جھاڑو والی

 ضیاء الرحمن فلاحی

"عائشہ تین دنوں سے لاپتہ ہے جناب، میرا خیال ہے اب سرچ آپریشن چلانا چاہئے”  میجر نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا۔

"امدادی کاروائیاں اب بھی زوروں پر ہیں اور ہمیں لگاتار نئی نئی مہمات سونپی جارہی ہیں، نیپالی فوج کو ساتھ لے کر سرچ آپریشن جمعے کے بعد شروع کیا جا سکتا ہے”   کرنل نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

25 ﺍﭘﺮﯾﻞ 2015 ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﻻﺋﯽ ﭘﺮﺗﻮﮞ  tectonic plates ‏ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺍﮌﯾﮟ ﭘﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺭﺿﯽ ﺩﺑﺎﻭٔ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ جگہ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻧﯿﭙﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﻦ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺍٓﯾﺎ، ﺟﻮ ﮐﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ 80 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﻣﻠﮑﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﻟﯿﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮌﯼ ﭘﭩﯽ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﺮﮎ ﮔﺌﯽ، ﺟﺒﮑﮧ ﻣﻠﺤﻘﮧ ﮐﮭﭩﻤﻨﮉﻭ ﺑﯿﺴﻦ ﮐﯽ ﺳﻄﺢ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﻄﮧ ﺟﻨﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﻭ ﻣﯿﭩﺮ ﺗﮏ ﺳﺮﮎ ﮔﯿﺎ۔ ﺭﯾﮑﭩﺮ اﺳﮑﯿﻞ ﭘﺮ 7۔ 8 ﺩﺭﺟﮯ ﺷﺪﺕ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﻮ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻣﻮﺍﺕ ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﭘﺎﻧﭻ ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﮔﮭﺮ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﺋﮯ، ﺟﺒﮑﮧ 23 ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﻌﺪ نیپالی وزیر اعظم کی اپیل کے بعد ﻣﻠﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍٓﻏﺎﺯ کیا۔

 اگلے ہی دن ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﯽ ﻭﻥ ﺗﮭﺮﭨﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ایک ﻓﯿﻠﮉ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ، ﻃﺒﯽ ﻋﻤﻠﮧ، راڈار ﺳﻤﯿﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ تفتیشی ﺁﻻﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﯿﭙﺎﻝ ﺭﻭﺍﻧﮧ کیا۔ اسی عملے میں عائشہ ایک نرس کی حیثیت سے آئی تھی۔ جو اب لاپتہ تھی، انتہائی ذہین عائشہ کا اسطرح کسی وادی سے غائب ہوجانا یا راستہ بھٹک جانا تقریباً ناممکن سمجھا جا رہا تھا۔ کچھ لوگ اندازہ لگا رہے تھے کہ وہ کسی درندے کی غذا بن چکی ہے۔ وزیرخارجہ کے دفتر سے کسی نامعلوم شخص نے کاٹھمانڈو میں واقع پاکستانی سفارت خانے کو عائشہ کی موت کی خبر بھیجوا دی تھی، حالانکہ مصدقہ ذرائع سے ایسی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی لاش ملی تھی اسلئے شبہہ بر قرار تھا۔

ممبئی سے آزاد رضاکاروں کی ٹیمیں 27 اپریل کو نیپالی آرمی ہیلی کاپٹرس کے ذریعے مختلف دور دراز علاقوں میں اتاری گئیں تاکہ رفاہی کاموں کا جائزہ لے کر بین الاقوامی تنظیموں سے رابطہ کرکے سو فیصد رفاہ کو ممکن بنا سکیں اور پہاڑوں میں پھنسے سیاحوں اور بیماروں کو راجدھانی تک ایئر لفٹ کراسکیں۔ مجھے بھی میری ٹیم کے ساتھ دولکھا ضلعے کے گوری شنکر کے چین سرحد سے متصل شمالی علاقے میں اتارا گیا جہاں اس روز درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی چار ڈگری سیلسیس منفی تھا۔ وہاں ہمیں کم از کم بارہ گھنٹے متحرک رہنے کو کہا گیا تھا۔

انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار یہ ٹیم فجر سے مغرب تک مختلف بستیوں کا دورہ کرتی اور سیٹیلائٹ فون پر آرمی ہیڈ کورٹرس اور رفاہی تنظیموں کو اپنی رپورٹس بھیجتی۔

تیرہویں دن ہم کھارے کھولا نامی ندی کے کنارے پر بسے چھوٹے چھوٹے گاؤں کا دورہ کرتے ہوئے ضلع کے صدر مقام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عصر کے وقت ہی اندھیرا چھانے لگا تھا۔ محکمہ موسمیات نے مزید جھٹکوں کی پیشین گوئی کی تھی، ہم لاؤڈاسپیکر پر اعلان کرتے ہوئے علاقائی باشندوں کو خبردار کرتے ہوئے اور رضاکاروں کو ساتھ لیتے ہوئے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ کاٹھمانڈو وادی سے عصر کی اذان کی اطلاع ملی۔ میں ساتھیوں کو ایک چوٹی پر چھوڑ کر وضو کے لئے ڈھلان کی طرف بڑھنے لگا۔ ندی کے کنارے پہونچ کر پاکستانی پرچم سے بنے سبز لباس میں ملبوس ایک نو عمر لڑکی کو ندی کے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے ہوئے دیکھا، میں کچھ دیر چپ چاپ کھڑا رہا، وضو بنا کر وہ کھڑی ہوئی اور اپنی لمبی لمبی آستینیں کھینچ لی، سلیقے سے اوڑھا ہوا اسکارف گھٹنوں تک آرہا تھا وہ پلٹی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک سی گئی۔ میں نے پہلی بار اس علاقے میں کسی مسلمان کو دیکھا تھا میں نے جھجھکتے ہوئے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ، کیا نیپال میں بھی مسلمان موجود ہیں ؟”   اس کے لہجے میں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔

"ہاں، الحمد للہ کم و بیش چالیس لاکھ مسلمان یہاں آباد ہیں ” میں نے جواب دیا

"اللہ اکبر، اتنی بڑی تعداد کے باوجود یہاں کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو تعجب سے دیکھتے ہیں ؟”  اس نے شکایت آمیز لہجے میں کہا اور پہاڑی پگڈنڈی پر اوپر چڑھنے لگی

"فلاحی صاحب!  اللہ آپ کی ٹیم بامبے بریگیڈ کو سبھی نیک مقاصد میں کامیاب کرے، دعا کی درخواست، فی امان اللہ”   کچھ دیر بعد تنگ و تاریک پہاڑی درّے سے آواز آئی جو یقیناً اس لڑکی کی ہی آواز تھی۔ جاتے ہوئے اس نے شاید میرا شناختی کارڈ دیکھ لیا تھا جو میرے گلے کی زینت بنا ہوا تھا۔ خون منجمد کردینے والے سرد پانی سے وضو کرتے وقت میں مسلسل اسی لڑکی کے بارے میں سوچے جا رہا تھا، چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا، مگر اتنے مہذب زبان و لباس والی لڑکی ان پہاڑیوں میں کیا کررہی ہے؟

وضو بنا کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک بزرگ اور کچھ بچے ایک جھولے کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے اور اس میں سے کاغذات یہاں وہاں پھینک رہے تھے شاید انھیں ان کی ضرورت کی کوئی چیز ہاتھ نہیں لگی تھی۔

"ما لائی دینُس”  انھیں متاثر کرنے لے لئے میں نے نیپالی زبان بولنے کی کوشش کی۔ میں نے وہ جھولا لے کر اس میں بکھرے ہوئے کاغذات رکھ لئے اور اونچائی کی طرف چل دیا۔

موسم کی زبردست خرابی اور خنکی کے باوجود ہم سب صحت مند اور جنگلی جانوروں سے محفوظ رہے تھے، رب ذوالجلال کی بارگاہ میں سجدوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد میں نے جھولے کو دیکھا۔

