آج کے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

اس وقت پورے ملک میں مسلمانوں پر سنگھ پریوار کی طرف سے جو ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے مسلمانوں کا پریشان ہونا فطری امر ہے۔ ان حالات سے مسلمانوں کا متاثر ہونا تعجب خیز نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان مصیبتوں اور پریشانیوں کے باوجود مسلمان نہ غصہ اور جھنجلاہٹ سے کام لے رہے ہیں اور نہ کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ صبر و ضبط، عفو و درگزر اور بردباری سے کام لے رہے ہیں ۔ مخالفین کی طرف سے جو کچھ پیش آرہا ہے خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں ۔ شکوہ کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے اپنی عفو و مغفرت اور استقامت اور ثابت قدمی کی دعا کر رہے ہیں ۔ یہ رویہ خود مخالفین کیلیے تازیانہ عبرت ثابت ہورہا ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ پیش آتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش آتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی پہلو خیر کا ہوتا ہے۔ اس لیے اس صورت حال کا استقبال کرنے کیلیے تیار رہیں ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین کے دلوں میں ہمارے اچھے کردار اور اخلاق سے تبدیلی پیدا کردے۔

مسلمانوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا جائزہ لے کر اپنے اپنے علاقہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں پر مشتمل امن کمیٹی یا شانتی کمیٹی کا قیام عمل میں لانا چاہیے اور انتظامیہ سے ربط و تعلق رکھنا چاہیے۔ ممکن ہو تو پندرہ دنوں میں یا ایک ماہ کے اندر پولس افسران کے ساتھ کمیٹی کے افراد کی حالات کا جائزہ لینے کیلیے میٹنگ منعقد ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو شرپسندوں کو شر و فساد پھیلانے کا موقع بہت کم ہاتھ آئے گا۔ پولس بھی چوکس اور چوکنا رہے گی اور جو لوگ امن پسند اور انصاف پسند ہیں وہ بھی شرپسندوں پر نظر رکھیں گے۔

اگر پولس انتظامیہ کی طرف سے کوتاہی یا لاپرواہی برتی جائے تو انھیں مل کر یا فون کے ذریعہ یا برقی خط (Letter by E-mail) کے ذریعہ ان کے فرائض اور ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں ۔

مسلمانوں میں جو جماعتیں حالات کو بہتر بنانے کیلیے کام کر رہی ہوں ان کا حتی الامکان ساتھ دینا چاہیے۔ غیر مسلم بھائیوں میں جو لوگ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان کابھی ساتھ دینا ضروری ہے۔ پولس جن کو غلط طریقہ سے گرفتار کرے کمیٹی کے افراد مل جل کر پولس چوکی یا تھانہ میں جاکر افسران سے ملاقات کریں اور بے قصوروں کی رہائی پر زور دیں ۔ غیر فرقہ پرست جماعتوں سے بھی اس وقت ربط رکھنا مفید ہوگا۔ غیر فرقہ پرست جماعتیں اس وقت فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں سے خوش نہیں ہیں اور جو لوگ اچھی ذہنیت رکھتے ہیں وہ بھی فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں ، اس لیے معاشرہ میں جو لوگ بھی اچھے خیال کے ہیں ان سے بھی ربط رکھنا ضروری ہے۔

میڈیا میں اگرچہ زیادہ تر لوگ فرقہ پرستوں سے قریب ہوگئے ہیں مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو فرقہ پرستوں کے سیاہ کارنامے کو اجاگر کر رہے ہیں ۔ میڈیا میں جو اچھے اور صاف ذہن کے لوگ ہیں ان سے ربط و تعلق رکھنا چاہیے۔

اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد اس وقت سخت ضروری ہے کیونکہ بھاجپا جب تک سیاسی میدان میں کمزور نہیں ہوتی اس کی ظالمانہ حرکتیں ختم نہیں ہوں گی۔ اقتدار اور حکومت کے نشہ نے فرقہ پرستوں کو پاگل بنا دیا ہے۔ جن ریاستوں میں ان کی ہار ہوئی ہے ان کی طاقت کا نشہ کم ہے اور انھیں حکومت کے آہنی پنجے سے روکا بھی جاسکتا ہے مگر جہاں ان کی حکومت ہے وہاں وہ ہر طرح سے آزاد ہیں کیونکہ ان کی پشت پر فرقہ پرست حکومت ہوتی ہے اور پولس ان کا ساتھ دیتی ہے۔

