رمضا ن المبارک: کیا کھویا کیا پایا؟

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

رمضان المبارک کے بابرکت لیل و نہار ختم ہوچکے ،عبادتوں کا موسمِ بہار رخصت ہوگیا ،نیکیوں اورطاعات کا نورانی ماحول مکمل ہو چکا ،لیکن یہ حقیقت ہے رمضان المبارک صرف ایک مہینہ کی عبادت کرواکر چلے جانے کے لئے نہیں آیا تھا ،چند دنوں کے نماز وروزہ کا پابند بنانے کے لئے نہیں آیا تھا،اور نہ ہی موسمی اور رواجی مسلمان بناکر مسلمانوں کی فہرست میں نام درج کروانے کے لئے آیا تھا بلکہ رمضان المبارک کے ذریعہ مومن کی جو تربیت کی جاتی ہے اور عبادات کے سانچے میں جو ڈھالا جاتا ہے ، احکامات کی پابندی اور شریعت کی پیرو ی کا جو ذہن بنایا جا تا ہے ،من مانی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گذارنے کے ذوق کو جو پروان چڑھایا جاتا ہے ،اس کو ہمیشہ کے لئے مضبوط کر نے اور ایمان کی بھٹی کو ہمیشہ گرم رکھنے اور سال پورا اور زندگی بھر رمضان جیسی ہی اطاعت و عبادت کے ساتھ گذارنے کا پیغام دینے کے لئے آتا ہے ۔کیوں کہ روزہ کا جو مقصود اللہ تعالی نے بتایا ہے وہ تقوی ہے اور تقوی پوری زندگی کے لئے درکار ہے ۔رمضان المبارک کی جو قدر ددانی کرتے ہوئے گذارتے ہیں اور اس کے اوقات کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں رمضان المبارک اپنے انقلاب انگیز اثرات اس کی زندگی میں چھوڑ جاتا ہے ،اور دل ودماغ کو نیکیوں کی طرف مائل کرکے رخصت ہوتا ہے اور ایسا انسان رمضان کے گذرنے کے بعد بھی تعلیمات اسلام کی رعایت کر تے ہوئے بسر اوقات کرتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :ورمضان الی رمضان مکفرات مابینھن اذا اجتنبت الکبائر۔( مسلم ،حدیث نمبر:349) کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جب کہ کبیرہ گناہوں سے بچاجائے ۔رمضان المبارک چوں کہ مکمل ایما ن والوں کو نواز نے اور ان کو عطا کرنے کے لئے آتا ہے اس لئے اس مبارک مہینہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہونا اور خیر سے مالامال ہو نا نہایت ضروری ہے ورنہ رمضان کے خیر و برکات سے محروم رہنے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے بد دعا فرمائی ۔( مستدک للحاکمؒ :7321) اور یہ بھی کہا کہ : بد بخت و بد نصیب ہے وہ شخص وہ اس مہینہ میں اللہ تعالی کی رحمت سے محروم رہ گیا ۔( مسند الشامیین للطبرانی :2196)رمضان المبارک کی عبادتوں کے اثرات انسانی زندگی پر اس کے گذرجانے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں ،حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں :اس سے واضح ہو گیا کہ رمضان ہی کی طاعتوں اور مغفرتوں کا فیض سال بھر تک چلتا رہتا ہے ،اور یہی فیض منتشر ہو کر دنوں اور راتوں کی عبادت اور توفیق کی شکل اختیار کرتا رہتا ہے ،نہ صرف برکۃ یا اثرابلکہ عددا بھی رمضان سالِ عبادت کا نقطہ آغازاور تخمِ توفیق تھا ،اس لئے مادہ توفیق و طاعت سال بھر کی عبادت کے لئے برگ و بار کی آبیاری کرتا ہے اور پورے سال پر چھایاہوا رہتا ہے ۔( خطباتِ حکیم الاسلام:9/109)غرض رمضان ہمیشہ کے لئے انسان کو بدلنے اور اور مکمل تبدیل کرنے کے لئے آتا ہے ،اس میں جن عبادات کو بندۂ مومن انجام دیتا ہے وہ ہیں بھی ایسی کہ رمضان المبارک کے گذرجانے کے بعد بھی وہ صفا ت انسان کے اندر موجو د رہتی ہیں ۔اب جب کہ رمضان المبارک کا اختتا م ہوگیا اس موقع پر ہمادی ذمہ داری ہے کہ رمضان سے ہم نے کیا پا یا اور کن صفات سے مزین کیا ؟اس کا ایک جائزہ لیں ، اآئیے ایک سرسری نظر ان کیفیات پر ڈالتے ہیں جو رمضان ہر ایمان والے کے اندر پیدا کرتا ہے ،خوش نصیبی جن کے حصے میں ہوتی ہے وہ بہرورہ ہوتے ہیں ،اور محروم القمست محروم ہی رہتے ہیں۔
اہتمامِ عبادت:
رمضان المبارک کی سب سے عظیم چیز جس سے ایک انسان کونوازا جاتا ہے وہ عبادتوں کا اہتمام ہے ۔کیوں کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالی انسانوں کی نیکیوں کے اجرو ثواب کو بڑھادیتے ہیں اور طاعات کی انجام دہی کے راستہ کی رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیتے ہیں ،سرکش شیاطین قیدکرلئے جاتے ہیں اور گناہوں سے احتیاط انسانوں میں پیدا ہوجاتی ہے ،اسی کا نتیجہ رہتا ہے کہ لوگ جوق در جوق عبادت کی طرف مائل ہوتے ہیں اور بساط بھر اعمال و عبادات کو انجام دینے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔رمضان المبارک نے عبادتوں کے جس اہتمام اور شو ق کو پید اکیا تھا ، اب رمضان المبارک کے گذرنے کے بعد بھی ہمیں اسی اہتمام کو باقی رکھناضروری ہے ،عبادتوں اور نیکیوں میں کمی اور لاپرواہی یہ رمضان کے سہی نہ گذارنے کی علامت ہے ۔رمضان میں نوافل کا اہتمام ہوتا ،ذکر و تلاوت میں وقت صرف ہوتا ،دعاو مناجات کا بھی معمول جاری رہتا ،رمضان میں ہم نے ہر رات بیس رکعات اضافہ تراویح کی شکل میں ادا کی ،موقع ملا تو سحری کے وقت تہجد بھی ناغہ ہونے نہیں دی ،توبہ و استغفار کی کثرت رکھی اور الحاح و زاری کے ساتھ دعاؤں کا اہتما م رہا ،اب رمضان کے چلے جانے بعد اگر اس میں کو تا ہی ہوئی تو مطلب یہ ہے کہ ہم نے رمضان سے جو پانا تھا وہ نہیں پایا اور ہمارا دامن خالی ہی رہ گیا ۔رمضان المبارک کے بعد فرائض کی ادائیگی میں بھی اور سنتوں کی انجام دہی میں کوتاہی بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے۔
اخلاقی تربیت :
رمضان المبار ک میں صبر اور تقوی کے ذریعہ ایمان والوں کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے ،روزہ کی حالت میں بہت سے باتوں سے اجتناب اور بہت سارے کاموں سے احتراز کرنا پڑتا ہے ،زبان ،آنکھ ، کان ،دل اور دیگر اعضاء کی حفا ظت کا خوب اہتما م کرنا پڑتا ہے تاکہ روزہ ضائع نہ ہو جائے اور ثوا ب سے محرومی نہ ہونے پائے ۔قوتِ برداشت کے مزاج کو پروان چڑھایا جاتا ہے ،تحمل مزاجی اور بردباری کے ذوق کو بیدا رکیا جاتا ہے ۔بلکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ :جب تم سے کسی کا روزہ ہو تو وہ گندی باتیں نہ کرے ،شور نہ مچائے ،اگر کوئی شخص گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے تو ( اس کو گالی گلوچ سے جواب نہ دے بلکہ ) یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں ۔( گالی گلوچ لڑائی جھگڑامیرا کام نہیں ) ( بخاری :1780)نبی کریم ﷺ نے جو روزہ کو ڈھال قرا ردیا تھا اور یہ بھی کہا تھاکہ یہ ڈھا ل اسی وقت تک رہے گاجب تک کہ اس کو پھاڑ نہ دے ۔ایک روایت میں آپ کا ارشاد ہے کہ :جو شخص روز ہ رکھ کر جھوٹی بات یا غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ ( گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا چھوڑدے ۔(بخاری: 1779)ان تما م ارشادات کی روشنی میں علماء نے لکھا کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ ،غیبت ،برائی ،لڑائی جھگڑایہ سب چیزیں روزہ کو بے کار کردیتی ہیں ۔ان ہی چیزوں سے ذریعہ ایک مسلمان کی بہترین اخلاقی تربیت کی گئی اور حسنِ اخلا ق سے آراستہ کیا گیا ۔اس کو زبان کو قابو میں کرنے کی مشق کرائی گئی ،آنکھ ،کان ،وغیرہ کے صحیح استعمال کے مرحلے سے گذارا گیا ،جسم جو امانت الہی اس کے تحفظ کا طریقہ بتا یا گیا ۔رمضان کے رخصت ہونے کے بعد اس کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اخلاقی معیار ،اورقول و کردار میں کہیں کمی تو نہیں آرہی اور بے قابو ہو کر زبان وغیرہ کا غلط استعمال تو نہیں ہورہاہے،غیبتوں ،چغل خوری ،جھوٹ و افتراء کی گندگیوں سے کہیں قلب وجگر آلودہ تو نہیں ہورہے ہیں؟ اگر رمضان کے بعد یہ اخلاقی صفات باقی رہیں اور مزید پروان چڑھیں تو یقیناًرمضان سے ہم نے بہت کچھ پایا ورنہ کھونے والے شمار ہوں گے ۔