عائشہ ملک کے نام کے دستاویزات دیکھ کر میں بھونچکا رہ گیا۔ ان سے صاف ظاہر تھا کہ جس لڑکی سے ندی پر میری ملاقات ہوئی تھی وہ آرمی کی لاپتہ نرس عائشہ ملک تھی۔ تلاش گمشدہ کے اشتہار والی تصویر اور اخبار کا وہ ٹکڑا بھی موجود تھا جس میں یہ اشتہار چھپا تھا۔ مگر وہ کیونکر گمنامی کی زندگی پر راضی ہوئی اور کیمپ واپس کیوں نہیں جارہی تھی؟ سوالات کا ہجوم لیکر میں ٹیم کے ساتھ منزل کی طرف چل پڑا، کئی بار سوچا کہ پاکستانی سفارتخانے کو مطلع کردوں مگر دل نے گوارا نہیں کیا کہ نہ جانے کیا چیز واپسی میں مانع ہو۔

ضلعی صدر مقام بھیمیشور سے ہمیں نئی جگہ کے لئے ایئر لفٹ کیا جانا تھا۔ ہیلی پیڈ کے پاس ہم قطار میں کھڑے تھے، بریفنگ کے دوران میں نے چیف کو بتادیا کہ طبیعت خراب لگ رہی، مجھے دو دن کی مہلت دی جا چکی تھی، چیک اپ کی غرض سے ڈاکٹر آئے، رپورٹ آئی کہ صحت میں کوئی خرابی نہیں ہے بس آرام کی ضرورت ہے۔

تھوڑی دیر بعد ہی مجھے چھٹی مل گئی، میں واپس عائشہ کو تلاش کرنے کیلئے نکلا تاکہ کاغذات اس کے حوالے کروں اور پس پردہ پراسرار حقائق جان سکوں۔

پانچ گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد میں واپس اسی جگہ کھڑا تھا جہاں ہماری ملاقات ہوئی تھی، میں اسی پہاڑی راستے پر چل پڑا جہاں سے اس کے الوداعی کلمات ملے تھے، کچھ دیر چلنے کے بعد ایک چھوٹی سی بستی میں داخل ہوا، وہاں کے سبھی گھر لگاتار زلزلوں کی وجہ سے مسمار ہوچکے تھے، لوگ باہر خیموں میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ رفاہی تنظیموں کے متعدد دوروں کے باوجود بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ خوس وہراس کے اس ماحول میں میں آگے بڑھتا گیا۔ بستی کے اختتام پر پھر مجھے وہی چہرہ نظر آیا، پیشانی پر پسینے کے قطرے، زمین پر گھسٹتا ہوا لمبا دامن، ہاتھ میں جھاڑو اور اپنے کام میں بالکل منہمک۔

"السلام علیکم محترمہ”

"وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکتہ، یہ تو میرا جھولا ہے وہاں ندی پر چھوٹ گیا تھا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے”    لمبے اسکارف سے پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا

"کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟ آپ کو آپ کی فوج چپے چپے میں تلاش کر رہی ہے، آپ کے گھر والے پریشان ہیں اور آپ کی خیریت کی اطلاع چاہتے ہیں ”  میں نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا

"اطلاع یہ ہے کہ میں خیریت سے ہوں ”   اس نے لاپرواہی کی حد کر دی۔

"مجھے یہاں فوج کے ہسپتال سے زیادہ کام رہتا ہے جو بنا کسی قاعدے، قانون، وقت یا پروٹوکولس کی پابندی کے انجام دیا جاسکتا ہے، میں اس پورے علاقے کی صفائی کرتی ہوں تاکہ یہاں گندگی کی وجہ سے کوئی وبا نہ پھیل جائے وقت بچنے پر لوگوں کی تیمارداری، مرہم پٹی اور ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہوں، کچھ لوگ جو پہلے صرف شوقیہ میرے ساتھ نمازیں ادا کرتے تھے اب مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں، اب انھیں اسلام کے بنیادی اصول، نماز، قران پڑھنا، دعائیں وغیرہ سکھاتی ہوں، وہ رہا میرا مدرسہ (اس نے پھوس کی ایک جھوپڑی کی طرف اشارہ کیا) اب میری زندگی کا مقصد یہی ہے، گلیوں میں جھاڑو لگانا، ذہنوں اور سماج میں پھیلی بت پرستی کی گندگی کو صاف کرنا”   اس نے سر جھکائے ہوئے آہستہ آہستہ مگر تفصیل سے اپنی رفاہی اور دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں مجھے بتایا اور ہم اٹھ کر مدرسے کی طرف چل دیے۔ اشوکا کے تنوں اور ناریل کے پتوں سے بنے اس مدرسے میں صرف ایک قران رکھا ہوا تھا۔ ہاتھوں سے بنائے ہوئے پوسٹرس میں اسلامی تعلیمات اور خاکے چسپاں تھے۔ ہم بات کرتے ہوئے باہر آگئے تھے۔

