اسلام اورہندو ازم کی مشترکہ اقدار

یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہندوستان مختلف ادیان ومذاہب ،اور تہذیب وثقافت کی آماجگاہ ہے،سرزمین ہند نے سینکڑوں رشیوں،منیوں،مبلغین واعظین اورمذھبی شخصیات کو جنم دیاہے۔انھوںنے اپنی تعلیمات کے ذریعہ ہندوستان کی روحانیت اورمذہبی حیثیت کو پورے عالم میں متعارف کرایاہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ہرمذہب کاطریقہ اوراس کی رسم ورواج ،مذہبی اقدارو تعلیمات ایک دوسرے سے جداہیں، اس وجہ سے جوجس مذہب سے وابستہ ہوتاہے وہ اپنے عقائد ونظریات اوراپنے مذہب ودین کے مطابق زندگی گزارنے میں فخر محسوس کرتاہے،کوئی فرد دوسرے دین کی رسوم یااس کے افکار وخیالات کواپنی نجات کاذریعہ نہیں مانتاہے،البتہ مذاہب وادیان کاباہم احترام وتقدس ہرطبقہ کی اولین ذمہ داری ہے،ساتھ ہی اس بات کابھی خیال رہے کہ مذہب کے متعلق معاشرہ میں منفی فکرپروان نہ چڑھنے پائے،جب رواداری کی قدریں سماج میں بحال ہونگی تویقینا معاشرہ میں امن وامان بھائی چارگی اورگنگاجمنی تہذیب کافروغ ہوگا ،کیونکہ آج ہندوستانی معاشرہ کومتحد کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ہندوستان جیسے عظیم ملک کی خوبصورتی کارازبھی اسی میں مضمرہے۔ لہٰذا ہرشخص کواپنی فکر کے اعتبار سے آزادرہنے کاحق حاصل ہو،چاہے وہ کسی بھی مذہب کی تعلیمات وآراء سے اپنی زندگی کوآراستہ کرے اوراپنی پسند کے مطابق کی تعلیمات سے اپنے معاشرہ ،زندگی کوخوشگواربنائے۔

رواداری کے فروغ نے، گنگاجمنی تہذیب کا امتزاج،اخوت وبھائی چارگی ،بقائے باہم ادیان کے تحفظ وصیانت کی تابناک روایات نے ہندوستانی سماج کوایک قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے،یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ ہندوستان کی آغوش میں سامی ادیان،(Semitic Religion )(اسلام عیسائیت ،یہودیت)اورNon Semitic Religion غیر سامی ادیان ،جین ،بدھ، سکھ اورہندو) خوب برگ وبارلارہے ہیں۔ان ادیان میں ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک میں ہندوازم اوراسلام کے ماننے والوں کی تعداددیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔لہٰذا ان دونوںمذاہب کی مشترکہ اقدار کامطالعہ اور ان سے سماج کو آشناکرانا عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔

دور حاضر میں تقابل ادیان اور اس کی اہمیت وافادیت سے قطعی انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔’’ اسلام اورہندوازم کی مشترکہ اقدار کاتقابلی مطالعہ‘‘ایک حساس موضوع ہے مجھے یقین کامل ہے کہ اس کے ذریعہ دونوں مذاہب کے متبعین کے درمیان توازن وہم آہنگی اورہندومسلم بھائی چارگی کی خوشگوار راہ استوار ہوگی۔ساتھ ہی ساتھ مسلم اور ہندو معاشرہ میں ایک دوسرے کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کودورکرنے میںبھی اہم کردار اداکریگا۔

اسلام اورہندوازم کاتعارف

اسلام کاتعارف

اسلام عربی زبان کالفظ ہے سلم اورسِلم دونوں سے ماخوذ ہے ،اس کے معنی بالترتیب امن اورخود کواللہ کے سامنے سپرد کردیناہیں۔یہاں یہ بتانابھی ضروری ہے کہ اسلام کوئی نیامذہب ودھرم نہیں ہے،بلکہ یہ تصور غلط ہے کیونکہ اس مذہب کے آخری پیغمبر محمدﷺ ہیں۔

شرعی طورپر اسلام میں داخل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ درج ذیل احکام پر ایمان لائے۔

۱-توحید،۲-رسالت،۳- کتابوں،۴-فرشتوں،۵-آخرت،۶-قضاء وقدر۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’لَیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ‘‘۔ (سورۃ بقرہ،آیت نمبر:۱۷۷)

