20؍مارچ: خوشی کا عالمی دن

سہیل بشیر کار

(ہر سال 20 مارچ کو خوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے بین الاقوامی یوم خوشی یا یوم سعادت، اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ ایک عالمی دن ہے جس میں خوشی کے اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دن کے ذریعے دنیا بھر میں لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں خود بھی خوش رہیں اور آس پاس کے لوگوں اور احباب کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں لانے کی کوشش کریں۔ اس دن کا اعلان بین الاقوامی سطح پر 28 مئی 2012ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے اس وقت کیا گیا جب تمام 193 اراکین ممالک نے اقوام متحدہ قرارداد 66/281 کی تائید کی، اس مناسبت سے فنون لطیفہ کے بارے میں اسلام کا موقف جاننے کے لیے علامہ یوسف القرضاوی نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا تجزیہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔)

عام طور پر مذاہب کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ دنیا سے دوری پیدا کردیتے ہیں۔ مگر دین اسلام کا مزاج اس کے برعکس ہے. اسلام دین اور دنیا میں تفریق کاقائل نہیں۔ یہ دنیا کو اچھے سے برتنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اسلام انسان کے اندر یہ احساس ہمیشہ زندہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ہر عمل میں یہ ملحوظ رکھے کہ رب کی کیا مرضی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ عام  مذاہب کی دنیا بیزاری پر مبنی تصور نے مذہبی لوگوں کے اندر ایک الگ سی شخصیت پیدا کی ہے کہ وہ خشک مزاج اور ہنسی مزاح سے دور رہتے ہیں۔ ہر وقت آہیں بھرتے ہیں، دنیا کے تئیں اسی سوچ کے باعث، ان کے اندر قدرت کے حسن و جمال کی طرف رغبت نہیں پائی جاتی۔ تاہم اسلام کا مبنی بر اعتدال مزاج بندے کی دنیاوی زندگی نہ صرف پرسکون بناتا ہے بلکہ خوشگواربھی۔ مذہب انسان کے چہرے پرہروقت مسکراہٹ دیکھناچاہتاہے – مسکراہٹ انسان کا خاصہ ہے کیونکہ جانور نہیں مسکراتے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کو ذمہ دار اور مدبر ہونا چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سنکی مزاج ہو۔ مذاہب کا عمومی مزاج دیکھا گیا ہے کہ وہ مختلف فنون لطیفہ کے تئیں مثبت سوچ نہیں رکھتی در اں حا لیکہ مختلف فنون لطیفہ سے دلچسپی ایک فطری امر ہے اور ان فنون کی نفی فطرت کے خلاف اقدام کے مترادف ہے۔ دین اسلام جائز حدود کے اندر نہ صرف فنون لطیفہ کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔

 ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب ہے جس میں فنون لطیفہ کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی (پیدائش 1926)اس وقت عالم اسلام کے سب سے بڑے عالم دین ہیں۔ آپ کی پیدائش مصر میں ہوئی۔ ’ اخوان المسلمون‘ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑی۔ موصوف آجکل قطر میں جلاوطنی کی زندگی گزار ر ہے ہیں۔ درجنوں علمی کتابوں کے مصنف کو عالم اسلام کے تمام مکاتب فکر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

 ۱۴۳صفحات پرمشتمل زیر تبصرہ کتاب کا دیباچہ عالم اسلام کے مشہور مفسر قرآن مولانا محمد فاروق خان صاحب نے لکھا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں ’فنون لطیفہ ‘کے ایک ایک فن کو مستقلاً موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ہر فن کی مختلف جہتوں کا احاطہ کیا گیاہے اور حلت و حرمت کی حدود کو واضح کیا گیا ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں مولانا محمد فاروق خان صاحب لکھتے ہیں :

 ’’غلط قسم کے مذہبی اور رہبانی تصورات کے زیر اثر مسلمانوں میں بے دلی، خشک مزاجی اور ترک دنیا کو بالعموم عین دین داری تصور کیا جانے لگا، حالانکہ اس قسم کی دین داری اور اس طرح کی مذہبیت کی خود نبی ﷺنے نہایت سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے، خود قرآن میں ہے:

  ’’کہو کہ اللہ کی زینت کو جسے وہ اپنے بندوں کیلیے وجود میں لایا ہے اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے حرام کردیا؟ کہہ دو کہ یہ دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان کیلیے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہیں کے لیے ہوں گی۔ ‘‘ الاعراف ۳۲۔ (صفحہ ۱۱)

  دین اسلام اس بات کی مذمت کرتا ہے کہ انسان زندگی کو خواہشات نفس کے حوالے کردے وہ اس بات کی بھی مذمت کرتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی لھو و لعب سے عبارت ہو اور جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہ ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی کرے۔ اسلامی معاشرے زندہ دلی سے عبارت ہے اور ان میں زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ جائز حدود کے اندر اور اپنی آن بان اورشان کے ساتھ برقرار رہتی  ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں :

    ’’چنانچہ کچھ لوگ اسلامی معاشرہ کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ صرف زہدو عبادت اور کام کرنے والوں کا معاشرہ ہے، جہاں ہنسنے، مسکرانے، کھیل کود، فرصت و شادمانی کے اظہار اور گانے بجانے کی کوئی گنجائش نہیں، شاید بعض دین دار لوگوں کا رویہ بھی اس فکر کو تقویت پہنچاتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ ہمیشہ منہ بسورے، پیشانی سکوڑے، ترش روی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ناکامی یا مایوسی یا نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اس معیوب رویہ کو دینی جواز فراہم کرتے ہیں اور اپنی منقبض طبیعت کو دین پر تھوپتے ہیں حالانکہ دین کا اس میں کوئی قصور نہیں بلکہ یہ ان کی اپنی غلط فہمی ہے جو دین کے بعض نصوص کو لیتے ہیں اور بعض کو چھوڑ دیتے ہیں ‘‘۔ (صفحہ 23)

  آگے وہ اس سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر کو یوں بیان کرتے ہیں :

  ’’اسلام ایک حقیقت پسند دین ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں جسم، روح، عقل و وجدان سے بحث کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ حدود واعتدال میں رہتے ہوئے ان تمام کو غذا فراہم کی جائے۔ ‘‘ (صفحہ 24)

  مزید لکھتے ہیں :

’’اگر آرٹ کی روح احساس حسن و جمال اور اس کا ذوق لطیف ہے تو قرآن نے بارہا اس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جہاں قرآن اشیاء کے حسن و جمال کی جانب متوجہ کرتا ہے وہیں ان کے نفع بخش پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا چنانچہ قرآن پاک مادی پہلو سے استفادہ کے ساتھ ساتھ حسن و جمال سے استفادہ کو انسان کے لیے جائز ٹھہراتا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 25)

قرآن پاک میں جگہ جگہ اس حوالے سے بات کی گئی ہے کتاب کے مصنف اس سلسلے میں قرآن کریم کی بہت ساری آیات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مثلاً النحل 5,6, 8, 14, الاعراف 31-32 الانعام 141۔ رب العزت نے کائنات کے اندر کافی حسن رکھا ہے۔ جگہ جگہ قدرتی مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں :

  ’’جب اسلام احساس حسن و جمال کی دعوت دیتا ہے تو اس ذوق کے اظہار کو بھی پسند کرتا ہے۔ اس کی واضح مثالیں ہمیں فن شعروادب کی تمام اصناف میں ملتی ہیں خواہ اس کا تعلق نثرو شعر سے ہو یا مقامات وقصہ گوئی سے ہو یا رزمیہ ادب سے ہو، چنانچہ آپ ؑﷺنے کعب بن زہیر کا مشہور قصیدہ ’’بانت سعاد ‘‘ سنا اور اس سے متاثر ہوئے اس میں غزل کی باتیں بھی تھیں جو ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس طرح نابغہ جعدی کے قصیدہ کو آپ نے سراہا اور ان کیلیے دعا فرمائی اور شعر کو دعوت ِ اسلامی کی خدمت اور اس کی مدافعت میں استعمال کیا جیسا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ کو آپ ﷺنے اس کام کیلیے مامور فرمایا۔ ‘‘(صفحہ 34)

