ماہِ رجب اور اسلامی تعلیمات

اسلام کے تمام مہینے ہی بڑی عظمتوں والے ہیں ، ہر مہینہ کوئی نہ کوئی خوبی اور تاریخی واقعہ اپنے دامن میں رکھتا ہے، اسلامی تعلیمات اور نبوی ہدایات ہر ایک کے لیے ہیں ، رسول کریم ﷺ نے ہر ایک کی الگ الگ خوبیوں اور امتیازات کو بیان فرمایاہے، انہی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اسلامی مہینوں کو گزارنا چاہیے، اور ان کی حقیقتوں اور عظمتوں کو سمجھنا چاہیے۔اسلامی مہینوں میں ساتواں مہینہ رجب کا ہے، جو اپنی ایک خصوصی شان رکھتا ہے، اور شرو ع ہی سے یہ محترم مہینوں میں شمار کیاجاتارہا ہے۔ماہ ِ رجب کی عظمت، اس کی حقیقت اور اس ماہ کے تاریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس میں انجام دی جانی والی خرافات کا مختصر تذکرہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

ماہ رجب کی وجہ تسمیہ:

 رجب عربی زبان میں ترجیب سے بناہے اور ترجیب کے معنی تعظیم و تکریم کے آتے ہیں ، اور رجب کے ساتھ مرجّب کا لفظ بڑھا کر بھی اسی معنی کی نسبت کا لحاظ کیا جاتا ہے، کیوں کہ مرجب کے معنی تعظیم کیے ہوئے کے آتے ہیں ، یہ مہینہ سال کے ان چا رمہینوں میں سے ایک ہے جن مہینوں کی اسلام میں ابتداسے ہی تعظیم وتکریم کی گئی ہے۔( ماہ ِ رجب فضائل و احکام :۷)اسی طرح حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ماہ ِ رجب کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: لانہ یترجب فیہ خیر کثیر لشعبان و رمضان۔یعنی اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں شعبان اور رمضان کے لیے بہت سارے خیر کی تیاری کی جاتی ہے، یعنی رجب تیاری کے معنی میں ہے۔( فضائل شھر رجب لابی محمد الخلال :۴۷)اس کے علاوہ بھی علماء نے ماہ ِ رجب کی وجہ تسمیہ بیان کی ہے لیکن ان تمام میں سب سے زیادہ مناسبت رکھنے والی وجہ وہ تعظیم وتکریم کے معنی والی ہے۔

فضائل ماہ رجب:

 ماہ ِ رجب کے مختلف فضائل مروی ہیں ، اس کی بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ شروع ہی سے حرمت والے مہینوں میں سے ایک رہا ہے، جس کی حرمت و عظمت کے قائل دور جاہلیت میں بھی تھے اورزمانہ جاہلیت میں بھی رجب کے مہینہ میں خون ریز لڑائیاں اور جنگیں بند ہوجاتی اور کشت و خون کا بازار سرد ہوجاتا۔قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا ان میں سے ایک رجب بھی ہے۔اشہر حرم کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہاگیا، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ا ن میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں باقی ہے۔( معارف القرآن :۴/۳۷۲)نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ:بے شک زمانہ پھر اپنی اسی حالت پر آگیا ہے جس پر اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا، سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے، ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں ، تین لگاتار یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم، جب کہ چوتھا رجب مضر ( مضر قبیلہ کی طرف منسوب ہے جو اس کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے )ہے جو جمادی( الاخری) اور شعبان کے درمیان ہے۔( بخاری :)ماہ ِ رجب کا مہینہ جب شروع ہوجاتا تو نبی کریم ﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا کا اضافہ ہوجاتا اور دعاکیا کرتے تھے :اللہم بارک لنا فی رجب و شعبا ن وبلغنا شھر رمضان۔( فضائل الاوقات للبیہقی:۲۶)اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینہ میں برکت دے اورہمیں رمضان کے مہینہ تک پہنچادے۔نبی کریم ﷺ نے رجب کی پہلی رات کو دعا کی قبولیت والی راتوں مین قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ ماہ ِ رجب میں روزہ رکھنے کی بھی خاص فضیلت بیان فرمائی ہے۔امام نووی ؒ فرماتے ہین کہ:ہمارے اصحاب نے فرمایا کہ مستحب روزوں میں سے عظمت والے مہینوں کے روزے بھی ہیں ، اور وہ ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ۔( ماہ ِ رجب کے فضائل و احکام : ۳۲)امام بیہقی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ :حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ :جنت میں ایک نہر ہے، جس کو نہر رجب کہا جاتا ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، پس جو کوئی رجب کے مہینہ کو ایک روزہ رکھے گا اللہ اس کو اس نہر سے سیراب کرے گا۔( فضائل الاوقات :۲۲)بہر حال رجب کا مہینہ بڑی عظمتوں والا ہے، اشہر حرم میں داخل ہے جس کی حرمت و عظمت ہمیشہ باقی رہے گی اور اس کا احترام کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہوگا۔