’’نیکی یہ ہی نہیں ہے کہ ہم منھ کرلیں مشرق یامغرب کی جانب ،بلکہ نیکی یہ ہیکہ ایمان لائیں اللہ پر،قیامت کے دن پرفرشتوں پر ،کتاب اللہ پر اورنبیوں پر‘‘۔

اس کے علاوہ حدیث میں وارد ہوا:

’’قال فاخبرنی عن الایمان قال ان تومن باللہ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ‘‘۔۱؎

’’ایک شخص محمدﷺ کے پاس آیا،اس نے کہا ائے اللہ کے رسول! ایمان کیاہے رسولﷺ نے جواب دیاکہ تم ایمان لائو اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اسکی کتابوں پر اس کے رسولوں پر اوریہ کہ تم ایمان لائو روز حشر پر یعنی آخرت پر اورتم ایمان لائو اچھی اوربری تقدیر پر‘‘  ۔

اس مختصرتعارف کے بعد اب مناسب سمجھتاہوں کہ ہندوازم کابھی مختصر تعارف پیش کردیاجائے۔

ہندوازم کاتعارف

محققین بتاتے ہیں کہ ہندوازم کی جامع تعریف پیش کرنے میں خودہندو علماء میں اختلاف ہے،کوئی کہتاہے کہ:

’’ہندومذہب وہی ہے جوایک ہندوکرتاہے‘‘۔۲؎

کسی کاکہنا یہ ہے کہ:

’’وہ ان رسوم ،عبادات،عقائد ،روایات اور صنمیات (Mythology ) کامجموعہ ہے جن کوبرہمنوں کی تعلیمات نے پھیلایاہے‘‘۳؎۔

حتیٰ کہ ایک مستشرق اسکالر نے یہ بھی کہاہے:

’’آپ یہ سمجھ لیں کہ ہندازم کابانی ایک بہت بڑاگروہ ہے جس کی شخصیات تاریکی میں چھپی ہوئی ہیں‘‘۴؎۔

ان تمام چیزوں کے باوجود ہندوازم کے متعلق یہ کہنا قرین قیاس معلوم ہوتاہے کہ وادیٔ سندھ کی دوتہذیبیں (موہنجوداڑااورہڑپا)کی کھدائی میں جو آثا روشواہد دستیاب ہوئے ہیں ۔ان کی روشنی میں بلاشبہ جس قبل از آریہ قوم کے وجود کاسراغ ملتاہے وہ دراوڑی قوم ہے ،جس نے بعض سیاسی ،معاشرتی اورتمدنی احوال وکوائف کااسیر بنتے ہوئے اپنے وطن کو خیبر آباد کہا،اور شمال کے خطۂ سندھ میں بودوباش اختیار کی،نیز اپنی جانفشانیوں ،قربانیوں اورزندہ قوم کی دیگر خصوصیات سے مزین ہوکر ہندوستان کے دیگر اطراف کو اپنامسکن بنایا۔

دراوڑیوں کااصل مولدکہاں تھا ،وادی ٔ سندھ کی کھدائی سے جومعلومات حاصل ہوئیں ہیں۔ان سے ان کاصحیح تعین ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے،البتہ باختلاف علماء ومورخین مغربی ایشیا ئ۵؎یا بحر روم ۶؎کو ان کاآبائی وطن قراردیاجاسکتاہے۔اسی کے ساتھ یہ بتانابھی ضروری ہے کہ برہمنی مت یاویدک دھرم موجودہ ہندوازم کی قدیم ترین یابالکل ابتدائی شکل ہے،۷؎۔نیز اسے سناتن دھرم کابھی نام دیاجاتاہے تاریخی ماخذ کے مطابق پندرہ سو(۱۵۰۰ق م) سے لے کر چارسو (۴۰۰ ق م) تک دورکوآریوں کو عروج کی حیثیت حاصل ہے ،اوراسی زمانہ کو ویدک دھرم یابرہمن مت  دورسے تعبیر کیاجاتاہے۔۸؎

ہندوازم کے عقائد کے تعلق سے خودہندو علماء نے کوئی یقینی بات نہیں کہی ہے چنانچہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے الفاظ اس طرح ہیں :

Hinduism as a faith is vague,amorphous, many sided, all things to all men ,it is hardly possible to define it,or indeed to say definitely whe- -ther it is religion or not,in the usual sense of the word,In its present form,and even in the past,it embraces many beliefs and practices,from the highest to the lowest,often opposed to or contradicting each other

