اے بے کسی سنبھال اٹھاتا ہوں سر کو میں

لکھنؤ کے درد مند مسلمانوں میں ایک نام عبدالمعروف خاں کا ہم سنتے رہے ہیں اور یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ کانگریس انہیں لکھنؤ کے مغربی حلقہ سے الیکشن لڑانا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی سنا کہ ان کو ٹکٹ دیا جارہا ہے۔ ا ور پھر یہ بھی سن لیا کہ کسی بھی وجہ سے ان سے کہا گیا کہ نام واپس لے لو۔ یہ کہانی دس برس سے سنتے رہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ صرف کانگریس سے وابستہ ہیں اور اسکے اچھے اور برے دنوں میں اس وقت بھی ساتھ رہے جب زیادہ تر موقع پرست کانگریس کو چھوڑ چھوڑکر بھاگ گئے۔

2012ء کے الیکشن میں لکھنؤ وسطی حلقہ سے ایک تیز طرار روی داس کو ملائم سنگھ نے ٹکٹ دیا۔ حلقہ کے لوگوں کو روی داس سے بہت توقعات تھیں۔ وہ جب کامیاب ہوگئے تو سننے میں آیا کہ ان کے انداز بدل گئے ہیں اوریہ بھی سنا کہ وہ وزیر بننا چاہتے تھے لیکن ملائم سنگھ نے انہیں وزیر نہیں بنایا اس لیے خاموش ہیں۔ اور پھر وہ وزیر بھی بنا دئے گئے تو سننے میں آتا رہا کہ اب انھوں نے ملنا ہی چھوڑ دیا ہے اور ایک خاص ذہن کے لوگوں سے وہ قریب ہوتے جارہے ہیں۔

2017ء کے الیکشن کا جب چرچا شروع ہوا تو اس حلقہ کے کارپوریٹر وہ ہندو ہوں یا مسلمان سب کو یہ شکایت کرتے سنا گیا کہ منتری جی کسی کا کام نہیں کرتے اور ان کا ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد یہ شہرت ہوگئی کہ سب نے جا کر ملائم سنگھ ا ور اکھلیش یادو سے کہا ہے کہ ان کا ٹکٹ بدل دیا جائے۔اس کے بعد کانگریس کے ساتھ محاذ بنانے کی باتیں ہونے لگیں لیکن ملائم سنگھ اور ان کے بیٹے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے درمیان کچھ اختلاف ہوگیا تو معاہدہ کا مسئلہ خطرہ میں پڑ گیا اور اکھلیش یادو ذہنی طور پر اتنا مصروف ہوگئے کہ کانگریس سے معاہدہ تو کیا ہوتا انہیں انتخابی نشان اور پارٹی کا نام بھی ہاتھ سے جاتا محسوس ہوا۔ اور جب سب کچھ قدرت نے ان کے حق میں کردیا تو وقت اتنا ہوچکا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وقت نہیں خراب کیا جاسکتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ کانگریس کے وسطی حلقہ کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ کانگریس سے کہہ دیا گیا تھا کہ ایک سیٹ آپ کو لکھنؤ میں دے دی جائے گی اور شہر میں اس شہرت کے بعد کہ روی داس کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے۔ کانگریس کے ذمہ د اروں نے عبدالمعروف خاں سے کہہ دیا کہ وہ تیاری کریں۔ لکھنؤ کے وسطی حلقہ سے ان کو الیکشن لڑنا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کے مشترکہ روڈ شو میں پورے راستہ میں کانگریس نظر آنا چاہیے۔ اس کا انتظام صرف آپ کو کرنا ہے۔

