2003 میں عراق پر حملوں کے مجرم کون؟

رویش کمار

کئی بار ہم سب پر نہ جاننے کی سنک اس قدر سوار ہو جاتی ہے کہ ہم نہ جاننے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو مروا دیتے ہیں. عراق جنگ کے وقت سپر پاور ملکوں کے رہنماوں نے کیا کیا کہا تھا آپ کو. جب اسمارٹ فون کا پاس ورڈ یاد نہیں رہتا تو یہ کس طرح یاد رہے گا. برطانیہ میں ایک رپورٹ پر بحث ہو رہی ہے جو عراق جنگ کی وجوہات کے تئیں ہماری عوامی سمجھ کو جھنجھوڑ دیتی ہے. جن فوجیوں کے دم پر یا ان کی لاشوں کو شہید قرار دے کر میڈیا آپ پر قوم پرستی کا جنون تھوپتا ہے، عراق جنگ میں مارے گئے برطانوی فوجیوں کے اھل خانہ نے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے بارے میں کیا کہا ہے، کیا آپ جاننا چاہیں گے. ٹونی بلیئر کو فوجیوں کے اہل خانہ نے دہشت گرد کہا ہے. برطانوی فوج کے سربراہان نے بلیئر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق جنگ کے لئے معافی مانگیں.

بدھ کو برطانوی  پارلیمنٹ میں سرجان چلكاٹ نے 6000 صفحات کی ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے. اسے 26 لاکھ الفاظ کے سہارے لکھا گیا ہے اور 12 جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے. سات سال کی محنت کے بعد آئی اس رپورٹ کا نام ہے دی عراق انكوائری. سر چلكاٹ کو کہا گیا تھا کہ وہ 2001 سے 2009 کے درمیان عراق کو لے کر برطانوی پالیسیوں کا مطالعہ کریں اور بتائیں کہ کیا 2003 میں عراق پر حملہ کرنا صحیح اور ضروری تھا. یہ سوال اس لیے اٹھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ پہلی بار کسی خود مختار ریاست پر حملہ کرنے، قبضہ کرنے کی جنگ میں شامل ہوا تھا. یقینی طور پر صدام حسین ظالمانہ ڈکٹیٹر تھا جس نے عراق کے پڑوسی ممالک پر حملہ کیا تھا، اپنے ہی لوگوں کو مروایا تھا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں پر عمل نہیں کیا تھا. سر چلكاٹ کی رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ برطانیہ نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے پر امن راستے کا انتخاب نہیں کیا. اس وقت فوجی کارروائی آخری راستہ نہیں تھا.

اس وقت جنگ کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہے تھے. برطانیہ میں ہی دس لاکھ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے. جنگ کے خلاف بات کرنے والوں کو دہشت گردی کا حامی بتایا جاتا تھا. جارج بش جسے تاریخ نے گڈھے میں پھینک دیا وہ دہشت گردی سے لڑنے والا مسیحا بتایا جاتا تھا. اب اسی امریکہ کے صدارتی عہدے کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدام حسین بہت برا آدمی تھا پر کیا آپ کو معلوم ہے اس نے کیا صحیح چیز کی. اس نے دہشت گردوں کو مارا. آج عراق دہشت گردوں کا ہاورڈ بنا ہوا ہے. دہشت گردی کا ہاورڈ. بش سے لے کر ٹرمپ تک ہم ایک کام نہیں کر پائے. وہ یہ کہ آپ سیاستدانوں کی سطح بلند نہیں کر پائے. حماقت ہی سچ ہے. تب بھی کھیل تھا ان کے لئے، آج بھی کھیل ہے. تب ایسی ہی زبان میں بش دنیا کو بتا رہے تھے. صدام حسین کے پاس انسانیت کو تباہ کرنے والے کیمیائی ہتھیار ہیں. جسے انگریزی میں ویپن آف ماس ڈسٹركشن کہا جاتا ہے. چلكاٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہونے کے خطروں کو جن دعووں کی بنیاد پر پیش کیا گیا ان کا کوئی جواز نہیں تھا. تمام تنبیہوں کے بعد بھی حملے کے بعد کے نتائج کا صحیح اندازہ نہیں کیا گیا. صدام حسین کے بعد کیا ہوگا اس کی کوئی تیاری نہیں تھی. حکومت نے جو اہداف بتائے تھے، انھیں حاصل کرنے میں ناکام رہی.

بدھ کو ہاؤس آف كامنس میں اس رپورٹ کو لے کر خوب بحث ہوئی. آج لیبر پارٹی اپوزیشن میں تھی مگر 2003 میں لیبر پارٹی اقتدار میں تھی اور 43 سال کے ٹونی بلیئر کی خوب دھوم تھی. انہیں ٹونی ٹیفلان کہا جاتا تھا، یعنی جن کی شبیہ اتنی چکنی تھی کہ کوئی الزام چپكتا ہی نہیں تھا. مگر ایمانداری کی وہ شبیہ بھی دھوکہ ثابت ہوئی اور اس کے نام پر بلیئر نے ایک ملک کے لاکھوں لوگوں کو مروانے کے کھیل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا. اس کے لئے اپنی کابینہ سے جھوٹ بولا. اپنی پارلیمنٹ سے جھوٹ بولا. اس لیے ممکن ہے کہ دنیا کے قومی سربراہ اپنے ملک کے عوام سے جھوٹ بولتے ہیں. جب بھی نیتا کہے کہ وہی دیش ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اب جھوٹ بول رہا ہے.

