علامہ اقبال اور مغربی مفکرین- ایک تنقیدی جائزہ

تحریر: پروفیسر سید امیر … ترتیب: عبدالعزیز

اب یہ بات حد تواتر تک پہنچ گئی ہے کہ اقبال ایک بڑے مفکر، مدبر، فلسفی، حکیم الامت، ترجمانِ حقیقت، دانائے راز اور نباضِ عصر شاعر تھے۔ ان کی شخصیت ہشت ہیرے کی مانند تھی جس کا ہر پہلو تابندہ، درخشندہ اور شان دار تھا۔ انھوں نے مشرق اور مغرب کے علمی و فکری چشموں سے یکساں طور پر اپنی پیاس بجھائی۔ انھیں اوائل عمری میں ہی قرآن و حدیث کی تعلیم سے آگاہ و آشنا ہونے کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔ مولوی سید میر حسن جیسے نابغہ عصر مربی نے اقبال میں فکر اسلامی کی جو شمع فروزاں کی تھی بعد میں فکری بے راہ روی کی تند و تیز آندھیاں چلنے کے باوجود بھی اس کی لو کبھی مدہم نہ ہوئی بلکہ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ اسلام کے ساتھ ان کا تمسک اور اقتصاق بڑھتا ہی گیا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ چہار دانگ عالم میں علامہ اقبال کو فیلسوفِ اسلام اور حکیم الامت کے دل نواز القاب سے یاد کیا جانے لگا۔ جب اقبال نے یورپ یورپ کے دانش کدوں سے اکتساب علم و فلسفہ کیا تو بجائے اس کے کہ ان کے افکار و نظریات میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا؛ وہ اسلام اور صاحب اسلام کے حد درجہ شیدا ہوگئے اور بہ بانگ دہل کہنے لگے:

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ … سرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

 امریکہ کی ڈاکٹر شیلا میکڈونف (Sheila McDonough) کا تبصرہ اقبال کی اسلام سے اٹوٹ وابستگی کے بیان میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے:

“ہمیں یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان کی شعری زبان کی جڑیں اردو اور فارسی کی شاعری کی قدیم اور شان دار روایات میں پیوست ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اقبال کی تصویر کاری سے ابھرنے والے تمام ممکنہ کنایے اور مضمرات اس کی سمجھ میں آگئے ہیں، بالخصوص ان اذہان میں جو اقبال کی مانند مسلمانوں کے ادبی ورثے سے واقف نہیں ‘‘۔

اقبال کی فکر براہ راست قرآن مجید، احادیث مطہرہ اور سیرت طیبہ سے مستفاد ہے۔ ان کی شاعری ہو یا نثر؛ فکر اسلامی کے حوالوں سے مزین ہے۔

فرانسیسی محقق لوس کلوڈ میتخ (Luce Claude Maitre) نے اپنی کتاب “فکر اقبال سے تعارف‘‘ میں لکھا ہے:

“یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور قرآن مجید سے اثرات قبول نہ کرے، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فکر اقبال قرآن مجید سے اخذو قبول کرتا ہے اور نہیں تو کم از کم اس کی وسیع حدود کے لحاظ سے یہ بالکل درست ہے۔ شاعر قدم قدم پر قرآن مجید سے استفادہ کرتا ہے، چنانچہ اس کے کلام میں آیات کے جو بار بار حوالے ملتے ہیں تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اقبال ہر ممکن طریق پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ صراطِ مستقیم سے انحراف نہیں کانا چاہتا‘‘۔

(Introduction to the thought of Iqbal, P.27)

یہی مغربی خاتون فکر اقبال پر یورپ کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی حتمی رائے کا اظہار یوں کرتی ہے:

“اسلام سے باہر فکر اقبال نے غیر مسلم مفکرین سے برائے نام ہی استفادہ کیا ہے جبکہ حلقہ اسلام میں صرف قرآن مجید کی تعلیمات اور رومی کے تصورات نے اسے بہ طورِ خاص متاثر کیا‘‘۔ (ایضاً، ص:30)

اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ خیالات کو درخور اعتنا سمجھا اور اور ان کو دقتِ نظر سے دیکھا اور ایک مضبوط و مستحکم فکری و نظری معیار سے انھیں پرکھ کر ردو قبول کا رویہ اپنایا۔ ہیگل کا تصورِ انسان، مارکس کا عینی اور مادی جدلیاتی ارتقا، نیٹشے کی لبرل بورژوا سوسائٹی اور اس کی قدروں کی تحقیر، مافوق البشر کا پیغام، برگساں کا تصورِ زماں اور اثباتِ وجدان، کانٹ کی انسانی عقل کی تنقید اور تجدید؛ غرض ان سب کا اقبال نے گہرا مطالعہ کیا اور علم و حکمت کے مغربی سرچشموں تک بلا واسطہ رسائی حاصل کرنے کی سعی بلیغ کی۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں اقبال نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ بعض موضوعات پر مغربی ادبیات کی حیثیت رہنمائی کا کام دیتی ہے، وہ رقمطراز ہیں :

“مغربی اقوام اپنی قوتِ عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرارِ زندگی کو سمجھنے کیلئے ان کے ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں ‘‘۔

اس کامطلب یہ ہے کہ اقبال مغربی ادب کو کافی حد تک درخور اعتنا سمجھتے تھے اور ان کے مطالعے کی دعوت دینا اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتا ہے۔ ہاں البتہ وہ فکری حوالے سے اسلام اور قرآن کی فکر کو حتمی قرار دیتے۔

علامہ اقبال کی مغرب شناسی کا اندازہ کرنے کیلئے آنے والی سطور میں ایک سرسری جائزہ خالی از فائدہ نہ ہوگا اور اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ اقبال مغرب کے ادب و فلسفہ سے کما حقہ واقف تھے اور اس ادبی سرمائے سے اخذ و اکتساب بھی کرتے رہے۔

شیکسپیئر، گوئٹے، ملٹن، کوپر، ورڈورتھ، شیلے، ایمرسن، لانگ فیلو اور ٹینی سن کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا اور ان کے شعری اسلوب و طرز کو کافی حد تک سراہا بھی ہے۔

  • عشق اور موت، پیام صبح، رخصت اے بزمِ جہاں ! ٹینی سن، لانگ فیلو اور ایمریسن کی نظموں کے ترجمے ہیں۔
  • “پرندہ اور جگنو، پرندے کی فریاد، والدہ مرحومہ کی یاد میں، ترجمے تو نہیں لیکن ان کا انداز تاثر و تفکر اور اسلوبِ بیان ولیم کوپر کی نظموں سے تاثر پذیر ہیں۔
  • ایک آرزو، سموئیل راجرز کی نظم A Wish سے مشابہت رکھتی ہے۔
  • “خفتگانِ خاک سے استفشار‘‘ اور “گورستان ِ شاہی‘‘ دونوں گرے کی ایلجی کے اثرات کی آئینہ دار ہیں۔
  • ایک مکڑا اور مکھی Mary Howitt کی The Spider and the Fly سے ماخوذ ہے۔
  • ایک پہاڑ اور گلہری، امریکہ کے مشہور شاعر W.Emerson کی مشہور نظم The Mountain and the Squirrel سے ماخوذ ہے۔
  • ایک گائے اور بکری، Jane Tayler کی مشہور نظم The Cow and the Ass کا کامیاب ترجمہ ہے۔ اقبال نے Ass کی جگہ “بکری‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
  • نظم “ہمدردی‘‘ انگلستان کے مقبول شاعر “ولیم کوپر‘‘ کی نظم سے ماخوذ ہے۔
  • پرندہ اور جگنو، بھی ولیم کوپر کی مشہور و مقبول نظم “اے نائب اینگل اینڈ گلو روم‘‘ سے ماخوذ ہے۔

مذکورہ سطور اس نکتے پر شاہد عادل ہیں کہ اقبال نے مغربی ادب کو کھنگالنے اور ان سے اخذ و اکتساب میں بڑی جدوجہد سے کام لیا ہے۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں رینالڈ اے نیکلسن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اقبال نے اگر چہ مغرب کے میخانہ علم و دانش سے بہت زیادہ اکتساب و اخذ و استفادہ کیا ہے لیکن اس کی روح اسی طرح مشرقی رہی ہے۔

"While Iqbal has been Profoundly influenced by the western Culture, his Spirit remains oriental.”

