دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک : (سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ) (چوتھی قسط)

تحریر: عبدالرب کریمی… ترتیب: عبدالعزیز

فتحِ مکہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان 8ہجری میں دس ہزار کی فوج لے کر مکہ کیلیے روانہ ہوئے۔ مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر مر الظہران میں آپؐ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ قیام کیا۔ جنگی حکمت عملی کے تحت آپؐ نے حکم دیا کہ لوگ دور دور پھیل جائیں اور کھانا بنانے کیلیے الگ الگ آگ جلائیں ، تاکہ رات کی تاریکی میں دور سے دیکھنے والوں کو فوج کی تعداد زیادہ نظر آئے۔ قریش کو جب اس کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے لوگوں کو تحقیق کیلیے بھیجا۔ ان میں ابو سفیان بھی تھے، جنھیں اسلامی فوج کی جاسوسی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ ماضی میں مسلمانوں کے خلاف ان کی تمام سرگرمیاں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھیں ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش میں بھی برابر کے شریک رہے تھے۔ ایک ایک عمل ان کے قتل کیلیے کافی تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر فاروقؓ نے ابو سفیان کے قتل کا مشورہ دیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حد درجہ عفو اور رحم دلی کا مظاہرہ کیا اور بغیر کسی سزا کے انھیں آزاد کرتے ہوئے صرف اتنا فرمایا: ’’افسوس ابو سفیان! ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اتنی بات سمجھ جاؤ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ؟‘‘

رسولؐ اللہ کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ابو سفیان اسلام میں داخل ہوگئے۔

بغیر کسی مزاحمت، قتل اور خوں ریزی سے لشکر اسلام فاتحانہ انداز میں مکہ معظمہ میں داخل ہوا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں چند سالوں قبل رسولؐ اللہ اور آپؐ کے ساتھیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے اسلامی لشکر کے سپاہیوں کو حکم دیا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔ اگر کوئی ہتھیار ڈال دے، اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے، ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے یا خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے تو اس کو پناہ دی جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دن مکہ اور قریش کے وہ اکابر تھے جنھوں نے اسلام کو جڑ سے ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ آج وہ لوگ بھی سامنے تھے جنھوں نے آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔ آج وہی اکابر قریش آپؐ کے سامنے ڈرے سہمے اپنے سروں کو جھکائے کھڑے تھے۔ نامعلوم اندیشے اور خطرات دلوں میں پیدا ہورہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اے قریش کے لوگو! جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار اللہ نے ختم کر دیا ہے۔ تمام لوگ آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے ہیں ۔

اس وقت کی منظر کشی کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی تحریر فرماتے ہیں :

’’آپؐ نے ان کی طرف دیکھا تو جبارانِ قریش سامنے تھے، ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب سے پیش رو تھے۔ وہ بھی تھے جن کی زبانیں رسولؐ اللہ پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں ۔ وہ بھی تھے جن کے تیغ و سنا نے پیکر قدسی کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں ۔ وہ بھی تھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کو لہولہان کر دیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون ِ نبوت کے سوا کسی چیز سے بجھ نہیں سکتی تھی۔ وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتے ریت پر لٹاکر ان کے سینوں پر آتشی مہریں لگایا کرتے تھے‘‘۔ (سیرت النبیؐ، جلد اول، ص:310)

عام معافی کا اعلان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابرین قریش کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ آج تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ مکہ والے جنھوں نے رسولؐ اللہ اور مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کی تھی، انھیں یہ فکر دامن گیر تھی کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟ لیکن وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ آپؐ بدلہ لینا مناسب نہیں سمجھیں گے۔ انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ آپ شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔ اس موقع پر آپؐ نے وہی کہا، جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا اور یہی ایک نبیؑ کے شایانِ شان تھا۔ ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ کے متعلق مولانا ابوالکلام آزادؒ تحریر فرماتے ہیں :

’’مظلومی میں صبر، مقابلے میں عزم، معاملے میں راست بازی اور طاقت و اختیار میں درگزر، تاریخ انسانیت کی وہ نوادر ہیں جو کسی ایک زندگی کے اندر کبھی جمع نہیں ہوئے‘‘۔ (حضرت محمدؐ ہجرت سے الرفیق الاعلیٰ تک، علی اصغر چودھری)