روڈ شو کے درمیان حضرت گنج سے مغربی لکھنؤ تک جہاں جہاں کانگریس نظر آئی وہ صرف معروف خاں کا کارنامہ تھا اور اس کے بعد انہیں ٹکٹ دے دیا گیا اور انھوں نے دھوم دھڑکّے سے نامزدگی کرادی اور ہر جگہ یہ معلوم ہوگیا کہ لکھنؤ کے وسطی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار عبدالمعروف خاں بنادئے گئے ہیں اور وہی الیکشن لڑیںگے۔ ہم نہیں جانتے کہ کب کہاں کھچڑی پکی اور کب یہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ نے رائے بدل دی اور روی داس کو ٹکٹ دے دیا اور انھوں نے بھی نامزدگی کرادی۔ اور یہ کب ہوا کہ عبدالمعروف خاں سے کہا جائے گا کہ وہ نام واپس لے لیں؟

ملائم سنگھ نے کہا ضرور تھا کہ اکھلیش مسلمانوں سے قریب نہیں ہیں لیکن گزشتہ ۵ برسوں میں ہم نے ان کے اندر ایسی کوئی بات نہیں دیکھی لیکن اس وقت ہمیں بھی اچھا نہیں لگا تھا کہ جب مختار انصاری اور ان کے بھائی اور بیٹے کو ٹکٹ دینے کا مسئلہ آیا اور عتیق احمد نے اپنی امیدواری کی بات کی تو اکھلیش نے انہیں ٹکٹ دینے سے اس لیے انکار کردیا کہ ان کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں۔ اس سے پہلے صرف  ایک ڈی پی یادو کو انھوں نے لینے سے انکار کیا تھا۔ورنہ ہندو لیڈروں پر ہاتھ ڈالنے کی انھوں نے ہمت نہیں کی۔پورے صوبہ میں پرتاپ گڑھ کے راجہ بھیا، گورکھپور کے ہری شنکر تیواری کیا اتنے بڑے دہشت گرد نہیں ہیں جن کی دہشت سے لکھنؤ بھی کانپتا ہے۔ لکھنؤ کی مشہور نعمت اللہ بلڈنگ جو سیکڑوں کروڑ کی عمارت ہے وہ ہری شنکر تواری نے گورکھپور سے آکر ایک ہفتہ میں خالی کرائی، نہ گولی چلی نہ لاٹھی صرف یہ کہ اسے ہم نے خرید لیا ہے۔ اور خریدنے والوں نے خرید لیے اور خالی کرنے والوں نے خالی کردئے۔ راجیہ بھیا کہ وہ دہشت کہ کنڈہ تحصیل میں پولیس وہ رہے گی جسے راجہ بھیا اجازت دیںگے۔ اور ان کی اجازت کے بغیر کوئی پان کی دوکان بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور جو ان کی مرضی کے خلاف کرے گا وہ زندہ نہیں رہے گا۔ اس راجہ بھیا کو ٹکٹ بھی دیا گیا اور وزیر بھی بنایا جائے گا۔

عبدالعروف خاں لکھنؤ کے ایک معززفردہیں، بہت بڑے کاروباری ہیں۔ پورے شہر میں ہی نہیں دور دور تک ان کی عزت کی جاتی ہے۔ اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اس سے پہلے دو بار انہیں ٹکٹ دیا گیا اور پھر ان سے کہا گیا کہ اگلی بار آپ لڑئے گا اور جب گھر گھر یہ بات مشہور ہوگئی کہ سماج وادی پارٹی نے وسطی حلقہ کانگریس کو دے دیا اور کانگریس نے عبدالمعروف خاں کوٹکٹ دیا ہے۔ اس کے بعد صرف امراجالا میں یہ خبر چھپنا کہ معروف خاں بیٹھ گئے، کس قدر ذلت کی بات ہے۔ ایک طرف یہ شکایت ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں مسلمان آنا ہی نہیں چاہتے اور اپنی الگ پارٹی بناتے ہیں اور جب آتے ہیں اور پارٹی سے لینے کے بجائے اسے دیتے ہیں تب بھی ان کی عزت کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ مختار انصاری کے بھائی سے ملائم سنگھ نے راجیہ سبھا اور کائونسل کے الیکشن میں یہ کہہ کر مدد لی تھی کہ الیکشن ہم مل کر لڑیںگے۔ اکھلیش یادو اس احسان کو بھول گئے اور ا نہیں ڈھکیل کر مایاوتی کے پاس بھیج دیا جبکہ مختار ا نصاری کے علاوہ کسی کے خلاف ایک شکایت بھی نہیں ہے۔

اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے، کانگریس سے تعلق رہے یا جائے معروف خاں کو الیکشن لڑنا ہے اور ا کھلیش یادو ہوں یا راہل گاندھی وہ دیکھیںگے کہ ا یک باعزت مسلمان اپنی عزت کے لیے کیا کیا کرتا ہے؟ اور پورا لکھنؤ دکھائے گا کہ بے عزتی کا کیسے انتقام لیا جاتا ہے؟ہر پارٹی کا لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی نظر میں کوئی کتنا ہی معزز ہو ان کے نزدیک کھلونا ہے۔ بہوگنا کی بیٹی جسے صوبہ کا صدر بنایا ذرا سی بات پر کانگریس کے منہ پر تھوک کر چلی گئی اور معروف خاں جن کے بارے میں ہر کسی کو بتادیا گیا کہ وسطی حلقہ سے معروف کوکامیاب بنانا ہے۔ اس وقت یہ کہنا کہ نام واپس لے لیجیے ذلیل کرنا نہیں تو کیا ہے؟ اگر اس بار وہ نام واپس لے لیتے تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ انھوں نے کھڑے رہنے اور مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرکے ہر کسی کو بتایا ہے کہ عزت کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے۔ کانگریس یوں بھی معروف خاں کو صرف اپنا نام اور نشان دے سکتی تھی جو آج بے حیثیت ہے۔ معروف خاں نے اس پر اپنا نام لکھ کر اسے حیثیت دی ہے اور کامیاب ہوکر اسے قیمتی تحفہ دیںگے۔

بات صرف کانگریس اور سماج وادی کی ہی نہیں ہے ملک کے ہندو دوست کسی بھی مسلمان کو اٹھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ 1969میں ہم نے چودھری چرن سنگھ سے لڑ کر ایک ٹکٹ وسطی حلقہ کا امتیاز حسین بابو میاں کے لیے لیا اورمشرقی حلقہ کا ہنس گوپال شکلا کے لیے۔ چودھری صاحب نے کہہ دیا تھا کہ میں صرف لکھنؤ میں ایک تقریر کروںگا۔ پارٹی میں کوئی ایسا نہیں تھا جس کے نام پرمجمع آئے۔ لیکن ضلع یونٹ سے کہا تھا کہ سب کا الیکشن لڑانا ۔ ہم بھی موجود ہیں اور بھی ہیں جو گواہی دیںگے کہ پورے ایک مہینہ تک کسی نے صورت نہیں دکھائی اور دوسروں سے کہا کہ حفیظ صاحب نے ٹکٹ دلایا ہے وہ لڑائیں۔ ہم تو وسطی حلقہ کو کائستھ سیٹ سمجھتے ہیںاور پا رٹی کا ہر ورکر مغربی حلقہ میں ڈی پی بورا کو لے کر مولانا رضا انصاری کو ہرانے میں گیا تھا۔ یہ ملک کا عام ذہن ہے۔ لیکن ہم نے صرف اپنے بل پر ہی امتیاز صاحب کو کامیاب کرایا بھلے ہی وہ ۳۱۵ ووٹوں سے جیتے ہوں۔اب معروف خاں کھڑے ہیں انہیں اس سیٹ سے جتا کر تاریخ دہرانا ہے۔ یہ طے ہے کہ نہ کانگریس کا کوئی لیڈر آئے گا اور نہ ایس پی کا، لیکن حفیظ کی جگہ لینے والے اوراس الیکشن کو اپنا الیکشن بنا کر لڑنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