"دیکھو عائشہ!  تمہارا مشن قابلِ تعریف ہے مگر گھر والوں سے اتنا دور رہنا اور والدین کو بے خبر اور پریشان رکھنا بھی ایک گناہ ہے، میں ایک لمبا عرصہ یتیموں کی طرح وطن سے بہت دور گمنامی کی زندگی گذار چکا ہوں اسلئے میں تنہا زندگی کا کرب جانتا ہوں، یہ اندر سے انسان کو کھوکھلا کردیتا ہے اور بار بار ادھورے پن کا احساس دلاتا رہتا ہے، بھلا یہ بھی کوئی جینا ہے جب رونے کیلئے کسی کا کندھا اور آنسو پونچھنے کے لئے ماں کا دامن میسر نہ ہو؟ ایسی حالت میں دعائیں بھی راستہ بھٹک جاتی ہیں اور انسان کا تعلق خدا سے بھی ٹوٹ جاتا ہے”  میں نے اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔

"آپ تو خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہیں، میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں، میرے والدین ابھی پی آئی اے کی پرواز 269 میں ہیں جو کہ تھوڑے ہی وقت میں ہماری ارض پاک کو چھوڑنے والی ہے، ضیاء صاحب ! میں اپنی دوسری ہم جولیوں کی طرح گناہوں سے لت پت اور بے حیائی میں غرقاب شہر کے ماحول میں کھو کر کتے بلیوں کی طرح بے مقصد زندگی نہیں گذارنا چاہتی، میں ہمیشہ سے غزوات میں مجاہدین کی مرہم پٹی کرنے والی کسی بہادر دخترِ ملت کی طرح زندگی گذارنا چاہتی تھی، مجھے میری زندگی کا مقصد اور دارالعمل مل گیا ہے، اب ہم کنکریٹ کے جنگل لاہور کو چھوڑ کر اس اصلی جنگل اور جنت نما وادی میں رہیں گے اور ان شاء اللہ یہیں سے ابدی جنت کو سِدھاریں گے، ویسے بھی یہ جگہ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے یعنی کہ جنت یہاں سے لاہور کے مقابلے زیادہ قریب ہے نا ؟”

 اس کے آنسو زمین پر ٹپکتے اس سے پہلے ہی میں اٹھ کر چل دیا تھا۔ یاد نہیں میرے آخری کلمات کیا تھے، میں نے اسے سلام کیا تھا یا نہیں یاد نہیں، الوداع کہا تھا یا نہیں یاد نہیں، میری آنکھیں اشکبار تھیں یا نہیں، اس خوش نصیب بستی کو پلٹ کر دیکھا تھا یا نہیں یاد نہیں۔

صرف اتنا یاد ہے کہ میں خود کو بہت کمتر محسوس کر رہا تھا، اپنے ارادوں اور مقاصد زندگی پر غور کر رہا تھا۔ شاید اس پانچ گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد ایک نیا انسان، بالکل نئی سوچ، نئے ارادے اور نئے احساسات لے کر ہیلی پیڈ پر کھڑا تھا۔

ایک سال گذر چکا ہے آج بھی اس کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں، میرے افکار کو سنوارتے ہیں، میرے کردار کو نکھارتے ہیں اور مجھے ہر دن بہتر سے بہترین انسان بناتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