’’ہندومذہب ایک عقیدہ ومذہب کی حیثیت سے غیر واضح،مشتبہ اورمختلف النوع پہلو ئوں کا حامل ہے۔وہ تمام انسانوں کے لئے سب طرح کی چیز فراہم کرتاہے۔اس کی تعریف بیان کرنا یامذہب کے عام مفہوم اورمتعین معنیٰ کے اعتبار سے اسے مذہب کانام دینا یانہ دینا بہت مشکل سے ہی ممکن ہے۔وہ ماضی میں بھی اورزمانہ حال میں بھی پستی وبلندی کی اتنہاء کو چھونے والے معتقدات واعمال پر مشتمل ہے،جن میںبسا اوقات تضاد وتصادم بھی نظرآتاہے‘‘۔۹؎

اسی طرح گاندھی جی ہندوازم کے معتبر ترین علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔یہ اپنی کتاب ہندودھرم میں لکھتے ہیں۔

In my opinion the beauty of hinduism lies in its all embracing inclusiveness.what the divine author of Mahabharata said of his great creation is equally true of Hinduism,what Substance is contained in any other religion is always to be found in Hinduism and what is not contained it,is unsubstantial or unnecessary .

’’ہندوازم حسین ودلکش مذہب ہے اوراس کاحسن اس بات میں مضمرہے کہ وہ ہرعقیدہ خیال پر حاوی ہے،مہابھارت کے مصنف نے اپنی عظیم تصنیف کے بارے میں جو کچھ کہاہے وہ سب ہندوازم کے بارے میں سچ ہے ۔کسی بھی مذہب میں جو جوہر پایا جاتاہے وہ ہندومت میں ہمیشہ موجود ہے اورجو کچھ ہندومت میں نہیں ہے وہ یاتو کمزور وغیر مستحکم ہے یاغیر ضروری ہے‘‘۔۱۰؎

مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ ہندوازم ایک مجہول جولان گاہ ہے،مگر ایک تہذیب اوررسم وراوج کاعلمبردارہے اورہندودھرم ایک قدیم ترین دھرم ہے،ہندومؤرخین نے اس کے تین اہم ادوارتاریخی صفحات پر درج کئے ہیں۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

پہلا دور:-آریوں کی آمد (۲۰۰۰ ق م-۱۵۰۰ ق م)

دوسرا دور:-ویدی عہد (۱۵۰۰ ق م-۱۰۰۰ ق م)

تیسرادور:-عہد عروج ۔(۱۰۰۰ق م-۳۲۰ق م)

ضمناً یہ بھی بتادوں کہ ہندو ازم جن مقدس ترین کتب پرمبنی ہے ان میں سے ایک قسم ’’شرتی‘‘اوردوسری’’سمرتی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔شرتی الہامی کوکہاجاتاہے۔وید کو الہامی ماناجاتاہے ، اس کے علاوہ دیگر مقدس کتب کوسمرتی میں شامل کیاگیاہے۔

 اس مختصر تعارف کے بعد ضروری ہے کہ دونوں مذاہب کی مشترکہ باتوں اور تعلیمات واقدار پر روشنی ڈال دی جائے،الغرض دونوں مذاہب بہت حدتک اختلاف پر مبنی ہیں مگر اکثروبیشتر مقامات یکسانیت ومماثلت سے بھی خالی نہیں ہیں۔اس بناء پر دونوں مذاہب کامطالعہ اس نقطۂ نگاہ سے اہمیت وافادیت کاحامل ہے۔

مذہبی اقدار میں مماثلت

 ۱۔عقائدمیں مماثلت

مذہبی معاملات میں سب سے مقدم شی عقائد ہیں،عقائد میں توحید ،یعنی اللہ رب العزت کوایک جاننااوردل سے تسلیم کرنا۔اسلام میں سب سے زیادہ واضح جامع اوربہتر انداز میںتوحید کی تعریف قرآن کی سورہ اخلاص میں پیش کی گئی ہے۔

قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ 0 اللَّہُ الصَّمَدُ 0 لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ 0 وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ 0سورہ اخلاص،آیت نمبر:۱تا ۵۔)

’’آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اکیلاہے،اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،نہ اس سے کوئی پیداہوا نہ وہ کسی سے پیداہوااورنہ اس کاہمسر‘‘۔

دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہے۔

 قُلِ ادْعُواْ اللّہَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَیّاً مَّا تَدْعُواْ فَلَہُ الأَسْمَاء  الْحُسْنَی(سورۃ بنی اسرائیل:آیت نمبر۱۱۰)

’’کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کرپکارویا رحمٰن کہہ کر ،جس نام سے بھی پکاروگے تمام اچھے نام اس کے ہیں ‘‘.