رسولؐ اللّٰہ کا حسن سلوک اپنے دشمنوں کے ساتھ: ہجرت کے وقت مکہ والوں نے مسلمانوں کی جائدادوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ آج مسلمان اپنی جائدادیں واپس لے سکتے تھے۔ اسی طرح اپنے اوپر کیے گئے ایک ایک ظلم کا بدلہ بھی لے سکتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اپنی سابقہ جائدادوں سے دست بردار ہوجائیں ۔ یہ تھا اہل مکہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر اور حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ جس کی کوئی مثال چشم فلک نے نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی دنیا کوئی اس کی نظیر پیش کرسکتی ہے۔ فتح مکہ کے بعد بڑی تعداد میں مرد و خواتین اسلام میں داخل ہورہے تھے، ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اپنی اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے۔

اس موقع پر آپؐ نے عثمان بن طلحہ کو بلاکر خانہ کعبہ کی چابی عطا کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ قیامت تک تمہارے خاندان میں رہے گی۔ یہ وہی عثمان بن طلحہ ہیں ، جنھوں نے ہجرت سے پہلے ایک موقع پر رسولؐ اللہ کو خانہ کعبہ کے اندر نہ صرف یہ کہ جانے سے روکا تھا بلکہ بہت برا بھلا بھی کہا تھا۔ اس وقت آپؐ نے حلم اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صرف یہ فرمایا تھا:

’’اے عثمان؛ آج تم مجھے خانہ کعبہ کے اندر جانے سے روک رہے ہو۔ ایک دن آئے گا جب اس کی کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ میں جسے چاہوں گا، دوں گا‘‘۔

عثمان بن طلحہ آج دل ہی دل میں نادم اور شرمندہ تھے، آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور حسن سلوک سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوجاتے ہیں ۔

آپؐ نے اسلام کے بدترین دشمن ابولہب کے دونوں بیٹوں عتبہؔ اور عتیبہؔ کو بھی معاف کر دیا، جنھوں نے آپؐ کی پیاری بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کو اپنے باپ کے دباؤ میں طلاق دے کر آپ کو سخت تکلیف پہنچائی تھی۔ فتح مکہ کے وقت خوف سے روپوش ہوگئے تھے۔ بعد میں دونوں بھائی مشرف بہ اسلام ہوئے۔

ہندؔ ابوسفیان کی بیوی اور عتبہ کی بیٹی تھی۔ وہ ابتدا سے ہی اسلام دشمنی میں پیش پیش تھی۔ غزوۂ بدر میں قریش کی ناکامی اور حزیمت کے بعد مسلمانوں سے انتقام لینے کیلیے رجزیہ اشعار پڑھ کرمکہ والوں کو اسلام کے خلاف آمادہ کرتی تھی۔ غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت کے بعد ان کا سینہ چاک کرکے کلیجہ چبانے کی ناکام کوشش کی تھی اور حضرت حمزہؓ اور دیگر شہدائے احد کی ناک اور کان کاٹ کر ہار بناکر اسے پہنا تھا۔ ہند کو اپنے گزشتہ کارناموں کی وجہ سے یقینا شرمندگی اور ندامت تھی۔ اسے اس بات کا اندیشہ بھی تھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اسلام دشمنی کی وجہ سے قتل نہ کرا دیں ۔ چہرہ پر نقاب ڈال کر آپؐ کے پاس حاضر ہوئی تاکہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں ۔ قبول اسلام کے وقت بھی اس نے غیر مناسب باتیں کیں ، لیکن آپؐ نے اس کی حرکتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معاف کر دیا۔

جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب جنگ احد میں آپؐ کے جاں نثار چچا حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت اپنے گزشتہ کارناموں کی وجہ سے ڈر کر طائف بھاگ گیا تھا، مگر کچھ دنوں کے بعد جب طائف فتح ہوا تو آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ رسولؐ اللہ نے اسے بھی معاف کردیا۔ صرف اتنا فرمایا کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو۔ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے پیارے چچا یاد آجاتے ہیں ۔

