مجلس اتحاد المسلمین: ایک متبادل

اسد الدین اویسی (صدر، ، مجلس اتحاد المسلمین)مسلسل تین میقات سے لوک سبھا کے ممبر ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اور پارٹی کے کئی ارکان تلنگانہ اسمبلی میں کامیابی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اویسی خاندان نے تین پیڑھی سے حیدرآباد کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کے اپنے میڈیکل، انجینیئرنگ، مینجمینٹ اور نرسنگ کالجوں کے ساتھ ساتھ ہزار بیڈ کا ایک شاندار اسپتال بھی چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مختلف علاقائی پارٹیوں کے اسوے کے برخلاف مجلس اتحادالمسلمین کیوں یوپی و دیگر نئے علاقوں میں قسمت آزما رہی ہے؟ یہ ایک سیاستداں خاندان کی خوش فہمی ہے یا ہندوستان کی مسلم سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز؟

مجلس کے قائدین کی سنیں تو انہیں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس لئے نکلنا پڑا کیونکہ ہر جگہ دلت اور مسلمانوں کا استحصال ہورہا تھا۔ پہلی بات سچ ہو نہ ہو دوسری یقینا سچ ہے۔ بی جے پی اور شیو سینا جیسی فرقہ پرست پارٹیوں کا تو ذکر ہی بیکار ہے۔ کانگریس، این سی پی اور سماج وادی پارٹی جیسی سیکولر پارٹیوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں کی ضرورتوں ، پریشانیوں اور خواہشوں کو پورا کرنا تو درکنار؛ انہیں ہمیشہ وعدوں کے لالی پاپ سے بہلایا ہے۔2012 کے یو پی اسمبلی انتخابات کے دوران سماج وادی پارٹی نے مسلمانوں سے نہ جانے کتنے وعدے کیے تھے۔ ان میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کو ۱۸؍ فی صدی ریزر ویشن دلانے اور جھوٹے الزام میں پھنسائے گئے مسلم بچوں کے ساتھ انصاف کرنے کی بات بھی کی گئی ان وعدوں کا کیا ہوا؟ ہم سب جانتے ہیں۔

سیکولر پارٹیوں کا یہ شیوہ بھی رہا ہے ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈرا ڈرا کر ان کے ووٹ بٹورے جائیں۔ اس میں اکثر انہیں کامیابی بھی ملی۔ اور اس کامیابی کے بعد مسلمانوں کے حصے میں کیا آیا؟ وہی فرقہ وارانہ فسادات، مسلم تنظیموں پر پابندی، اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی جھوٹے الزامات میں گرفتاری، بے گناہ مسلم نوجوانوں کا فرضی انکائونٹر۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

طوالت سے بچنے کے لئے اگر آزاد ہندوستان میں اگر صرف کانگریس کے کارناموں کا تذکرہ کیا جائے تو نہ جانے کتنے بڑے بڑے فسادات (ملیانہ، ہاشم پورہ، بھاگلپور وغیرہ) نظر آتے ہیں۔ مرکز میں کانگریس کی حکومت نے اکثر سافٹ ہندوتوا پر عمل کیا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر بابری مسجد کا تالا کھلوانا اور پھر شیلانیاس کی اجازت دینا وغیرہ شامل ہیں۔ یہی سافٹ ہندوتوا دراصل ہارڈ ہندوتوا کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا دونوں کام نہ ہوئے ہوتے تو ۶؍دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید نہ ہوئی ہوتی۔ قابل ذکر ہے کہ مسجد شہید ہوتے وقت مرکز میں کانگریس ہی کی حکومت تھی۔ اس کے بعد ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات اس وقت کے وزیر اعلیٰ سدھا کرنائیک اور مرکزی وزیر دفاع شردپوار کے رول کو ہر کوئی جانتا ہے۔ ان فسادات پر فوری قابو پایا جاسکتا تھا مگر حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی کارگر قدم نہیں اٹھا یا گیا۔ یا تو حکومت نااہل تھی؟ یا پھر معاملہ ’کچھ اور‘ ہی تھا؟ حسب معمول مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لیے سری کرشنا کمیشن انکوائری بٹھائی گئی۔ رپورٹ میں بہت سارے سیا سی لیڈران کے ساتھ بڑے پیمانے پر پولیس افسران کے نام بھی سامنے آئے، مگر اس وقت کی کانگریس اور این سی پی سرکار نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ الٹا خاطی پولیس افسران کو ترقی دے کر ان کی ہمت افزائی کی۔