اسلام کے اس عقیدۂ توحید سے وابستہ عقیدہ ہندوازم میں بھی پایاجاتاہے۔

ایکم ایودویتم۱۱؎

ُ’’وہ صرف ایک ہے بغیر کسی دوسرے کے‘‘۔

ہندوازم کی معتبر ترین کتاب بھگوت گیتا میں توحید باری تعالیٰ کاتصور اس طرح پیش کیاگیاہے۔

ناتاسیاپراَتماآستی ۱۲؎،’’اس جیساکوئی نہیں ہے‘‘۔ایک اور مقام پرارشاد ہے:

’’اس کا کوئی جسم نہیں ہے،وہ خالص ہے ‘‘۱۳؎۔

اس کے علاوہ اوردیگر ہندو مقدس کتب وصحائف میںخداکی وحدانیت کاتذکرہ موجود ہے۔رسالت کے سلسلہ میں بھی دونوں مذاہب میںممکنہ حدتک یکسانیت کی تعلیمات ملتی ہیں چنانچہ قرآن میںمذکور ہے۔

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء  رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ(سورہ یونس ،آیت:۴۷)

’’ہرامت کیلئے ایک رسول ہے،سو جب ان کارسول آچکتاہے،ان کافیصلہ انصاف کے ساتھ کیاجاتاہے اور ان پر ظلم نہیں کیاجاتاہے ‘‘۔

وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ(سورۃ فاطر:۲۵)

’’اور، کوئی امت ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی ڈرسنانے والانہ گزراہو‘‘۔

ان کے علاوہ اوربھی متعددمقامات پر اسلام میں تصوررسالت کوواضح انداز میں پیش کیاگیا ہے،نیز یہ بھی بتایاگیا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کیلئے توحید کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت پرایمان ویقین رکھنا جزولاینفک ہے۔

اسلام کے اس اساسی عقیدہ سے ملتاجلتا نظریہ ہندوازم میںبھی موجودہے۔ہندوازم کی تعلیمات کے مطابق  اوتار کاعقیدہ پایاجاتاہے جو رسالت کے معنیٰ میں استعمال کیاجاتاہے ،اوتار سنسکرت کی اصطلاح ہے۔اَئو ’AV ‘ کامطلب نیچے اور’تَر‘ Trکا مطلب چھوڑناہے۔اس طرح اوتار کامطلب ہوانیچے اترنایاآنا۔

البتہ ہندوازم کی مقدس ترین کتب میں اوتارکاتذکرہ نہیں پایاجاتاہے۔رسول کاتذکرہ پایاجاتاہے۔

’’ائے بھارنا! جب جب نیکی کازوال ہوگا اوربدی عام ہوگی ،میں اپنے آپ کو ظاہر کرونگا۔بھلائی کے تحفظ کیلئے ،شیطانوں کی تباہی کیلئے اورنیکی قائم کرنے کیلئے میں ہرزمانہ میں پیداہوتارہوں گا‘‘۔۱۴؎

یہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ ہندوازم میںبھی رسالت کاتصورموجود ہے،مگر عام ہندئوں کایہ عقیدہ ہے کہ خدادین ومذہب کی حفاظت کرنے۔قوانین وغیرہ کے نفاذ کیلئے زمین پر کسی جسمانی شکل میں نازل ہوتاہے ۔

عبادت کے متعلق بھی اسلام میں بیشتر مقامات پر احکام نازل ہوئے ہیں،اسلام میں دوطرح کی عبادتیں پائی جاتی ہیں جسمانی عبادت ،مالی عبادت۔

ہندو ازم میں عبادت کاتصوربھی بہت حدتک اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے، نیز ہر مذہب میں عبادت کا نظریہ پایا جاتاہے اوروہ طریقۂ کار اس مذہب کے پیرو کاروں کی فکری اورمعاشرتی زندگی کاآئینہ دار ہوتاہے ۔ عبادت ہرفرد کااپنے رب اورمعاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ عملی تعلق کااظہار ہے۔اس لئے کسی بھی مذہب کاعبادات کے بغیر تصور نہیں کیاجاسکتاہے ۔ اسلام اورہندو ازم میں عبادات کانظریہ کیاہے اس کی بھی ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

