آخر اے ایم یو میں شہلا کی مخالفت کیوں؟

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ لیڈر شہلا راشد کے فیس بک پر تو ہین رسالت کے متنازعہ بیان پر مختلف لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔کسی نے کہا کہ یہ سرے سے توہین رسالت کا معاملہ ہی نہیں ہے۔کسی نے کہاں کہ شہلا نے مثالوں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ نفرت آمیز بیان یا تقریر کسے کہتے ہیں اور کسے نہیں  لہذا یہ احتجاج اور ہنگامہ کا نہیں بلکہ بحث و مباحثہ کا موضوع ہے۔ آئیے ہم بھی تو دیکھیں کہ آخر مسلا کیا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی اکثریت شہلا کو بلانے کی مخالف ہوگئی اور یونین کے اس اقدام کےخلاف سراپا احتجاج بنگئی۔

شہلا کا تعلق کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ شاخ سے ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو یہ رخ دینے کی کوشش کی کہ چوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلام پسند طلبہ کافی تعداد میں ہے اس لئے وہ کمیونسٹ عناصر کو اپنا بنیادی حریف مانتے ہیں اس لئے وہ شہلا کو اے ایم یو میں بلانے کے ہی خلاف ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اے ایم یو میں کافی گراوٹ کے باوجود بھی اسلام پسند طلبہ کی تعداد کافی ہے اور لادینی عناصر سے ان کا جھگڑابنیادی اور پرانا ہے  لیکن  اگر یہ وجہ شہلا کی مخالفت کی تھی تو پھر عمر خالد اور انربان کو کیوں بلایا جاتا ۔کمیونسٹ نظریات کے معاملے میں تو وہ شہلا سے بھی سخت موقف رکھتے ہیں ۔

شہلا نے 9جنوری میں فیس بک پر لکھے اپنے ایک مضمون میں نفرت پر مبنی بیان کو واضح کرنے کی کوشش کی۔اس مضمون میں اس نے پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ ایک توہین آمیز لفظ استعمال کرکے یہ بتانے کیکوشش کی کہ اگر کوئی آپﷺ کے ساتھ یہ لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ نفرت پر مبنی بیان نہیں قرار پائے گا لیکن اگر کوئی اس کو بنیاد بناکر کہے کہ چوں کہ پیغمبر اسلامﷺ ایسے تھے تو سارے مسلمان ایسے ہیں تویہ نفرت پر مبنی بیان ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نفرت پر مبنی بیان کو سمجھانے کے لئے کسی مذہب  یا کسی شخصیت کی اس طرح مثال دینا درست ہے؟ یہی مثال  کیا کوئی خود اپنے لئے، اپنے ماں باپ کے لئے دینا پسندکرے گا؟

اس مضمون پر شروع ہوئے ہنگامے کے بعد شہلا اور اس کے حمایتی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ جملہ اس کا نہیں بلکہ کسی سادھوی نرنجن جیوتی کا ہے جس کو اس نے من وعن واوین میں نقل کیا ہے  ۔لیکن 9جنوری سے جب شہلا نے یہ پوسٹ کیا، بہت سارے لوگوں نے اس جملے پر اپنا اعتراض درج کرایا لیکن یہ بات ایک بار بھی نہیں کہی گئی کہ یہ جملہ کسی اور کا ہے۔اگر یہ جملہ کسی اور کا تھا تو پہلے کیوں اس پر خاموشی تھی اور ابھیبھی اس کا حوالہ کیوں نہیں دیا گیا تاکہ اس سادھوی پر کاروائی ہو۔

کچھ دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ شہلا نے  کہا ہے کہ اگر کسی کی میرے مضمون سے دل شکنی ہوئی ہے تو میں معافی مانگتی ہوں ۔ یہ بیان بھی پورے ہنگامے کے بعد آیا ہے اور وہ مضمون ابھی بھی ان کے فیس بک پر موجود ہے۔

بعض دانشور حضرات نے  اس پر مباحثہ کرنے کی بات کہی۔ حالاں کہ یہ بات کس کو نہیں معلوم کہ شہلا اور اس کے گروپ نے بابا رام دیو اور آر ایس ایس کے کے اندریش کمار کے جے این یو آنے کی مخالفت  کیتھی۔ اگر یہ کھلی بحث اس مسئلہ کا حل ہے تو اس وقت یہ اصول کہا چلا گیا تھا۔ حالاں کہ وہ نطریاتی اختلاف کا معاملہ تھا جس میں بحث ہوسکتی ہےا ور یہاں توہین رسالت  اور مذہبی جذبات  کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے۔اس طرح کی حرکت کے بعد تو