2002ء کے گجرات فسادات جب ہوئے تو واجپئی نے بھی مودی کو راج دھرم نبھانے کی تلقین کی مگر 2004سے مرکز میں کانگریس کی حکومت بن گئی مگر مودی کے خلاف کسی معنی خیز کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا۔ سیمی پر پابندی برقرار رہے اس کے لئے کانگریس لگاتار اقدامات کرتی رہی ، مگر بجرنگ دل، وی ایچ پی اور آر ایس ایس جیسی ملک مخالف تنظیموں کے خلاف چوں تک نہیں کی۔ سچی بات یہ ہے کہ معاملہ مسلمانوں کا ہو تو بی جے پی، کانگریس اور سماج وادی پارٹی کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے تھوڑی ہچکچاہٹ ضرور محسوس کرتی ہے مگر یہ سیکولر پارٹیاں خاص کر کانگریس، این سی پی اور سماج وادی پارٹی تو مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی کام کر ڈالتی ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتیں۔ ان پارٹیوں کے مسلم رہنمائوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، وہ پوری طرح خاموش رہنے میں ہی اپنی بھلائی اور عافیت جانتے ہیں۔ ان کا ضمیر اتنا مر گیا ہے کہ اپنی قوم کے خلاف پارٹی کی طرف سے کسی بھی غلط کارروائی پر پارٹی کے اندر یا باہر کوئی آواز بلند کر سکیں۔

سیکولر پارٹیوں کی بے حسی اور مسلم دشمنی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ سچر کمیٹی، رنگا ناتھن کمیٹی اور محمود الر حمٰن کمیٹی کی رپورٹیں جو  مسلمانوں کی پسماندگی، غریبی، لاچاری، مجبوری اور ان کی خستہ حالی کی روداد پیش کرتی ہیں۔ ۔۔ان کی سفارشات پر کبھی عمل نہ ہوسکا۔ اپنی بنائی ہوئی رپورٹوں کو یوں سرد خانے میں ڈال کر کانگریس نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کمیٹیوں کی تشکیل صرف مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کی گئی تھی۔

ا س بات سے توہر شخص واقف ہے کہ 2012ء کے یوپی اسمبلی الیکشن میں ملائم سنگھ کو مسلمانوں کے یک طرفہ سپورٹ سے اتنی بھاری اکثریت ملی۔ مگر جب مسلمانوں کو کچھ دینے کی بات آجاتی ہے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔سماج وادی پارٹی پوری یو پی کی ۸۰ لوک سبھا سیٹ میں سے ایک بھی مسلمان کو پارلیمینٹ میں نہیں پہنچا سکی۔ مگر یادو پریوار کے پانچ ممبران ضرور لوک سبھا کے ممبر چنے گئے۔ یہی حال راجیہ سبھا کی سیٹوں کے بٹوارے کا بھی ہوا۔ پچھلے دنوں راجیہ سبھا کی ستاون(57) سیٹیں خالی ہوئی تھیں جس میں سات مسلم ممبران بھی شامل تھے۔ مگر ان کی جگہ نئے انتخاب میں کسی بھی سیکولر جماعت نے ایک بھی مسلم ممبر کو راجیہ سبھا میں بھیجنے کی زحمت نہیں گوارہ کی۔ پچھلے تقریباً پانچ سال کے دور اقتدار میں یو پی میں متعدد فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے ، قتل و غارت گری، عصمت دری اورظلم و ستم کا بازار گرم ہوا۔ کہیں یہ مظفر نگر و دیگر فساد زدہ علاقوں کے مظلوموں کی آہ و بکا کا اثر نہ ہو کہ پوری سماج وادی پارٹی ٹوٹ چکی ہے۔ بیٹے نے باپ سے بغاوت کردی۔ بھائی بھائی کے بیچ میں دیوار کھڑی ہو گئی اور خود ملائم سنگھ خون کے آنسو روتے ہوئے پارٹی اور پریوار میں بالکل الگ تھلگ ہوتے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں۔

ان تمام پہلوئوں پر غور کر نے کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہیے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان صرف سیاسی فٹ بال کی طرح  ادھر سے ادھر بھٹکتا رہا اور سیکولر پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھاتی رہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کوئی متبادل سیاست کھڑی کے بارے میں نہیں سوچا۔ اورجب کوئی رہنما ڈاکٹر فریدی کی طرح میدان میں آیا تو اسے قوم کی طرف سے وہ ساتھ نہیں ملا، ، جیسا ملنا چاہئے تھا۔ آج ملت اسلامیہ ہند کے سامنے مجلس اتحاد المسلمین کے نام سے ایک متبادل موجود ہے۔ حیدرآباد و ریاست تلنگانہ میں اگر اس پارٹی کی سیاسی و سماجی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اس کا ٹریک ریکارڈ متعدد نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے بدرجہا بہتر معلوم ہوتا ہے۔