 ۲۔عبادت میں مماثلت

عربی لغت میں عبادت کامادہ (Root )’’ع ب د‘‘ ہے جو نہایت خضوع کے ساتھ عبادت کوکہتے ہیں ،ابن منظور نے عبادت کا معنی ومفہوم یہ بیان کیاہے۔

اللہ کابندہ جو اس کی عبادت کرے،اور’’ التعبد‘‘ بندگی جبکہ عبادت اطاعت کوکہتے ہیں ۔اور’’زجاج‘‘ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول’’ایاک نعبد‘‘ کے بارے میں کہاہے ہم اطاعت کرتے ہیں ،ایسی اطاعت جس میں خضوع ہو ،اور ’’ابن سیدہ‘‘ نے کہاہے کہ لغت میں عبادت کی اصل تذلیل ہے اورعبادت ،خضوع اوراستکانہ قریب المعانی ہیں۔اور ہر وہ خضوع جس کے اوپر کوئی خضوع کادرجہ نہ ہو تووہ عبادت ہے پھر یہ عام ہے کہ اطاعت معبود کی ہو یاکسی اورکی ،ہر وہ اطاعت جو اللہ رب العزت کی ہو خضوع اورتذلل کے ساتھ ہو تویہ عبادت کے زمرہ میں شامل ہے۔

اسلام میں ہر اس عمل کو عبادت کادرجہ دیاجاتاہے جوصرف اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کیاجائے ،اس کے ساتھ کسی کوبھی اس درجہ میں شریک نہ کیاجائے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایاہے۔

’’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (0) حُنَفَاء  لِلَّہِ غَیْْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہِ وَمَن یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء  فَتَخْطَفُہُ الطَّیْْرُ أَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ‘‘(سورۃ حج ،آیت نمبر:۳۰۔۳۱)

’’سوبتوں کی گندگی سے بچتے رہو۔جھوٹی بات سے،ایک اللہ کی طرف ہوکر رہو،نہ اس کے ساتھ شریک بناکر،اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا،سو جیسے وہ گرپڑا آسمان سے اورپرندے اس کواچک لیتے ہیں یاہوانے اس کو کسی دورمکان پر جاڈالا‘‘۔

اسلام میں عبادت کا بنیادی مقصد رضائے رب ہے،اگر عبادت کے ذریعہ سے خداراضی نہ ہوتووہ عبادت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ذیل میں تصورعبادت ہندوازم کی تعلیمات کے حوالہ سے رقم کیاجارہاہے ،ہندوازم کے مقدس ماخذ میں مذکورہے کہ ہندوازم میں عبادت کامترادف لفظ’’اپا سنا‘‘ ۱۵؎،استعمال ہوتاہے۔یہ دوالفاظ’’ اپ‘‘ اور’’اسن‘‘ کامرکب ہے۔’’اپ‘‘ کے معنی سنسکرت میں قریب اور’’اسن‘‘ ہونے یابیٹھنے کوکہتے ہیں ۔یہ لفظ اپ اپنیشد میں بھی اس معنی میں استعمال ہوا۔اس کے علاوہ ہندئوں کی مذہبی رسم’’اپنیئن‘‘(رسم زناربندی یاجتیو پہنانے کی رسم) میں بھی اپ کامعنی قریب ہوتاہے۱۶؎۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہندو مذہب میں ’’اپاسنا‘‘ ہر اس قول وفعل کانام ہے ،جس سے ’’برہما‘‘یا’’بھگوان‘‘ کی قربت حاصل کیجاسکتی ہے ۔اس کے اندروسیع معنی پائے جاتے ہیں ۔ویدوں میں عبادت کاتصور اس طرح بیان کیاگیاہے۔

ائے پرمیشور!توعلیم کل ،صفات سے موصوف ،منورپرجلال ہے،مجھے بھی تیج یعنی علم ومعرفت اورجاہ وجلال عطاکر۔اے پرمیشور!توہی غیر متناہی قوت والاہے۔اپنی عبادت سے مجھے بھی جسم ودماغ کی قوتیں دلیری ،چستی اورہمت واستقلال عطاکر۱۷؎۔

