غیر مسلم ملکوں میں انکارِ منکر

ذکی الرحمن فلاحی مدنی
اللہ کی طرف دعوت دینے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی کو برائی میں ملوث دیکھ کر اسے ٹوکا جائے۔ دعوتِ دین کے اندر جس طرح نیکی کی طرف بلانا شامل ہے، اسی طرح برائی سے روکنا بھی اس کے ضمن میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے جو اجروثواب اور خاص فضیلت بیان فرمائی ہے اس میں انکارِ منکر کرنے والوں کا حصہ بھی ہے۔ ارشادِ باری ہے:(وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون) (آل عمران، 104) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ خیرِ امت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ منکرات پر نکیر کی جائے، اگر یہ وصف امتِ مسلمہ کے بعض افراد میں نہیں پایا جاتا تو ان سے خیرِ امت کا لقب بھی ساقط ہوجانا چاہیے۔ قرآنی فیصلہ سن لیجئے:(کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ) (آلِ عمران، 110) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
بالکل اسی طرح اللہ رب العزت نے توصیف آمیز پیرائے میں ایمان والوں کی خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں:(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم) (توبہ، 71) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناًاللہ سب پر غالب اور حکیم ودانا ہے۔‘‘
تاہم یہاں جو چند باتیں سمجھنے کی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ انکارِ منکر کے کئی درجے اور مرحلے ہوتے ہیں۔ اس میں بنیادی حیثیت اللہ کے رسولﷺ کے اس قول کو حاصل ہے: ’’اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر وہ اس کی استطاعت اپنے اندر نہ پائے تو زبان سے اسے بدلنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی استطاعت بھی وہ اپنے اندر نہ پائے تو اسے دل سے برائی کو بدلنے کی خواہش رکھنی چاہیے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ [من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذالک أضعف الإیمان] (صحیح مسلمؒ :69)
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں بہت سے قیمتی علمی نکات پتہ چلتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انکارِ منکر کے تین مرتبے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہاتھ سے مٹا دینے کا ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کے بہ قدر استطاعت وطاقت کا پایا جانا مشروط ہے۔ دوسرا درجہ زبان سے نکیر کرنے کا ہے، اس میں بھی قدرت واستطاعت کی شرط مطلوب ہے۔ تیسرا اور آخری مرحلہ دل سے انکار کرنے کا ہے اور برائی کو برا سمجھنے کا ہوتا ہے، جو کہ کمزور ترین ایمانی درجہ ہے۔ اس کی شکل یہ ہے کہ دل سے برائی کو برا سمجھا جائے اور اسے مٹانے کا جذبہ بیدار رکھا جائے بہ ایں نیت کہ جب بھی اللہ قدرت واستطاعت سے نوازے گا تو آگے بڑھ کر زبان سے یا ہاتھ سے اس برائی کا قلع قمع کیا جائے گا اور معاشرے کو اس سے پاک کر دیا جائے گا۔ ایمان کا یہ آخری درجہ ہوتا ہے جس سے فروتر ایمانی سیڑھی کا مزید کوئی پائے دان نہیں پایا جاتا، اور کسی بھی مسلمان کو اس سے کمتر درجے کے لیے معذور نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں آپﷺ نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ اس کمزور ترین درجۂ ایمان کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہ جاتاہے۔‘‘ [ولیس وراء ذالک من الایمان حبۃ خردل] (صحیح مسلمؒ :50)