آئیے صرف ایک مثال سے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہندوستان میں فسادات اور بم دھماکوں کی جانچ کی ایک رسم عجیب و غریب ہے۔ واقعے سے لمحہ بھر قبل تک ہماری سراغ رساں ایجنسیوں کو واقعے کی بھنک تک نہیں نکلتی۔ اور واقعے کے چند ہی لمحوں بعد مجرمین کی پوری کنڈلی میڈیا کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔ یک طرفہ تفتیش، مسلم تنظیموں اور مسلم نوجوانوں پر بے جا الزامات، گرفتاریاں اور آخر میں فرضی انکاؤنٹر یا دس پندرہ سال کی قیدِ بے گناہی کے بعد رہائی۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ ان بچوں کی زندگیوں سے کھلوا ڑ کر نے کا ٹھیکہ حکومت، پولیس اور جانچ ایجینسیوں کو کس نے دیا ہے؟ ان کے جیل میں گزارے ہوئے اوقات کی تلافی، خاندان کی بے عزتی اور ان کے سوشل بائیکاٹ کی بھر پائی آخر کون کرے گا؟ کسی بھی سیاسی پارٹی نے ایسے معاملوں پر سیاسی روٹیاں سینکنے کے علاوہ اور کیا اقدامات کئے ہیں ؟

اس معاملے میں مجلس اتحاد المسلمین البتہ ممتاز نظر آتی ہے۔ مکہ مسجد بلاسٹ میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے بے گناہ چھوڑ دیے جانے کے بعد مجلس نے ان نوجوانوں کے لیے حکومت آندھرا پردیش سے سب کو کسی بھی بلاسٹ میں ملوث نہ ہونے کا سر ٹیفکیٹ دلوایا۔ انہیں تجارت کر نے کے لیے حکومت سے مالی امداد فراہم کر ائی۔خیال رہے کہ کسی بھی دوسرے صوبے میں طویل عدالتی کارروائی کے بعد رہا ہوئے مسلم نوجوانوں کے حق میں اس قسم کے اقدامات نہیں جاسکے۔

یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ مسلمان اگر سیکولر پارٹیوں کا ساتھ نہیں دیں گے تو فرققہ وارانہ پارٹیاں جیت جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ کرتی ہیں جو فرقہ وارانہ پارٹیاں کرتی ہیں تو مسلمان آخر کب تک اور کیوں ایسی سیکولر پارٹیوں کو جتانے کا بیڑا اٹھائے؟ اسی قبیل کی ایک بات یہ اخبارات اور ٹی وی کے مباحثوں میں کہی جاتی ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین مسلمانوں کا ووٹ کاٹنے کے لیے یعنی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے الیکشن لڑتی ہے۔ یہ بات عجیب ہے۔ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں مجلس نے صرف حیدرآباد سے دو سیٹوں پر مجلس کے امیدوار کھڑا کیے تھے۔ اور اس کے علاوہ پورے ہندوستان سے ان کی پارٹی کا کوئی بھی امیدوار نہیں تھا، پھر بھی این ڈی اے اتحاد نے مہاراشٹر سے42/48، راجستھان25/25، مدھیہ پردیش 27/29، گجرات 26/26، ، یوپی  73/80 اور بہار 31/40 کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے اکیلے بی جے پی 280/542 اوراین ڈی اے کل334/542 سیٹیں جیتنے میں کیسے کامیاب ہو ئی؟اس کے علاوہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں مجلس نے288  میں سے صرف 24 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھاپھر بی جے پی اور شیو سینا 185/288  سیٹیں جیتنے میں کیسے کامیاب ہو گئے ؟انتخابا ت میں سیکولر پارٹیاں این ڈی اے کا مقابلہ کیوں نہیں کر پائیں ؟

اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنی ترجیحات کے مطابق ووٹ دیں۔ دیکھا گیا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے سیکولر لیڈروں میں اتنی ہمت بھی نہیں ہو تی کہ مسلمانوں کے مسائل کو کسی بھی فورم (میونسپل، اسمبلی یا پارلیمینٹ) پر ز ورو شور سے اٹھا سکیں۔ اس معاملے میں مجلس اتحاد المسلمین کی کارکردگی لوک سبھا و ودھان سبھا کے ایوانوں میں بے مثال ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے وقت میں بھی سیکولر لیڈران بجائے مجلس کے ممبران کا ساتھ دینے کے بی جے پی اور شیو سینا کا ساتھ دے دیتے ہیں۔ مہاراشٹر اسمبلی میں وارث پٹھان کے ساتھ کیا ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں۔

اتنے سالوں کے تجربے سے یہ بات با لکل واضح ہو گئی ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم سیاست اور مسلم قیادت کو فروغ دینے کے بجائے مسلم ڈیلرس کو ترجیح دیتی ہیں۔ تاکہ ان کی چو دھراہٹ ہمیشہ قائم رہ سکے۔ اس لئے اب وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو متحد و منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ پروپگینڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے حقائق کا تجزیہ کرکے صحیح نتیجے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ مسلکی اختلافات کو بھلادینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ماضی میں بہت سے ناکام سیاسی تجربات کئے ہیں اور اس کے نتائج بھگتے ہیں۔ اب ضرورت ایک کامیاب تجربہ کرنے کی ہے۔ کیا ہندوستان کے مسلمان سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