اسی طرح دوسری جگہ بیان کیاگیاہے۔

ائے فطرت کے دیوتا! جب میں گناہ کامرتکب ہوتاہوں تومیں تیری پنا ہ تلاش کرتاہوں ،تمہارے قوانین نہ ہلنے والے پہاڑکی مانند ہیں تواپنے قوانین کوچھپاکر نہیں رکھا میں نے تمہارے ان ہی قوانین پر زندگی استوار کی ہے۔۱۸؎

مختصر یہ کہ ویدک تعلیمات کے مطابق ’’اپاسنا ‘‘معبود کے سامنے عجزوانکساری کااظہار اورمددونصرت کاذریعہ ہے یہی مقصد اسلام میںبھی عبادت کا ہے، مگراب عابد ومعبود کافرق بدل چکاہے،اور عبادت کی صحیح تصویر کارخ بھی بہت حد تک مذہبی تعلیمات سے ہٹاہواہے۔

سماجی تعلیمات میں مماثلت:-

سماج ہر انسان کی ضرورت ہے بغیر اس کے انسانی زندگی کاتصور محال ہے انسان سماج میں رہتے ہوئے اچھے یابرے کام کرتاہے ۔جبکہ مذاہب کی تعلیمات کے مطابق سماج صالح صحتمند ہو،ذات پات ،رنگ ونسل کا کوئی فرق نہیں پایاجاتاہواسلام اور ہندو ازم نے بھی پاکیزہ معاشرہ کے لئے کچھ اصول وضوابط متعین کئے ہیں۔سطورذیل میں اس کی چند نظیریںپیش ہیں۔

قرآن میں مذکور ہے:

 ’’أَرَأَیْْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ 0 فَذَلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ 0 وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ‘‘ (سورۃ ماعون،آیت نمبر:۱-۳)۔

’’کیاتونے (اسے بھی) دیکھا جو روز جزا کوجھٹلاتاہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتاہے۔اور مسکین کوکھلانے کی ترغیب نہیں دینا ‘‘۔

اسی طرح رگ وید میں مذکورہے:

’’وہ آدمی جس کے پاس بہت ساراکھاناہے،اگر کوئی مسکین اورحاجت مند بڑی بے کسی کی حالت میں اس سے محض روٹی کاایک ٹکڑا مانگنے آتاہے تواس کے خلاف اس کادل سخت ہوجاتاہے۔یہاں تک کہ اگر کبھی اس نے اسکی خدمت بھی کی ہے تب بھی اسے کوئی آرام پہنچانے والا نہیں ملتا‘‘۔۱۹؎

اسی طرح شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں اسلام اورہندوازم دونوں میں یکساں طورپر ممانعت کے شواہد موجود ہیں۔

قرآن میں مذکورہے:

’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ‘‘(سورہ مائدہ،آیت نمبر:۹۰)

’’ائے ایمان والو! پاپ یہی ہے کہ شراب اورجوااورتھان اورفال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں اورشیطانی کام ہیں ،ان سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کامیاب ہو‘‘۔

ہندو ازم کی مقدس کتاب منوسمرتی میں مذکور ہے۔

کسی دینی پیشواکو مارنے والا،شراب پینے والا،چوری کرنے والا اور اپنے پیرو مرشد کی بیوی سے ہم بستری کرنے والا،یہ سب کے سب اوران میں سے ہر ایک کو پاپ کامرتکب خیال کیاجاناچاہئے۔۲۰؎

اس کے علاوہ ہندوازم کی دیگر کتب میں بھی شراب وجواکی ممانعت کے سلسلہ میں کثیر شواہد موجود ہیں۔

سماج میں توازن اورانصاف برقرار رکھنے کیلئے وراثت کاقانون بھی اہم کردار اداکرتاہے ۔اس کاتصور بھی اسلام اورہندوازم میں یکساںموجودہے ۔

اسلام میں تو تمام خاندان اوراہل وعیال کے سہام مقررکئے ہیں اورباضابطہ اسلامی تعلیمات میں اسے علم الفرائض کے نام سے جانا جاتاہے اس کی اہمیت کااندازہ اس سے بھی بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اسے نبی ﷺ نے نصف علم قراردیاہے اس بابت تفصیلات قرآن وحدیث میں واضح طورپر موجودہیں اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی صورت میں گناہ کامرتکب بتایاگیاہے۔

