اللہ کی سنت اور مومنین کےلیے بشارت

جب بھی کوئی قوم اجتماعی طور پر اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکراتی ہے، کھلی کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اس کو جھٹلانے پر تل جاتی ہے، تنبیہوں اور سرزنشوں کے باوجود توبہ و اصلاح کے بجائے بغاوت و سرکشی پر کمربستہ ہو جاتی ہے اور اپنی طاقت کے زعم میں اہل حق پر جو بظاہر کمزور اور قلیل ہوتے ہیں، ظلم و ستم پر آمادہ ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو ملیامیٹ کر دیتا ہے اور ان ہی زیر دست حق پرستوں کو کامیاب و بامراد کرتا ہے۔ اسی حقیقت کو حسب ذیل آیات میں بیان فرمایا ہے:

 ’’فَکَذَّبُوْہُمَا فَکَانُوْا مِنَ الْمُہْلِکِیْنَ‘‘o (پس انھوں نے دونوں (موسیٰ و ہارونؑ) کو جھٹلا دیا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے)… (المومنون:48)۔

  حق کی دعوت کو جو بھی جھٹلائے گا، رگڑ دیا جائے گا۔ کچھ عرصے کیلئے انھیں جو ڈھیل ملتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہمارا پکڑنے والا نہیں۔ اکڑتے دندناتے پھرتے ہیں اور چیلنج دیتے ہیں کہ لاؤ، وہ خدا کہاں ہے جس نے تمھیں بچانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن انھیں جلد ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ خدا ہے اور ان کے سروں پر مسلط ہے۔

 جبّاروں کو غرق کر دیا جائے گا:’’اور موسیٰ (علیہ السلام) بھی جھٹلائے جاچکے ہیں۔ ان سب منکرین حق کو پہلے میں نے مہلت دی، پھر پکڑلیا۔ اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی‘‘ (سورہ الحج:44)۔

   اس مہلت نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا اور اسے خدائے تعالیٰ کی کمزوری پر محمول کیا، لیکن جب ان کی میعاد پوری ہوگئی تو انھیں ایسی سزا مل کی ان کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہا۔’’آخر کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل:103)۔ ’’آخر کار جب انھوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا اور بعد والوں کیلئے پیش رَو اور نمونۂ عبرت بناکر رکھ دیا‘‘ (سورہ الزخرف:55-56)۔

اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ظالموں کو جب ذرا ڈھیل ملتی ہے اور اتمام حجت کیلئے جب انھیں ذرا مہلت ملتی ہے تو سمجھتے ہیں کہ ہم سے بالاتر کوئی طاقت نہیں، کوئی نہیں جو ان کا ہاتھ روکے، لیکن اللہ تعالیٰ انسانوں کی طرح نہ تو بے صبرا ہے نہ جلد باز، نہ انتقام لینے پر ادھار کھائے ہوئے، ظالموں کو اس وقت تک مہلت دیتا رہتا ہے جب تک ان کا پیمانۂ فسق و فجور لبریز نہ ہوجائے۔ جب ان میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا تو ایسا پکڑتا ہے کہ دیکھنے والے اور سننے والے کان پکڑیں۔ داستانِ فرعون کے اس پہلو کو یوں عیاں فرمایا:

  متکبروں کیلئے ملامت ہی ملامت ہے:’’اور (تمہارے لئے نشانی ہے) موسیٰ کے قصے میں۔ جب ہم نے اسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا ’’یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے‘‘۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا‘‘ (سورہ الذاریات: 38تا40)۔

  فرعونی کردار کو چند مختصر جملوں میں سمیٹ کر اس کے عبرت ناک انجام کو بتاتے ہوئے تمام آنے والے فرعونوں کو پیشگی متنبہ کر دیا کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا۔

  خداکے نافرمانوں کی سخت پکڑ: ’’اس نے جھٹلایا اور سرکشی کی۔ پھر لوٹا اور چالیں چلنے لگا۔ لوگوں کو اکٹھا کیا اور پکارا، کہا میں ہی تمہارا رب اعلیٰ ہوں۔ پس اللہ نے اس کو دنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑا۔ اس میں عبرت ہے ہر اس شخص کیلئے جو ڈرا‘‘ (سورہ النازعات:21 تا 26)۔