فیصلہ بلیئر کا اور معافی مانگی لیبر پارٹی کے رہنما جیرمي كوربن نے. كوربن نے کہا کہ میری معافی عراق کے لوگوں سے ہے، وہاں سینکڑوں جانیں چلی گئیں، وہ ملک ابھی بھی جنگ کے نتائج کو جھیل رہا ہے. كوربن نے برطانیہ کے ان فوجیوں کے اہل خانہ سے بھی معافی مانگی ہے جو عراق جنگ میں مارے گئے یا اپنے اعضاء گنوا کر لوٹے. کہا کہ فوجیوں نے تو اپنا فرض نبھایا لیکن ایک ایسے جنگ کے لئے جس میں انہیں بھیجا ہی نہیں جانا چاہئے تھا. كوربن نے برطانیہ کی ان لاکھوں عوام سے بھی معافی مانگی ہے جو سمجھتے تھے کہ اس فیصلے کی وجہ سے برطانوی جمہوریت کا قد چھوٹا ہوا ہے.

ان لوگوں کا خدشہ درست ثابت ہوا. عراق میں مرے ہوئے لوگوں کی گنتی کے لئے ایک ویب سائٹ وجود میں آ گئی ہے. یہ ہوئی ہے تبدیلی. اس کے مطابق 2003 سے لے کر اب تک جنگ اور دھماکوں میں 16 لاکھ سے زیادہ شہریوں کی موت ہوئی ہے. فوجیوں کی تعداد اس میں شامل کر دیں تو آپ کے دماغ کی میموری کریش ہو سکتی ہے. اس کے بعد بھی ٹونی بلیئر کہتے ہیں کہ ایسا فیصلہ پھر لیں گے. بدھ کو جب اس رپورٹ پر بحث ہوئی تو بلیئر نے کہا کہ دس سال برطانیہ کا وزیر اعظم رہتے ہوئے عراق پر جنگ کا فیصلہ میرے لئے سب سے مشکل، سب سے بڑا اور سب سے درد بھرا تھا. براہ کرم یہ مت کہیے کہ میں جھوٹ بول رہا تھا یا پھر میری منشا کچھ بے ایمانی بھری تھی. ایک بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب میں یہ نہیں سوچتا کہ کیا ہوا، امریکہ کے زیر قیادت حملے میں ساتھ دینے کا میرا فیصلہ صحیح تھا کیونکہ صدام حسین کے اقتدار میں نہ رہنے کے بعد دنیا ایک بہتر جگہ ہو گئی ہے.

کیا واقعی دنیا بہتر ہوئی ہے. صرف بلیئر کو دکھائی دے رہا ہے یا آپ کو بھی لگتا ہے. جس کا ڈر دکھا کر عراق پر جنگ مسلط کی گئی اور لاکھوں لوگ مار دیئے گئے، اب اسی ملک کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس ڈر کا کوئی جواز نہیں تھا. صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہونے کی بات غلط تھی. 18 مارچ 2003 کو ٹونی بلیئر کی تقریر جو انہوں نے ہاؤس آف کامنس میں دی تھی، اس میں کہتے ہیں کہ ‘یہ مسئلہ اتنا ضروری کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا نتیجہ عراقی حکومت کی تقدیر سے زیادہ اور عراقی عوام کے مستقبل سے زیادہ طے کرے گا جو صدام کے دور میں بری طرح پریشان ہیں. یہ طے کرے گا کہ اکیسویں صدی میں سیکورٹی سے جڑے اہم چیلنج سے برطانیہ اور دنیا کس طرح پیش آئی گی. یہ اقوام متحدہ کے آگے کا راستہ طے کرے گا، یورپ اور امریکہ کے تعلقات کو طے کرے گا، یوروپین یونین کے اندرونی رشتوں کو طے کرے گا اور یہ بھی کہ امریکہ باقی دنیا کے ساتھ کس طرح سلوک کرے. یہ اگلی نسل کے لئے بین الاقوامی سیاست کے طور طریقوں کو طے کرے گا.’

