ہیرو کوزیرو

جس وقت کرناٹک میں بھارتیہ جنتاپارٹی اقتدار میں تھی اس وقت ہر دومہینے میں ایک دفعہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتاتھا،اس بحث میں خود بی جے پی کے لیڈران ہی پیش پیش رہتے تھے۔ جناردھن ریڈی کاگروہ جب دہلی کی جانب دوڑتا تھا تو یہ قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں کہ اب حکومت گرنے والی ہے، یڈویورپا کو پس پردہ قابو میں رکھنے والے یہی ریڈی برادران تھے۔ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران یڈویورپا سے زیادہ ریڈی برادران پر بھروسہ رکھتے تھے،ریڈی برادران ایک کنگ میکر کی حیثیت رکھنے والوں میں سے تھے اور یڈویورپا ان کے سامنے بے بس و لاچار ہوگئے تھے۔اسی دوران رینوکا چاریہ کا گروہ بھی ہر ماہ ریزارٹس میں بیٹھ کر وزیر اعلیٰ کو بلاک میل کیا کرتاتھا۔ میڈیا میں ہمیشہ یڈیورپاکی حکومت کو لیکر چہ میگوئیاں ہوا کرتی تھی اور ہر اخبار کی سرخی یہی ہوتی تھی کہ کل یڈویورپاکی حکومت کاآخری دن ہے۔آخر کار یڈویورپا کی حکومت گروہ بندی کا شکار ہوگئی تھی،اس وقت کی حکومت اور آج کی حکومت کا موازانہ کیا جائے تو اب تک ریاستی حکومت میں گروہ بندی شروع نہیں ہوئی ہے اور ذات کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جارہی ہے۔سدرامیا اپنی شخصیت کی بناء پر وزیراعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے میں رہے اور ابتداء میں ہی ان کے خلاف رچی جانے والی سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔لیکن کچھ دن قبل یڈویورپا کو دوبارہ بی جے پی کی صدارت سونپی گئی ہے۔اسی کو بنیادبنا کر پھر میڈیا ایک نیا شوشہ بنا کر سیاسی گلیاروں میں چھوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔اس دفعہ میڈیا کا کہنا ہے کہ دلت وزیر اعلیٰ ریاست کی حکومت سنبھالے اور اسی بات کولیکر میڈیا سدرامیا کی کرسی ہلانے کی کوشش کررہا ہے۔ممکن ہے کہ سدرامیا کی جگہ پر اگر ایس ایم کرشنا یا پھر کوئی اونچی ذات کاوزیر اعلیٰ ہوتا تو دلت وزیر اعلیٰ کا شوشہ چھوڑ ا نہیں جاتا،لیکن سدرامیا دلت،پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقے کے لیڈر کے طور پر ابھرے ہوئے ہیں۔ان تینوں طبقوں میں سدرامیا کی اچھی پکڑ ہے۔اس وجہ سے ہی اونچی ذات کے لوگ انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے دلت وزیر اعلیٰ کو حکومت سونپنے کی بات کررہی ہے۔سدرامیا کی خاصیت یہ بھی ہے کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنانے میں کوئی بھی کنگ میکر موجود نہیں ہے وہ اپنی ذاتی کوششوں کے ساتھ وزیراعلیٰ کے عہدے اور پارٹی میں اپنی پکڑ مضبوط کئے ہوئے ہیں۔ہائی کمان سدرامیا کی صلاحیتوں اور عوامی مقبولیت کو دیکھ کر ہی وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپی ہوئی ہے اور وقتاً فوقتاً ہونے والی سازشوں کو ناکام کرتی رہی ہے۔