئے تو دوسری عبادتوں کی طرح یہاں بھی دکھائی دے گا کہ حج کی جو اصل غایت ہے اس کا حصول کسی اجتماع کی ضرورت سے یکسر بے نیاز ہے، یہی نہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے وہ اس کیلئے نا مساعد بھی ہوسکتا ہے؛ کیونکہ تنہائی کا سکون اور یکسوئی کسی ہنگامہ اجتماع کے مقابلے میں اس امر کا بہتر موقع فراہم کرسکتی ہے کہ انسان کعبہ اور اطرافِ کعبہ کے شعائر اللہ سے ایمان کی تازگی حاصل کرے، لیکن اس حقیقت کے باوجود شریعت کہتی ہے کہ حج اجتماع کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہتی ہے کہ اجتماعیت کی دینی اہمیت بتانے اور ذہن کرانے میں دوسری عبادتوں سے وہ کسی طرح پیچھے نہیں ہے، بلکہ بعض اعتبارات سے ان سب سے آگے ہی ہے۔

 اسلام نے اپنی عبادتوں میں جن اجتماعی آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی ہے ان کی ضروری تفصیل آپ کے سامنے آچکی اور ان کے اندر ان آداب کی جو اہمیت ہے وہ آپ ملاحظہ فرماچکے۔ اس کے بعد آپ کا اعتراف اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ ان عبادتوں میں اجتماعیت کی روح کی جس حد تک اتار دی گئی ہے، اس کے آگے کسی اور حد کا وجود ، عملی امکان سے باہر ہے۔

  یہ ہے اجتماعیت کے نقطۂ نگاہ سے اسلامی تعلیمات کے مختلف شعبوں کا جائزہ۔ اس جائزے کے بعد یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ اسلام میں اجتماعیت کو جو بلند ترین مقام عطا کیا گیا ہے اس کی نظیر کسی اور مذہب میں تو کیا کسی اور نظام میں بھی نہیں پائی جاسکتی۔

تحریر: مولانا صدر الدین اصلاحیؒ… ترتیب:  عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