ہندوازم بھی اس بات پر زور دیتاہے۔ البتہ اس کاطریقۂ تقسیم کچھ اس طرح ہے ،ہندوازم والدین کی وفات کے بعدا ولاد کویہ اختیار دیتاہے کہ وہ یاتو مذہبی تعلیمات اورقواعد وضوابط کے مطابق جائداد کوباہم تقسیم کرلیں اوربڑے بھائی کے ماتحت ویسے ہی زندگی گزاریں جیسا کہ وہ اپنے باپ کے ماتحت گزارتے ہیں ۔اس صورت میں ساری جائداد بڑے بھائی کوملے گی اوروہ اپنے چھوٹے بھائیوں پر ویسے ہی خرچ کرے گا جیسا کہ ان کاباپ خرچ کرتارہاتھا۔۲۱؎

اس سے یہ انداز بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ دونوں مذاہب میں وراثت کاقانون موجود ہے ،البتہ طریقۂ تقسیم اوراصول وضابطہ میں فرق پایاجاتاہے۔

تقابل

متذکرہ سطور میں چند مثالیں پیش کی گئیں ہیں اگرہم ہندو ازم کے ماخذ کامطالعہ کریں توسینکڑوں مسائل اسیے ہیں جواسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں ۔اوران سے اس بات کی طرف اشارہ بخوبی ملتاہے کہ ان تعلیمات کے ذریعہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں اتحاد واتفاق کی روایت کوفروغ دیاجاسکتاہے،تبھی جاکر ہمارے معاشرہ میں امن وشانتی کی اقدار کی بحالی ممکن ہے ۔

دونوں مذاہب کااگرہم موازنہ اورتقابل کریں تویہ بات نکل کرسامنے آتی ہے کہ ہندوئوں کے یہاں ہر چیز خداہے اور مسلمانوں کے نزدیک ہر چیز خداکی ہے،صرف اس اضافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر اس اضافت کاتنازع ختم ہوجائے تو مسلم اورہندودونوں قومیں توحید کے سلسلے میں متحد ہوسکتی ہیں کیونکہ اسلام واضح طورپر تمام مذاہب کو کلمۂ سواء کی بنیاد پر اتحادکی دعوت دیتاہے ،قرآن میں ارشاد ہے ۔

’’تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء  بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ ‘‘(سورۃ آل عمران،آیت ۶۴)

’’آئو انصاف والی بات کی طرف جو ہم میں اورتم میں یکساں ہے ‘‘۔

عبادت کے معاملہ میں اسلام اورہندوازم میںتضاد کی حدتک اختلاف پایاجاتاہے ،مگر دونوں مذاہب مماثلت اوراتفاقات کے عناصر سے یکسر خالی نہیں ہیں۔ طریقۂ کار میںا ختلاف کی گنجائش ہے مگر دونوں مذاہب کامنشاء ایک ہی ہے۔وہ یہ کہ ایک برتر ذات کی حمد وثنا کیجائے،دونوں مذاہب کی عبادت کامشترکہ پہلویہی ہے۔

اس طرح لفظ’’عبادت‘‘اور’’اپاسنا‘‘ سے قربت معبود حاصل کیجاتی ہے اوراسلام میں بھی اسکی یہی روح ہے یعنی قربت الٰہی۔

رسالت /اوتار کے سلسلہ میں بھی کسی حدتک تطابق پایاجاتاہے ،مگر بعض علماء کاخیال یہ ہے کہ خداکااوتار حالت اضافت یانسبت کوظاہر کرتاہے اوراس کا حقیقی مطلب ایک ایسے انسان کانزول ہے جس کااللہ کے ساتھ مخصوص تعلق ہو، خداکے ذریعہ منتخب ایسے افراد کا تذکرہ ویدوں میں بھی متعدد جگہ ملتاہے ،پتہ یہ چلاکہ اسلام اورہندو ازم میں اس نکتہ پر بھی اشتراک ہے ،البتہ اس کو ماننے اورسمجھنے کافرق دونوں مذاہب میں جداہے۔

موضوع کی ضرورت

۱- اس سلسلہ میں یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ دور میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں کافی حدتک دوریاں پائی جارہی ہیں۔دونوں مذاہب کے افراد باہم دست وگریباں نظر آتے ہیںاس لئے ایسے سنجید ہ عنوانات پر علمی کام کرنا امن وامان کے فروغ اورجمہوری قدروں کی حفاظت کا اہم ذریعہ بن سکتاہے ۔