  یہاں لوگوں کو بتایا کہ دیکھ لو؛ گھمنڈ، غرور، ضد اور ہٹ دھرمی کا کیا نتیجہ ہوا۔ فرعون اپنی ساری قوت اور ہوشیاری کے باوجود خدا کی پکڑ سے نہ بچ سکا، لیکن اس واقعہ سے کون سبق لے سکتا ہے، وہی شخص جو واقعاتِ عالم کو آنکھیں کھول کر دیکھتا اور اس انجام سے ڈرتا ہے۔جو یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا وند قدوس کے سامنے جانا ہے اور ہر کام کا جواب دینا ہے۔ اس کی نافرمانی کی سزا سے نہ یہاں بچ سکے گا نہ آخرت میں۔ جس دل میں جواب دہی کا یہ احساس اور جزا و سزا کا یہ ڈر ہوگا وہی راہ راست اختیار کرسکتا ہے۔

 اہل مکہ کو فرعون کا انجام بتاتے ہوئے اور ان کے واسطے سے تمام عالم کو متنبہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی مخالفت سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو اس سے پہلے فرعون کا ہوچکا ہے۔

 رسولوں کے نافرمانوں کا چھوڑا نہیں جائے گا: ’’ہم نے تمہاری طرف رسولؐ کو شاہد بناکر بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول کو بھیجا تھا۔ پھر فرعون نے رسول کی نافرمانی کی، پس ہم نے اس کو سخت طریقے سے پکڑا‘‘ (سورہ المزّمل:15-16)۔

 فرعون نے ہمارے نبی علیہ السلام کی دعوت کو جھٹلایا اور اپنی طاقت کے زعم میں ایمان لانے والوں کو کچلنا چاہا تو ہم نے اس سرکشی کا انتقام لیا اور اسی قوم سے اس کا سر کچلوایا جو بظاہر بڑی کمزور، مظلوم اور بے وسیلہ تھی۔ اور صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اسی گری پڑی قوم کو مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا۔

 مظلوموں کو وراثت ارضی کی بشارت: ’’تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروار ہوگئے تھے۔ اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے‘‘ سورہ الاعراف:136-137)۔

 اس آیت کے ذریعے ان تمام حق پرستوں کو بشارت دی گئی ہے جو کمزور و مظلوم ہیں اور ان تمام جابروں کو تنبیہ کی گئی ہے جو اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ان مظلوموں پر ہر قسم کے مظالم روا رکھتے ہیں۔

 مظلوموں کو بشارت دی گئی کہ ان کا صبر رائیگاں نہ جائے گا اور وہ اسی طرح کامیاب ہوں گے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کامیاب ہوئی تھی اور ظالموںاور جابروں کا اسی طرح خاتمہ کیا جائے گا جس طرح فرعون اور اس کی قوم کا۔

 پھر ان تمام لوگوں کو جو اللہ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اس کی دعوت کو رد کرتے ہیں اور اللہ کے مقابلہ میں سرکشی، بغاوت اور تکبر کی روش اختیار کرتے ہیں، دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ تم سے پہلے کسی سرِ پُر غرور کو بغیر رگڑے نہیں چھوڑا ہے تو تم کیسے بچ جاؤگے؟ ہر متکبر کو عبرت ناک سزا ملی ہے اور یہ سزا کسی ظلم کی بنا پر نہیں بلکہ اس بدکرداری کی بنا پر ملی جس میں مبتلا تھے۔

  مغروروں کا عبرتناک انجام: ’’اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا۔ موسیٰ ان کے پاس بینات لے کر آیا مگر انھوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا؛ حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے ۔ آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہواا بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق کر دیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے‘‘ (سورہ العنکبوت:39-40)۔

 پھر مومنین کو تسلی دی کہ ظلم کی رسی دراز ہوتے دیکھ کر نہ ہمتیں ہاریں، نہ مایوس ہوں اور نہ ظلم و جبر اور فسق و فجور کے سامنے سر جھکائیں۔ ہر ظالم کیلئے اللہ تعالیٰ کوڑے لئے بیٹھا ہے۔ جس وقت ان کی مہلت عمل ختم ہوگئی تو وہ خدائی عذاب کے کوڑے سے بچ کر نہ جاسکیں گے۔