دور نبوی اور دور صحابہ میں مشکل حالات میں بھی حضور ﷺاور آپ کے اصحاب دل لگی کی باتیں کرتے۔ حضور ﷺاور ان کے اصحاب اپنی و ازواج اور بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے۔ ایک بار حضرت حنظلہؓ کو اس سلسلے میں جب شک ہوا تو وہ حضور ﷺکے پاس تشریف لے آئے اور اپنی حالت بیان کی، مصنف لکھتے ہیں :

’’حضرت حنظلہ ؓنے جب اپنی بیوی بچوں کے ساتھ دل لگی اور صحبت رسول ﷺمیں پیدا ہونے والی حالت و کیفیت کو اپنے گھر میں مختلف پایا تو اسے نفاق خیال کیا۔ اس پر رسول ﷺنے فرمایا کہ اے حنظلہؓ ایک گھڑی یہ اور ایک گھڑی وہ۔ ‘‘ (براویت مسلم) (صفحہ 64

مصنف حضرت علی ؓکے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

’’ حضرت علی ؓنے فرمایا کہ اپنے دلوں کو وقفہ وقفہ سے راحت پہنچایا کرو اس لیے کہ دلوں کو جب مجبور کیا جائے تو وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ آپ  نے مزید فرمایا کہ جس طرح بدن اکتا جاتا ہے اسی طرح دل بھی اکتا جاتے ہیں۔ اس لیے دلوں کے لیے خوش کن باتیں تلاش کیاکرو۔ ‘‘ (صفحہ 64)

چونکہ امت مسلمہ خیر امت ہے انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ یہ ایسی ملت ہے جو ہر میدان میں درجہ احسان پر رہی ہے۔ فنون لطیفہ کے فن میں اْمت مسلمہ نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔

 ’’ہماری تہذیب میں تشکیل آرٹ نے خوب ترقی کی اور اس میں ایک سے بڑھ کر ایک ایجادات وجدت طرازیاں ہوئیں اور تہذیب اسلامی نے اس میدان میں نہایت درخشاں آثار چھوڑے۔ نقش نگاری کے فن میں مسلمان فنکاروں نے اپنی ہنر مندی کے خوب جوہر دکھائے۔ ان کے ہاتھوں کا کمال مساجد و مصاحف، محلوں، گھروں، دیواروں، چھتوں، دروازوں، کھڑکیوں، گھریلو استعمال کی اشیاء چادر، فرش، کپڑوں اور تلواروں وغیرہ پر دیکھا جاسکتا ہے اور اس کام میں انہوں نے مختلف قسم کے مواد کا استعمال کیا جیسے پتھر، سنگ مرمر، لکڑی، مٹی، چمڑا، شیشہ کاغذ، لوہا، تانبا اور دوسری دھات وغیرہ۔ نقش نگاری میں عربی رسم الخط نے بھی خوب ترقی کی، مثلاً خط رقعہ، خط کوفی، خط فارسی، خط دیوانی وغیرہ۔ خطاطوں نے اس فن میں اپنی فن کاری کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ہمارے لیے نہایت حسین و خوبصورت تختیاں چھوڑیں، خطاطی اور نقش نگاری کے سب سے عمدہ نمونے قرآن شریف اور مسجدوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یکتائے فن اور حسن روز گار کی ان مثالوں کو ہم آج بھی مسجد نبوی، مسجد قبۃ الصخرہ، دمشق کی جامعہ اموی، استنبول کی جامعہ احمد اور سلیمانیہ، قاہرہ کی جامع سلطان حسن اور جامع محمد علی وغیرہ ان مثالوں کی آئینہ دار ہیں۔

 کتاب میں نغمہ، تصویر، کامیڈی (ہنسی مزاق) اور کھیل کودکے تمام پہلوؤں پرسیرحاصل بحث ملتی ہے اور ہر بحث کے آخر میں اسلامی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً کھیل کود کے سلسلے میں وہ پہلے کھیل کی موجودہ قسمیں بیان کرتے ہیں اس کے بعد اسلام کے نقطہ نظر کو یوں بیان کرتے ہیں :