مسلم مجلس مشاورت مسلمانوں کی وفاقی تنظیم ہے، اس کو چاہیے کہ تمام مسلم جماعتوں کی میٹنگ منعقد کرے اور آج کے حالات کے پیش نظر پالیسی اور پروگرام مرتب کرے۔ حالات کا جائزہ لے کر یہ بھی طے کرے کہ ظالم حکمرانوں سے دوری بنائے رکھنا صحیح ہے یا غلط ہے؟ ظالم کو اس کے ظلم پر روکنا ٹوکنا کسی طرح بھی غلط نہیں ہے۔ کم سے کم آج کے حالات میں اسے خط کے ذریعہ ہی سہی آگاہ کرنا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کے غلط رویہ اور پالیسی سے اقلیت پر کیا گزر رہی ہے اور اس سے ملک کا کتنا بڑا نقصان ہورہا ہے اور دنیا بھر میں ملک کس طرح بدنام ہورہا ہے۔ سنگھ پریوار میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مودی یا مودی پرستوں سے خوش نہیں ہیں ۔ ایسے لوگوں سے بھی مل کر بات چیت کرنا چاہیے۔

2019ء کے لوک سبھا الیکشن کی تیاری بھاجپا یوپی کے انتخاب سے پہلے ہی سے کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو ابھی سے فرقہ پرستی کو مات دینے کیلیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ اتر پردیش کے الیکشن میں جو خامیاں ہوئی ہیں وہ 2019ء کے الیکشن میں نہ ہونے پائیں ۔ ایسے ادارے اور تنظیمیں جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہیں ان کو ابھی سے سرگرم عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے موقع پر سنگھ پریوار والے کی حکمت عملی پولرائزیشن کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی کو مسلم اور غیر مسلم کا مضبوط اتحاد ناکام بنا سکتا ہے۔

مسلمانوں میں ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جو جان بوجھ کر حالات سے بے خبر رہنا چاہتی ہیں ۔ وہ سمجھتی ہیں کہ طوفان میں شتر مرغ کی طرح ریت کے ذروں کے اندر سر چھپا لینے سے طوفان گزر جائے گا۔ ایسی جماعتوں کو بھی نازک اور سنگین حالات میں ایک مرد مومن کی ذمہ داری کو یاد دلانا چاہیے۔ ان کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ وقت قیام سجدہ میں گرنا سراسر نادانی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اللہ کے اشارے سے مصیبتیں آتی ہیں اور اسی کے اشارہ اور حکم سے ختم ہوتی ہیں ۔ مسلمانوں کو اپنی منصبی ذمہ داری پوری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان اپنی منصبی ذمہ داری پوری کرتے ہوتے تو یقینا آج یہ حالات پیدا نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کی منصبی ذمہ داری ہے کہ خیر امت کی حیثیت سے خود کو پہچانیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔ عدل و انصاف کے علمبردار بنیں ۔ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں ۔ اللہ کے راستہ پر چلیں اور دنیا کو بھی اسی راستہ پر چلانے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ یہی راستہ صراط مستقیم کہلاتا ہے۔ اس راستہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے آج داعی کو مدعوئین دعوت دے رہے ہیں ۔ اندھیرا روشنی کو دعوت دے رہا ہے۔ مسلمانوں کا حق و صداقت کا چراغ روشن کرنا ہے تاکہ اندھیرا چھٹ جائے اور چاروں طرف روشنی پھیل جائے۔ اندھیرا اسی وقت رہتا ہے جب روشنی نہیں ہوتی۔ روشنی آتے ہی اندھیرا غائب ہوجاتا ہے۔ ایک کرن تنہا بحر ظلمات پر بھاری ہوتی ہے۔

موبائل: [email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