خود علامہ اقبالؒ جدید افکار و نظریات کے مطالعے کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جدید مغربی افکار سے کما حقہٗ واقفیت ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں ان کی شرط یہ ہے کہ اپنی عظمت رفتہ اور اسلام کے علمی و فکری پس منظر کو پیش نظر رکھ کر مطالعہ کیا جائے اور منفرد انداز میں غور و فکر اور تدبرو تفکر کیا جائے تاکہ عصر حاضر میں پیش آمدہ نظری، علمی اور فکری مسائل کا حل آسانی سے پیش کیا جاسکے۔ اس نکتے کی وضاحت وہ اپنے ایک لیکچر Freedom and Immortality میں یوں کی ہے:

"The task before the modern Muslim is, therefore, immense. He has to re-think the whole system of Islam without completely breaking with past ……. The only course open to us is to approach modern knowledge with a respestful but independent attitude and to appreciate the teaching of Islam in the light of that knowledge, even though we may be led to differ from those who have gone before us.”

اقبال ملت اسلامیہ کے فکری جمود اور عملی انجماد پر سخت دل گرفتہ اور نالاں تھے۔ان کے نزدیک مسلسل تفکر، تجسس، تدبر اور مشاہدہ ایک مسلمان کی زندگی کا لازمہ ہونا چاہیے۔ وہ دل ہی دل میں ملت اسلامیہ کے اس فکری انحطاط اور عملی زوال پر کڑھتے تھے۔ ان کے نزدیک مغرب نے اسلام کے علوم سے اخذ و اکتساب میں حد درجہ محنت اور آج کے یورپ کے دانش کدوں میں روشنی مسلمانوں کے جلائے ہوئے علم و حکمت کے چراغوں کی مرہونِ منت ہے۔ ایک وقت تھا جب اہل اسلام آسمانِ علم و حکمت پر خورشید جہاں تاب بن کر چمک رہے تھے۔ ان کے مدارس رومی، رازی، غزالی، ابن سینااور طوسی جیسی فخر روزگار شخصیات اور شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جنید بغداری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ جیسی دانائے راز ہستیوں سے بقعۂ نور بنے ہوئے تھے، جبکہ آج انہی کے جانشینوں کے تعلیمی اداروں میں دھول اڑ رہی ہے۔ یورپ کل ہمارے میخانۂ علم و حکمت سے سرشار ہوا اور آج مشرق کو مغرب کے علوم و فنون سے استفادہ کی ضرورت ہے۔ اسی عصری ضرورت کے پیش نظر اقبال نے ایک طرف شریعت اسلامیہ کے بنیادی مآخذ پر عبور حاصل کیا تو دوسری طرف یورپ کے دانش کدوں کی بھی خاک چھانی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مشرقی و مغربی علوم و فنون پر دسترس اور مہارت رکھنے میں مثال بن گئے۔

ولیم اور ڈمگس نے بجا طور پر لکھا ہے کہ اقبال مشرق و مغرب کے علوم و فنون اور اسلام کے آفاقی اصولوں کی تفہیم کے درمیان ایک حسین سنگھم کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کے پارکھ تھے، مشرق کے خم خانہ معرفت رند پاک باز اور اسلام کے لازوال اصولوں سے کما حقہ آگاہ و آشنا تھے اور وہ اس سلسلے میں ملک، قوم اور رنگ و نسل اور زبان سے بالاتر ہوکر اخذما صفا و دع ماکدر کے اصول پر کار بند تھے۔ ولیم اور ڈمگس کے الفاظ ملاحظہ ہوں :

"The most remarkable phenomenon of modern history to Iqbal was the new spiritual understanding between the East and the west……… Iqbal was a voice from the East that found a common denomination with the west and helped build the universal community that tolerates all differences in race, in creeds, in language.”

یورپ، مغرب اور فرنگ کے الفاظ جس تواتر و توافر اور کثرت سے اقبال کی نظم و نثر میں استعمال ہوئے ہیں ؛ شاید ہی کسی دوسرے شاعر، مفکر، ادیب یا فلسفی کے کلام میں دکھائی دیں۔ انھوں نے مغرب کے ماحول، ثقافت اور افکار و نظریات کو دیکھا، جانچا اور اس پر تنقیدی نظر ڈالی۔ مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے انھوں نے اپنی قوم کو بروقت متنبہ کیا اور اس سے بچنے کی تلقین کی۔ اقبال مغرب کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی نظام کو مشرقی اقوام کیلئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں چند اشعار کا مطالعہ قارئین کیلئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا اور مغربی اقوام کے بارے میں اقبال کے تاثرات کو واضح کرنے میں ممدو معاون ہوگا۔

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب … کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید … ضمیر پاک و خیال بلند و ذوقِ لطیف