 سرکشوں پر خدائی عذاب کا کوڑا: ’’اور ثمود جنھوں نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے اور فرعون میخوں والا، ان سب نے ملکوں میں سرکشی اختیار کی اور ان کو فساد سے بھر دیا۔ پھر ان پر تیرے رب کے عذاب کا کوڑا برسا، بے شک تیرا رب ان کی گھات میں ہے‘‘ (سورہ الفجر:9تا 11)۔ اور دنیا بھر کے اور ہر زمانے کے مومنین کو یہ بشارت سنائی۔

مومنین کے لئے غلبہ و نصرت: ’’اور ہم نے موسیٰؑ و ہارونؑ پر احسان کیا، ان کو اور ان کی قوم کو کربِ عظیم سے نجات دی، انھیں نصرت بخشی جس کی وجہ سے وہی غالب رہے، ان کو نہایت واضح کتاب عطا کی، انھیں راہ راست دکھائی اور بعد کی نسلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔ سلام ہے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، در حقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے‘‘ (سورہ الصٰفٰت: 114تا 122)۔

   یعنی جس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے جابر و قاہر حکمران پر فتح مبین عطا کی، ان دو بے سہارا اور کمزور بھائیوں کو اس کے جبر و ستم سے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان ہی کے ہاتھوں اس کے تخت و تاج کو الٹ کر رکھ دیا، اسی طرح ہر زمانے میں ہم مومنین کی نہ صرف حفاظت کریں گے بلکہ ان کو واضح غلبہ بھی عطا کریں گے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں، ہم نے ان کے دشمنوں کو نہ صرف ملیامیٹ کیا بلکہ رہتی دنیا کیلئے ان کو لعنت کا نشانہ بنا دیا۔ اس کے بالمقابل ان دونوں بھائیوں کو نہ صرف کامیاب و کامران کیا بلکہ رہتی دنیا تک ان کا ذکر خیر چھوڑا۔ جب کبھی اور جہاں کہیں ان کا نام لیا جائے گا ان پر سلامتی ہی بھیجی جائے گی۔

 یہ مقام بلند ان کو کیوں عطا کیا گیا؟ اس لئے کہ وہ نیکی کے علمبردار تھے، حق کے پرستار تھے، اللہ کے فرماں بردار اور مومن بندے تھے۔ جو حکم انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا اس کو ہر حال یں بجالائے خواہ اس میں جان کو خطرہ لاحق ہو یا مال کو۔ راہ حق میں کوئی مصیبت اور کوئی آزمائش ان کے قدموں کو نہ ڈگمگا سکی اور نہ اس راہ سے ہٹاسکی  اور ہر حال میں ان کی شانِ مومنیت برقرار رہی۔ یہ احسان و سلوک جو ان مومن بندوں کے ساتھ کیا گیا وہ آج بھی ان تمام لوگوں سے کیا جائے گا جو اپنے آپ کو مومن ثابت کر دیں گے۔آج بھی ہو جو براہیمؑ سا ایماں پیدا … آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

  اور پھر ان دو علمبرداروں پر ہی نزولِ رحمت نہیں ہوئی بلکہ ان تمام لوگوں پر رحمت عام چھائی رہی جنھوں نے ان کی پیروی کی۔ ارشاد ہوا: ہدایت و پیشوائی: ’’اور جب انھوںنے صبر کیا اورہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کئے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘ (السجدہ:24)۔

  یعنی جب انھوں نے ہمارے احکام کی پیروی کی، ہمارے وعدوں پر یقین کرکے ہر خطرے کو انگیز کیا، ہماری راہ میں جو مصیبت آئی اسے برداشت کیا اور اس راہ میں مطلوب صبر و استقامت کا مظاہرہ کی تو ہم نے نہ صرف انھیں نجات دی، نہ صرف انھیں کامیاب و بامراد کیا بلکہ اس سے بڑھ کر انھیں دنیا کا امام بنا دیا۔ اب جو قوم دنیا میں امام بننا چاہتی ہے وہ اس راستے اور اس اس طریقے کو اختیار کرے، وہ امام بن کر رہے گی۔

تحریر: اخلاق حسین … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