ایک جنگ سے اتنا کچھ طے ہونے والا ہے جیسے بلیئر صاحب پہلی تاریخ کو تھیلا لے کر راشن کی دکان سے راشن لانے نکلے ہوں. بلیئر نے اپنی کابینہ سے لے کر پارلیمنٹ تک کو دھوکے میں رکھا. اگر یوٹیوب پر موجود مذہبی تقریروں سے متاثر ہوکر دہشت گردی پھیلی ہے تو بلیئر جیسوں کے فیصلے سے دنیا میں جو آج تک تباہی مچی ہے، اسے آپ کیا کہنا چاہیں گے. مارچ 2003 میں بلیئر برطانوی پارلیمنٹ میں جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ آٹھ مہینہ پہلے ہی جولائی 2002 میں وہ امریکہ کے صدر بش کو لکھ چکے تھے کہ "I will be with you، whatever.” کچھ بھی ہو جائے میں آپ کے ساتھ ہوں. اب آئیے میڈیا کے کھیل میں. میڈیا جب بھی قوم پرستی کا نعرہ لگائے تب سمجھ جائيے گا کہ کچھ ایسا کھیل ہے جو آپ کی سمجھ سے باہر ہے. امریکی میڈیا سپر پاور ملک ہونے کے نشے کی گولی بانٹ رہا تھا. اس وقت میڈیا کی کچھ سرخیاں نکالی ہیں.

پہلے لندن کا ایک اخبار ہے دی سن. 2003 کے سن کا یہ پہلا صفحہ ہے. اس نے لکھا تھا سن بیكس بلیئر. بلیئر کے ہاتھ میں سن ہے اور سن اخبار بلیئر کی حمایت میں ہے. جب اخبار یا ٹی وی وزیر اعظم کی کھلے عام حمایت کا دعوی کریں تو بغیر ایناسن کھائے سمجھ جائيےگا کہ اس میں کوئی کھیل ہے. یہی سن اخبار چلكاٹ رپورٹ کے بعد ہیڈلائن بناتا ہے کہ ویپن آف ماس ڈسیپشن. ہندی میں مطلب اجتماعی دھوکے کا ہتھیار. ہندوستان میں کئی ابلاغی ادارے ٹھیک یہی کر رہے ہیں.

ایسا نہیں ہے کہ اخبارات نے تنقید نہیں کی ہوگی مگر جنگ کا جنون میڈیا نے پھیلایا. سپر پاور کا خواب بھی اسی جنون کا پروجیکٹ ہے. جو آپ کو رکھے گا غریب مگر دکھائے گا اڑتے ہوئے راکٹ کا خواب.

ڈیلی مرر برطانیہ کا اخبار ہے. اس اخبار نے تب جو کہا تھا وہ دس سال بعد صحیح نکلا. 29 جنوری 2003 کے اخبار کے پہلے صفحے پر چھپا تھا، بلیئر کی دونوں ہتھیلياں خون سے سنی ہیں. لکھا تھا بلڈ آن ہز ہینڈس- ٹونی بلیئر. چلكاٹ رپورٹ سے پہلے ہی اکتوبر 2015 میں ہی ڈیلی مرر نے لکھا تھا دس سال بعد معافی مانگنے کا کوئی مطلب نہیں. رپورٹ کے بعد اس اخبار نے بلیئر کے اس خفیہ بیان کو لکھا ہے جس میں انہوں نے بش سے کہا تھا. میں ہر حال میں آپ کے ساتھ رہوں گا.

مجھے نہیں معلوم اس وقت برطانیہ میں آج کل ٹائپ کے اندھ راشٹریہ بھکت ہوتے تھے یا نہیں. تب ڈیلی مرر کو کتنی گالی پڑی ہوگی. مگر میڈیا اور کارپوریٹ اور قومی سربراہوں کے کھیل کو ٹھیک سے سمجھنا ہوگا. حالانکہ یہ کھیل اتنا باریک ہوتا ہے کہ آپ کے لئے کیا میڈیا کے لئے بھی سمجھنا آسان نہیں ہوتا ہے.

عراق جنگ نے میڈیا کو بھی بدل دیا تھا. جنگ کا لائیو کوریج کرایا گیا. امبیڈیڈ جرنلزم کا جملہ کافی چلا تھا اس وقت. ٹی وی کے رپورٹر ٹینکوں میں لاد کر محاذ پر لے جائے گئے اور بوم بام کا کوریج دکھانے لگے. رپورٹروں کو بہادری کا انعام ملا، وہ جنگی کوریج کے ماہر بنے اور بدلے میں لاکھوں لوگ مر گئے. پوری دنیا میں یہ جنگ  براہ راست نشر ہوئی تھی. کہاں تو لوگوں کو راکٹ اور بم دھماکوں سے سہم جانا چاہیئے تھا مگر ٹی وی نے ان کے اندر میزائل اور ٹینک کی سنسنی بھر دی. چلكاٹ رپورٹ کے بعد برطانوی اخبارات بدل گئے ہیں. The Times لکھتا ہے

Blair’s Private war.

 Daily Star لکھتا ہے

Blair is world’s worst Terrorist.

 Daily Mail – A monster of delusion.

یہ رپورٹ عراق جنگ کے بارے میں ہماری سمجھ بدلتی ہے، اگر بدلتی ہے تو اس سمجھ کی بنیاد پر دنیا کیسی ہوتی، ہم اس کا بھی تصور کریں گے، پرائم ٹائم میں، بہت سے سوالات کے ساتھ چلكاٹ کی رپورٹ کو سمجھیں گے کہ آخر یہ گیم تھا کیا جس کے بہانے ہم پر، عراق پر اور اس کے بعد کے نتائج پر، پوری دنیا پر جنگ مسلط کی گئی- دہشت گردی مسلط کی گئی.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