معلوم ہوا کہ غیر اسلامی معاشروں اور ملکوں میں اگر کسی مسلمان کو ہاتھ اور زبان سے برائی کا ازالہ کرنے کے سلسلے میں معذور سمجھ لیا جائے کیونکہ وہاں سیادت وحکومت مشرکین وکفار کی ہے، تب بھی دل سے کسی برائی کو برا سمجھنے کے بارے میں کسی مسلمان کو معذور نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ غالباً کافر معاشروں کے بداثرات سے بچنے کا سب سے کارگر وسیلہ مسلم اقلیتوں کے پاس یہی ہے کہ وہاں پائی جانے والی برائیوں اور غلط باتوں کو دل سے برا سمجھیں، کہ اس طرح دل میں ایمان ویقین کی افزائش ونمو بھی ہوگی اور بار بار برائیوں کو ہوتے دیکھ کر نگاہیں اس کی عادی بھی نہ بننے پائیں گی اور مشرکانہ ماحول سے ہر وقت ایک ایمان افروز اجنبیت اور نامانوسیت کا احساس دلوں کو معمور ومنور رکھے گا۔
اسی طرح غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کے کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی ایسے انداز میں تربیت کریں کہ وہ مشرکانہ ماحول اور برائیوں کو دل سے برا جانتے رہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ مسلم اقلیت کی نوجوان نسلوں کے دل سے صغرِ سنی میں ہی بعض برائیوں کے برا ہونے کا احساس ختم ہوجائے اور رفتہ رفتہ حالت یہ ہوجائے کہ برائی کو برائی سمجھنے کے بجائے، مباح سمجھا جانے لگے، جس کا ارتکاب کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ یا حرج نہیں ہوتا۔ یہ بات مسلم والدین اور سرپرستوں کو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھنی چاہیے کہ برائی کو برا سمجھنا انسان کے مومن ہونے کی علامت ہے۔ اگر کسی کے اندر یہ اسلامی حس مفقود ہے تواسے اپنے دین وایمان کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ حدیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایسے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہوا کرتا۔
دوسری اہم بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ کسی برائی کو دیکھ کر اصل ذمے داری یہ ہے کہ اسے بدل کر اچھائی کو اس کی جگہ قائم کیا جائے۔ حدیث میں تغییر (فلیغیّرہ)کا لفظ استعمال ہوا ہے، صرف نکیر کردینے یا براسمجھنے کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں میں بہت نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکار کی قدرت کے باوجود بسااوقات ایسانہ کرنا جائز ہوتا ہے، بایں طور کہ انسان کو اندازہ ہو کہ اگر انکار کیا جائے گا تب بھی منکر کو ہٹا کر معروف کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکے گا۔ بلکہ بسااوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ برائی پر نکیر کرنے والے کو روک دیاجائے۔ ایسا تب ہوگا جب کہ ایسا کرنے پر بڑے مفاسد ومضرات مرتب ہوتے ہوں، جو نکیر کرنے کی شرعی مصلحت سے زیادہ سنگین اور زیادہ خطرناک ثابت ہوں۔ آگے مزید اس کی تفصیل آئے گی۔
اس حدیث سے تیسری اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نکیر یا سرزنش ایسی برائی پر کی جائے گی جس کا برائی ہونا اور جس شخص کو روکا جارہا ہے اس کا مرتکبِ کبیرہ ہونا یقینی ہو۔ حدیث میں آتاہے کہ اگر کوئی کسی برائی کو ہوتا دیکھے، تو نکیر کرے۔ یعنی محض گمان یا شک کی بنیاد پر نکیر نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں پھر ایک بار سمجھ لینا چاہیے کہ کسی برائی پر نکیر کرنے کے متعدد درجات ہو سکتے ہیں۔ علامہ ابن القیمؒ نے انکارِ منکر کو چار درجوں میں بانٹا ہے اور بتایا ہے کہ ہر جگہ انکارِ منکر کا حکم مختلف ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انکارِ منکر کی چار حالتیں ہیں:
[1] پہلی حالت یہ ہے کہ انکارِ منکر کے نتیجے میں برائی کا ازالہ اور بھلائی کا قیام عمل میں آتا ہو۔ [2] دوسری حالت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں برائی کا بالکلیہ استیصال تو نہ ہوتا ہو، البتہ اس میں کمی آجاتی ہو۔ [3] تیسری حالت یہ ہے کہ انکارِ منکر کے نتیجے میں متعلقہ برائی تو ختم ہوجاتی ہو، مگر اس کے بعد ویسی ہی دوسری برائی وجود میں آجاتی ہو۔ [4] اور چوتھی حالت یہ ہے کہ انکارِ منکر کے نتیجے میں متعلقہ برائی ختم ہوجائے اور اس کی جگہ اس سے بڑی برائی پیدا ہوجائے۔ ان چاروں حالتوں میں سے انکارِ منکر کی پہلی دوحالتیں جائز ہیں، جبکہ تیسری ہر فرد کی صواب دید اور اجتہاد پر مبنی ہے اور چوتھی حالت بالاتفاق حرام اور ممنوع ہے۔
مثال کے طور پر اگر بعض فاسق وفاجر لوگ جمع ہوکر کہیں شطرنج کھیل رہے ہوں، اس وقت اگر تم انہیں شطرنج کھیلنے سے روکتے ہو اور اس طرح انکارِ منکر کا فریضہ ادا کرتے ہو تو تمہارایہ رویہ دلیل ہوگا کہ تم مومنانہ بصیرت، داعیانہ فراست اور تفقہ فی الدین سے خالی ہو۔ البتہ اگر تم یہ کرو کہ ایسے فاسقوں اور فاجروں کو شطرنج سے ہٹا کر کسی ایسے مشغلے میں لگا دو جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو پسند ہے جیسے کہ تیر اندازی ہے یا گھڑدوڑ وغیرہ کی تفریحات ہیں، تو انکارِ منکر کا یہ انداز درست ہوگا۔ اسی طرح اگر تم دیکھو کہ کچھ فساق وفجار جمع ہوکر کوئی کھیل کھیل رہے ہیں یا سیٹیاں اور تالیاں بجا رہے ہیں، اگر تم ایسے لوگوں کو اپنی نکیر کے ذریعے نیک کام میں لگا سکو تو ایسا جائز اور شرعاً مطلوب ہے، ورنہ بہتر یہ ہے کہ انہیں ان کی اسی حالت پرچھوڑ دیا جائے تاکہ یہ لوگ اس میں مصروف رہیں اور اس سے فرصت پاکر کسی دوسرے بڑے گناہ کا ارتکاب نہ کریں جس سے وہ صرف اس لیے باز ہیں کیونکہ ابھی وہ کھیل تماشے میں مصروف ہیں۔
میں (یعنی علامہ ابن القیمؒ ) نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ سے سنا ہے کہ وہ اور ان کے بعض ساتھی تاتاریوں کی یورش کے زمانے میں کہیں جارہے تھے۔ ان کا گزر تاتاریوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا جو کھلے عام پبلک جگہ پر بیٹھے شراب نوشی کر رہے تھے اور گندے گندے مذاق کر رہے تھے۔ استاد امامؒ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں میں سے بعض لوگوں نے ان کو اس برائی سے روکنا چاہا تو میں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا او رکہا کہ یقیناًاللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام کیا ہے کیونکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے، مگر جن لوگوں کو تم شراب نوشی سے روکنا چاہ رہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ شراب کی مدہوشی انہیں انسانی خون بہانے سے، بچوں کو قیدی اور غلام بنانے سے اور مالوں کی لوٹ مار کرنے سے روکتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور نکیر نہ کی جائے۔‘‘ (إعلام الموقعین عن رب العالمین، ابن القیمؒ :3/40)
دینی فہم وبصیرت کا یہ نہایت نازک مقام ہوتا ہے اور انکارِ منکر کے حوالے سے اس کی رعایت کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیرمسلم ممالک میں منکرات ومعاصی کا مشاہدہ کرنے کے علی الرغم، ان پر نکیر کرنا یا انہیں ہاتھ اور زبان سے مٹانے کے درپے ہونامناسب نہیں ہوتا، کیونکہ کسی ایک مسلم فرد یا جماعت کے اس اقدام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ سکتے ہیں، نفرتیں بڑھ سکتی ہیں اور قانونی طور پر نہی عن المنکر کرنے والے کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور دہشت گرد یا فنڈامینٹلسٹ بتاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے میں سڑایا جاسکتا ہے اور ناقابلِ تصور ٹارچر کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح غیر اسلامی ملکوں میں ہاتھ اور زبان سے انکارِ منکر کرنے سے ایسی برائیاں ظہورپذیر ہو سکتی ہیں جن کا وجود مسلم کمیونٹی کے لیے اُن برائیوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو جن پر نکیر کی گئی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ کسی بھی غیر اسلامی ملک میں نظامِ سلطنت وحکومت غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور کسی مسلمان فرد یا جماعت کے بس میں نہیں ہوتا کہ ہاتھ اور زبان کی طاقت استعمال کرکے کسی منکر کا خاتمہ کر سکے، چنانچہ عدمِ استطاعت کی صورت میں وہاں انکارِ منکر فرض نہیں ہوتا، بلکہ ساقط ہوجاتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والوں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ انکارِ منکر کے نتیجے میں جتنی بڑی برائی رونما ہوگی، اسی قدر یہ انکارِ منکر غلط اور ممنوع ہوجائے گا۔
اس بارے میں علامہ ابن القیم کی بات بڑی گہری دینی بصیرت کا پتہ دیتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اللہ کے نبیﷺ نے اپنی امت کے لیے انکارِ منکر کا فریضہ مشروع کیا ہے تاکہ برائیوں کے بدلے ایسی بھلائیاں فروغ پاسکیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو محبوب ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کسی موقعے پر انکارِ منکر کے نتیجے میں زیادہ بڑی برائی اور اللہ اور رسولﷺ کو زیادہ ناپسندآنے والا شر پیدا ہو رہا ہے تو انکارِ منکر کرنا درست نہیں ہوگا، حالانکہ دل سے ہم پھر بھی یہی مانیں گے کہ اس برائی میں ملوث افراد اللہ کے مبغوض اور ملعون بندے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ظالم بادشاہوں اور جابر گورنروں کی غلط کاریوں پر تنقید کرنے کے لیے بغیر مکمل تیاری کیے ان کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یقیناًمسلح بغاوت اور انقلاب کا یہ راستہ ہمہ گیر فتنے وفساد اور متنوع شرور وآفات کے ظہور کا راستہ بنتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں جتنے بھی چھوٹے بڑے مسلح فتنے اور خانہ جنگیاں برپاہوئی ہیں ان میں سے بیشتر کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے انکارِ منکر کی راہ میں اُس دینی حکمت ومصلحت کو نظر انداز کر دیا جسے ہم اللہ کے رسولﷺ کی سیرت وسنت میں دیکھتے ہیں۔ کسی نے برائی کو ہوتے دیکھا تو صبروضبط سے کام نہ لیا اور اسے مٹانے کی کوشش کر ڈالی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اور زیادہ بڑی برائی پیدا ہوگئی۔ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت دیکھیے، مکے میں سب سے بڑی برائی اور سب سے بھیانک آفت شرک کا وجود تھا، آپﷺ دن رات شرکیہ عبادات واعمال کو بہ چشمِ خود دیکھتے تھے، مگر انہیں بہ زورِ بازو مٹانے کی کوشش نہیں فرماتے تھے، کیونکہ بہ زورِ بازو برائی کو مٹانا اس وقت تک آپﷺ کی استطاعت میں نہیں تھا۔
حد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مکہ مکرمہ کو اسلام کے لیے مفتوح کرلیا اور وہ دار الکفر کے بجائے وہ دار الاسلام اور مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، اس وقت آپﷺ نے چاہا کہ خانۂ کعبہ کو موجودہ غلط شکل سے ہٹا کر دوبارہ انہی بنیادوں پر تعمیر کردیا جائے جو حضرت ابراہیمؑ نے رکھی تھیں اور جن کے مطابق انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تھی۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ عہدِ جاہلیت میں سیلاب کی وجہ سے خانۂ کعبہ کی عمارت ڈھے گئی تھی، کفارِ قریش کے پاس جائز آمدنی کا اتنا پیسہ نہ تھا کہ پوری عمارت دوبارہ تعمیر کر پاتے۔ چنانچہ انہوں نے ادھوری عمارت تعمیر کی اور خانۂ کعبہ کا ایک حصہ بغیر تعمیر کیے خالی چھوڑ دیا جسے ’’حطیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپﷺ اسی غیر مسقف حصے کو مسقف بنانا چاہتے تھے اور خانۂ کعبہ میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ مگر آپﷺ اپنے اس ارادے سے باز رہے، حالانکہ آپﷺ چاہتے تو اب بہ زورِ قوت وطاقت ایسا کر سکتے تھے۔