ایثار و ہمدردی :
رمضان المبارک میں ایثار وہمدردی کی خاص تربیت کی جاتی ہے،روزہ کی حالت میں انسان خود ایک ترس والی حالت سے گذرتا ہے ،بھوک اور پیاس کی شدت کو آزماتا ہے ،تب اس کو فاقہ مستوں کی لاچاری اور ضرورت مندوں کی مجبوری کا احساس خوب ہوتا ہے ۔اور پھر نبی کریم ﷺ نے ایثار وہمدردی کی خاص تعلیمات رمضان میں عنایت فرمائی فرمایاکہ:جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو ( اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے ) افطار کرایا تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کوروزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دا کے ثواب میں کمی کی جائے۔آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ !ہم میں ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان مہیا نہیں ہوتا تو ( غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک کھجور یا دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی کا روزہ افطار کرادے ۔(شعب الایمان للبیہقی:3329)آپ ﷺ نے اس کی بھی ترغیب دلائی تھی کہ:جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں ہلکا پن اور کمی کردے گا اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔( حوالۂ سابق)اس کے ذریعہ در اصل نبی کریم ﷺ نے افراد امت کے مزاج کو ایثار و ہمدردی سے آراستہ کیا تاکہ دنیا کو ئی پریشان حال نہ رہے اور وہ پریشان اپنی تکلیف ہی میں گھٹتا رہے اور دوسرا مسلمان عیش و عشرت میں اپنے بھائی سے بے خبر رہے ۔اسلام میں ایثار وہمدردی کی باضا بطہ تعلیمات دی گئیں اور بہت اہتمام کے ساتھ اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ، اور خاص کر رمضان میں ہر ایمان والے کو عملی راستے سے گذار کر بتادیا کہ فاقہ کیا ہو تا ہے ؟نانِ شبینہ کے لئے تڑپنا کس کو کہتے ہیں ؟اگر رمضان المبارک کے الوادع کہنے کے بعد بھی ہمارے اندر ایثار وہمدردی کی صفت نہیں آئی،اور ہم اپنی دعوتوں اور تقریبات میں لاکھوں ضائع کریں اور بے جا خرچ کریں اور پڑو س میں کوئی بیمار کوئی پریشان حال بے چین و بے قرار ہو تو پھر ہم سے بڑھ محروم کون ہو سکتا ہے کہ جس نے رمضان کے اس تربیتی مہینہ میں اپنے دل کو انسانیت کی ہمدردی کے لائق نہیں بنایا؟اس لئے اس کا بھی محاسبہ کرنا ضروری ہے تاکہ ہم خیر سے مالامال ہونے والے بنیں ۔
صدقہ وخیرات:
رمضان المبار ک میں خود نبی کریم ﷺ کا معمو ل بے پناہ انفاق کا تھا ،اور آپ ﷺ نے امت کو اس کی ترغیب بھی دلائی تھی کہ رمضان میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں کو دینے سے دریغ نہ کیا جائے ۔الحمد للہ رمضان میں بہت سے مسلمان زکوۃ کی ادائیگی کا بھی اہتما م کرتے ہیں اور نفلی صدقات وغیرہ بھی خوب ادا کرتے ہیں ۔یہ جہاں رمضان کے موسمِ بہار میں نیکیوں کو کمانے کی ایک شکل تھی وہیں مال کے ذریعہ بھی عبادت الہی انجام دینا کا ایک انداز تھا ساتھ ہی غریب پروری کو فروغ دینا ،محتا جوں کی مدد کرنا ،مال کے ذریعہ قر ب الہی کو حاصل کرنے ایک موقع تھا ۔رمضان میں دینی مدارس ،تحریکوں ،تنظیموں کی جانب سے ہونے والے مختلف تقاضوں کو ہم نے پورا کیا رمضان کے جانے بعد بھی اسی طرح انفاق اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کے معمول کو باقی رکھنا بھی ضروری ہے اور مزید ترقی دینا بھی ۔کیوں کہ ہمارے ہی پیسہ سے ہماری مختلف تنظیمیں اپنے کام کو انجام دیتی رہیں گی اور ایمانی قوت ہم کو پہنچتے رہے گی اور پر سکون انداز میں اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو سکتے ہیں ۔
قرآن سے دلچسپی:
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ تھا ،اسی بابرکت مہینہ میں یہ مقد س کلام اترا، اور اس کلام الہی نے اپنے معجزانہ اثر آفرینی سے تاریک دنیا میں نور بکھیرااور انقلاب برپا کیا ۔رمضان میں مسلمان کچھ نہ کچھ اس کا اہتما م کرلیتے تھے کہ قرآن کو تلاوۃ مکمل کیا اور درس قرآن کے حلقوں سے معانی کو سمجھنے اور تفاسیر کی مدد سے اور علماء کی رہبری سے مقصود قرآن تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔حقیقت یہ کہ رمضان المبارک کے اوجھل ہونے کے بعد بھی قرآن سے لگاؤ اور دلچسپی ہو نا ضروری ہے ۔تلاوتِ قرآن کے معمول کو برقرار رکھنا اور فہم قرآن کے لئے کوششیں جاری رکھنا لازمی ہے کیوں کہ قرآن کریم ہی کے ذریعہ یہ امت راہ راست پر آئی گی اور حق وباطل میں فرق کر پائی گی ،اور اسی قرآن کے ذریعہ اللہ تعالی نے قوموں کے عروج و زوال کو جوڑ رکھا ہے ۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ رمضان کے گذرنے جانے کے بعد اکثریت تلاوت قرآن کو چھوڑدیتی ہے ،اور قرآن مجید پھر ایک سال تک کے لئے طاقو ں کی زینت بن جاتا ہے ،او رگرد آلود ہو کر رہ جاتا ہے ۔رمضان ہمیں قرآن سے قریب کرنے کے لئے آیا تھا اگر رمضان کے جانے کے بعد قرآن ہمارے روز مرہ کے معمولات میں نکل گیا تو بلاشبہ ہم کھونے والوں میں سے ہوں گے ،اور اپنی حرماں نصیبی پر رونے والوں سے ہوں گے ۔اس لئے اس روش کو بدلنا ضروری ہے ۔
نظام الاوقات کی پابندی :
رمضان المبارک میں ایک خاص تر بیت جس کی کرائی جاتی ہے وہ وقت کی قدر دانی اور نظام الاوقات کی پابندی ہے ۔سحری سے لے کر افطا ر تک کے سارے وقت کو ایک مسلمانظا م العمل کے تحت گذارتا ہے ،جب حکم ہو ا کھایا ،جب حکم ہو ا کھانا چھوڑدیا ،رمضان میں ایک مومن اپنی مرضی سے نہ کھاتا ہے اور نہ اپنی مرضی اپنی خواہشات کو پورا کرتا ہے ۔وہ وقت پر کام کرتا ہے ، وقت پر عبادت انجام دیتا ہے ،وقت پر آرام کرتا ہے اور وقت کی رعایت کے ساتھ ہی اپنے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔یہ مرتب نظام اور سلیقہ مند طرز زندگی ایک مسلمان کو وقت کی قدر دانی بھی سکھاتی ہے اور نظام الاوقا ت کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے ۔رمضان المبارک کے گذرنے کے بعد بھی ہمیں اپنے اوقات کو اسی حسن ترتیب سے گذارنا چاہیے تاکہ پابندی کے ساتھ عبادات بھی کرسکیں اور دنیاوی کا م کاج بھی پورے ہوں ۔اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے نظام الاوقات کی رعایت کرنے والی اور وقت کاخیال رکھنی والی قومیں ہی دنیا میں کامیاب ہوتی ہیں اور آخرت میں بھی سرخروی ہوتی ہیں ،جس کے پاس وقت کی قدر نہیں وہ اپنی دنیا کو بھی تباہ کرتی ہیں اور آخرت کو بھی برباد ۔اس لئے رمضان نے ہماری جو تربیت وقت کی قدر دانی کی کی ہے اس کا پاس و لحاظ رکھنا انتہا ئی ضرور ی ہے اس میں بے شک ہمارا ہی فائدہ ہے ،اگر یہ چیز بھی ہمیں رمضان سے سمجھ میں آگئی تو ہم بہت کچھ پانے والوں سے ہوں گے ۔
آخری بات : 
رمضان المبارک کے ذریعہ ہم نے کیا پایا کیا کھویا بطور جائزہ کے یہ چند چیزیں پیش کی گئی اس کے علاوہ بھی اور چیزیں ہیں جو رمضان ہم کو نوازکر رخصت ہو ا،رمضان میں ہم نے غلطیوں اور کوتاہیوں ،معاصی اور نافرمانیوں سے توبہ کی تھی اب اس توبہ کو باقی رکھنا ہے اور احکامات پر چلنے اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے کا جو عہد اور عزم کیا تھا اس پر قائم رہنا ہے ۔مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:رمضان در حقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ،رمضان انتہا نہیں ،ابتداہے ۔رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کر کے لپیٹ کر نہیں جاتا ہے ،وہ بہت کچھ دے کر جھولیا ں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتا ہے ،رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے ،لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے ۔( رمضان اور اس کے تقاضے :136)

تبصرے بند ہیں۔