مکی دور: دعوت، تربیت اور تنظیم

اس سے قبل یہ با ت سامنے آچکی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی امتیازی شان غلبۂ دین حق ہے، یعنی اس دین حق کو بالفعل قائم، غالب اور نافذ کرنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دے کر بھیجے گئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس کیلئے ایک مکمل انقلابی جدو جہد درکار ہے؛ چنانچہ آپؐ کی سیرت مطہرہ میں ہمیں وہ تمام مراحل نظر آتے ہیں جو کسی بھی انقلابی جدوجہد میں پیش آنے لازمی ہیں۔ یہی بات ہے جو سورۃ المدثر میں نہایت سادہ الفاظ میں فرمائی گئی ہے: وَرَبَّکَ وَ فَکَبِّرْ ’’اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو (اور اسے بالفعل قائم اور نافذ کرو)‘‘۔

   اس انقلابی جدوجہد کا پہلا مرحلہ جو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مکی دور میں نظر آتا ہے وہ دعوت و تبلیغ، تزکیہ اور تنظیم پر مشتمل ہے۔ جہاں تک تنظیم کا تعلق ہے اس کی بنیاد تھی لا الٰہ الااللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان اور آپؐ کی بے چون و چرا اطاعت اور آپؐ سے بہ دل و جان محبت۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آپ ؐ پر ایمان لانے والوں کو ایک بنیانِ مرصوص بنا دیا، ایک ایسی طاقت اور ایک ایسی قوت کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی۔ آپؐ کے چشم و ابرو کے اشارے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرنے کیلئے ہر دم آمادہ رہتے تھے۔

جہاں تک دعوت یا تبلیغ کا تعلق ہے ا س کے ضمن میں سب سے پہلے تو یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس کا مرکز و محور، اس کا منبع اور اس کا مدار قرآن حکیم ہے۔ دعوت ہو یا تبلیغ، انداز ہو یا تبشیر، نصیحت ہو یا موعظت، یہاں تک کہ تربیت ہو یا تزکیہ، ان سب کی اساس اور بنیاد قرآن مجید پر ہے۔ یہ بات قرآن حکیم میں چار مقامات پر آئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو منہج عمل اور طریقہ کار ہے اس کی بنیاد ان عناصر چہار گانہ پر ہے:

  ’’(ہمارا یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس (یعنی اللہ) کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب یعنی احکام الٰہی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

 اسی حقیقت کو مولانا حالیؔ نے نہایت سادہ الفاظ میں یوں ادا فرمایا  ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا … اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

 پس یہ بات سامنے رہنے چاہئے کہ اگر چہ اس دعوت کا ہدف اور مقصود تکبیر رب یا اعلائے کلمۃ اللہ یا اظہارِ دین حق ہے، ازروئے نصِ قرآنی:

 ’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنا رسول الہدیٰ اور دین حق دے کر، تاکہ وہ (رسول) اس کو کل جنس دین پر پورے کا پورا غالب کردے‘‘۔

  لیکن اس کا نقطۂ آغاز ہے ’’اِنذار‘‘ یعنی خبردار کرنا، آگاہ کرنا، وقوعِ قیامت سے خبردار کرنا، جزاء و سزائے اخروی سے خبردار کرنا۔ یہ خبردار (warn) کرنا، یعنی ’انداز‘ دعوتِ نبویؐ کا نقطۂ آغاز ہے۔ اور یہ بات جان لینی چاہئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر اگر کبھی کوئی دعوت اٹھانی اور برپا کرنی ہو تو اس کا نقطۂ آغاز بھی ’اِنداز‘ ہی ہوگا۔ پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس دعوے کے ضمن میں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ میں ایک نہایت فطری اور حکیمانہ تدریج نظر آتی ہے۔ یہ دعوت ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کے اصول پر آگے بڑھتی ہے؛ چنانچہ اس کا آغاز خود آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کے بعد آپؐ کے چچا زاد بھائی ہیں جو آپؐ کے زیر کفالت بھی ہیں اور زیر تربیت بھی، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ، پھر آپؐ کے انتہائی گہرے دوست ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر آپؐ کے دو غلام ہیں کہ جنھیں آپؐ نے آزاد کرکے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا، یعنی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔ یہاں سے دعوت آگے بڑھی کنبے اور قبیلے کی طرف۔ پھر جب تک کہ آپؐ اہل مکہ سے مایوس نہیں ہوگئے آپؐ نے اپنی پوری دعوتی سرگرمی مکے تک ہی محدود رکھی۔ مکے والوں سے مایوس ہوکر 10نبوی میں آپؐ نے طائف کا سفر کیا، لیکن اہل طائف بھی اسلام کی دعوت سے محروم رہے۔