……………

جہانِ نو پیدا ہورہا ہے وہ عالم پیر مر رہا ہے … جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قِمار خانہ

وہ فکرِ گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو … اسی کی بے تاب تجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

……………

پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر … کیا ہو جو نگاہِ فلک پیرِ بدل جائے

دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب … ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

طہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا … شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

……………

یہ عیش فراداں، یہ حکومت یہ تجارت … دل سینہ بے نور میں محرومِ تسلی

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے … یہ وادی ایمن نہیں شایانِ تجلی

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب فرنگی … شاید ہو کلیسا کے یہودی متولی

……………

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی … یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو … ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا … جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

……………

بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے … ڈر ہے خبرِ بد مرے منہ سے نہ نکل جائے

تقدیرِ تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن … پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرکِ افرنگ … ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

……………

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام … پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود … اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم

مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام … جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم

……………

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو … آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

زندہ کرسکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر … یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور

……………

نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں … جو ہوا نالہ مرغانِ سحر سے مدہوش

مجھ کو ڈر ہے کہ طفلانہ طبیعت تیری … اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش

……………

مذکورہ اشعار اور اس مفہوم پر مشتمل سیکڑوں اشعار ایسے ہیں جن میں اقبال نے مغربی تہذیب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک مغرب کا ایوانِ فکر ہمارے علمی و فکری چراغوں سے مستنیرہے۔ آج اگر یورپ علم و حکمت اور فلسفہ و سائنس میں امامت کا دعوے دار ہے تو اس کی یہ علمی عظمت اسلام اور اہل اسلام کلے علمی و فکری اور فنی کارناموں کی رہین منت ہے۔ اقبال واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ

“میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سر چشمہ ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا، یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں کی یونی ورسٹیوں سے ہوا تھا۔ ان یونیورسٹیوں میں مختلف ممالک یورپ کے طلبہ آکر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے … غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علوم جدیدہ کی بنیاد ہے، مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں ‘‘۔

(مقالات اقبال، مرتب: سید عبدالواحدی معینی، مطبوعہ لاہور 1963ئ، صفحہ 239-240)

اقبال اپنے تاب ناک ماضی پر نہ صرف نازاں تھے بلکہ انھوں نے اس علمی اور فکری اثاثے سے استفادہ و استفاضہ بھی بھرپور انداز میں کیا ہے۔ وہ اپنی عظمت رفتہ کو اکثر یاد کیا کرتے اور عظیم مدارس اور جامعات کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے۔ قرطبہ یونی ورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے وہ یوں گویا ہوئے:

ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور … ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور

بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشاں کر گئی … اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی

قبر اس تہذیب کی یہ سر زمینِ پاک ہے … جس سے تاکِ گلشن یورپ کی رنگ نمناک ہے

اس تفصیلی جائزے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اقبال کی شخصیت انتہائی طبّاع اور خلّاق تھی۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ رسائل و کتب کو کھنگالا۔ فشٹے، نیٹشے، برگساں، وہائٹ ہیڈ ایمرسن، جیمز، آئن اسٹائن، مارکس، گوئٹے، ورڈزورتھ، ملٹن، شیکسپیئر، لانگ فیلو، کیٹس، پی بی شیلے سے لے کر چاسر تک کے ادب و فلسفہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے تخلیقی ذہن کے کئی ابعاد متفرق علوم و فنون کے نور سے منور تھے۔ مختلف فلسفیانہ موضوعات پر اقبال کے رشحاتِ فکر ان کی وسعتِ مطالعہ، دقت نظر اور ذہن رسا کا پتا دیتے ہیں۔ اخذ و اکتساب کی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر انھوں نے تمام مکاتب فلسفہ سے با مقصد اور مفید نکات کو الگ کرکے جانچا اور، پرکھا اور عصر حاضر کے اقتضا کے مطابق ان کے انطباق و اطلاق کی عملی کوشش کی۔ ان کے خطبات؛ الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کے ضمن میں ایک لائق تحسین کاوش ہے جس پر ایک مستقل اور مستحکم فکر و فلسفہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

موبائل: [email protected]

1 تبصرہ
  1. محمد عامر کہتے ہیں

    ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ، جامع اور مدلل تحریر ہے

    مزید لکھتے رہنے کی گزارش ہے

تبصرے بند ہیں۔