۲ -دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہرآدمی خواہ کسی بھی مذہب سے متعلق ہو،مذاہب کاتقدس وپاکیزگی اس کی زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی نعمت ہوتی ہے ،اور ہر فرد اپنے آپ کو مذاہب سے جو ڑ کرزندگی بسر کرنے میں عافیت وسکون محسوس کرتاہے ، کیونکہ اس کے لئے آخرت میں بہتر بدلہ ملتاہے اس لحاظ سے مذاہب وادیان کا مطالعہ اورتحقیق وتفتیش ضروری ہے۔

۳- مذاہب کے مطالعہ کی اہمیت کا ایک پہلو سماجی اورمعاشرتی ہے ،کیونکہ بغیر سماج کے زندگی نہیں گزاری جاسکتی ہے ،حتیٰ کہ ایک دوسرے کے مذہب وثقافت اورطریقۂ زندگی کو جانے بغیر سماجی زندگی بے نور ہوکر رہ جاتی ہے اوراتحاد واتفاق کاجذبہ میںفروغ پانے کے بجائے نفرت وانتشار پروان چڑھنے لگتاہے ،اس لئے ناگزیر ہوجاتاہے کہ مذاہب کی تاریخ اس کی معتبر وبزرگ ترین ہستیاں اورباہم مذاہب کی مشترکہ باتوں سے سماج کو آشنا کرایاجائے،تاکہ ایک دوسرے کے مذہب کی تعلیمات اورمذہبی شخصیات کوقدرکی نگاہ سے دیکھاجائے۔

مراجع

۱-الصحیح المسلم،کتاب الایمان۔

۲-سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ،الجہاد فی الاسلام، لاہور،ادارہ ترجمان القرآن ۱۸۸۱ئ؁،ص:۳۳۰۔

۳-ایضاً،ص:۳۳۱۔

۴-John clork Archer,the Great Religion of Modern world (ND)P-24

۵-راما شنکر ترپاٹھی،قدیم ہندوستان کی تاریخ (ترجمہ) ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ۱۹۸۰ئ؁،ص:۳۹۔

۶-جے کنیدی:جرنل آف دی رائل ایشیا ٹک سوسائٹی ،۱۸۹۸ئ؁ ،ص:۲۴۱۔

۷-پی ایل بھارگو:فنڈ امنٹلز آف ہندوازم ،نئی دہلی ۱۹۸۲ئ؁،ص:۲۔

۸-فلاحی: توقیر عالم،عظیم ہندوستانی مذاہب ،مطبع ایس،کے انٹر پرائزیزعلی گڑھ۲۰۱۵ئ؁،ص:۲۳۔

۹-جواہر لال نہرو،دی ڈسکو ری آف انڈیا ،الٰہ آباد ۱۹۴۵ئ؁،ص:۵۲۔

۱۰-ایم کے گاندھی ،ہندو دھرم ،نوجیون پبلشنگ ہائوس ،احمدآباد ۱۹۵۰ئ؁،ص:۴۔

۱۱-شاندوگیااپنشد باب ۶،فصل:۲،اشلوک ۱۔

۱۲-شوبتا سواتر اپنشد باب ۴،اشلوک ۹۔

۱۳-Yajuruveda,sumhit by Ralph 1.H Griffith .P-538

۱۴-بھاگوتاپران ،باب ۹،فصل:۲۴،اشلوک ۵۶۔

۱۵-دیکھئے Karel wermer,Apopulat dictionary of Hindusim (u.s.a)1997.P-166

۱۶-منوشاستر دھرم ،باب ددم،منتسر،۳۶ تا۴۵۔

۱۷-یجروید ،ادھیائے ۲،منتر۱۰۔بحوالہ سوامی دیانند سرسوتی ،رگ وید ایک مطالعہ۔مترجم نہال سنگھ ،نگارشات پبلی کیشن لاہور،۲۰۰۵۔ص:۹۸۔

۱۸-رگ وید ۔باب۲۔فصل ۲۸۔منتسر۱۔۸۔بحوالہ رابر دین ڈی وئیر،ہندومت ،تاریخ ،عقائد ،فلسفہ ،اردو ترجمہ

 ملک اشفاق۔بک ہوم لاہور ۔۲۰۰۷ئ؁،ص:۱۹۔

۱۹- رگ وید ،۱۰۔۱۱۷۔۲۔بحوالہ ذاکرنائک :اسلام اورہندو دھرم کی مشترکہ باتیں۔الحسنات، ۲۰۱۴ئ؁۔ص:۷۴۔

۲۰-منوسمرتی باب ۹۔شلوک ۲۳۵۔

تبصرے بند ہیں۔