جب سے یڈویورپا بی جے پی کے ریاستی صدر منتخب ہوئے ہیں اسی وقت سے ریاست میں دلت وزیر اعلیٰ کی مانگ کی پکار سنائی دے رہی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ کرنے والے دلت نہیں بلکہ دوسرے طبقات کے لوگ ہیں۔ملیکارجنا کھرگے ہویاجی پرمیشور ان کی جانب سے کبھی بھی وزیراعلیٰ بنانے کامطالبہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کانگریس میں ریزارٹس کی سیاست نہیں کی گئی ہے۔سدرامیا کی حکومت کبھی بھی دلت مخالف حکومت نہیں بنی ہے اور نہ ہی ان کی حکومت میں کسی مخصوص طبقے پر ظلم ہوا ہے،بلکہ پسماندہ، اقلیت وپچھڑے طبقوں کی قیادت کو ہی چاپلوسی کانام دیکر ان کی حکومت کو بدنام کیا جارہا ہے۔حکومت کو گرانے کیلئے کچھ خاص گروہوں کی نمائندگی کرتے ہوئے چند ایک میڈیا میں مسلسل غلط تشہیر کی جارہی ہے۔یڈویورپا کو صدر بنانے کے بعد آخر کس وجہ سے دلت وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے، اس سوال کا جواب اب تک نہیں مل رہا ہے۔اگر بی جے پی نے اپنا ریاستی صدر کسی دلت کو چُنا ہوتا تو کانگریس بھی اپنی قیادت دلت کے ہاتھ میں دے سکتی تھی اور یہ اس کی مجبوری ہوسکتی تھی اور بی جے پی سے دلت اور کانگریس سے اعلیٰ طبقے کا قائد ہوتا تو یہ تنقید کی بات ہوسکتی تھی،یا پھر اپنے دلت قائدکو بتا کر کانگریس پر تنقید کرنے کیلئے آسانی ہوسکتی تھی،ہمیشہ دلتوں کی مخالفت رہنے والی اور برہمنوں و لنگایتوں کی حمایت میں رہنے والی بی جے پی کی جانب سے کانگریس میں دلت وزیراعلیٰ کو قیادت دینے کی بات کچھ ہضم نہیں ہورہی ہے۔یڈویورپا کے ریاستی صدر بننے کی خبر آنے کے بعد کچھ میڈیا میں توکچھ اس طرح کا جشن منایا گیا جیساکہ یڈویورپا نے حکومت بنا لی ہو۔ یڈویورپا کو رشوت خوری و بدعنوانی کے الزامات سے وزیر اعلیٰ کی کرسی بے دخل کیا گیا تھا،وہ اپنے عہدے کو صحیح ڈھنگ سے نبھانے میں ناکام رہنے پر بھی انہیں بی جے پی اعلیٰ کمان نے گھر کاراستہ دکھاکر دوسرے کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔آخر میں انہیں اپنی ہی پارٹی سے بے دخل ہونا پڑاتھا۔آج بھی ان پر بد عنوانی ورشوت خوری کے الزامات لگے ہوئے ہیں او روہ ان الزامات سے باہر نہیں آسکے ہیں۔عدالت میں سنوائی کے دوران چھوٹے بچوں کی طرح آنسو بہانے والے یڈویورپا پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ریاست میں پھر ایک دفعہ بی جے پی کو اقتدار میں لائیں گے۔ جب عدالت میں ہی وہ سوالات برداشت نہیں کرسکتے تو عوامی عدالت میں کیا منہ دکھا سکے گیں؟ اگر کسی وجہ سے کانگریس دلت کو وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے رضا مند ہوجاتی ہے تو کیا بی جے پی بھی اپنی قیادت میں دلتوں کو برہمنوں پر فوقیت د ے گی؟۔ یہ سوال سب کی زبان پر ہے۔ دراصل ریاست میں یڈویورپا و لنگایتوں کی طاقت اتنی نہیں جتنی کہ اقلیتوں و دلتوں کی ہے۔ لیکن لنگایتوں و برہمنوں کے پاس میڈیا جیسی طاقتور ہتھیار ہے جسے اپنا کر وہ ہیرو زیرو بنا دیتے ہیں اور زیرو ہیرو بنادیتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