1947کی 15 اگست کی جھلکیاں

حفیظ نعمانی

                جب ماؤنٹ بیٹن نے 4؍ جون کو پیرس کانفرنس کے دوران انتقالِ اقتدار کے لیے 15؍ اگست کی تاریخ کا اعلان کیا تھا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہندو جوتشیوں کو اس تاریخ پر اعتراض ہوگا۔ 15؍ اگست کو جمعہ کا دن تھا اورہندو جتشیوں کے نزدیک یہ بہت منحوس شمار کیا جاتا ہے، چنانچہ اس تاریخ کا اعلان ہوتے ہی پورے ہندوستان کے جوتشیوں نے زائچے تیار کرنا شروع کردئے، بنارس اور جنوبی ہند کے جوتشیوں نے فوری طور پر اعلان کردیا کہ 15؍ اگست اتنا منحوس دن ہے کہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بہتر ہوگا کہ ہندوستان مزید ایک دن غلام رہے۔

            کلکتہ کے سوامی مدمانند نے یہ موقف اختیار کیا کہ 15؍ اگست برج جدی میں آرہا ہے جس کی خصوصیت اس نے یہ بتائی کہ یہ مرکز گریز قوتوں یعنی بٹوارہ کے رجحانات کو ہوادیتا ہے، چنانچہ اس نے ماؤنٹ بیٹن کو خود لکھا کہ بھگوان کے لیے ہندوستان کو آزادی مت دو، اگر آئندہ سیلاب آئے، خشک سالی ہوئی، قحط پڑے اور خونریزی ہوئی تو یہ محض اس لیے ہوگا کہ ہندوستان ایک ایسی تاریخ کو آزاد ہوا جو ستاروں کے نزدیک ایک منحوس دن تھا۔

            ماؤنٹ بیٹن ہندوستانی رہنماؤں کے لیے یہ ایک مسئلہ بن گیا کہ اب کیا کریں ؟ بالآخر جوتشیوں کی ایک جماعت نے ہندوستانی رہنماؤں کو سمجھایا کہ 15؍ اگست کو قومی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے بڑا ہی منحوس دن ہے، لیکن 14؍ اگست کو ستاروں کا ملاپ خاصا موافق ہے، چنانچہ ہندوستانی رہنماؤں نے مائنٹ بیٹن کو یہ درمیانی راہ تجویز کی کہ انتقال اقتدار 14؍ اور 15؍ کی درمیانی رات کو 12 بج کر ایک منٹ پر کردیا جائے اور ماؤنٹ بیٹن نے یہ تجویز منظور کرلی۔

            اس قضیے کے بارہ میں خود ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی حکومت کے نام 8؍ اگست کو ہفتہ وار رپورٹ میں ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ مجھے اس بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ مجھے انتقال اقتدار کی تاریخ کا تعین کرتے وقت جوتشیوں سے مشورہ کرنا چاہیے تھا لیکن خوش قسمتی سے اب یہ معاملہ یوں طے ہوگیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس نصف شب سے پہلے یعنی شبھ گھڑی کے اندر اندرہوجائے اور انتقال اقتدار کی رسم عین نصف شب کو ہوگی، اور وہ بھی تقریباً شبھ گھڑی ہی ہوگی، اسی طرح کا مسئلہ نئی کابینہ کی حلف برداری کے لیے بھی پیدا ہوا جس کا ذکر کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے لکھا کہ کابینہ کے بعض زیادہ توہم پرست ارکان چاہتے تھے کہ تمام کی تمام رسومات دربار ہال میں نصف شب کو ہی انجام پاجائیں، لیکن خوش قسمتی سے بعض عمر رسیدہ ارکان رات ۹؍بجے سو جانے کے عادی تھے، چنانچہ توہم پرستی پر نیند نے غلبہ پالیا، اس لیے کابینہ کی حلف برداری کے لیے 15؍ اگست کی صبح ۸؍ بجے کا وقت رکھا گیا۔