آپﷺ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ کیونکہ آپﷺ کو اندیشہ تھا کہ قریش جو ابھی حال ہی میں حلقہ بہ گوشِ اسلام ہوئے ہیں وہ اپنے دینی معبد اور مذہبی قبلے میں اتنی بڑی تبدیلی غالباً برداشت نہ کرسکیں گے۔ یہاں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ آپﷺ نے اُن سے فرمایا تھا: ’’اے عائشہؓ!اگر تمہاری قوم ابھی جلد ہی جاہلیت سے نہ نکلی ہوتی تو میں خانۂ کعبہ کو منہدم کراتا اور وہ حصہ بھی اس میں شامل کر دیتا جسے باہر نکال دیا گیا ہے، اور اسے (بجائے سطحِ زمین سے اونچا رکھنے کے) زمین سے ملا دیتا اور مشرق ومغرب میں اس کے دو دروازے بنا دیتا، تاکہ خانۂ کعبہ مکمل طور سے انہی بنیادوں پر استوار ہوجائے جن پر حضرت ابراہیم نے اُسے اٹھایا تھا۔‘‘ [یا عائشۃ لولا أن قومک حدیثوا عہد بجاہلیۃ لأمرت بالبیت فہدم فأدخلت فیہ ما أخرج منہ وألزقتہ بالأرض وجعلت لہ بابین بابا شرقیا وبابا غربیا فبلغت بہ أساس إبراہیم] (صحیح بخاریؒ :1586) یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے امراء وسلاطین کی برائیوں پر ہاتھ سے یعنی قوت کا استعمال کرتے ہوئے نکیر کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایسی ایسی برائیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں جو یقینی طور پر موجودہ برائیوں سے کہیں زیادہ سنگین اور مضرت رساں ہونگیں۔‘‘ (دیکھیں إعلام الموقعین، ابن القیمؒ :3/40)
بالکل اسی طرح اگر یقینی طور پر معلوم ہوجائے یا غالب گمان ہوکہ انکارِ منکر کے نتیجے میں کوئی دینی مصلحت حاصل نہیں ہو سکے گی یا برائی میں ملوث افراد باوجود سرزنش وانکار کے اپنی برائی پر ہی اڑے رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ برا مان کر احکامِ شریعت کا مذاق اڑانے لگیں، تو ایسے میں انکارِ منکر کا فریضہ ساقط ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں امام عزؒ بن عبدالسلام لکھتے ہیں:’’اگر بھلائی کا حکم دینے والا، یا برائی سے روکنے والا فرد یقین یا ظنِ غالب کی حد تک یہ جان لے کہ اس کے امرونہی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا اور کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہ ہوگا، تو نہی عن المنکر کی ذمے داری اس سے ساقط ہوجاتی ہے، گرچہ ہم کہیں گے کہ سقوطِ فرضیت کے باوجود بھی اس کے حق میں انکارِ منکر پر عامل ہونا مستحب اور شرعاً پسندیدہ امر مانا جائے گا۔ اس حالت میں فریضۂ انکارِ منکر کے سقوط کی وجہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک وسیلۂ محض ہے قیامِ خیر اور ازالۂ شر کا۔ اب اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ ایک خاص موقعے پر یہ مقاصد اس وسیلے سے حاصل نہیں ہو سکیں گے تو یہ وسیلہ اس وقت ساقط الاعتبارہوگا۔ خود اللہ کے رسولﷺ عہدِ مکی میں مسجد الحرام میں داخل ہوا کرتے تھے اور وہاں غیر اللہ کے بتوں اور مورتیوں کو رکھا ہوا دیکھتے تھے، مگر اس پر کوئی عملی یا قولی نکیر نہیں فرماتے تھے۔ کچھ ایسا ہی حال سلفِ صالح کا بھی تھا کہ وہ بہت بار فاسقوں، فاجروں اور ظالموں کو ان کے فسق وفجور اور ظلم وطغیان پر سرزنش نہیں فرماتے تھے، حالانکہ وہ ان کے ظلم وستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ کیونکہ ان کی رائے یہ ہوتی تھی کہ ان کے انکارِ منکر سے مطلق کوئی نتیجہ، یا کم از کم کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔‘‘ (قواعد الأحکام فی مصالح الأنام، عز الدین بن عبدالسلامؒ :ص109)