 ’’اسلام کھیل کود سے منع نہیں کرتا بلکہ اسے جائز قرار دیتا ہے جس کے ضرورت مند فرد اور جماعت دونوں ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس کا مقصد صرف تفریح، دل بہلانا اور ہنسنا ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں بھی انہی دلائل کو پھر سے دیکھنا چاہیے جو ہم گانے اور ہنسی کے جواز کے سلسلہ میں امام غزالی امام ابن حزم وغیرہ کے حوالے سے ان مباحث میں نقل کرآئے ہیں۔ بلکہ بعض کھیل ایسے ہیں جن پر اسلام ابھارتا ہے جیسے جسمانی ورزش والے کھیل یا فنون حرب والے کھیل جس سے جسم کو قوی بنایا جاتا ہے۔ مہارت حاصل کی جاتی ہے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 140)

  صاحب کتاب نے بہت سے واقعات درج کئے ہیں کہ حضور ﷺکے زمانہ میں صحابہ کرام ؓاور ان کے بعد کے لوگ اسی طرح ہنسی مزاح کرتے رہتے اور کسی نے بھی اس سے بْرا نہیں سمجھا۔ لکھتے ہیں :

 ’’زبیر بن بکارؓ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں جب بھی کوئی نئی چیز آتی تھی تو یہ ضرور خریدتے تھے۔ ایک مرتبہ کھانے پینے کا کوئی سامان خرید کر حضور اکرم ﷺکی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ یہ آپ ﷺکیلیے ہدیہ ہے۔ جب سودافروش قیمت وصول کرنے ان کے پاس آیا تو اسے لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اس کی قیمت ادا کردیجئے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ کیا تم نے اسے مجھے ہدیہ نہیں کیا تھا؟ کہنے لگے کہ خدا کی قسم میری خواہش تھی کہ آپ ﷺاسے تناول فرمائیں، لیکن میرے پاس اس کی قیمت نہیں تھی کہ ادا کرتا۔ یہ سن کر آپ ﷺہنسنے لگے اور قیمت ادا کرنے کا حکم دیا‘‘۔ (صفحہ 126)

مصنف متشددین پر اعتراض کرتے ہوئے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دور صحابہ کا مزاج کیا تھا:۔

’’ابن ابی شیبہ، ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن ؓسے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام منقبض طبیعت کے لوگ نہیں تھے اور نہ ہی ان کے اوپر مردنی چھائی رہتی تھی، وہ اشعار کہتے تھے اور جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے تھے، لیکن ان میں سے اگر کوئی شخص کسی کے دینی پہلو کا مذاق بنانا چاہتا تو اس کو لوگ اس طرح گھورتے جیسے کہ وہ کوئی دیوانہ یا پاگل ہو،‘‘ (صفحہ 130)

  یہی دین داروں کا مزاج ہونا چاہے۔ نہ کر ْترش روئی اور تنگ مزاجی کیونکہ دین انسان کو خوشگوار بناتا ہے۔ الغرض یہ کتاب اپنے موضوع کا بھر پورطریقے سے احاطہ کرتی ہے. اگرچہ اس مضمون کے کئی ایسے پہلو ہیں جن پر کئی دوسرے اصحاب علم نے تنقید بھی کی ہے لیکن علامہ قرضاوی صاحب کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اپنی بات کو عقل اور نقل دونوں طرح سے مدلل کرتے ہیں۔ خاص وعام کے لیے زیرِتبصرہ کتاب کامطالعہ ازحدضروری۔

  مولانا محمد شاہد خان ندوی  کے ہم مشکور ہیں کہ انہوں نے اردو داں طبقہ کیلیے کتاب کا سلیس ترجمہ کیا۔  ترجم میں اتنی روانی ہے کہ کہیں بھی کسی طرح کا احساس نہیں ہوتا کہ اصل کتاب کسی اور زبان میں لکھی گئی ہے۔ شاہد صاحب کی کتاب اسکا لر پبلشنگ ہاوس،  سے 08130115854 فون نمبر پر  کی کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