 پھر جب مکے والوں کی مخالفت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنا پڑی تب بھی چھ سال کے عرصے تک، جب تک کہ اہل عرب نے صلح حدیبیہ کی شکل میں آپؐ کی حیثیت کو تسلیم نہ کرلیا، آپؐ نے اپنی تمام تر توجہات اندرون ملک عرب ہی مرتکز رکھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیرون ملک دعوت کا آغاز فرمایا۔ یہ ہے تدریج جو بالکل فطری اور نہایت حکیمانہ ہے۔

آخری بات اس ضمن میں یہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام وسائل اختیار فرمائے جو اس وقت موجود تھے؛ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ:

’’اور (اے نبیؐ!) خبردار کیجئے اپنے قبیلے اور قرابت داروں کو‘‘ (الشعراء:214)۔

 تو آپ نے دو دفعہ دعوتِ طعام کا اہتمام فرمایا اور وہاں اپنی دعوت پیش کی، اگر چہ بظاہر احوال اور ہمارے دنیوی معیارات کے اعتبار سے یہ دونوں کوششیں ناکام رہیں۔ بعد میں جب بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ہوا:

 {فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ} ’’پس (اے نبیؐ!) آپ علی الاعلان دعوت دیجئے اس بات کی جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے!‘‘ (الحجر:94)۔

 یعنی اب ڈنکے کی چوٹ پر وہ بات کہئے جس کیلئے آپؐ مامور ہوئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر وہی نعرہ بلند کیا جس کا عرب میں رواج تھا: و اصباحا! ’’ہائے وہ صبح جو آنے والی ہے‘‘ جس پر لوگ جمع ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں عذابِ آخرت سے خبردار کیا تو آپؐ کا سگا تایا (چچا)ابولہب مجمع میں بول اٹھا: ’’تبالک الہٰذا جمعتنا‘‘ … ’معاذاللہ؛ نقل کفر، کفر نباشد‘ … ’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم !) تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں، کیا تم نے ہمیں اس کام کیلئے جمع کیا تھا؟‘‘ اس پر سورۃ اللہب نازل ہوئی، جس کی پہلی آیت ہے: ’’(اصل میں تو) ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور ہلاک و برباد ہوگیا وہ خود‘‘ (اللہب:1)۔

 یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں ابتدا تو اگر چہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی، لیکن جو لوگ آپؐ پر ایمان لائے ان میں سے ہر شخص اپنی جگہ پر ایک داعی حق بن گیا۔ ان میں نمایاں ترین مقام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد وہ خود مجسم داعی بن گئے، خود مبلغ بن گئے؛ چنانچہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں جو چوٹی کے دس صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں جنھیں ہم ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں ان میں سے چھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے۔ ان میں حضرت عثمانؓ  بھی ہیں، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بھی ہیں، حضرت طلحہؓ  بھی ہیں، حضرت زبیرؓ  بھی ہیں اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بھی ہیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہم و ارضاہم۔ دعوت کے اس عمل پر جو رد عمل کفار کی طرف سے اور سردارانِ قریش کی جانب سے ظاہر ہوا اس میں بھی ہمیں ایک عجیب ترتیب نظر آتی ہے، وہی ترتیب جو ہمیشہ کسی انقلابی دعوت کے خلاف رد عمل میں ظاہر ہونی ضروری ہے؛ چنانچہ فوری رد عمل جو ابتدا میں ظاہر ہوا وہ استہزاء اور تمسخر کا تھا۔ گویا کہ چٹکیوں میں بات اڑانے کی کوشش کی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنوں قرار دیا گیا، آپؐ پر معاذ اللہ؛ پاگل پن کی پھبتی کسی گئی۔ کہا گیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خلل دماغی کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے، یا شاید کسی آسیب کا اثر ہوگیا ہے، یہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں، اچھے بھلے آدمی نہ تھے نہ معلوم کیا ہوا۔ (نقل کفر، کفر نہ باشد) ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ باتیں سنتے تھے اور آپؐ کے قلب مبارک پر رنج و اندوہ کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو تسلی و تشفی و دلجوئی کیلئے وحیِ الٰہی نازل ہوتی تھی۔

’’ن- قسم ہے قلم اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ (اے نبیؐ!) آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں اور یقینا آپؐ کیلئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ اور بے شک آپؐ اعلیٰ اخلاق کے مرتبے پر فائز ہیں‘‘ (القلم:1-4)۔

 اس کے بعد جب بات آگے بڑھی، قریش نے دیکھا کہ جسے ہم ایک مشتِ غبار سمجھتے تھے وہ تو ایک بہت بڑی آندھی کی صورت اختیار کر رہی ہے، ہمارے اقتدار، ہماری سیادت، ہماری دیرینہ روایات، ہمارے تہذیب و تمدن اور ہمارے عقائد و مذہب کے خلاف ایک بہت بڑی انقلابی جدوجہد کا آغاز ہوچکا ہے، گویا کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں انھوں نے دیکھا کہ   ع

’’نظام کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!‘‘

   تو اب پھر وہی رد عمل ظاہر ہوا جو ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے، یعنی بہیمانہ تشدد، شدید اذیت (Persecution) … اور ظاہر بات ہے کہ اس کا سب سے بڑا حصہ انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے حصے میں آیا جو کہ غلاموں کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جن کا کوئی حمایتی نہیں تھا، جن کی طرف سے کوئی بولنے والا نہیں تھا، جیسے حضرت بلالؓ، حضرت خباب بن الارت،حضرت سُمیّہ اور آل یاسر رضی اللہ عنہم۔ ان سب پر جو کچھ بیتی وہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے بڑے انمٹ نقوش ہیں اور انھوں نے جس طرح صبر و استقامت اور جس پامردی کے ساتھ ان تمام مصائب کو جھیلا ہے اور ایمان پر ثابت قدم رہے ہیں وہ تاریخ دعوت و عزیمت کے نہایت اہم نشانات راہ ہیں۔

  جب یہ محسوس کرلیا گیا کہ ہمارے یہ تمام حربے ناکام ہوچکے ، کسی ایک شخص کو بھی ایمان سے کفر میں نہیں لاسکے، ہمارا یہ سارا تشدد ناکام ہوچکا تو پھر تیسرا رد عمل سامنے آیا، چنانچہ تیسرا حربہ آزمایا گیا۔ یہ حربہ ہے مصالحانہ پیش کشوں کا، یہ جال ہے لالچ کا۔ چنانچہ ابن ربیعہ قریش کی طرف سے نمائندہ بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم)اگر تم بادشاہت کے خواب دیکھ رہے ہو تو اگر چہ ہم اس مزاج کے نہیں ہیں کہ کسی کو بادشاہ مان سکیں لیکن تمہیں ہم اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرلیں گے، اگر تمہیں دولت چاہئے تو ذرا اشارہ کرو، قدموں میں دولت کے انبار لگا دیئے جائیں گے، کہیں شادی کرنے کی خواہش ہو تو صرف اشارہ کرنے کی ضرورت ہوگی، جس گھرانے میں کہو تمہاری شادی کرادی جائے گی، لیکن بہر حال تم اس کام سے باز آجاؤ جس نے قریش کے اندر تفرقہ برپا کر دیا ہے۔ اس کا جو جواب دیا محمدٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن وہ تاریخ عزیمت میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ فرمایا:

  ’’اگر تم لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند رکھ دو تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا جس پر میں اپنے رب کی جانب سے مامور ہوا ہوں‘‘۔

  نتیجہ یہ نکلا کہ وہ وقت بھی آیا کہ آخری الٹی میٹم دیا گیا۔ ایک وفد ابو طالب کے پاس آتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی کئے جارہے ہیں اور انہی کی وساطت سے بنو ہاشم کا پورا خاندان گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر تھا۔ قریش کی طرف سے انھیں الٹی میٹم ملتا ہے کہ اے ابوطالب! ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، اب دو ہی راستے ہیں، یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حمایت سے دست کش ہوجاؤ اور یا پھر میدان میں آؤ اور مقابلہ کرو۔ یہ وہ وقت ہے جبکہ ابو طالب کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور یہ کہاکہ بھتیجے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ جسے میں برداشت نہ کرسکوں۔ اور یہی وہ واحد موقع نظر آتا ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں نمی آگئی؛ تاہم آپؐ نے بات وہی کہی جو عزیمت کا تقاضا تھا۔ فرمایا:’’چچا جان! اب یا تو یہ کام پورا ہوکر رہے گا جو میرے رب کی طرف سے میرے حوالے کیا گیا ہے اور یا میں اسی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دوں گا‘‘۔

   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ذاتی اعتبار سے بھی ایذا و آزمائش کے بہت سے مراحل آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی بھی ہوئی، آپؐ کے شانۂ مبارک میں راکھ بھی ڈالی گئی، آپؐ کے راستے میں کانٹے بھی بچھائے گئے، آپؐ کی گردن میں ایک چادر پھندے کی صورت میں ڈال کر، اس کو بَل دے کر اس کے دونوں سروں کو کھینچا گیا کہ آپؐ کی آنکھیں اُبل آئیں۔ ایسا بھی ہوا کہ آپؐ اپنے خالق کے سامنے عین کعبے کی دیوار کے سائے میں سر بسجود تھے اور وہاں عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کی شہ پر ایک اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ مبارک پر رکھ دی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب یہ تعدی، یہ تشدد، یہ ظلم و ستم انتہائی شدت کی صورت اختیار کرتا ہے اور پورے خاندان بنی ہاشم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین سال تک ایک کھائی میں محصور ہوکر گویا کہ ایک طرح کی نظر بندی کی صورت میں بسر کرنے پڑتے ہیں، جس کے دوران شدید ترین مقاطعہ ہے اور کھانے پینے کی کوئی چیز گھاٹی میں داخل نہیں ہونے دی جارہی۔ اس دوران وہ وقت بھی آیا کہ بنی ہاشم کے بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کے حلق میں ڈالنے کیلئے اس کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا کہ چمڑے کے سوکھے جوتوں کو اُبال کر ان کا پانی ٹپکا دیا جائے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی ابتلاء کا ابھی نقطۂ عروج باقی تھا جو 10 نبویؐ میں سامنے آگیا۔ اس سال اگر چہ شعب بنی ہاشم کی اس نظر بندی سے تو رہائی مل گئی لیکن اللہ کی طرف سے امتحان و ابتلاء اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئے کہ ایک ہی سال میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا اور ابو طالب کا بھی۔ گھر میں ایک دلجوئی کرنے والی رفیقۂ حیات تھی وہ بھی نہ تہی، اور خاندان کی پشت پناہی کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ابو طالب تھے وہ بھی اٹھ گئے۔ یہ وہ سال ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’عام الحزن‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں۔ یہ رنج و غم اور اندوہ کا سال ہے۔

تحریر: ڈاکٹر اسرار احمد … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