"Intellectualism” اور "Constructive Criticism” جیسی اصطلاحات بھی بے معنی سی معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ کیا دنیا میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے کسی کو گدھا کہہ دیاہو، گالی دے دی ہو اور سامنے والا یہ کہے کہ آئیے  اس بات پر مباحثہ ہو اور آپ ثابتکیجئے کہ میں گدھا ہوں ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس معاملے میں زبردستی کیوں دانشوری بگھاری جارہی ہے۔

توہین رسالت کے بارے میں شہلا نے اپنے 15فروری کو فیس بک پر ایک کمنٹ میں تبصرہ کیا۔اس کے مطابق توہین رسالت کو اس وقت تک نظر انداز کرنا چاہئے جب تک کہ اس میں کسی خاص مذہب کے خلاف بھڑکانا شامل نہ ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک کہ لوگ اس کے خلاف بھڑک نہ اٹھیں یا اس کا اندیشہ نہ ہو اور اگر ایسا ہو بھی گیا تومعافی مانگنے کا ڈرامہ رچا لیا جائے۔

اپنے مضمون میں اس نے واضح طور پر لکھا کہ اگر کوئی ایم ایف حسین  کے کام کو صحیح سمجھتا تو اس کو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین  کے ساتھ بھی کھڑے ہونا چاہئے۔اور پھر یہ بھی لکھا کہ اگر کوئی ہندو بھگوان کو برا بھلا کہنے کو صحیح سمجھتا ہے تو وہ پیغمبر اسلام کو بھی کچھ کہنے کا حق دے(اس نے جو الفاظ اس مضمون میں استعمال کئے ہیں ان کو دہرانا مناسب نہیں ۔ مضمون ابھی بھی فیس بک پر موجود ہے ۔ مزید سمجھنے کے لئے وہاں دیکھا جاسکتا ہے)حالاں کہ اسلام میں کسی بھی مذہبی شخصیت کو گالی دینے یا توہین کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دین دار مسلمان تو کجا عام مسلمان بھی اس کو جانتے ہیں ۔

ظاہر ہے شہلا کا مطلب اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے  کہ اگر کوئی اپنے مذہب کی توہین پر اعتراض درج کرائے تو اس سے کہا جائے گا کہ تم دوسرے مذاہب کی توہین پر خاموش تھے اور تمہیں اب بولنے کا حق نہیں ہے،  اب تم اپنے مذہب کی توہین برداشت کرو۔

شہلا  کے پوسٹ میں واضح طور پر مذہبی شخصیات کے خلاف اوچھے الفاظ کا استعمال ملتا ۔ جس کا استعمال شاید وہ اپنے یا اپنے اہل خانہ کے لئے بھی پسند نہ کرے۔ اور اس پورے مضمون میں اس طرح کی توہین کو اسوقت تک نظرانداز کرنے کو کہا گیا ہے جب تک کہ اس سے ماحول نہ بگڑے۔ نفرت پر مبنی بیان اور توہین  کے موضوع کو اس طرح خلط ملط کرکے پیش کیا گیا ہے کہ عام قاری اس میں الجھ جائے۔اس کو اس چالاکی سے بے ضرر بتانے کی کوشش کی گئی جیسے ایک لائن کو بغیر مٹائے اس کے آگے ایک بڑی لائن کھینچ کر اس کو چھوٹا کردیا جاتا ہے۔

مذہبی اور نظریاتی رواداری کی اسلام میں اجازت ہے کہ کسی بھی شہری کو کوئی بھی نظریہ یا مذہب قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اس کے لئے وہ آزادانہ طور پر غور وفکر کرسکتا ہے لیکن وہ آزادیاگر دوسرے کے لئے گالی گلوج  تک پہنچ جائے تو ایسی آزادی نقصاندہ اور قابل گرفت ہے۔ گالی گلوج اور ناشائستہ الفاظ تو آدمی ایک دوسرے کے لئے استعمال کرنے سے بچتا ہے چہ جائے کہ مذہبی شخصیات  کو اسطرح کے الفاظ سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