عکرمہ بھی اسلام کے بدترین دشمن ابو جہل کے بیٹے تھے۔ فتح مکہ سے قبل اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپؐ کو سخت اذیت پہنچائی۔ جنگ بدر اور احد میں مسلمانوں کے خلاف نمایاں کارناموں کی وجہ سے قریش کیلیے بہت اہم ہوگئے تھے۔ مکہ فتح ہوجانے کے بعد انھوں نے حبش بھاگ جانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث مسلمان ہوچکی تھیں ، عکرمہ کی تلاش میں تہامہ بندرگاہ تک گئیں ۔ وہاں شوہر سے ملاقات ہوئی، انھیں تسلی دی اور بتایا کہ رسولؐ اللہ نے انھیں امان دے دی ہے۔ ام حکیم نے عکرمہ کو وہیں مسلمان کیا اور مدینہ کیلیے واپس چل پڑیں ۔ ابھی یہ دونوں راستے ہی میں تھے کہ وحی کے ذریعہ آپؐ کو معلوم ہوگیا۔ آپؐ نے صحابہؓ کرام کو ہدایت فرمائی کہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مومن کی حیثیت سے آرہا ہے، اس کے باپ کو برا بھلا نہ کہنا۔ مر نے والے کو لعنت، ملامت نہیں کرنا چاہیے۔ ام حکیم شوہر کو لے کر جب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔ فرمایا: اے ہجرت کرنے والے، تمہارا آنا مبارک ہو۔ آپ نے عکرمہ کو مخاطب کرکے فرمایا:آج تم مجھ سے جوبھی طلب کروگے دوں گا۔ عکرمہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ؛ میرے لیے دعا کر دیں کہ میری ساری عداوت جو آپؐ سے تھی، اللہ اسے معاف کردے۔

صفوان بن امیہ اسلام دشمنی میں بہت آگے تھے اور عمیر بن وہب کو گراں قدر انعام کا لالچ دے کر (نعوذباللہ) رسولؐ اللہ کو قتل کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت اپنی سابقہ حرکتوں پر نادم ہوکر جدہ چلے گئے تاکہ سمندر کے راستے کہیں دور نکل جائیں ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ قتل کر دیئے جائیں گے۔ اس وقت عمیر بن وہب مسلمان ہوچکے تھے، انھوں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا کہ صفوان بن امیہ اپنے قبیلہ کے سردار ہیں ، وہ خوف سے فرار ہوگئے ہیں ، آپؐ انھیں معاف فرمادیں ۔ آپؐ نے صفوان کو امان دیا۔ عمیر بن وہب کے کہنے پر بطور نشانی، اپنا مبارک عمامہ ان کو عطا کیا۔ جسے آپؐ نے فتح کے دن اپنے مبارک سر پر باندھ رکھا تھا۔ عمیر بن وہب کے اصرار اور تسلی دینے پر صفوان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کو سمجھنے کیلیے دو ماہ کی مہلت مانگی۔ آپؐ نے از راہِ کرم چار ماہ کی مہلت عنایت فرمائی۔ صفوان نے آپؐ کے اخلاق سے متاثر ہوکر چند دنوں کے اندر ہی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلیا۔

عبداللہ بن سعید، حضرت عثمانؓ کے رضاعی (دودھ شریک) بھائی تھے اور قبول اسلام کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ جھوٹی اور بے بنیاد باتوں کے ذریعہ لوگوں کو اسلام سے دور کرتے تھے۔ فتح مکہ کے وقت انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پناہ لی۔ انھیں ڈر تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جانا اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنا بڑا جرم ہے، اس کی سزا قتل بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا۔

ہبار بن اسود نے آپؐ کی بیٹی حضرت زینبؓ کومکہ سے ہجرت کرتے وقت نیزہ مار کر اونٹ سے گرایا تھا، جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا اور وہ سخت بیمار ہوگئی تھیں اور یہی بیماری ان کی موت کا سبب بنی تھی۔ فتح مکہ کے وقت خوف کی وجہ سے وہ کہیں روپوش ہوگیا تھا۔ چند دنوں کے بعد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی چاہی۔ آپؐ نے اسے معاف کر دیا اور صحابہؓ سے کہاکہ کوئی اسے برا بھلا نہ کہے۔ (جاری)

موبائل: 9831439068azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