            پاکستان کے مشرقی پاکستان کے لیے انگریز گورنر رفریڈرک جورن کا تقرر عمل میں آیا تھا، اور سی پی (اب مدھیہ پردیش ) کے لیے گورنربمبئی کے منگل داس کو بنایا گیا تھا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان سے کہا کہ آپ 13؍ اگست کو بمبئی سے ناگپور پہنچ جائیے اور فریڈرک جورن سے چارج لے کر انھیں فارغ کردیں تاکہ وہ ڈھاکہ پہنچ کر 14؍ اگست کو وہاں کے گورنر کا عہدہ سنبھال سکیں، اس پر ’’منگل داس پکواس‘‘ نے کہا کہ میں 13؍ کو نہیں جاسکتا کیوں کہ جوتشی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ 13؍ تاریخ کو سفر کیا جائے، چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ وہ 12؍ اگست کو بمبئی سے ناگ پور آجائیں اور چارج لے کر واپس بمبئی آجائیں، اور پھر 14؍ اگست کو دوبارہ بمبئی سے ناگپور جا کر بطور گورنر کام شروع کردیں۔

            اس سے پہلے جب یہ مسئلہ 7؍ اگست کو اسٹاف میٹنگ میں ماؤنٹ بیٹن کے سامنے لایا گیا تھا تو ماؤنٹ بیٹن کو احساس ہوا تھا کہ ہندوستان میں جوتش کا کس قدر عمل دخل ہے، چنانچہ انھوں نے آئندہ کے لیے اپنے پریس اتاشی ’’این کیمبل جانسن‘‘ کو باقاعدہ جوتشی برائے گورنر جنرل کے اضافی اور اعزازی عہدہ پر فائز کردیا تھا۔

            14؍ اگست کی رات کی تقریب سے پہلے دو معتبر سنیاسیوں نے اپنے مذہبی طریقہ کے مطابق پنڈت نہرو کو راج سنبھالنے کے لیے تیار کیا، انھوں نے ان کے اوپر دریائے تنجور کا متبرک پانی چھڑکا، ان کی پیشانی پر مقدس راکھ ملی، ایک پانچ پاؤں کا بت ان کے بازو پر رکھا اور پھر بھگوان کی مقدس چادر کو ان کے گرد لپیٹا گیا، قدیم ہندوستان میں جب کوئی راجہ یا مہاراجہ سنگھاسن پر بیٹھتا تھا تو معتبر سنیاسی اس قسم کی رسوم ادا کرتے تھے، 14؍ اگست کی شام کو یہ رسوم پنڈت نہرو کی رہائش گاہ پر انجام دی گئیں۔

            اور ٹیپ کا بند یہ ہے کہ حلف کی عبارت بھی جو ماؤنٹ بیٹن نے دی اور جو حلف لیا گیا وہ یہ تھا۔

            ’’میں ماؤنٹ بیٹن حلف لیتا ہوں کہ میں گورنر جنرل کے عہدے پر احسن طریقہ سے اور سچے دل سے شہنشاہ معظم شاہ جارج کی خدمت کروں گا، پس اے خدا میری مدد فرما‘‘۔

            یہ ہے وہ آزادی جس کے لیے دعوے کیے جارہے ہیں کہ خون سے لی، پھانسی کے پھندے چوم کے لی، انگریزوں سے مار کر لی، تلواروں سے لی، بندوقوں سے اور مرن برت سے لی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے دو باب ہیں، ایک وہ ہے جس میں بھگت سنگھ، رام پرشاد بسمل اور اشفاق اللہ جیسوں کی پھانسیاں ہیں، جلیان والا باغ ہے، کالے پانی کی سزائیں ہیں، تیل کے کولہو اور آٹے کی چکیاں ہیں اور دوسرا باب وہ ہے جس میں زخموں سے چور برطانیہ ہے، اور وہ بوریا بستر لپیٹ کر جلد سے جلد جانا چاہتا ہے اور ہم ہندوستان، پاکستان، بنگال اور پنجاب، نہرو اور جناح میں الجھے ہوئے ہیں، 1942کے بعد کہیں بھی آزادی کے متوالوں کی انگریزوں سے ٹکراؤ کی داستان نظر نہیں آتی، انتقالِ اقتدار جو صرف چند دن کا کام تھا اسے مسٹر جناح نے پاکستا ن کے نام پر الجھا دیا، پھر سکھ بھی میدان میں آگئے اور ایک گورنر جنرل لارڈ دیول فیل ہو کر گئے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور انھوں نے 23؍ مارچ 1947کو عہدہ سنبھالا اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو ساتھ لے کر صرف ہندوستان ہی نہیں پورے بر صغیر کا بوجھ 14 ؍ 15؍ اگست 1947کو اتار دیا اور لندن جا کر کہا خیر سے بدھو گھر کو آئے۔

 

تبصرے بند ہیں۔