محولہ بالا تفصیل کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیراسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر انکارِ منکر کا فریضہ ہاتھ اور زبان کی حد تک واجب نہیں ہوتا اور اس وقت تک واجب نہیں ہوگا جب تک کہ انہیں منکرات کے ازالے کی سیاسی وقانونی قوت وحیثیت حاصل نہ ہوجائے۔ ہم جس سیاسی وقانونی قوت کی بات کر رہے ہیں اس کے حصول کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ پورا ملک دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلامی نظامِ زندگی وہاں قائم ہوجائے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہاں کی حکومت کسی مسلمان کو ایسی سرکاری نوکری یا منصب دے دے جس میں اس کا کام ہی عام برائیوں کی، یا کسی خاص برائی کی روک تھام کرنا ہو۔ اگر صورتِ حال یہ ہو تو اس مسلمان پر واجب ہوگا کہ وہ قانونی حمایت اورسرکاری قوت کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ برائی کا قلع قمع کرے۔
اس کی مثال میں وہ تمام برائیوں پیش کی جاسکتی ہیں جنہیں ہر انسانی سماج میں قانونی جرائم سمجھا جاتا ہے جیسے کہ زناکاری، چوری، ڈکیتی یا ناحق دست درازی وغیرہ۔ اسی طرح اگر کسی غیر اسلامی ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی ہو اور قانونی طور پر برائیوں سے روکنے ٹوکنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو، اگر ایسے غیر اسلامی ملک میں کوئی مسلمان کسی برائی کو ہوتا دیکھے اور وہ برائی ایسی ہو جس کے برا ہونے پر سارے سلیم الفطرت انسان اتفاق رکھتے ہیں، تو زبان کی حد تک اس برائی پر نکیر کرنا مسلمان کے اوپر لازم ہوگا۔ اور اگر کسی ملک میں زبان اور ہاتھ سے انکارِ منکر کا قانونی جواز نہ پایا جائے تو وہاں رہنے والے ہرمسلمان پر واجب ہوگا کہ دل سے برائیوں کو برا جانے اور انہیں مٹانے کی خواہش اور آرزو کو اپنے سینے میں زندہ وفروزاں رکھے۔
جس طرح اس وجہ سے انکارِ منکر کا فریضہ ساقط ہوجاتا ہے کہ مسلمان کو یقین تھا یا ظنِ غالب تھا کہ روکنے کے باوجود منکرات انجام دینے والے لوگ باز نہیں آئیں گے، اسی طرح اس وقت بھی انکارِ منکر کا فریضہ ساقط ہوجاتا ہے جب یقین یا ظنِ غالب یہ ہوجائے کہ ایسا کرنے پر موجودہ برائی سے زیادہ بڑی اور زیادہ خطرناک برائی رونما ہوجائے گی۔ اس اصول پر چلتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی غیراسلامی ملک کی مسلمان اقلیت کے لیے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر یہ جائز نہیں ہوتا کہ وہ وہاں کی کافر حکومت کے خلاف بغاوت کرے، یا وہاں کوئی مسلح انقلاب لانے کی کوشش کرے، حالانکہ وہ جانتے ہوں کہ موجودہ حالات اور ممکنہ وسائل کی بنیاد پر وہ ہرگز ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے۔ کافر حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح بغاوت کی حرمت اس لیے ہے کیونکہ اس طرح کے اقدام سے جو بد نتائج رونما ہونگے اور جس طرح وہاں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے، تعذیب (ٹارچر) اور نسل کشی کی آفتیں ڈھائی جائیں گی وہ سب کچھ ناقابلِ برداشت ہوگا اور نہ جانے کتنے کمزور ایمان والے اس سے بچنے کے لیے ارتداد کا سہارا لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ ہمارا موقف ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

تبصرے بند ہیں۔