ماہ رجب اور واقعہ معراج:

 ماہ ِ رجب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس مہینہ میں نبی کریم ﷺ کو معراج کا عظیم الشان سفر پیش آیا۔آپ ﷺ آسمان پر تشریف لے گئے، اور انعامات الہیہ سے نوازے گئے۔واقعہ معراج سیرت ِ رسول کا ایک حیر ت انگیز اور تاریخی معجزہ ہے۔جس کے اندر بے شمار اسباق و ہدایات اور پیغامات پوشیدہ ہیں ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی سرور دوعالم ﷺ کو رات ہی کے کچھ حصے میں جسم وروح کے ساتھ، بیدای کی حالت میں عالم بالا کی سیر کرائی اور اپنے قرب کا اعلی ترین مقام عنایت فرمایا، جنت وجہنم کا مشاہدہ کروایا، نیکوں اور بدوں کی سزاو جزا کا معائنہ کروایا، نبیوں سے ملاقات ہوئی، ہر جگہ آپ کی عظمت و رفعت کا چرچہ کروایا، رحمتوں کی بارش فرمائی اور انعامات و الطاف سے خوب نوازا اور امت کے لیے عظیم الشان تحفہ نماز کی شکل میں عطا کیا، اور قیامت تک کے لیے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا۔غرض یہ کہ واقعہ ٔ معراج بے شمار سبق آموز پہلوؤں اور عبرت خیز واقعات کامجموعہ ہے۔واقعہ معراج کے ماہ ِر جب ہی میں پیش آنے کے سلسلہ میں تاریخی اعتبار سے اختلاف بھی ہے۔مولانا ادریس کاندھلوی ؒ لکھتے ہیں :رہا یہ امر کہ کس مہینہ میں ہوئی اس میں اختلاف ہے۔ ربیع الاول یا ربیع الاخر، یارجب یا رمضان یا شوال میں ہوئی پانچ قوم مشہور ہیں ۔مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں سب میں ہوئی۔( سیرت مصطفی :۱/۲۸۸)مولانا قاضی سلیمان منصور پوری ؒ لکھتے ہیں کہ:۷ ۲ رجب ۱۰نبو ت کو معراج ہوئی۔( رحمۃ للعالمین:۱/۹۶)تاریخی لحاظ سے اختلاف ضرور ہے لیکن ۲۷ رجب کی تاریخ کو بھی مانا گیا ہے، اس اعتبار سے ممکن ہے کہ اسی مہینہ میں وہ عظیم سفر پیش آیا اور نبی کریمﷺ اس عظیم سعادت سے سرفراز کیے گئے۔

ماہِ رجب کے خرافات:

 ماہ ِ رجب کی حقیقت وہی ہے جو اللہ و رسول ﷺ نے بیان کی، کسی بھی چیز کی عظمت کو ماننے میں اور اس کی قدر دانی میں حدود سے تجاوز کرنا قطعا جائز نہیں ہے۔لیکن لوگوں کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ ہے جن چیزوں کی قد رکرنی چاہیے ان کی تو کرتے نہیں اور اپنی طرف سے غیر ضروری اور خلاف ِ شریعت چیزوں کو ایجاد کرکے اسے دین سمجھتے ہیں ۔بہت سے مہینوں میں بدعات و خرامات کا ایک سلسلہ رہتا ہے۔چناں چہ ماہ ِ رجب کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا، اس میں بھی قسم قسم کے خرافات کو ایجاد کیا گیا اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے خلاف مختلف کاموں کو شروع کیا گیا۔ا س وقت ہمارے معاشرہ میں ما ہِ رجب میں سب سے بڑی بدعت جو جاری ہے وہ” کنڈے "ہے۔رجب کی ۲۲ تاریخ کو کنڈوں کے عنوان سے کھیر پوری بنوا ئی جاتی ہے اور اس کی دعوت ہوتی ہے، بڑے اہتمام کے ساتھ لوگ اس کو انجام دیتے ہیں ، نماز، روزہ وغیرہ کا اہتمام نہ ہو کوئی پرواہ نہیں لیکن کنڈوں کی دعوت نہیں چھوڑی جاتی۔اور یہ سب حضرت جعفر صادق ؒ کی فاتحہ و نیاز کے نام سے کی جاتی ہے۔جب کہ تاریخی اعتبار سے یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔تاریخی اعتبارسے اس کی حقیقت یہ ہے کہ: ۲۲ رجب ۶۰ ھ کو کاتب وحی سیدنا معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی۔روافض نے جس طرح امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم کی شہادت کی خوشی مین ان کے مجوسی قاتل ابولولو فیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں ، اسی طرح وہ سیدنا معاویہ ؓ کی رحلت کی خوشی مین ۲۲ رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں ۔لیکن پردہ پوشی کے لیے ایک روایت گھڑکر جناب جعفر بن محمد ؒ کی طرف منسوب کردی ہے تاکہ راز فاش ہونے سے رہ جائے اور دشمنان معاویہ چپکے سے ایک دوسرے کے یہاں بیٹھ کر یہ شیرینی کھالیں اور یوں اپنی خوشی کا اظہار کرے۔( اسلامی مہینے اور ان کا تعارف:۲۲۰)حضرت مفتی محمو د الحسن گنگوہی ؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:کونڈوں کی مروجہ رسم اہل سنت والجماعت میں محض بے اصل، خلاف شرع اور بدعت ممنوعہ ہے، کیوں کہ بائیسویں رجب نہ حضرت امام جعفر صادق ؒ کی تاریخ پیدائش ہے اور نہ تاریخ وفات، حضرت امام جعفر صادق ؒ کی ولادت ۸ رمضان ۸۰ ھ میں ہوئی اور وفات شوال ۱۴۸ ھ میں ہوئی، پھر بائیسو یں رجب کی تخصیص کیا ہے اور اس تاریخ کو حضرت جعفر صادق ؒ سے کیا خاص مناسبت ہے ؟ہاں بائیسویں رجب کو حضرت معاویہ ؓ کی تاریخ وفات ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفر صادق ؒ کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ در حقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔( فتاوی محمودیہ :۳/۲۸۱)یہ ہے کنڈوں کی تلخ حقیقت۔مگر لوگ اعتقاد کی کمزوری، ایمان و یقین کی کمی اور توہم پرستی کی وجہ سے اس غلط رسم میں مبتلا ہیں ، بلکہ بعضوں کا اعتقاد یہاں تک پہنچا ہوا ہے کہ اگر کنڈے نہیں کیے گئے تو مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کاروبار ٹھپ پڑ جائے گا، گھر میں مصیبتیں نازل ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔اللہم احفظنا۔جب کہ یہ سب بے دینی اور بے علمی کا نتیجہ ہے۔اور ان رسموں کا انجام دینا سرار جہالت اور ناواقفیت کی علامت ہے۔عوام کے ان غلط اعمال میں مبتلا ہونے میں دین کے جاننے والوں کا بڑا قصور ہے کہ جو حق کو چھپاکر تن پرستی کے لیے قوم کو بدعات و خرافات کے دلدل میں ڈھکیل رہے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ نبی کریم ﷺ کی شریعت اور آپ کی تعلیمات کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔

 رجب کے کنڈوں کے علاوہ بھی کچھ چیزیں اس مہینہ میں انجام دینی ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔خاص طریقے پر نماز پڑھنا، ۲۷ رجب کا روزہ رکھنا، ۲۷ ویں شب کو جاگنا اور عبادت کا اہتمام کرنا، اس کو دین کا ضروری حصہ سمجھا جارہا ہے۔ستائیسویں رجب کے روزہ کو ایک ہزار روزوں کے برابر سمجھتے ہیں ، اسی واسطے اس کو ہزاری کا روزہ کہتے ہیں مگر یہ فضیلت شرعی اعتبار سے معتبر سند سے ثابت نہیں ۔محدثین نے اس سلسلہ میں پیش کی جاے والی روایات کو کمزور اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔( ماہ ِ رجب کے فضائل و احکام :۹۹)حضرت مفتی عبد الرحیم لاجپوری ؒ لکھتے ہیں کہ:ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں ، صحیح اور قابل اعتماد نہیں ، لہذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشورا کی طرح مسنوں سمجھ کر ہزارروزوں کا ثواب ملے گا اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے۔حضرت عمر فاروق ؓ ستائیسویں رجب کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔البتہ کو ئی سنت اور ہزاری روزہ کے اعتقاد کے بغیر صرف نفل روزہ رکھے تو منع نہیں ۔( فتاوی رحیمیہ :۷/۲۷۴)

آخری بات:

 بہرحال ماہ ِ رجب اسلامی مہینوں میں ایک عظیم مہینہ ہے۔جس کی مستقل عظمت و اہمیت ہے۔نبی کریم ﷺ نے جو تعلیمات ہمیں دیں وہی ہمارے لیے سعادت ِ دارین کا ذریعہ ہے، اس کے علاوہ اگر ہم نت نئی چیزوں کو اس میں ایجاد کریں گے اور غیر دینی امور کو اختیار کریں گے تو یقینا یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔رجب کا مہینہ رمضان المبارک کی آمد کا پیش خیمہ ہے، اسی لیے آپ ﷺ کی دعاوں میں اس کا اہتمام شروع ہوجاتا کہ سلامتی کے ساتھ رمضان تک پہنچادیا جائے۔ہمارے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اسی ماہ سے رمضان کی آمد کی فکریں کریں اور خلاف شریعت کاموں سے بچتے ہوئے سنت نبوی پر عمل پیرا ہوں ۔کنڈوں کی غیر دینی رسم اور دعوت سے بچیں اور اس کے علاوہ جو بھی منکرات اس ماہ میں انجام دیے جاتے ہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور تعلیمات نبوی ﷺ پر عمل کریں ۔

تبصرے بند ہیں۔